’’کیا سندھ کو نئی سیاسی پارٹی کی ضرورت نہیں ہے؟‘‘

کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر کالم نگار اور دانش ور ڈاکٹر رضا محمد پہوڑ نے بروز پیر 7 مارچ 2022ء کو جس اہم موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے، یہ موضوع دراصل اہلِ سندھ میں بہت عرصے سے زیر بحث ہے۔ کالم کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’اس وقت ملک کی بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور پی ٹی آئی ہیں، لیکن بدقسمتی سے سوائے پیپلزپارٹی کے مذکورہ دونوں جماعتیں اپنی جڑیں سندھ میں مستحکم نہیں کرسکی ہیں، یا پھر یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ ان دونوں جماعتوں کو سندھ اور سندھ کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے پہلے کبھی رہی ہے۔ ان جماعتوں نے سنجیدگی کے ساتھ سندھ میں کوئی بھی کام نہیں کیا ہے جس کے نتیجے میں سندھ کے عوام نے بھی انہیں کوئی خاص پذیرائی نہیں دی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی مسلسل حکومت میں ہونے کی وجہ سے یہاں کی سرکاری مشینری پر قابض ہوگئی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ہر ضلع میں کچھ خاص وڈیروں پر مہربان ہے، جبکہ عام افراد سے اسے کسی قسم کا کوئی سروکار ہی نہیں ہے، کیوں کہ پولیس اور وڈیرہ اس کے دو اہم ہتھیار ہیں۔ ان کے ذریعے وہ عام لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ سندھ کے ساتھ ایک بڑی زیادتی یہ ہے کہ چھوٹے شہروں اور گوٹھوں میں پیپلزپارٹی پولیس کی طاقت کے ذریعے سے خوف پھیلا کر اور رعب و دبدبے سے عوام کو ہراساں کیے ہوئے ہے۔ بڑے شہروں میں ایم کیو ایم یہی کام کرتی چلی آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں ہی سندھ کے عوام کو بے وقوف بنارہی ہیں اور سندھی، مہاجر کے نام پر اہلِ سندھ کو باہم تقسیم کرکے اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں، اور اس طرح سے یہ دونوں جماعتیں نفرت کی سیاست کرکے ہی اپنے ووٹ بینک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں عام لوگ باہم منقسم اور صف آرا رہتے ہیں، اور ان کی پیدا کردہ منفی سوچ کی وجہ سے نفرت کا اثر بڑھتا رہتا ہے اور اصل مسائل مثلاً صحت، تعلیم اور امن و امان پسِ پردہ چلے جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ انہیں اس امر کا یقین ہے کہ سندھ کے عوام کے ہاں سوائے پیپلز پارٹی کے کوئی بھی متبادل نہیں ہے۔ اس لیے عوام کے ساتھ خواہ کتنی بھی زیادتیاں روا رکھی جاتی رہیں، ووٹ بالآخر پیپلز پارٹی کو ہی ملتا ہے۔
اب ہم آتے ہیں اس موضوع پر کہ اس وقت سندھ کو ایک نئی سیاسی پارٹی کی ضرورت کیوں ہے؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس وقت سندھ میں متوسط طبقے کی کوئی بھی پارٹی عوام کی نمائندگی نہیںکررہی ہے۔ سب وڈیرے، جاگیردار اور صنعت کار صرف اور صرف اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں۔ سندھ میں ایک ہی پارٹی کا غلبہ اور اجارہ داری ہونے کی بنا پر مفادات حاصل کرنے والا ٹولہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کو اپنی اولین ترجیح سمجھتا ہے، اور ان سے بھی کہیں بڑھ کر نقصان دہ اور ضرر رساں وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے ضلع، تحصیل یا تعلقہ کی سطح پر اپنی اپنی ریاستیں قائم کر ڈالی ہیں۔ مثلاً اگر ایک سیاست دان ایم این اے ہے تو اُس کا بیٹا یا بیٹی ایم پی اے ہے، اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ وہ تعلقہ اور یوسی سطح پر بھی اپنے ہی خاندان کے افراد کو عوام کے سروں پر مسلط کیے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ساری سرکاری مشینری بھی انہی کے قبضے میں آگئی ہے، اور اس سے بھی زیادہ برا اور ابتر حال یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی عزیز یا رشتے دار کسی چھوٹے بڑے سرکاری عہدے پر ہے تو پھر اس ادارے کی سیاست پر بھی وہی قبضہ جمائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ظاہری طور پر تو یہ پارٹیاں خود کو جمہوری گردانتی ہیں لیکن درحقیقت یہ خود کو شہنشاہ سمجھتے ہیں اور دراصل بن بھی گئے ہیں۔ اگر کوئی ان سے اختلافِ رائے رکھتا ہے تو پھر یہ اسے اپنا ذاتی دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ اس وقت صوبہ سندھ میں رائج اس نظام کی بدولت ایک عام فرد کی حیثیت ایک غلام سے بھی کہیں بدتر ہوچکی ہے، کیوں کہ وہ موجودہ پارٹی کو تو ووٹ دیتا ہی ہے لیکن اب اس کی آنے والی نسلوں کو بھی غلامی کرنی ہے۔
