ہماری سیاست گری خوار ہے، مگر کیوں؟

ادب اور صحافت والے کالم پر ایک صحافی بھائی نے سوال بھیج دیا:
’’صحافت کیسے شائستہ ہوسکتی ہے جب سیاست ہی شائستہ نہیں رہی۔ صحافت تو سیاست کا عکس ہوتی ہے‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست کی عکاسی کرتے کرتے صحافت خود معکوس ہوگئی ہے۔ مگر کیا مار آئی ہوئی ہے کہ صحافی صرف عکاس بن کر رہ جائیں، پھر حیران ہو ہو کر صحافی و سیاست دان باہم پوچھتے پھریں کہ ’’میں ترا عکس ہوں کہ تُو میرا؟‘‘
صاحبو! صحافی کا ایک کردار معلم اور مصلح کا بھی ہے۔ آخر آپ مغرب کے بدنام صحافیوں کی طرف رشک بھری نظروں سے دیکھ دیکھ کر دنیائے صحافت میں ویسا ہی مقام پانے کی آرزو کیوں کرتے ہیں؟ مولانا محمد علی جوہرؔ اور مولانا ظفرؔ علی خان جیسے زندۂ جاوید کردار کیوں نہیں بنتے؟ اُن کی صحافت کا عکس اپنی صحافت میں کیوں نہیں اُتارتے؟
یوں تو وطنِ عزیز کے اہلِ سیاست بھی اب فقط عکس ہی بن کر رہ گئے ہیں۔ کوئی کسی کا عکس ہے، کوئی کسی کا۔ ’’میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے‘‘۔ یعنی سیاست کوئی اور کرتا ہے اور بے چارا سیاست کار اپنی حالتِ زار سے بس یہ بیان کرتا پھرتا ہے کہ
سرِ آئینہ مرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے
گویا صحافی صاحبان محض ہر عکس کی عکاسی کیے جا رہے ہیں۔
ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میںسابق صدر رفیق تارڑ مرحوم نوازشریف کی معزولی کے بعد بھی پونے دو سال تک مسندِ صدارت پر برقرار رہے۔ محترم حافظ حسین احمد نے فقرہ چست کیا’’میں رفیق ہوں کسی اور کا، مجھے تاڑتا کوئی اور ہے‘‘۔
زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ لفظ ’سیاست‘ کے مفاہیم بھی بدلتے چلے گئے۔’سیاست‘ عربی مصدر ’’سَاسَ یَسُوسُ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہے: دیکھ بھال رکھنا اور سَدھانا۔تربیت دینا، سکھانا، راہ پر لانا، مانوس کرنا، اپنے آپ سے کسی جانور کو ہِلا لینا۔ اس فن کے ماہر کو ’سائس‘ یا ’سائیس‘ کہا گیا۔ اب بچارے سائیس کا کام صرف گھوڑے سَدھانا رہ گیا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ یعنی گھوڑوں کی تجارت بھی شاید سیاست کاحصہ اسی وجہ سے بنی ہو۔مگر اس کام کو حقیر نہ جانیے۔ اچھا سائیس وہی ہوتا ہے جو جانوروں کی عادات، اُن کی فطرت، اُن کی جبلت اور اُن کی نفسیات کا اچھی طرح علم رکھتا ہو۔ اُن پر حکم چلا سکتا ہو۔ یہ جانتا ہو کہ کس وقت کس جانور سے کس طرح پیش آنا ہے۔ بِدکا ہوا جانور کسیے قابو میں آئے گا اور سست جانور کس ترکیب سے تیزگام ہو جائے گا۔ مثل مشہور ہے کہ ’’علمِ سائیسی علمِ دریاؤ ہے‘‘۔ یعنی سائیس بننے کا علم دریاؤں کی طرح گہرا علم ہے۔یہی علم اور ’سائیس‘ کے یہی وظائف ’سیاست‘کہے گئے۔
ایسی ہی صفات کی موجودگی قوموں کی پیشوائی کرنے والوں میں بھی ضروری سمجھی گئی۔ عوام کی تربیت اور ان کی راہ نمائی کرنا، ان کی دیکھ بھال رکھنا، ان کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان سے برتاؤ کرنا اور ان کی حفاظت و نگہبانی کرنا بھی ایک سائیسی عمل یعنی ’سیاست‘ کہلایا۔ گویا سیاست کرنے والے کو دانا، زیرک، معاملہ فہم، مُدَبِّر (یعنی اچھی تدبیر کرنے والا) اور ماہر نفسیات ہونا چاہیے۔ تب ہی وہ اپنی قوم کی اچھی رہنمائی کرسکتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 247کی رُو سے قومی رہنما کو ’’بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْم‘‘ ہونا چاہیے، یعنی اس میں دماغی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ پائی جاتی ہوں۔ اسی آیت سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ دولت مند ہونا معیار نہیں ہے۔
