(دوسرا اور آخری حصہ)
آپ آیاتِ قرآنیہ سے بکثرت استشہاد کرتے تھے، بعض اہم مواقع پر ایک ہی موضوع پر اتنی آیات جمع کردیتے کہ ہل من مزید کی گنجائش بھی نہیں چھوڑتے۔ مثلاً حجیتِ حدیث کے ثبوت میں آپ نے 12 سورتوں کی 17 آیتوں سے استشہاد کیا (33)، آپ کے ایک شاگرد مولانا سلمان اعظمی کا استفسار اور حضرت کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
سوال: میرے ذمے ’’جلالین‘‘ کے ایک حصے کی تدریس ہے، چاہتا ہوں کہ قرآن سے شغف پیدا ہوجائے، اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟
حضرت کا جواب: حل: کتاب کے لیے جن متعلقات کی ضرورت ہو وہ دیکھو اور ساتھ میں تفسیر کی امہات کتب میں سے ایک کتاب بالاستیعاب دیکھو۔ جو باتیں پسند آجائیں ان کو نشان زد کرلو تاکہ مراجعت میں آسانی ہو۔ اگر چند سال اس طرح محنت کروگے تو بہت فائدہ محسوس ہوگا(34)۔
تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد صاحب نے اپنی تقریر کے دوران آیت وما اعجلک عن قومک یاموسیٰ کی کچھ ایسی تفسیر کی جو راجح تفسیر کے خلاف تھی، ساتھ ہی حضرت موسیٰؑ کی تنقیص کا شائبہ بھی تھا۔ اس سے امت میں ایک انتشار پیدا ہوگیا، تو حضرت مولانا نے ’’ومااعجلک عن ومک یاموسیٰ کی راحج و معتبر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ قلمبند فرمایا جو اس سلسلے میں حرفِ آخر تھا۔ ان واقعات سے مولانا مرحوم کا تفسیر قرآن میں رسوخ صاف ظاہر ہوتا ہے۔
عظیم محدث و متبحر فی اسماالرجال: آپ فقہ حدیث، اصولِ حدیث اور فن اسما الرجال کی نہایت قدآور شخصیت تھے۔ بالخصوص اسما الرجال میں تو اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ آپ مادرِ علمی کے عظیم محدث تھے، اصولِ حدیث میں آپ نے مقدمہ شیخ عبدالحق اور نزہتہ النظر کی عمدہ شرحیں تحریر کیں۔ آپ دورہ حدیث اور شعبہ تخصص فی الحدیث کے مایہ ناز استاذ و شیخ تھے۔ فن اسماالرجال کے مشکل ہونے کی وجہ سے اکثر اہلِ علم اس سے دور رہتے ہیں، بالخصوص اہلِ عجم میں تو اس فن سے دلچسپی روزبہ روز کم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن مولانا مرحوم اس فن میں یگانہ روزگار تھے۔ اس فن میں موصوف نے شیوخ الامام ابی داؤد السجستانی بطور یادگار چھوڑی ہے۔ مادر علمی میں آپ بجاطور پر ابن حجرثانی کے لقب سے مشہور تھے۔
صائب الرائے پالیسی ساز: مولانا مغفور یوں تو خالص درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے آدمی تھے، مگر جمعیت علمائے ہند سے ایک عرصے تک مربوط رہے۔ وہ اس کی مجلس عاملہ کے رکن اور نہایت فعال ممبر تھے۔ نہایت صالح الفکر اور صائب الرائے تھے۔ جمعیت کی اکثر تجاویز وہی لکھتے تھے۔ حضرت الاستاذ مولانا ارشد مدنی مدظلہ العالی اپنے تعزیتی بیان میں لکھتے ہیں: ’’مولانا قاسمی ایک مدت سے جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکنِ رکین چلے آرہے تھے۔ میٹنگ کی کارروائی میں پوری دلچسپی لیتے اور مضبوط و ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھتے۔ مصلحت پسندی سے ان کی باتیں بہت دور ہوتی تھیں۔ میٹنگ کی اکثر و بیشتر تجاویز انھی کی مرہونِ منت ہیں (35)۔
بے باک نقاد: علامہ موصوف جہاں دیگر خصائص کے مالک تھے، وہیں ان کی ایک خاص صفت حق کے سلسلے میں بے باکی ہے۔ ہم سب کے استاذ، مولانا کے سب سے قریبی شناسا، الامام الحجہ مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں: ’’مولانا کی خاص صفت ان کی حق گوئی اور بے باکی تھی۔ جس بات کو حق سمجھتے تھے اس کو پوری قوت سے اور برملا کہتے، خواہ سامنے والا کتنا ہی بلند مرتبہ ہو، اس باب میں وہ لایخاف فی اللہ لومۃ لائمہکے پورے مصداق تھے(36)۔