سندھ میں جو چھوٹی پارٹیاں ہیں ان کے پاس کوئی بھی واضح منشور نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ عوام کو اپنی جانب متوجہ اور مائل نہیں کرسکی ہیں۔ مثلاً دو ڈیڑھ درجن کی تعداد میں موجود قوم پرست جماعتیں بھی شخصی دائرے سے باہر نہیں نکل پائی ہیں، اور وہ بجائے کوئی قابلِ ذکر کام کرنے کے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان میں سے کسی کی جدوجہد کی کوئی سمت متعین نہیں ہے۔ اس لیے ان قوم پرست جماعتوں سے بھی کوئی زیادہ امید قائم نہیں کی جاسکتی کہ آنے والے وقت میں وہ کسی کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گی۔
اس کے علاوہ سندھ اس وقت بہت سارے اندرونی اور بیرونی مسائل سے دوچار ہے۔ مثلاً جن ذاتوں کے افراد سندھ میں رہتے ہیں وہ ایک دوسرے پر باہم تفاخر جتاتے ہیں اور دوسری قوم یا قبیلے کے افراد کو خود سے فروتر اور کم تر سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ اس لیے بہت سارے فتنے اور فسادات بھی یہیں سے جنم لیتے ہیں، جس کی وجہ سے سندھ کی اجتماعی ترقی اور فلاح کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اور آج سندھ کا تقریباً ہر فرد ہی اپنی ذاتی ترقی کو ترجیح دینے میں لگا ہوا ہے۔ اس کا سارا فائدہ اغیار کو پہنچ رہاہے اور ہم بحیثیتِ مجموعی سیاسی اور سماجی لحاظ سے دن بہ دن روبہ زوال ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں جو اکھاڑ پچھاڑ اور سرگرمیاں ہورہی ہیں، ان میں سندھ کے عوام کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے (معلوم نہیں اس موقع پر فاضل کالم نگار پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف منعقدہ لانگ مارچ اور اس میں اہلِ سندھ کی شرکت کے تذکرے کو کیوں اور کس لیے فراموش کرگئے ہیں؟ مترجم)
اب آتے ہیں اس موضوع پر کہ نئی سیاسی جماعت کا ظہور کیسے ہو؟ اور اس کی بنیاد کس طرح سے پڑے؟ یہ نئی سیاسی پارٹی فرقہ، رنگ و نسل اور قبیلے سے بالاتر ہو۔ سندھ میں رہنے والی تمام ذاتوں اور قبائل میں ہم آہنگی پیدا کرے۔ پارٹی کی سوچ مکمل طور پر جمہوری خطوط پر استوار ہونی چاہیے، جس میں اس کے ہر رکن کو اظہارِ رائے کی کامل آزادی ہو، اور اس کے رہنمائوں کو ایک محدود وقت کے لیے چنا جائے، اور ہر پارٹی رکن کو شخصی آزادی حاصل ہو، اور یہ نئی مجوزہ زیر بحث سیاسی جماعت شخصیت پرستی سے بھی پوری طرح سے پاک ہونی چاہیے، کیوں کہ شخصیت پرستی ہی اصل میں تمام تر برائیوں کی جڑ ہے (برسبل تذکرہ، جماعت اسلامی متوسط طبقے کی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ کالم نگار کی بیان کردہ بیشتر خصوصیات کی حامل ایک منفرد اور بے مثال جماعت ہے، مترجم)۔
لیڈر کا انتخاب میرٹ پر ہونا چاہیے، اور اس کی میعاد چار برس مقرر کی جائے۔ لیڈر کو اپنا پروگرام جامع انداز میں پیش کرنا چاہیے کہ وہ کس طرح سے پارٹی کی قیادت کرے گا
اور اس کے کون سے مقاصد ہوں گے، اور اگر وہ اپنے مقاصد کے حصول میںکامیاب نہیں ہوسکا تو اسے اپنی لیڈرشپ سے خود ہی دست بردار ہونا پڑے گا تاکہ کوئی اور آگے بڑھ کر اس مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچاسکے۔
اس پارٹی کا مقصد عوام میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے حقوق سے آگاہ کرنا، اور حقوق حاصل کرنے کے لیے نہ صرف ترغیب دلانا بلکہ اس حوالے سے ان کی جائز مدد کرنا بھی شامل ہونا چاہیے، مثلاً ہمارے ہاں اگر کوئی سیاست دان کسی علاقے میں کوئی ترقیاتی کام کراتا ہے تو اہلِ علاقہ اسے خود پر احسان سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ بات سمجھانی پڑے گی کہ یہ سارا ترقیاتی کام دراصل انہی کے پیسوں سے ہورہاہے، جو رقم انہوں نے ٹیکس کی صورت میں ادا کی تھی وہی رقم اب انہی پر خرچ کی جارہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تعلیم اور شعور کم ہونے کی وجہ سے یہ سیاست دان عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ گویا انہوں نے اپنی جیبِ خاص سے یہ ترقیاتی کام کروایا ہے۔‘‘