متوقع مردم شماری 2022ء کیا عوام کو مطمئن کرپائے گی؟

شہر کراچی جہاں سڑکوں پر حفاظتی لوہے کی جالیاں کاٹ کر منشیات کے عادی اپنی سانس کو ایندھن کا ذریعہ بنائیں۔ جہاں گٹر لائن کے مین ہول کے چوری شدہ ڈھکن لوگوں کی اندھی موت کا وسیلہ بنیں۔ خستہ حال، ٹوٹی سڑکیں اور کچرے کے انبار ٹیکس ادا کرنے والوں کا مذاق اڑائیں۔ لوٹ مار کرنے والوں کی اکثریت قانون کے محافظین میں سے ہو۔ سرکاری اداروں میں بدعنوانی کو ثقافت کہا جائے… ایسے کرپٹ نظام کو تہذیب یافتہ قوم کہلانے والوں کے مالیاتی ادارے اپنی شرائط پر قرض پر قرض دیں تو کراچی والے اس یقین پر حق بجانب ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان میں بدعنوانیوں کی نرسیاں بنانے کا کام کرتے ہیں تاکہ ان کے مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی والے ان مالیاتی اداروں کو پاکستان کی تباہی میں برابر کا حصہ دار سمجھتے ہیں۔
حقیقی تہذیب یافتہ لوگ بخوبی سمجھتے ہیں کہ کراچی اور پاکستان کے لوگوں کو پُرسکون کرنے کے لیے معیاری ڈیٹا کی شدید ضرورت ہے۔ کسی بھی ریاست کی خوشحالی کا انحصار اُس کے اربابِ اختیار کی پُرخلوص منصوبہ بندی پر ہوتا ہے، اور معیاری ڈیٹا بہترین منصوبہ بندی کی بنیاد ہے۔ پالیسی سازوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چھٹی مردم شماری کے ڈیٹا کو پاکستان کے جمہوری نظام میں جعلی حکومت سازی کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ موجودہ حکومت جوکہ مختلف اتحادیوں کی مرہون منت قائم ہوئی، اس نے اپنی ایک اتحادی ایم کیو ایم کی حمایت لیتے ہوئے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے مطابق مردم شماری 2017ء کو ممکن حد تک کوشش کرکے منسوخ کرنا تھا، مگر حکومت نے اپنے اس اتحادی کے ساتھ خوبصورتی سے معاملات طے کرکے چھٹی مردم شماری کو نافذ کرنے کی منظوری دے دی۔ اس دفعہ ایم کیو ایم پچھلے اتحادیوں کی طرح موجودہ اتحادی کے ساتھ طلاق اور رجوع کا کھیل کھیلنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ سندھ حکومت کی جانب سے مردم شماری کو مسترد کرنے کے بعد اور ایم کیو ایم کے ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے حکومت نے دس سالہ مردم شماری کے بجائے پانچ سالہ مردم شماری کا اعلان کیا۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے ساتویں مردم شماری کے بجٹ اور ایکشن پلان کی منظوری کی خبر آچکی ہے۔ مردم شماری 2022ء کا تخمینہ 16 ملین ڈالر کے قریب لگایا گیا ہے۔ اس حوالے سے حالیہ دنوں میں ادارہ برائے شماریات جس کے ذمے مردم شماری 2022ء کرانے کا اختیار ہے، کی جانب سے منعقدہ سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ بتایا گیا کہ سیمینار کا بنیادی مقصد محققین اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ بڑھانا ہے تاکہ بہتر مردم شماری کی جانب پیش رفت ہو۔ مگر اس سیمینار میں یہ بتایا گیا کہ مردم شماری کے طریقہ کار طے ہوچکے ہیں۔ لہٰذا یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ اس صورت میں محققین یا اسٹیک ہولڈرز کو بلانے کا کیا مقصد تھا؟ اس سیمینار میں مردم شماری 2022ء کو بہتر اور صحیح قرار دینے کا ذریعہ ٹیکنالوجی کے استعمال کو بتایا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی جو انسان کی اپنی تخلیق کردہ ہے اُسے ایمان دار تسلیم کیا گیا، اور اس بات کو یکسر نظرانداز کیا گیا کہ ٹیکنالوجی میں بے ایمان جو فیڈ کرے گا، ٹیکنالوجی اسے کیسے ایمان دار بناکر نکالے گی؟
پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے ارباب اختیار اپنے ہی مرتب کردہ آئین پر اس کے نظام کو چلانے سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ جب کسی گروہ کی جانب سے اپنے حقوق کے حصول کے حوالے سے کوئی مؤقف پیش کیا جائے تو حاکمین کی جماعت کو آئین و قانون یاد آجاتا ہے اور اس بات کی تکرار سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے کہ آئین میں یہ بات کہاں لکھی ہے؟ مردم شماری کے آرڈیننس میں قوم کو یقین دلایا گیا تھا کہ آپ کا ذاتی ڈیٹا قومی امانت ہے، اسے صرف منصوبہ سازی میں استعمال کیا جائے گا، مگر ایسا نظر نہیں آرہا۔ نادرا ڈیٹا کے حوالے سے کتنی خبریں گردش کرتی رہی ہیں اس سے قوم آگاہ ہے۔ ایسے میں مردم شماری کا ڈیٹا کتنا محفوظ رہے گا اس کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آئی بی اے میں منعقدہ لیکچر میں مردم شماری کے نمائندے جناب سرور گوندل کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ٹیبلٹ کے ذریعے مردم شماری کرنے سے ہیر پھیر کے معاملات ختم ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے میرے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوئے اُن کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ مردم شماری 2022 کے حوالے سے اطمینان بخش کارروائی ممکن ہوسکے۔
پہلا سوال جوکہ کئی سوالوں کا مجموعہ ہے اس کا پہلا جز یہ ہے کہ 2011ء کی مردم شماری کی ناکامی کی وجوہات کیا تھیں؟ اس کی آڈٹ رپورٹ جاری کیوں نہیں کی گئی؟ اسی طرح مردم شماری 2017ء کو جسے گزشتہ حکومت کے ساتھ موجودہ حکومت خود ایک کمیٹی بناکر اس کے ڈیٹا سے نہ تو خود مطمئن ہوسکی اور نہ ہی اسٹیک ہولڈرز کو کرسکی.. انتخابی معاملات کا عذر پیش کرکے بزور طاقت منظور کیا گیا۔ یہاں بھی یہی سوال بنتا ہے کہ ادارہ شماریات نے مردم شماری 2017ء کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ کیوں نہیں جاری کی جس میں اسٹیک ہولڈرز کے اعتراضات اپنی جانب سے دلائل کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یا یہ تسلیم کیا گیا ہو کہ ادارہ ان اعتراضات کے جواب دینے سے قاصر رہا؟ دوسری بات.. 2008ء کی بلاک کی حد بندی متنازع تھی تو ادارہ شماریات نے 2011ء کی مردم شماری کے پہلے مرحلے میں حاصل کیے گئے ڈیٹا کو تسلیم کرنے سے انکار کیا مگر 2017ء میں نئی درست حد بندی کے بجائے پرانے بلاکس کو معمولی ردوبدل کے ساتھ استعمال کیا، جبکہ اس کی حد بندی کو 10 سال ہوچکے تھے۔ اس عمل میں کیا حکمت پوشیدہ تھی جبکہ کروڑوں روپے بلاک کی درستی کے نام پر استعمال کیے گئے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب پچھلی غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا تو نئی سفارشات کن بنیادوں پر قبول کی گئیں؟ ان سوالات کے جوابات ادارہ شماریات نے سیمینار میں بھی نہیں دیئے تو ظاہر ہے کہ حکومت کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ ان کے جوابات دے سکے! یہی وجہ ہے کہ مردم شماری 2022ء بھی 2011ء اور 2017ء کی عکاسی کرتی نظر آرہی ہے۔ آیئے اوپر کیے گئے سوالات کی اہمیت جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چھٹی مردم شماری کے اعلان کے نتیجے میں اس کا سب سے پہلا مرحلہ پاکستان کے پورے رقبے کو ٹائلز کی شکل میں ترتیب دینا تھا تاکہ مردم شماری کے فیلڈ آپریشن کی تشکیل ہوسکے۔ اس ٹائلنگ کو مردم شماری کی زبان میں بلاک کہا جاتا ہے جس کی بنیاد پر مردم شماری کا ڈھانچہ کھڑا کیا جاتا ہے۔ یہ مشق ماہرینِ جغرافیہ کے کرنے کی ہوتی ہے کیونکہ بلاکس نقشوں کی صورت میں بنائے جاتے ہیں، اور جتنے بہترین انداز میں بلاک کی تشکیل ہوتی ہے اتنا ہی بہتر فیلڈ آپریشن ڈیزائن ہوتا ہے، اور نتیجے میں مردم شماری کے تحت حاصل کیا جانے والا ڈیٹا بھرپور افادیت کا حامل مانا جاتا ہے۔ افسوس، پاکستان میں سیاسی حکومت قائم کرنے والے، اداروں میں میرٹ کے بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والے وفاداروں کو ذمے دار لگاتے ہیں، تاکہ یہ لوگ اپنے آقا کی خوشنودی کو عوامی مفادات پر مقدم رکھ سکیں۔ ادارہ شماریات یہ بتائے کہ مردم شماری 2022ء کے سلسلے میں فیلڈ آپریشن کو پلان کرنے کے حوالے سے کتنے جیوگرافرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں؟
صوبہ سندھ میں2008ء کے بلاکس کی تشکیل میں بہت بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں مشاہدے میں آئیں جس کی وجہ سیاسی قوتوں کا اپنے مفادات کے پس منظر میں بلاک کو ترتیب دینا تھا جس کے نتیجے میں 2011ء کی مردم شماری کے پہلے مرحلے خانہ و گھر شماری میں جمع کیا جانے والا ڈیٹا ہر طاقتور گروہ کے حلقے میں حقیقت سے زیادہ ہیر پھیر سے مزین تھا۔ اس خرابی کی وجہ ہر پارٹی کا اپنے فائدے کے مطابق گھروں اور گھرانوں کی تعداد کا تعین کرنا تھا۔ اس مرحلے میں تقریباً 4 ارب روپے استعمال کیے گئے جوکہ مکمل طور پر ضائع ہوئے اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ نااہلی کی نذر ہوا۔ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ2011ء میں ہونے والی گھر شماری کو ادارہ شماریات نے self enumeration کی کیٹگری میں ڈال کر scraped کیا۔ ادارہ شماریات ان خرابیوں کی نشاندہی و درستی کے بغیر درست مردم شماری کی جانب کیسے قدم رکھ سکتا ہے؟
2017ء کی مردم شماری سے پہلے ادارہ شماریات نے بلاک اپ ڈیشن کے حوالے سے ایک بڑے بجٹ کے ساتھ فیلڈ پلان کیا۔ اس مشق میں 2011ء میں سامنے آنے والے بڑے بلاکس کو ایڈجسٹ کیا گیا مگر چھوٹے اور خالی بلاکس کو نظرانداز کیا گیا۔ اس کے علاوہ بلاک اپ ڈیشن کے نام پر لیے گئے فنڈز کا اصل کام بلاک کی تعریف کے مطابق بلاک کی نئے سرے سے حلقہ بندی تھی جس کے ذریعے بلاک کی درستی ممکن ہوپاتی۔ مگر نااہل لوگوں نے بلاک کی حلقہ بندی درست کرنے کے بجائے بڑے بلاک کو تقسیم کرنے کا کام کیا اور پورے بجٹ کو ہڑپ کرگئے۔ ادارہ شماریات کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2013ء میں سپریم کورٹ کے حکم کو کہ نادرا کے جاری کیے گئے شناختی کارڈ پر ووٹر لسٹ تیار کی جائے، غیر سنجیدگی سے لیا گیا۔ نتیجے میں الیکشن کمیشن نے نادرا کے ڈیٹا کو صرف ایڈجسٹ کرنے کا کام کیا کیونکہ 2013ء کا الیکشن قریب تھا اس لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ووٹر لسٹوں کو باقاعدہ بہتر کیا جاسکے، اس کے باوجود کہ الیکشن کمیشن نے گھر گھر ووٹرز کی تصدیق کے لیے عوامی خزانے سے بڑا بجٹ حاصل کیا۔ ادارہ شماریات نے مردم شماری 2022ء کے حوالے سے بلاک کی نئی حد بندی کی حقیقت کو کیوں نظر انداز کیا ہے؟
ادارہ شماریات الیکشن کمیشن کو بلاک کی حلقہ بندی کے حوالے سے نقشے کے ساتھ فارم جی-،7،9 دیتا ہے تاکہ بلاک کی حد بندی کو جانچ کر الیکشن کمیشن اپنی ووٹر لسٹوں کو اس کے مطابق کرسکے۔ کچھ ماہ پہلے الیکشن کمیشن کی جانب سے گھر گھر ووٹ کی تصدیق کا عمل شروع کیا گیا مگر بلاک کی تفصیل اور نقشے کے درمیان فرق نے پوری مشق کو متنازع بنادیا۔ آخری اخباری اطلاعات کے مطابق نادرا نے کراچی میں 87 لاکھ 48 ہزار ووٹرز کی تعداد بتائی مگر بلاک کی حد بندی کے مسائل کے سبب الیکشن کمیشن کی جانب سے مامور کیے گئے اکثریتی تصدیق کنندہ نے لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر معیاری ڈیٹا جمع کرایا، جس کے نتیجے میں ووٹرز کی تعداد 68 لاکھ 13 ہزار ہوگئی۔ 