آپ نے ردِّ قادیانیت، ردِّ شیعت، ردِّ غیر مقلدیت، فتنہ انکارِ حدیث وغیرہ… ہر موضوع پر نہایت بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ لکھا۔ حضرۃ الاستاذ مفتی سعید صاحب پالنپوری مرحوم کے ساتھ علمی مناقشے نے تو علامہ سخاوی اور علامہ سیوطی کی یادیں تازہ کردیں۔ مفتی صاحب سے مولانا کا صرف دو مسائل میں مناقشہ ہوا ہے۔ پہلا مسئلہ حجیتِ حدیث کا ہے۔ مفتی صاحب کا مؤقف یہ تھا کہ حدیث و سنت میں فرق ہے اور ان میں سے سنت تو حجتِ شرعیہ ہے جبکہ حدیث حجتِ شرعیہ نہیں ہے۔ اہلِ علم کے لیے یہ ایک نئی بات تھی، لیکن مفتی صاحب کا منطقی طرزِ استدلال اور مسحور کن اسلوبِ گفتگو اس نئے نظریے کو بھی ذہنوں کے قریب کردیتا ہے۔ مولانا نے مسئلے کی سنگینی کو بھانپ لیا تو پے درپے تین رسائل سپردِ قلم کیے:.1 کیا حدیث حجت نہیں؟ صفحات 60، سنِ اشاعت 2011ء، .2 حجیت حدیث اور اس پر عمل کی صورتیں، صفحات 88، سالِ اشاعت 2011ء، .3کتابچہ ’’حدیث و سنت‘‘ پر نقد و نظر، صفحات 60، سالِ اشاعت 2016ء۔
مولانا اظفر زبیر اعظمی جو آخر زمانے کے شاگردوں میں سے ہیں، لکھتے ہیں: ’’جب میں دورے میں پہنچا تو مفتی صاحب نے حسب سابق اپنی بات اس سال بھی دہرائی، مگر میں نے محسوس کیا کہ مفتی صاحب صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ حدیث و سنت میں فرق ہے۔ میں نے مولانا سے پوچھا کہ آپ کا مفتی صاحب سے جو اختلاف ہے، وہ کس بات میں ہے؟ فرق میں یا حجت میں؟ تو مولانا نے جواب دیا کہ حجت میں۔ میں نے کہاکہ مفتی صاحب اب صرف اتنا کہتے ہیں کہ دیکھو حدیث و سنت میں فرق ہے۔ آگے کی بات نہیں کہتے۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ہم نے تو اپنی بات دلائل کے ساتھ رکھ دی ہے بس!! (37)۔
دوسرا اختلاف ’’تعزیتی اجلاس‘‘ کے سلسلے میں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دارالعلوم وقف میں مولانا سالم صاحب رحمتہ اللہ علیہ پر ایک سیمینار کا انعقاد ہوا، جس میں وقف کی انتظامیہ نے اساتذہ دارالعلوم کو بھی شرکت کی دعوت دی، جس پر مفتی صاحب مرحوم نے اپنا اختلاف درج کراتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کردیا۔ عین وقت پر مفتی صاحب کے انکار نے افراتفری کا ماحول پیدا کردیا، یہاں تک کہ حضرت مہتمم صاحب نے شرکت سے منع کردیا۔ اس موقع پر مولانا اعظمی مرحوم نے مہتمم صاحب کو فوراً ایک خط لکھا اور دلائل سے یہ ثابت کیا کہ یہ سیمینار مسلک دارالعلوم کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی یہ نوحہ خوانی کے زمرے میں آتا ہے جس کی حدیث میں ممانعت ہے۔ نیز مولانا نے سید ارشد مدنی اور بحرالعلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی وغیرہ اساتذہ دارالعلوم کو زور دے کر کہا کہ آپ لوگ اس میں ضرور شرکت کریں۔ پھر دنیا نے دارالعلوم وقف میں اکابرین کے اجتماع کا حسین منظر دیکھا۔ مولانا نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا: ’’اگر میرے پاس دعوت نامہ آتا تو میں بھی جاتا‘‘ (38)۔ مولانا شکیب ناظم وقف کو اپنی اس عدم توجہی پر بے حد افسوس ہوا، لیکن یہ بس ایک علمی اختلاف تھا۔ دونوں حضرات ایک دوسرے کا بہت زیادہ پاس و لحاظ کرتے تھے۔ مفتی اشتیاق صاحب، استاذ دارالعلوم لکھتے ہیں:
