2 مارچ2022ء کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے فاطمہ جناح روڈ پر پیش آنے والا واقعہ، 8 مارچ کو صدرِ مملکت کی آمد کے موقع پر سبی میں خودکش حملہ، اور پشاور کے قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں واقع مسجد میں فائرنگ اور دھماکوں کے منصوبہ سازوں کے درمیان ارتباط پایا جاتا ہے۔ پشاور میں بھاری جانی نقصان ہوا، کوئٹہ میں 3 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا جہاں ان کا منصوبہ پوری طرح کامیاب نہ ہوسکا۔ فاطمہ جناح روڈ پر واقع چپل سازی کی جس دکان کا انتخاب کیا گیا وہ ہزارہ افراد کی تھی۔ نامعلوم افراد نے پہلے دکان کے اندر گھس کر گولیاں چلا کر دو افراد کو قتل کردیا اور وہیں ریموٹ کنٹرول بم رکھ دیا، تاکہ جب پولیس اور ایف سی اہلکار پہنچیں، تو ریموٹ کنٹرول دھماکا کرکے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کرایا جاسکے۔ فائرنگ کے بعد آس پاس کے لوگ جمع ہوئے تو اس اثنا دھماکا ہوا، جس میں ڈی ایس پی کرائم برانچ اجمل سدوزئی جاں بحق ہوگئے، جبکہ 25 افراد زخمی ہوئے۔ اجمل سدوزئی کا گھر قریب واقع تھا، وہ فائرنگ کی آواز سن کر پہنچ گئے تھے۔
جنوری 2021ء کے بعد فرقہ وارانہ رنگ رکھنے والا یہ پہلا واقعہ ہے۔ البتہ صوبے میں حکومت کی تبدیلی کے بعد کئی سنگین واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ 8 مارچ کو سبی میں میلے کی اختتامی تقریب کے بعد خودکش دھماکا کرایا گیا۔ صدر پاکستان عارف علوی سبی میلے کی اختتامی تقریب میں شرکت کے لیے سبی میں موجود تھے۔ تقریب کے بعد صدر جس راستے سے پندرہ منٹ پہلے گزرے وہاں سیکورٹی پر مامور اہلکار نشانہ بنے اور 7 اہلکار جاں بحق ہوگئے، جبکہ بیس سے زائد زخمی ہوئے۔ پشاور سانحے کی ذمہ داری داعش گروہ نے قبول کرلی ہے۔ اس گروہ کا قوی ٹھکانہ افغانستان ہے، اور انہیں عالمی ایجنسیوں کا تعاون حاصل ہے۔ افغانستان کے اندر انہیں امریکہ، نیٹو اور بھار ت کی حمایت یافتہ حکومتوں میں زبردست تقویت ملی۔ اس عرصے میں یہ گروہ اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور مذہبی تقریبات کو نشانہ بناتا رہا، یہاں تک کہ افغانستان کے غیر مسلم عوام تک پر حملے کیے گئے۔ تب کی افغان حکومتیں اور انٹیلی جنس ادارے حقائق بتانے کے بجائے ان سرگرمیوں کو افغا ن طالبان سے جوڑنے کی کوشش کرتے۔ سرکاری میڈیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر گمراہ کن ماحول بنایا جاتا۔ جاپانی ماہر ڈاکٹر ناکامورا کے قتل تک کو طالبان سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی۔ لوگوں کو طالبان مخالف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکالا جاتا۔ اس سرکاری خیانت کا نتیجہ یہ ہوا کہ داعش اور دوسرے گروہ مضبوط ہوتے گئے اور ان سے وابستہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ اس گروہ نے بلوچستان کے اندر علی الخصوص کوئٹہ اور اس کے قریبی اضلاع میں ٹھکانے قائم کرلیے۔ نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا۔ کالعدم لشکر جھنگوی اس گروہ میں ضم ہوا۔ ٹی ٹی پی اور ان کے درمیان ترجیحات کا اشتراک ہوا۔ بلاشبہ بلوچستان کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں پنپنے نہیں دیا، لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں یہ سر اٹھا لیتے ہیں۔ داعشی گروہ نے افغانستان کی نئی حکومت کے دوران بھی حملے جاری رکھے اور حکومتی وابستگان کو ہدف بنایا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ کابل حکومت نے ان کی خوب سرکوبی کر رکھی ہے اور مسلسل ان کے تعاقب میں ہے۔