2013ء کی گھر گھر تصدیقی مہم کے بعد موجودہ مہم کے نتیجے میں دو ملین کے قریب ووٹوں کا اخراج زمینی حقائق کے پس منظر میں ممکن ہی نہیں۔ نادرا پاکستان میں شہریت کارڈ جاری کرتا ہے اس لیے اُس کے ڈیٹا میں غلطی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ ووٹرز لسٹ میں انتقال کرجانے والے لوگوں کی تعداد کے سبب کچھ ڈیٹا خارج ہوسکتا ہے مگر ان کی تعداد اتنی قابل ذکر نہیں ہوتی۔ حالیہ گھر گھر تصدیقی عمل میں الیکشن کمیشن کی کوتاہی متنازع ووٹنگ مشین کے نظام میں تباہی کی علامت ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان نے الیکشن کمیشن کی اس ناکامی سے کوئی سبق حاصل کیا؟
اب جبکہ الیکشن کمیشن کی تصدیقی مشق کے دوران مردم شماری کے بلاک کے حوالے سے مسائل سامنے آچکے ہیں، اسے درست کیے بغیر نئی مردم شماری کرنے کی بات کرنا قومی خزانے کو مزید تباہ حال کرنے کا باعث بنے گا۔ انتخابی معاملات پر لوگ عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انتہائی بے دلی سے ووٹ دینے اور اس عمل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اب مردم شماری کے معاملات درست نہ ہوئے تو لوگوں کی اداروں کے حوالے سے مایوسی انتہائی شدت اختیار کرسکتی ہے اور ایسی صورت میں تباہی و بربادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
2017ء کی مردم شماری میں سب سے بڑی دھاندلی اُن لوگوں کو شناختی کارڈ میں درج مستقل پتے پر ان کے آبائی علاقوں میں شمار کرنا تھا جو عرصہ دراز سے پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ مستقل پتا رکھنے کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقوں میں اس کی بنیاد پر زمین، گھر یا کاروباری معاملات آسانی سے کرسکتے ہیں، اس کے ساتھ کالا قانون کوٹہ سسٹم سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ادارہ شماریات کے اس عمل سے خیبر پختون خوا اور ان علاقوں کی آبادی میں اس قدر اضافہ ہوگیا کہ قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ گئیں اور ایک خاص سیاسی پارٹی کو پلان کے تحت فائدہ پہنچا اور اس نے پاکستان میں حکومت بنائی۔ یہ عمل مردم شماری کی تعریف کے خلاف ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ 2017ء میں نقل مکانی کا ڈیٹا حاصل نہیں کیا گیا یعنی فارم 2-اے کے عمل کو مسلسل نظرانداز کیا گیا، جبکہ ڈان اخبار نے اپنے ذرائع سے بتادیا تھا کہ فارم 2 اے کو مردم شماری 2017ء میں شامل نہیں کیا جارہا۔ گویا 2018ء میں کس کو حکومت میں لانا ہے اس کا فارمولا طے کرلیا گیا تھا۔ اس تمام صورت حال سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دھاندلی کرنے کے کئی طریقے ہیں، اور جب نیت میں فتور پوشیدہ ہو تو کیسی ہی ٹیکنالوجی یا تربیت یافتہ لوگ ہوں اُن کی ایمان داری معلق ہی رہتی ہے۔
ادارہ شماریات جس کے ذمے مردم شماری کے اختیارات ہیں، ٹیکنالوجی کے استعمال کو درست مردم شماری کے لیے لازم قرار دے رہا ہے۔ اس ادارے کے نمائندے سرور گوندل کی دی گئی تفصیلات کے مطابق لوگوں کا ڈیٹا ٹیبلٹ کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ یہاں پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا پچھلی مردم شماری میں کتابی ڈیٹا درست طریقے سے نہیں لیا گیا تھا جس کی وجہ سے ٹیبلٹ کا استعمال کیا جارہا ہے؟ اگر کتابی طریقے سے درست ڈیٹا نہیں لیا گیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ شمار کنندہ ٹیبلٹ پر درست ڈیٹا لینے میں کامیاب ہوسکے گا؟ دوسری بات… ہر شمار کنندہ کے ٹیبلٹ پر جی۔ پی۔ ایس آن ہوگا اور ہر گھر کے کورڈینیٹ پر اس کا ڈیٹا فیڈ کیا جائے گا، تو جناب رئیل ٹائم ڈیٹا کی اسکروٹنی کے لیے تھرڈ پارٹی طریقہ کار کتنا مؤثر ہوگا جو فوراً یہ معلوم کرلے کہ شمار کنندہ نے ایک گھر میں موجود تمام افراد کی تفصیلات ڈیٹا بیس تک منتقل کردی ہیں؟ اس حوالے سے خودی شمار کنندگی (Self Enumeration) کا آپشن ہے جو دو صورتوں میں کام کرے گا، یعنی آپ اپنے ڈیٹا کی انٹری چیک کریں اور اپنے ڈیٹا کو خود فیڈ کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شمار کنندہ نے درست ڈیٹا جمع کیا، ایک گھرانے نے اپنے ڈیٹا کو چیک بھی کرلیا، اب اس بات کا تعین کیسے کیا جائے گا کہ پورے محلے کا ٹوٹل بھی صحیح ہے؟ محلے کے ٹوٹل کو چیک کرنے کے لیے مردم شماری کے بلاک ہوتے ہیں۔ کیا محکمہ مردم شماری ہر عام شہری کو بلاک کے ٹوٹل کو چیک کرنے کے لیے سہولت دے گا؟ جناب اب مسئلہ یہ ہے کہ ادارہ شماریات نے بلاک کے ٹوٹل کو بھی دیکھنے کی سہولت دے دی تو اب کسی اسٹیک ہولڈر کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ گھر گھر جاکر لوگوں سے یہ معلوم کرے کہ آپ نے اپنے گھر والوں کا ڈیٹا چیک کرلیا ہے تو مجھے بھی نمبر بتادیں۔ اس صورت حال میں محلہ اگر مختلف زبان بولنے والوں کی آبادی پر مشتمل ہوا تو کوئی صحیح طریقے سے ڈیٹا بتانے کو تیار نہیں ہوگا۔ مان لیتے ہیں کہ ایک بلاک میں لوگوں نے بتادیا اور ڈیٹا ادارہ شماریات کے ڈیٹا سے میچ کرگیا تو اس صورت میں ایک لاکھ ستّر ہزار سے زائد بلاک چیک کرنا کسی اسٹیک ہولڈر کے لیے ممکن ہوگا؟
ٹیبلٹ لے کر کچی آبادی میں کورڈینیٹ کے فرق کو مرتب کرنا بھی ایک مشکل عمل ہوگا۔ فرض کریں دو پلاٹ اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کے کورڈینیٹ ایک جیسے آگئے تو اس صورت میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا کہ کس گھر کا ڈیٹا درست اور کس کا غلط ہے۔ یہ مسائل اپارٹمنٹس یا فلیٹ میں بھی ہوسکتے ہیں۔ فلیٹ کی بناوٹ عموماً ایک جیسی ہوتی ہے اور بعض جگہوں پر تو دو فلیٹ کے دروازے مشکل سے ڈیڑھ میٹر کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ اس صورت میں بھی درست کورڈینیٹ حاصل کرنا ایک شمار کنندہ کے لیے پریشان کن عمل ہوگا۔ سب سے مشکل بات یہ ہے کہ شمار کنندہ ایک عام آدمی ہے، اگر جیوگرافر ہو تو شاید وہ کسی حدتک اس مسئلے کو ہینڈل کرلے، کیونکہ یہ ان کی خاص فیلڈ ہے۔ فلیٹ میں فلورز کی صورت میں بھی ایک جیسے کورڈینیٹ ملنے کے زیادہ امکانات ہیں کیونکہ ہر فلور پر موجود فلیٹ کا مرکزی دروازہ نیچے والے فلور کے افقی کورڈینیٹ پر ہوتا ہے۔ اگر ہر گھر کو ایک ہی کورڈینیٹ پر گھرانا نمبر دیا گیا تو پھر سوال ہوگا کہ کس افسر نے جاکر چیک کیا کہ وہاں کتنے فلور ہیں؟ اور کیا ہر فلور پر موجود فلیٹ میں لوگ آباد ہیں؟ لامحالہ بات یہاں پر جاکر بیٹھے گی کہ بلاک کے نقشے کو دیکھا جائے جہاں اپارٹمنٹ کی درست تعداد درج ہو۔ گویا اتنے سوالات پیدا ہوجائیں گے کہ مردم شماری 2022ء کا حشر 2017ء سے بھی برا ہوجائے گا۔
مردم شماری کے دوران ایسے لوگ جو اپنے اصل گھروں کے بجائے چھ ماہ سے زائد دوسری جگہ پر رہ رہے ہوں تو اُن کا شمار اُن کے عارضی یا نئی سکونت پر ہوگا۔ اگر کسی کی رہائش چھ ماہ سے کم ہو تو اُس کا شمار اُس کے آبائی یا مستقل پتے پر ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ایک عام شمارکنندہ کیونکر یہ تعین کرسکے گا کہ جواب دہندہ چھ ماہ سے کم عرصے سے یہاں موجود ہے یا زائد سے۔ ڈی– جور اور ڈی– فیکٹو کے جھگڑے میں پڑنے کے بجائے جو جہاں رہائش پذیر ہے اُس کا اندراج وہیں کیا جائے، خصوصاً پورے خاندان کی رہائش کی صورت میں۔ مثلاً ایک شخص روزگار کے سلسلے میں کسی شہر یا گائوں میں موجود ہے مع بال بچوں کے، تو اس کے مستقل پتے پر کوئی موجود نہیں۔ اس صورت میں اُس کا شمار کیا جانا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ جبکہ مردم شماری کے قوانین کے مطابق ہر خاندان کا سربراہ یا ایک اکیلا شخص صرف اپنی یا اپنے خاندان کی معلومات فراہم کرنے کا پابند ہوتا ہے، کوئی دوسرا کسی کے کوائف کا اندراج کرانے کا مجاز نہیں۔ اس لیے کسی پڑوسی سے اس حوالے سے ڈیٹا حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