خلفائے راشدینؓ اپنے آپ کو امت کا چرواہا (راعٍ یا راعی) کہا کرتے تھے۔ چرواہے میں بھی وہی صفات ہوتی ہیں جو’سائیس‘ میں ہوتی ہیں۔ اسی لفظ ’راعٍ‘سے ’رعیت‘ اور ’رعایا‘ کے الفاظ بنے ہیں۔ عربوں کے ہاںقومیت(Nationality) یا ملکی حقوق کے لیے ’’رَعَویّہ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ’راعٍ‘ نگراں اور نگہباں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ دیکھیے:
’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ‘‘
تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اُس سے اُس کی رعیت کے متعلق پوچھ گچھ کی جائے گی۔ یعنی جس طرح قومی رہنماؤں سے قوم کے حقوق کی ادائی کو پوچھا جائے گا، اسی طرح ہر شخص سے اس کے زیرنگرانی یا ماتحت رہنے والے افراد کے بارے میں بازپرس ہوگی۔
مطلب یہ کہ ’سیاست‘ کھیل نہیں ہے۔ یہاں سے کسی طرح بچ بھی نکلے تو وہاں کی دھر پکڑ سے بھلا کس ولایت کو بھاگیں گے؟
انسانی تمدن نے ترقی کی تو ’سیاست‘ کے معنوں میں وسعت آئی۔ ملکی معاملات اورملکی انتظامات کی دیکھ بھال بھی اس کے معنوں میں شامل ہوئی۔ حکمرانی، حکمتِ عملی، اُمورِ مملکت کی انجام دہی، قوم کی نگہبانی اور افرادِ قوم کے لیے شہری سہولتوں کی فراہمی وغیرہ ’سیاست‘ کے اجزا بن گئے۔ ان تمام اُمور سے متعلق علم کو ’علمِ سیاسیات‘ کہا گیا۔
اہلِ مغرب نے جب اپنے ہاں بے خدا سیاست کی ثقافت رائج کی تو پوری دنیا میں سیاست کے معانی الٹ کر رکھ دیے۔ مغرب میں، بقولِ اقبالؔ، ہوا یوں کہ
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری
اجتماعی معاملات سے خدا کو دیس نکالا دے کر سیاستِ افرنگ خود ہی خدا بن بیٹھی اور خدائی فیصلے کرنے لگی۔ اقبالؔ کہتے ہیں:
تری حریف ہے یا رب سیاستِ افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
خدا کے حضور ’ابلیس کی عرض داشت‘ پیش کرتے ہوئے ابلیس کی زبان سے بھی اقبالؔ عوام کو بہکانے والوں کے لیے کہلواتے ہیں:
جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
’سیاست‘ وحی ِالٰہی کی رہنمائی سے محروم ہوجائے توکیا ہوتا ہے؟ اقبالؔ بتاتے ہیں:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اب موجودہ دور میں ’سیاست‘ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے ریشہ دوانی، جوڑ توڑ، چال بازی (Diplomacy) جائزو ناجائز ہر طریقے سے حصولِ اقتدار، تحفظِ مفادات، ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری، دھوکا، فریب، جھوٹ، سازش اور مکارانہ طور طریقے مراد لیے جاتے ہیں۔ برسوں پہلے کی بات ہے اس عاجز نے ایک نہایت سنجیدہ، بُردبار، دِین دار اور سمجھ دار سیاسی رہنما کی توجہ اُن کے ایک مشہور بیان کی طرف دلائی اور عرض کیاکہ آپ نے اپنا یہ عہد پورا نہیں کیا، تو بڑے سرسری انداز میں فرما دیا: ’’وہ تو ایک سیاسی بیان تھا‘‘۔ حالاں کہ وہ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 34سے بخوبی واقف تھے کہ ’’وعدے پورے کیا کرو، بے شک وعدوںکے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی‘‘۔ شاید اسی وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کو سیاست میں نہ لاؤ، ایسی بھی کیا سیاست کہ لیڈر جھوٹے وعدے ہی نہ کرسکے۔سچ کہا اقبالؔنے ’’اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر‘‘۔
لیکن اگر اہلِ صحافت یہ طے کرلیں کہ وہ اہلِ سیاست کی کسی قسم کی ناشائستگی کو فروغ نہیں دیں گے تو سارے سیاست دان سیدھے ہوجائیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں آخر خبر میں رہنے اور شہر ت پانے ہی کے لیے تو کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ کارِ ذلت بھی۔ بقول مصطفی خان شیفتہؔ:
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