’’حضرت مفتی صاحب تو کسی موافق یا مخالف کے بارے میں مجلس میں کچھ بولتے ہی نہیں تھے۔ لیکن ایک بار جب ’’تعزیتی اجلاس‘‘ کی کراہت اور عدم کراہت یا بدعت اور عدم بدعت پر بحث چل پڑی تو حضرت مفتی صاحب نے فرمایا: ’’دیکھو! مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی کا رسالہ چھپا ہے، ماشا اللہ زبان و بیان بہت عمدہ ہے۔ برجستہ اشعار اور محاورات کی عمدگی اور امثال و تشبیہات کی نفاست متاثر کن ہے۔ موضوع اور مواد سے متفق ہونا اور نہ ہونا الگ بات ہے، مگر موصوف کی زبان اتنی اچھی ہے کہ اگر یہ شخص گالی بھی دے تو اچھی لگے (39)۔
وسعتِ مطالعہ اور علمی استحضار: مولانا مغفور تو اس چیز میں یکتائے زمانہ تھے۔ آپ کا ذاتی کتب خانہ ایک قومی لائبریری معلوم ہوتا تھا۔ آپ جلسہ و جلوس، بھیڑ بھاڑ اور تعلق و شناسائی سے دور بھاگتے تھے اور ہمہ وقت یکسو ہوکر محوِ مطالعہ رہتے تھے۔ آپ کے رازو نیاز کے شریک اور دشتِ علم و فن کے ہمدم مولانا نعمت اللہ صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں: ’’مطالعہ اور کتب بینی مولانا کی زندگی کے جزولاینفک تھے۔ آپ کسی بھی وقت ان کے کمرے میں چلے جائیں، مولانا سر جھکائے محو ِمطالعہ ملیں گے۔ اس دور میں جبکہ کتب بینی کا ذوق دن بہ دن ناپید ہوتا جارہا ہے، مولانا کی ذات ایک روشن چراغ تھی(40)۔
علمی استحضار بھی نہایت غضب کا تھا۔ اس سلسلے میں چند واقعات ملاحظہ فرمائیں:
(1) مولانا اشرف عباس قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں: ’’ایک دن عصر کی مجلس میں ایک صاحب نے مرنے والوں کے آخری احوال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ ایک محدث کو کلمے کی تلقین کے لیے ان کے شاگردوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ کلمہ والی حدیث کا مذاکرہ کرنے لگے۔ حضرت مولانا نے فوراً فرمایا کہ یہ واقعہ ابوزرعہ رازی کا ہے۔ ان کے دو شاگرد ابو حاتم رازی اور محمد بن مسلم ان کی وفات کے وقت موجود تھے اور اپنے استاذ کی عظمت کے پیش نظر براہِ راست تلقین کرنے کے بجائے پہلے محمد بن مسلم نے کلمہ والی حدیث روایت کی۔ سند صالح بن ابی غریب تک ذکر کی اور خاموش ہوگئے۔ ابو حاتم نے بھی یہی کیا، یہ سن کر ابو زرعہ سہارے سے بیٹھ گئے اور آگے کی سند ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’عن کثیر بن مرۃ الحضرمی عن معاذ بن جبل قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من کان آخر کلامہ لاالہ الا اللہاتنا کہنا تھا کہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی(41)۔
(2) ایک دوسرے صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مفتی سعید صاحبؒ نے اپنے خطاب میں اس واقعے کا ذکر کیا جس میں یہ ہے کہ دشمن کی فوج نے مسلمانوں کے لشکر کو مسواک کرتے دیکھ کر پسپائی اختیار کرلی۔ اس کے بعد مفتی صاحب فرمانے لگے: ’’میں نہیں جانتا یہ واقعہ کب کا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن اس میں شاندار پیغام ہے‘‘۔ یہ سن کر مجلس میں موجود مولانا اعظمی برجستہ کہنے لگے: ’’یہ واقعہ بنی امیہ کے زمانے کا ہے اور فلاں فلاں کے ساتھ پیش آیا۔ علامہ ابن خلدون کی تاریخ العبر اور فلاں فلاں کتاب میں مذکور ہے (42)۔
(3) مولانا اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھتے وقت جنگِ شاملی کے سلسلے میں ایک جگہ پھنس گیا۔ مولانا عاشق الٰہی برنی نے تذکرۃ الرشید میں اس کو ’’اتفاقی مڈبھیڑ‘‘ لکھا، حالانکہ میں اس سے پہلے شاملی کی جنگ کو باضابطہ جنگ ہی سمجھتا تھا۔ کہیں اس کا تشفی بخش جواب نہ ملا تو مولانا کے پاس پہنچ کر اپنی مشکل کو بیان کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رحمتہ اللہ نے ’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ میں اس پر بحث کی ہے، اس کو دیکھو‘‘۔ چنانچہ حسبِ ارشاد اس کو دیکھا تو مجھے تفصیل وہاں مل گئی(43)۔