مردم شماری میں ڈیٹا کے حصول کے لیے شعبہ تعلیم کے اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اساتذہ کی اکثریت حساس ہوتی ہے اور عزتِ نفس کا معاملہ ہوجائے تو وہ ان گھروں کے دروازوں پر دوبارہ جانے سے کتراتے ہیں جہاں سے انہیں کہا جائے کہ کل آنا۔ وہ ایسے انداز اختیار کرنے والوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتے جس کی وجہ سے اخلاق سے عاری گھر شمار ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ٹیبلٹ سے کورڈینیٹ تو لے لیں گے مگر گھر کی مردم شماری کے معاملے کو کیسے چیک کیا جاسکے گا؟ کیونکہ شمار کنندہ کی رپورٹ پر کہ یہاں کوئی نہیں یا گھر خالی ہے، اسے چیک کرنے کا کیا نظام ہوگا جبکہ خود شمار کنندگی (Self Enmeration)) بھی دستیاب نہ ہو؟
ادارہ شماریات کے مطابق سیٹلائٹ امیج کی بنیاد پر کورڈینیٹ کے ذریعے ڈیٹا کی چیکنگ کی جائے گی جوکہ یقیناً گوگل ارتھ کا فراہم کردہ ہوگا۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ٹیبلٹ کے کورڈینیٹ اور گوگل ارتھ کے کورڈینیٹ کے درمیان فرق نہ ہو؟ عمومی اعتبار سے گوگل ارتھ کے اپنے مختلف وقتوں کے پروجیکشن میں فرق ہوتا ہے، اس کے علاوہ جی پی ایس کا اپنا خود کا بھی Error ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کے حوالے سے کیا یقین ہے کہ گوگل ارتھ پر مردم شماری کے دوران تاریخوں کے امیجز پورے پاکستان کے حوالے سے دستیاب ہوں گے؟ اگر کسی شخص کو چیک کرنے کے لیے بھیجا جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ physical verification ہی درست ہے۔ ان معاملات کے لیے لوگوں کو ہی چیکنگ کے لیے مامور کیا گیا تو ٹیکنالوجی کا خرچہ اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
تجاویز
وہ کون سا طریقہ کار ہے جس سے ملک میں مردم شماری کے ڈیٹا پر لوگوں کا بھروسا قائم ہوسکے۔ اس حوالے سے چند آسان تجاویز کو جانچ کر اسے مردم شماری کے عمل کا حصہ بنایا جاسکتاہے:
1۔ ڈیٹا کی کوالٹی کو جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ انڈیکیٹرز ایسے ترتیب دیئے جائیں جن کی تعریف کسی دوسرے ادارے کے ڈیٹا سیٹ میں پائی جائے، جیسے نادرا کے گھرانے کی تعریف اور مردم شماری کے گھرانے کی تعریف یکساں کرنے سے کئی انڈیکیٹرز انتہائی کم فرق سے مماثل ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں مردم شماری سے حاصل ہونے والا ڈیٹا پاکستانی عوام میں اعتبار کی گنجائش پیدا کرسکتا ہے۔ اگر ٹیکنالوجی سے ایمان داری کو جانچا جاسکتا تو کوئی ویڈیو، ٹیکسٹ فرانزک کے لیے نہ جاتا، اور نہ ہی کوئی ڈیٹا ہیک ہوسکتا۔ پاکستان میں اصل ترقی خوشحالی اور ایمان داری سے ممکن ہے، ٹیکنالوجی سے نہیں۔
2۔ سب سے پہلے تو گھرانا، گھر اور عمارت کی درست تعریف متعین کی جائے۔ ایک گھر میں موجود ہر شادی شدہ جوڑا خواہ ایک ہی کچن سے کھانا کھائے، انھیں علیحدہ گھرانا تصور کیا جائے۔ اس طرح سے حاصل شدہ ڈیٹا نادرا کے گھرانے کی تعداد سے بآسانی کم فرق سے تصدیق کے عمل کا حصہ بن جائے گا۔ اس طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ مستقبل میں ان شادی شدہ جوڑوں کے لیے کتنے گھروں کی ضرورت ہوگی جو کہ ایک کمرے میں والدین یا بزرگوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس طرح ٹائون پلاننگ کے لیے درست اعداد و شمار دستیاب ہوں گے۔
