غامدی صاحب اور فکر فراہی

جاوید احمد غامدی صاحب عہدِ حاضر کے اُن پاکستانی اہلِ فکر میں سے ایک ہیں جنہیں قرآنی علوم کے عالم کی حیثیت سے صوتی و بصری ذرائع ابلاغ نے کثرت سے پیش کیا ہے،بعض اوقات 10 ٹی وی چینلوں پر بیک وقت آتے رہے ہیں۔ غامدی صاحب کے خیالات دینی حلقوں میں اُس وقت سے زیر بحث ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور تہذیبِ مغرب کی جانب سے مسلم دنیا کی فکری تشکیل کے منصوبوں کے تناظر میں یہ مباحث اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ مذہبی مناظروں کا مرکز سوشل میڈیا اور یوٹیوب کی نشریات بن گئی ہیں۔ جاوید احمد غامدی کے خیالات کے بارے میں ملک کے ایک اور فلسفی، ادیب اور دانشور جناب احمد جاوید غامدی نے ایک گفتگو کی ہے۔ اس گفتگو پر تنقید کے حوالے سے ہندوستان میں مقیم ہمارے بہت عزیز اسکالر جناب مولانا عبدالمتین منیری نے تبصرہ کیا ہے۔ اس میں اردو تفاسیر قرآن کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس تبصرے کو ہم قارئین کے استفادے کے لیے شائع کررہے ہیں(ادارہ)
آج محترم احمد جاوید صاحب کی غامدی صاحب پر ایک گفتگو کے رد میں محمد مشتاق صاحب کا ایک کالم نظر سے گذرا، احمد جاوید صاحب کی گفتگو تو ہم نے نہیں سنی، کیونکہ غامدی صاحب کے سلسلے میں ہمارا اصولی موقف یہ ہے کہ ان کی فکر انکار حدیث کا زینہ ہے، اب ہم ان کی فکر کی تفصیلات کے بارے میں سرکھپانا اپنے لئے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں ۔ اب تک احمد جاوید صاحب کی جو بھی چیزیں ہماری نظر سے گذری ہیں، ان سے ہمارے اس موقف کو تقویت ملی ہے کہ ان سے بعض فروعی امور میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن آپ سے کسی اصولی یا اعتقادی مسئلہ میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔احمد جاوید صاحب کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے کہ کسی کے بارے میں رائے اس کی ذاتی تحریروں یا بیانات اور رویوں کی کی روشنی میں قائم کرنی چاہئے، ا ن کے عزیزو ں اور معتقدین سے ظاہر ہونے والی آراء اور رویوں کی روشنی میں رائے قائم نہیں ہونی چاہئے۔ عموما غامدی صاحب کی فکر کو مولانا حمید الدین فراہی ؒ کا تسلسل سمجھا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے کچھ عرصہ تک مولانا فراہیؒ کے شاگرد رشید مولانا امین احسن اصلاحی ؒ سے استفادہ کیا ہے، لیکن فکر فراہی ؒ کے ماہرین مولانا اصلاحی ؒکو بھی مولانا فراہی کا فکری جانشین نہیں گردانتے، ان کی رائے میں مولانا فراہی ؒکی فکر کے اصل جانشین مولانا اختر حسن اصلاحی ؒ تھے، جو مدرسۃ الاصلاح میں ۱۹۵۸ء تک تدریس سے وابستہ رہے۔ہندوستان میں آپ کے شاگردوں او ر ان کے شاگردوں کا ایک وسیع سلسلہ ہے، جو تعلیم و تعلم سے وابستہ ہے۔ ہمارے مشفق مولانا شہباز اصلاحی مرحوم کا شمار مولانا اختر احسن اصلاحی کےشاگردان خاص میں ہوتا تھا۔یہ بات ذہن میں رہے کہ عمومی طور پرہندوستان میں مدرسۃ الاصلاح سرائے میر ، اعظم گڑھ سے وابستہ علماء کا احترام وسیع پیمانے پر پایہ جاتا ہے۔ مولانا فراہی سے اس ناچیز کی عقیدت علامہ شبلی نعمانی ؒ کے ایک مضمون سے شروع ہوئی جو آپ نے مولانا فراہیؒ کی کتاب جمہرۃ البلاغۃ پر تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا، ۱۹۷۰ء کی دہائی میں فکرفراہی کے امین مولانا بدر الدین اصلاحی ؒناظم دارئرہ حمیدیہ و مدرسۃ الاصلاح سے اس موضوع پر مراسلت کا موقع بھی ہمیں موقعہ ملا تھا، اور اس وقت مولانا فراہی کی شائع شدہ جملہ کتابیں ہم نے منگوا کر پڑھی تھی،( پڑھنے کا مطلب سمجھنا بھی نہیں ہے)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فکر فراہی کے بعض گوشوں سے ہمیں اس وقت اطمینان نہیں ہو ا، اور ہم نے مولانا شہباز اصلاحی ؒ سے جو کہ گتھیوں کو سلجھانے کے بڑے ماہر تھے، اس تاثر کا اظہار کیا تھا کہ نظام القرآن مولانا فراہی کا اجتہادی کارنامہ سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے سرسری مطالعہ سے ہمارا تاثر قوی ہوتا جارہا ہے کہ ا س سے قرآن فہمی کا حدیث نبوی کا عنصر کمزور پڑتا جارہا ہے، تو پہلے مولانا نے اس سے انکار کیا تو، ہم نے انہیں مثال میں نظام القرآن کی بنیاد پر قرآن کی سورتوں کے نام بدلنے کی مولانا فراہی کی تجویز پیش کردی ، تو شہباز صاحب خاموش ہوگئے۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کے رویوں میں کئی دور آئے،ایک ان کا نظم جماعت سے وابستگی کا زمانہ ہے، پھر ڈاکٹر اسرار احمد سے تعلق کا زمانہ ، اور پھر خالد مسعود صاحب اور غامدی صاحب سے تعلق کا دور ہے۔ ان کے ابتدائی دور کی کتابیں دعوت دین اور اس کا طریقہ کار، تزکیہ نفس ، حقیقت نماز وغیرہ کتابیں ہیں، ان میں دعوت دین ماسٹر پیس کی حیثیت ہے، ان کتابوں میں دعوتی اسپرٹ نمایاں ہے، اس دور کی کتابوں میں توضیحات میں مصارف زکوۃ کی بحث میں ہمیں حدیث وفقہ سے زیادہ مخصوص مزاج کی عربی فہمی کا غلبہ نظر آیا ، جس سے ہم جیسوں کا مکمل اتفاق کرنا مشکل ہے۔ڈاکٹر اسرار احمد کی رفاقت کے دور میں آپ میں رد عمل کا پہلو چھایا ہوا نظر آیا، تدبر قرآن اسی دور کی تصنیف ہے، اس کتاب سے انبیاء کی دعوت سے متعلق موضوعات کا انتخاب وقت کی ایک اہم علمی ضرورت ہے۔ ہماری محدود معلومات کی حد تک نہ صرف اردو میں بلکہ دوسری زبانوں میں بھی اس موضوع پر اتنا قیمتی مواد دستیاب ہونا مشکل ہے، مولانا کے یہاں اکیڈمک سے زیادہ دعوتی پہلو تفسیر میں جگہ جگہ نمایا ں ہے، ہماری معلومات کی حد تک غامدی صاحب تو آخر تک مولانااصلاحی کے ساتھ نہیں رہے، البتہ خالد مسعود مرحوم نے آپ کی آخری زندگی میں آپ کے علوم کو منظم کرنے اور آپ سے استفادہ کو عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، موصوف آپ کے علمی افادات پر مشتمل ایک پرچہ تدبر کے نام سے نکالتے تھے جو پہلے شمارے سے ہمیں ملا کرتا تھا، ہمارے خیال میں یہ دور مولانا اصلاحی کے شاذ مسائل کے عام ہونے کا دور ہے، ہم نے اس وقت آپ کے پچھتر درسوں کے کیسٹ بڑی تلاش کے بعد منگوائے تھے، حقیقت تو یہ ہے کہ ان کیسٹوں نے ہمیں مولانا اصلاحی سے بدگمان ہی کردیا۔ ہماری رائے میں جو باتیں مولانا فراہی ؒ کے یہاں قابل نقد ہیں ، ان پر تنقید ہونی چاہئے، اور جو مولانا اصلاحی کے یہاں قابل نقد ہیں، ان کا ٹھیکرا ان کے استاد کے سر پر نہیں پھوڑنا چاہئے۔ یہ رویہ سنجیدہ علمی رویہ سے میل نہیں کھاتا، ہر کوئی اپنے کئے کا ذمہ دار ہے۔بیسویں صدی میں متوسط علمی طبقے اور دانشوروں میں (۱ ) تفہیم القرآن (۲ ) معارف القرآن (۳ ) تفسیر ماجدی ( ۴) تدبر قرآن ، یہ چار تفسیریں بہت مقبول ہوئیں۔ لیکن تدبر قرآن کے علاوہ اول الذکر تینوں تفسیروں کے مصنفین نے ان کی تدوین کے دوران اپنا منہج تبدیل کردیا۔۔ تفہیم القرآن کے مصف کا ارادہ ابتدا میں ایک ایسے ترجمہ کا تھا، جس میں ہر صفحہ کے اوپر قرآنی آیات ہوں ، ان کے نیچے شاہ عبد القادر دہلوی کا ترجمہ ہو، اور اس کے نیچے مصنف کا ترجمہ ، اور مختصر توضیحی حواشی ، ضخامت کی وجہ سے شاہ صاحب کا ترجمہ تو شامل نہیں کیا جاسکا، البتہ ابتدائی پندرہ پاروں تک طے شدہ خطوط کے مطابق مختصر حواشی پر اکتفا کیا گیا ، لیکن آخری پندرہ پاروں میں منہج تبدیل کردیا گیا، لہذا تفہیم کی ابتدائی دو جلدیں پندرہ پاروں کی تفسیر پر مشتمل ہیں، اور بقیہ پندرہ پاروں کی چار جلدوں میں،چھ جلدوں میں تفہیم کی اشاعت کے بعد مصنف کی توجہ نصف اول کو بھی تفصیلی اضافوں کے ساتھ از سر نو ترتیب دینے کی رائے دی گئی تھی، لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی، عمر اور بیماریوں نے تفہیم پر نظر ثانی کا موقعہ نہیں دیا۔ معارف القرآن کے مصنف حضرت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کا ارادہ بھی ابتدا میں کوئی مستقل تفسیر لکھنے کا نہیں تھا، لیکن چونکہ ریڈیو پاکستان پر آپ کے درس قرآن نشر ہوتے تھے، اور درمیان سے نو دس پاروں کی تفسیر مکمل پیش کی جاچکی تھی، تو مصنف کو اس کی بنیاد پر مستقل تفسیر لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ تفسیر ماجد ی ابتدا میں تاج کمپنی سے ایک معاہدہ کی بنیاد پر ہفتہ وار صدق لکھنو کی ایک سال کے لئے اشاعت معطل کرکے انگریزی میں لکھی گئی تھی، پھر تقاضوں پر اس کی بنیاد پر مختصر اردو تفسیر لکھی گئی جو قرآن مجید کے حاشیے پر شائع ہوئی، جس میں اہم جگہوں میں انگریزی تفسیر سے مراجعت کے لئے کہا گیا تھا، جس سے اردو کے قاری کو بڑی کوفت ہوتی تھی،لہذا مسلسل اصرار پر مفصل تفسیر لکھنے کا مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ نے ارادہ کیا، ۱۹۷۷ء میں آپ کی وفات تک پانچ پانچ پاروں پر مشتمل اس کی دوجلدیں شائع ہوئیں، آپ کی وفات کےبعد مولانا اویس نگرامی ؒ شیخ التفسیر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کی مراجعت سے اس کے دو پارے مزید شائع ہوئے، اور غالباً مولانا کی وفات کی ربع صدی کے بعد یہ تفسیر مکمل طور پر منظر عام پر آئی۔۔ تدبر قرآن کو یہ شرف حاصل ہے، کہ اس کے مصنف کی بنیادی شہرت ایک مفسر قرآن کی رہی،اور یہ تفسیر ابتدا سے ایک ہی منہج پر قائم رہی، اسے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے اپنے دور عروج میں فاران فاؤنڈیش سے بڑے اہتمام سے شائع کیا، لہذا اپنے وقت میں اسے بڑی شہرت ملی ، اور اسے قرآن مجید کے مفردات کی تشریح میں کئی ایک حلقوں میں مرجع کی حیثیت دی گئی، اس سحر کو توڑنے کے لئے مولانا فراہی کے مدرسۃ الاصلاح کے مستند استاد اور معتبر عالم دین مولانا جلیل احسن ندوی ؒ نے اس کا محاسبہ شروع کیا، جس میں مولانا اصلاحی کی علمی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ، یہ سلسلہ ماہنامہ زندگی رامپور میں اشاعت پذیر ہوا، مصنف کی رحلت کی وجہ سے تفسیر سورہ بقرہ سے آگے یہ سلسلہ نہیں پہنچ سکا۔اس وقت غامدی صاحب کو فراہی فکر کے ترجمان اور مولانا امین احسن اصلاحی کے جانشین کی حیثیت سے پروموٹ کیا جارہا ہے، جہاں تک ہماری معلومات ہیں، غامدی صاحب اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے علم سے زیادہ اپنے اسلوب اور سلجھے ہوئے انداز سے ایک بڑے دینی حلقہ کو اپنا گرویدہ بنادیا ہے، بدقسمتی سے غامدی صاحب کے خلاف ہمارے ایک قابل ذکر دینی حلقے سے جو رویہ سامنے آرہا ہے، اس سلسلے میں جہاں تک ہمارا مشاہدہ ہے اس سے ان کے حلقے کے سکڑنے میں کوئی مدد نہیں مل رہی ہے، اگر ہمارے علمائے کرام اپنے معتقدین میں ان سے نفرت بڑھا نے کو کامیابی سمجھتے ہوں تو یہ الگ بات ہے، لیکن ان سے سنجیدہ اور دانشور حلقے کو دور کرنے میں کامیابی کا احساس نہیں ہوتا۔ مخاطب کی نفسیات کو دیکھ کر انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔ غالباً احمد جاوید صاحب کا مقصود بھی یہی ہے۔