(4) اسی طرح مولانا کے ایک اور شاگرد مفتی ارشد شروانی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم مولانا کے ساتھ ریل سے سفر کررہے تھے۔ ٹی ٹی سے ٹکٹ کے سلسلے میں کچھ بات کرنی تھی، تو اُس نے ہمیں مدرسے کا طالب علم دیکھ کر پوچھا: کیا پڑھتے ہو؟ میں نے بتایا کہ عربی، فارسی اور اردو وغیرہ۔ اس نے کہا: میرؔ کا ایک شعر ہے:
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
بتائو، اس کا متضاد شعر کس نے کہا اور وہ شعر کون سا ہے؟ اس دوران مولانا بھی اس دلچسپ گفتگو میں شامل ہوگئے اور بتلایا کہ اس کا متضاد شعر سوداؔ کا ہے اور وہ شعر یہ ہے:
سوداؔ کے جو بالیں یہ اٹھا شورِ قیامت
خدامِ ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
ٹی ٹی بہت خوش ہوا، پھر اپنا تعارف کرایا تو معلوم ہوا شیعہ برادری سے تعلق ہے اور اردو ادب پراچھا عبور ہے۔ مولانا بھی کافی کھل گئے، پھر دیر تک زبان و ادب اور شعر و شاعری پر بات ہوتی رہی اور آخر میں ٹی ٹی نے مکمل رعایت بھی کردی (44)۔
تصوف و سلوک: مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی، شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کے عقیدت کیش اور فیض یافتہ تھے، چنانچہ مولانا نے پہلے پہل انھی سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور قافلۂ عشق و مستی میں شامل ہوکر راہِ سلوک کے مسافر بن گئے۔ حضرت شیخ الحدیث کی وفات کے بعد جب ندائے ملت سید اسعد مدنیؒ کو آپ کے معمولات اور تسبیحات کے بارے میں معلوم ہوا تو کہنے لگے: آپ تو خلافت کے مستحق ہیں۔ چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے خلیفہ مولانا محمود صاحب سہارنپوری نے آپ کو خلافت عطا فرمائی (45)۔
معمولاتِ زندگی: پورا دن تصنیفی و تدریسی مشغلے میں گزر جاتا۔ عشا کے بعد فوراً بستر پر تشریف لے جاتے اور اخیر شب میں اپنے رب کے حضور راز و نیاز کے لیے اٹھ جاتے۔ سفر و حضر میں آپ تہجد کی پابندی فرماتے تھے (46)۔ فجر بعد مکمل نشاط کے ساتھ چہل قدمی کرتے۔ جمعے کے دن اذان سے پہلے مسجد پہنچ جاتے اور نماز و تلاوت کا اپنا معمول پورا کرتے۔ نماز فجر کے بعد اذکار میں مشغول رہتے، یہاں تک کہ طلوعِ آفتاب کے بعد ہی کسی اور کام میں لگتے۔ مولانا نہایت خوش خوراک و خوش پوشاک تھے۔ علامہ کشمیری کی طرح پان کا بھی نہایت نفیس ذوق و شوق رکھتے تھے۔
یہ ہے مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی علمی و عملی اور جہدِ مسلسل سے لبریز ایک نہایت طویل اور ہمہ گیر زندگانی کی ایک مختصر سی جھلک۔ مولانا کے مفصل حالات و خدمات کے لیے تو دفتر کے دفتر چاہئیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
(اقبال)
وفات: 30 رمضان المبارک 1442ھ مطابق 13مئی 2012ء کو مولانا اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ مولانا عفان صاحب قاسمی کی امامت میں آبائی وطن جگدیش پور میں جنازے کی نماز ادا کی گئی اور وہیں سپردِ خاک ہوئے (47)۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
……٭٭٭……
حوالہ جات:
(33) تفصیل کے لیے دیکھئے سرسید احمد خان اردو نظریہ حجیت حدیث ص:17 تا 27، (34) الماس ص : 447، (35) ماہنامہ ص:54،(36) الماس ص: 19، (37) ایضاً ص : 122، (38) ایضاً ص:120، (39) ماہنامہ ص: 31، (40) الماس ص:19، (41) ماہنامہ ص :18، (42) ماہنامہ ص:19، (43) ایضاً ص:30، (44) الماس ص:9و ص 60، (45) ایضاً ص :429 و 430، (46) ماہنامہ ص: 50، (47) الماس ص:166 و 167۔