موجودہ افغان فورسز معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں، اس بنا پر اس گروہ کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں داعش گروہ کے ننگرہار کے معروف کمانڈر مولوی عبدالرحیم مسلم دوست نے حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے گروہ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ نئی افغان حکومت ہر لحاظ سے اس گروہ کا صفایا کرنے پر قادر ہے، جس کے مزید استحکام کے بعد کسی گروہ کے لیے ٹھکانہ نہ رہے گا۔ اشرف غنی رجیم کو ایران نے افغان افراد پر مشتمل اپنے تربیت یافتہ گروہ استعمال کرنے کی پیشکش کی تھی، جس پر طالبان نے خفگی کا اظہار کیا، حالاں کہ تب وہ حکومت میں نہ تھے اور قابض بیرونی افواج کے خلاف لڑرہے تھے، لیکن انہوں نے تہران پر واضح کردیا تھا کہ وہ داعشی گروہ سے نمٹنے کی اہلیت و قوت رکھتے ہیں۔ آمدہ معلومات کے مطابق ایران کے پاکستان سے متصل سرحدی علاقے میں بعض مسلح گروہوں کی آماج گاہیں قائم ہیں۔ تربت، پنجگور اور نوشکی کے واقعات اسی تناظر میں دیکھے جاتے ہیں۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق پنجگور اور نوشکی واقعات کے بعد وسط فروری میں ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کے ایک مقام نیک شار میں کالعدم بی ایل ایف، اور بی این اے سے وابستہ بلوچ شدت پسند کمانڈروں کا اجلاس ہوا ہے۔ اس اجلاس میں ٹی ٹی پی کی نمائندگی کمانڈر مخلص یار محسود نے کی۔ ایرانی اور بھارتی انٹیلی جنس اداروں کے لوگ بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں مشترکہ کام، باہمی رابطہ کار ی وغیرہ کے نکات پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں کوئٹہ، مضافات اور شمالی بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں کی حکمت عملی پرغور و خوض ہوا ہے۔ افغانستان کے علاقے نمروز سے بھی چند افراد شریک ہوئے جو بلوچستان کی شدت پسند تنظیموں سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ فاطمہ جناح روڈ پر فائرنگ اور بم دھماکا اس اجلاس کے بعد ہوا ہے۔ پنجگور، نوشکی سانحات کے بعد پاکستانی انٹیلی جنس اداروں پر مزید گوشے واضح ہوئے ہیں، اور کمانڈر 12کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کی انتظامی حکام کے ساتھ ایک ہمہ گیر اور طویل ملاقات کے بعد حکومتی و انتظامی نقائص اور حقائق بھی سامنے آئے ہیں، جنہیں رہنما بناتے ہوئے امن کی جانب اچھی پیش رفت کی جاسکتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کا منصب سنبھالنے کے بعد اچھے نتائج کی توقع کی جارہی ہے۔
دراصل بلوچستان کی سیاسی اتھل پتھل اور نمایاں خامیاں و کمزوریاں بھی بدامنی کی وجوہات میں سے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں یقیناً نوجوان آسانی سے بد راہ و بدظن کیے جاسکتے ہیں۔ بہرحال بلوچستان میں حکومتی بگاڑ کے تناظر میں تادیبی کارروائی بھی ہوئی ہے۔ دریں اثنا حکومتِ پاکستان درونِ خانہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ اچھی بات ہوگی کہ جلد نتیجے پر پہنچ کر امن کا راستہ نکالا جائے، ساتھ ہی بلوچ شدت پسندوں سے روابط کی اہمیت بھی پیش نظر رہے۔