بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کا وسیع رقبہ اور خوبصورت و دلکش ساحل سیکڑوں میل پر پھیلا ہوا ہے جو اس کی اہمیت کو دوبالا کرتا ہے۔ اس صوبے کی سیاست بلوچ سرداروں اور نوابوں کے گرد طویل عرصے تک گھومتی رہی ہے۔ نواب بگٹی، نواب خیر بخش خان مری اور سردار عطا اللہ مینگل اس صوبے کی شناخت بنے۔ یہ سردار صاحبان جنرل ایوب خان کے دور میں پارلیمنٹ میں پہنچے۔ ہمیں تاریخ کے اس مرحلے کو نظر میں رکھنا ہوگا۔ پاکستان کی تمام سیاسی، مذہبی پارٹیاں ایوب خان کے نافذ کردہ قانون کے تحت اسمبلیوں میں جلوہ گر ہوئیں۔ آج ہم ان حالات کا تجزیہ کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں اتنی منظم نہ تھیں اس لیے کوئی عوامی تحریک نہ اٹھی کہ جنرل کے دستور کو رد کرتیں۔ بلوچستان میں پہلی دفعہ ایک نوجوان سیاست کے میدانِ خارزار میں داخل ہوا۔ اس کا نام باقی بلوچ تھا، مکران سے اس کا تعلق تھا۔ اس نے مغربی پاکستان کی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور جیت گیا۔ اس کی اردو بہت خوبصورت تھی، اور وہ شاعر تھا، بہترین مقرر بھی تھا۔ آیا اور چھا گیا۔ باقیؔ نہ سردار زادہ تھا اور نہ نواب زادہ۔ بلوچستان کے نوابوں اور سرداروں کو اُس کا سیاست پر چھا جانا ناگوار تھا۔ ایوب خان کو بھی اُس کا یوں بولنا ناگوار گزرا۔ مغربی پاکستان کا گورنر نواب کالا باغ تھا، ایوب خان نے اس کے ذریعے باقی بلوچ کی زبان بندی اور زندگی کا چراغ گل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس وقت اُس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، ایک صحافی اس کا انٹرویو لینے کے لیے موجود تھا۔ قاتل نے 6 فائر کیے، ایک گولی اس صحافی کو لگی اور اس نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ باقیؔ کو 5 گولیاں لگیں۔ اسے اسپتال پہنچادیا گیا۔ باقیؔ اُس وقت شہرت کی بلندیوں پر تھا، اسے خون دینے کے لیے یونیورسٹی کے ہزاروں طالب علم قطار میں کھڑے تھے۔ باقیؔ بچ گیا۔
باقیؔ کے عروج و زوال کی داستان بہت عجیب تھی۔ اسے جناب سہروردی کی بیٹی سے محبت ہوگئی، شاید شادی بھی ہوگئی۔ لیکن خاتون کے رشتے دار اس راہ میں حائل ہوگئے اور رشتہ ختم ہوگیا۔ یہ صدمہ اتنا بڑا تھا کہ باقیؔ اس کو برداشت نہ کرسکا اور زندگی کی تمام گہما گہمیوں سے کنارہ کش ہوگیا۔ سیاست اور زندگی کے پُررونق شب وروز اس کے لیے بے معنی ہوگئے اور اسی حالت میں وہ دنیا سے چلا گیا۔
میری باقی بلوچ سے جناح روڈ پر قائم المعظم ہوٹل کے ایک کمرے میں ملاقات ہوئی۔ یہ ایک معمولی سا ہوٹل تھا۔ یہ حوالہ اس لیے دیا کہ باقی بلوچ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔
اب مکران ڈویژن سے ایک اور نوجوان ہدایت الرحمٰن اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس کا تعلق بھی ایک غریب گھرانے سے ہے۔ اس کا گھر بھی ایک عام مچھرے کے گھر جیسا ہے۔ نہ وہ نواب زادہ ہے نہ سردار زادہ۔ اس کی زندگی کا نقشہ بھی عوام کے سامنے ہے۔ اس کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ ہدایت الرحمٰن دینی تعلیم سے آراستہ ہے۔ وہ بھی ایک خاک نشین ہے۔ خاک نشین ہی حالات بدلنے کے لیے نکلتے ہیں۔ مکران ڈویژن سے اسمبلیوں میں نمائندگی ہمیشہ قوم پرستوں اور کروڑ پتی شخصیات نے کی ہے۔ ساحل گوادر سے اس علاقے کے لوگ کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے ہیں، لیکن عام ماہی گیروں کی زندگی میں غربت کے اندھیرے ہی آئے۔ قوم پرست پارٹیاں ان کروڑ پتی شخصیات سے لطف اندوز ہوتی رہی ہیں۔ گوادر کا ساحل بین الاقوامی اسمگلروں کے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہوا ہے۔ قوم پرست پارٹیاں اور ایک مذہبی پارٹی جے یو آئی ہی فائدہ اٹھاتی رہی ہیں، اور غربت کے اندھیروں کو دور نہیں کرسکی ہیں۔ بین الاقوامی اسمگلر ان کے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہوئے ہیں۔ قدرت کو یہ اندھیرے پسند نہ تھے، اس لیے ایک نوجوان اس اندھیرے میں صور اسرافیل ثابت ہوا اور ساحل گوادر کے لیے ایک توانا اور طاقتور آواز بن کر اٹھ کھڑا ہوا۔ باقی بلوچ کے بعد ہدایت الرحمٰن بلوچ بلوچستان کی سیاست میں ایک دھماکے کی صورت میں جلوہ گر ہوگیا ہے۔ زنگ زدہ قوم پرستوں اور ان کے ہمنوائوں کے لیے اُس کی آواز ’’گوادر کو حق دو‘‘ ایک دھماکے سے کم نہیں ہے۔ مکران ڈویژن سے مولانا عبدالحق بلوچ بھی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اب ان کے بعد ہدایت الرحمٰن میدانِ سیاست میں ہے۔ اس کی آواز کی پشت پر اس کی مخلصانہ سادہ زندگی اور اس کی قوت ہے۔ وہ بلوچستان کی تاریخ کا ایک سنہرا باب رقم کررہا ہے۔ ایک لاکھ کا ٹھاٹھیں مارتا انسانوں کا سمندر جوار بھاٹا کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔ اس نے خواتین کو آواز دی تو غریب عورتوں نے نئی تاریخ رقم کردی۔ وہ اپنے معصوم بچوں کو گود میں لیے گوادر کے ساحل کے قریب نکل کھڑی ہوئیں۔ یہ بلوچستان کی تاریخ کا ایک حیرت انگیز باب ہے۔ ہدایت الرحمٰن اور گوادر اب لازم و ملزوم ہیں۔ تاریخ ان کے بغیر ادھوری رہے گی۔ اُس نے کبھی بند کمرے میں سودے بازی کی نہ بند پارلیمنٹ میں ریکوڈک کا سودا کیا۔ اس اندھیرے میں اور اسمبلی کے بند ہال میں قوم پرستوں اور مذہبی پارٹی نے بلوچستان کے حقوق کا سودا کیا ہے۔ ’باپ‘ نے بھی بلوچستان کا سودا کیا ہے، اور سردار اختر مینگل کی بی این پی بھی اس
میں شریک ہے۔ بلوچستان میں قوم پرست پارٹیوں کی تاریخ کو سنہرے الفاظ سے شاید ہی کوئی یاد رکھے۔ نواب بگٹی کے ساتھ جب قوم پرست پارٹی شریکِ سفر تھی تو اس کے رویّے اور طرزِ سیاست کو دیکھ کر نواب بگٹی نے تاریخی جملہ کہا کہ ’’یہ قوم پرست نہیں بلکہ پیٹ پرست ہیں‘‘۔ وقت نے نواب کے تاریخی جملے کو ان کے ماتھے پر ثبت کردیا ہے۔ اب یہ قوم پرست ہدایت الرحمٰن کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ ہدایت الرحمٰن بلوچ کی ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک نے ان کو حواس باختہ کردیا ہے۔ لیکن اُس کا سفر جاری ہے۔ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں تو بند کمروں میں کھیل کھیلتی اور سودے بازی کرتی ہیں۔ ہدایت الرحمٰن بلوچ نے نئی تاریخ رقم کی اور عوامی ہجوم کے سامنے معاہدہ کیا ہے۔ جگمگاتے شیش محل میں نہیں بلکہ فیصلہ گوادر کے ساحل کے قریب سب کے سامنے ہوا ہے۔ معاہدے پر عمل درآمد کرنا بلوچستان حکومت کا فرض بنتا ہے۔ ہدایت الرحمٰن اور گوادر کے لاکھوں انسانوں کی آواز کو اب کوئی دبا نہ سکے گا۔ گوادر کے ساحل سے اٹھنے والے طوفان اور اس کی شخصیت کو تاریخ نظرانداز نہ کرسکے گی۔ گوادر کے ساحل پر تو 60، 70 سال سے بین الاقوامی اسمگلر ٹرالروں کے ذریعے بلوچستان کے وسائل کو لوٹ رہے تھے لیکن کسی قوم پرست یا مذہبی پارٹی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ بلوچستان کے حقوق کے دعوے دار مہربہ لب کیوں تھے؟ اب یہ کھیل زیادہ دیر شاید نہ چل سکے۔