3۔ جب بات ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہو تو کیوں نا پورے ملک کے بلاکس کو ایک کلومیٹر کے گرڈ میں تقسیم کردیا جائے! اس طرح غیرآباد زمینوں کے بارے میں بھی مکمل معلومات حاصل ہوجائیں گی، اور جہاں کہیں آبادی نظر آجائے تو وہ بھی واضح ہوجائے گی۔ اس طرح زرعی زمین کی حفاظت میں آسانی ہوگی اور ہر بلاک میں آبادی کے حوالے سے بہ لحاظِ وقت ڈیٹا ترتیب پائے گا۔ گرڈ پر مبنی بلاکس میں یہ گنجائش رکھی جا سکتی ہے کہ جہاں کہیں کسی بلاک کا گرڈ آبادی والے حصے میں آجائے تو وہاں طبعی نقوش کی بنیاد پر بلاک کی حد بندی کو گھٹا، یا بڑھا لیا جائے۔ اس طرح ہر بلاک میں آبادی/ گھروں، گھریلو صنعتوں/ صنعتوں/ تجارتی مراکز وغیرہ کی کثافت آجائے گی۔ زرعی اراضی کی کثافت اور بنجر زمینوں کے حوالے سے بھی عمدہ اعدادوشمار مل جائیں گے۔
4۔ سیٹلائٹ امیجز کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا کہ اس عمارت/ بلڈنگ میں کتنے فلور ہیں بے حد دشوار امر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جی آئی ایس کے ذریعے پلاٹ پر موجود اسٹرکچر کو ڈیٹیجائز کرلیا جائے، اس طرح بلاک میں پلاٹس اور ان کے فلورز کی بنیاد پر90 فیصد صحیح گنتی درج ہوجائے گی۔ اس طرح ہر بلاک کی آبادی خود اوسط کو برقرار رکھے گی اور ہر بلاک کی آبادی اور ووٹرز کی تعداد کے درمیان تعلق پیدا ہوجائے گا جو کہ ٹوٹل کو مطمئن کرے گا۔
5۔ دیہی سندھ کے لیے مردم شماری کا فارم سندھی زبان میں چھاپا جاتا ہے، کیونکہ وہاں کی اکثریت سندھی زبان میں کام کرتی ہے، لہٰذا ٹیبلٹ میں سندھی زبان کے فارم کا ہونا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ مردم شماری سے پہلے پائلٹ سروے کی ہر حوالے سے تسلی کرلی جائے۔ ٹیبلٹ کا پروفیشنل استعمال ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہر شمار کنندہ اس میں مہارت کا استعمال نہیں کرسکتا۔ عمومی اعتبار سے ٹیبلٹ کے ذریعے ڈیٹا انٹری کا عمل سست روی کے ساتھ غلطیوں کے امکان کو بھی بڑھائے گا۔ لہٰذا 27 کروڑ لوگوں کی ڈیٹا انٹری پرنٹڈ فارم کے مقابلے میں دردسری کا معاملہ ہوگا۔ لوگ سست روی کی وجہ سے شمار کنندہ سے جان چھڑانے کی کوشش کریں گے۔
6۔ نادرا کو یہ قانون بناکر دیا جائے کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور برتھ سرٹیفکیٹ کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص کسی ایک گھرانے کا حصہ ہو، یعنی اس کا مردم شماری 2022ء کے گھرانے میں اندراج ہو۔ اس صورت میں خودساختہ اندراج یعنی Self Enumeration کی طرف بھی شہریوں کا رجحان بڑھے گا جس کے نتیجے میں مردم شماری میں ہر ایک اپنے اندراج کے لیے خود شمار کنندہ کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے پر مجبور ہوجائے گا جس کی وجہ سے مردم شماری کی کوریج 99 فیصد ہوجائے گی۔ اس حوالے سے مردم شماری اور نادرا مشترکہ طور پر گھرانے کا کوڈ بنائے۔
7۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہر ڈسٹرکٹ میں لوگوں کی گنتی شمار ہوگئی ہے بلاک کی تعریف کو آسان ترین الفاظ میں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ جیسے جہاں کہیں گھر کی ساخت موجود ہو اسے ہائوسنگ یونٹ کہا جائے، مثلاً کسی بھی پلاٹ یا زمین کے ٹکڑے پر کوئی گھر موجود ہو تو اس کے فلور کو ایک ہائوسنگ یونٹ تسلیم کیا جائے۔ مردم شماری کے بلاک سے مراد ہے زمین پر موجود 200 سے 220 قابلِ رہائش جگہ، جو کہ کسی انتظامی یونٹ کا حصہ ہو، اس کی حد بندی کرنے پر اسے مردم شماری کا بلاک تصور کیا جائے گا: ”اس تعریف میں فلیٹ یا اپارٹمنٹ، کسی بھی پلاٹ پر تعمیر ایک فلور جس کے داخلے کا راستہ الگ ہو، کسی چاردیواری میں فاصلے پر بنے ہوئے کمرے میں سے ایک کمرہ جھونپڑی شامل ہیں“۔ صنعتی یونٹ کی صورت میں شمار کنندہ کو بآسانی معلومات مشاہدے میں آجائیں گی۔2011ء کے مردم شماری کے بلاکس کو مناسب حجم میں لائے جانے کی مشقوں/ فیلڈ سروے کے باوجود 2017ء کے اعداد و شمار سے واضح ہے کہ ایسے بلاکوں کی بڑی تعداد اب بھی موجود ہے جو کہ بلاکس کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر چھوٹی جسامت کے بلاکوں کو باہم مدغم کرکے مناسب جسامت کے بلاک بنائے جائیں۔ اس عمل میں سب سے بہتر یہ ہے کہ بلاکس کی نئے سرے سے حد بندی کی جائے۔
8۔ مردم شماری کے تنازعے کو حل کرنے کا آسان معاملہ کیا ہوسکتا ہے؟ سب سے اہم ہے وسائل کی تقسیم میں آبادی کی گنتی کو زیادہ اہمیت حاصل ہونا۔ اس کے ساتھ کوٹہ سسٹم اور انتخابی حلقہ بندی بھی آبادی کی مرہونِ منت ہے جس کی وجہ سے لسانی بنیادوں پر منقسم معاشرہ زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنی آبادی کو بڑھا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ اگر وسائل کی تقسیم محصولات میں اس کی آمدنی کی بنیاد پر ہو، کوٹہ سسٹم کے بجائے اہلیت پر سرکاری ملازمت پر لوگوں کا تقرر کیا جائے اور انتخابات میں ووٹرز کی تعداد کی بنیاد پر حلقہ بندی کی جائے تو مردم شماری کرپشن کا شکار ہونے سے محفوظ ہوجائے۔
9۔ پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی اس کو ملنے والے حکمران ہیں، جنھوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کی بنیاد پر ملکی معاملات چلائے۔ کبھی عوام کے لیے نہیں سوچا۔ اور یہی عوام انہیں بار بار بار ووٹ دے کر اقتدار میں لے آتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے پاکستانی قوم کی تشکیل کے بجائے لسانی قومیت کی بنیاد رکھی، جس کی وجہ سے ہر گروہ دوسرے گروہ سے خوف زدہ ہے، جس کے نتیجے میں اپنے گروہ میں وار لارڈز کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے اور اس کے مظالم کو بھی خوش دلی سے قبول کرتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جن معاملات کو انسانی حقوق کی تعریف کے پس منظر میں ہر انسان کے لیے لازم سمجھا جاتا ہے اور اس کی پامالی کرنے والے کو ظالم.. ممکن یہی نظر آتا ہے کہ ان تعریفوں کو قوم پرستوں کے یہاں کسی قسم کی پذیرائی حاصل نہیں۔
10۔ موجودہ حکومت جس نے پاکستانی معیشت پر غیر ملکی قرضوں کا اس حد تک پہاڑ کھڑا کیا کہ پچھلی تمام حکومتوں کے ریکارڈ پاش پاش ہوگئے۔ ڈالر نے روپے کی قدر گھٹادی۔ بھاری قرضوں کے حصول کی بس ایک ہی وجہ بتائی گئی کہ پچھلی حکومتوں کے قرض کو ادا کرنے کے لیے ڈالرز کی ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ قرض لے کر قرض کی ادائیگی کی باتیں ہیں مگر قرض میں کمی نہیں ہورہی۔ اگر حکومتی ارکان پاکستان اور پاکستانیوں سے ایک فیصد بھی مخلص ہوتے تو ملک میں سوائے انتہائی لازمی اشیاء کے جن کا پاکستان میں نعم البدل نہیں، دوسری اشیاء کی درآمدات پر مکمل پابندی لگائی جاتی۔ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے ٹیکنالوجی کے نام پر ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات اور ٹیبلٹ کے ذریعے مردم شماری کا منصوبہ کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ کیونکہ یہ معاملہ تو نظام کو درست کرکے بہتر کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں ڈالرز کے بے جا خرچ سے بھی بچا جاسکتا ہے۔