پاکستان کا سیاسی ماحول شدید ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے سازشی افسانے اور سیاسی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں، لمحہ بہ لمحہ صورت حال تبدیل ہورہی ہے، ہر کوئی اپنی اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے درپے ہے۔ اب ایک طرف تو انتخابات اور دوسری جانب ایک دنگا فساد کا ماحول نظر آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ حکومت کی تبدیلی کا باعث بن جائے، تاہم سارا انحصار عدم اعتماد کی تحریک کے نتائج پر ہے۔ اس رائے شماری کا نتیجہ اگلے دو ہفتوں میں واضح ہوجائے گا جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری ہوگی۔ وزیراعظم کی ٹیم اس بات پر اصرار کررہی ہے کہ عمران خان کو ہٹانے کی مہم ایک غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی نے بین الاقوامی سطح پر اہمیت اختیار کی ہے اور وزیراعظم نے چند سخت فیصلے کیے۔ اس کے برعکس کچھ اور بھی خارجی اور سیکورٹی پالیسی سے جڑے معاملات ہیں جن کو ملا کر ایک ایسی داستان کہی جا سکتی ہے جو سازش نما حالات کی عکاسی کرسکتی ہے۔ مثلاً کشمیر، بھارت، فلسطین، یوکرین اور روس کے معاملات پر اپنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے عمران خان کے خلاف کچھ مغربی دارالحکومتوں میں ناراضی موجود ہے۔ یورپی یونین کے سفیروں کے ایک خط کے جواب میں کہ پاکستان یوکرین کے معاملے پر روس کی مذمت کرے، اپنے جلسے میں عمران خان کا یہ کہنا کہ کیا پاکستان ان کا غلام ہے اور کیا انہوں نے بھارت کو بھی خط لکھ کر بھارت کی کشمیر پالیسی پر کچھ کہا؟یہ بیان کوئی پالیسی ڈیزاسٹر نہیں کہ اس سے پاکستان کی یورپی اتحاد سے متعلق پالیسی کو نقصان پہنچے یا دوطرفہ تجارت پر منفی اثر پڑے۔ تاہم وزیراعظم کے بیان کے خلاف شور وغل انتہا کی پچ پر تھا۔ حقائق یہ ہیں کہ اس بیان پر ردعمل سفارت کاری یا خارجہ پالیسی کی حقیقت کے بارے میں نہیں تھا بلکہ یہ ملکی سیاست کی موجودہ حالت کے بارے میں تھا۔ یہ حقیقت بھی صرف ِنظر نہیں ہونی چاہیے کہ غیر ملکی سفارت کاروں کی اکثر و بیشتر سپہ سالار سے ملاقاتیں رہتی ہیں، وہ ان ملاقاتوں میں عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت اور ترجیحات کو سمجھتے ہیں۔ حقائق کو گڈمڈ کرکے بات یہ بنائی گئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش میں کچھ ممالک عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے میں شریک ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک اپوزیشن نے پیش کی ہے کیوں کہ اُس کا خیال ہے کہ اندرونی حالات کی وجہ سے عمران خان کو ہٹانے کا موقع موجود ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک اس لیے بھی آئی کہ حکومت کے لیے جہاں ماضی میں اعتماد تھا اب وہاں بھی عدم اعتماد ہے، ہوا کا رخ تبدیل ہورہا ہے۔ کیا ہوا کے رخ کی اس تبدیلی کا ووٹ پر اثر ہوگا؟ یہ صورت حال پاکستان میں سیاست اور طاقت کی جنگ کا ایک اور باب ہے۔ چونکہ آئینی لحاظ سے انتخابات قریب ہیں اور اِس مرتبہ شراکت کار اور بھی ہیں، صرف عمران خان ہی نہیں، لہٰذا مستقبل کی صف بندی کا کھیل ہے۔ بلاول کا لانگ مارچ اسلام آباد میں دھرنا دیے بغیر پتّوں پر پڑی اوس کی طرح غائب ہوگیا، مولانا فضل الرحمٰن کا لانگ مارچ23 مارچ کو چلے گا اور اگلے روز اسلام آباد پہنچے گا، اور عدم اعتماد کی تحریک تک یہیں رہے گا۔ لہٰذا سب کچھ سامنے ہے۔
اب پورا ملک عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ سننے کوبے تاب ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی قرارداد کے لیے ایک تحریک جمع ہوچکی ہے، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے اس پر دستخطوں کی تصدیق بھی کرلی ہے اور یوں معاملہ اجلاس بلانے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی بھجوا دیا گیا ہے۔ اب اجلاس بلانا باقی رہ گیا ہے، جہاں حکومت اور اپوزیشن کو اپنے اپنے دعووں کو سچ ثابت کرنا ہے کہ 172 کس کے ساتھ ہیں۔
متحدہ اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد سے پیدا ہونے والی صورت حال ابھی تک فریقین کے متضاد دعووں تک محدود ہے، تاہم اپوزیشن مطمئن ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکومت جن گروپوں پر انحصار کررہی ہے یہی گروپ اپوزیشن کے ساتھ بھی بات چیت کررہے ہیں، تاہم رائے شماری کے وقت اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا ووٹ ہی فیصلہ کن ثابت ہوگا، اور تحریک انصاف کے ناراض ارکان عدم اعتماد کی تحریک کے حق یا مخالفت میں برتری دلانے کا باعث بنیں گے۔ اپوزیشن کے جوڑ توڑ میں چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنائے جانے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی جانب سے ایم کیو ایم کے مطالبات تسلیم کیے جانے کی اطلاعات مل رہی ہیں، تاہم پنجاب میں ترین گروپ کی حمزہ شہبازشریف سے ملاقات بھی کم اہمیت کی حامل نہیں۔ ترین گروپ اگر مسلم لیگ(ن) سے جاملتا ہے تو مسلم لیگ(ن) پنجاب اسمبلی میں ترین گروپ کے امیدوار کی حمایت کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ(ق) بھی پُرامید ہے، چودھری پرویزالٰہی کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور بی اے پی تینوں ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور ہم اپنا فیصلہ بھی کرچکے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کی حالیہ ملاقاتیں اس بات کا عندیہ ہیں کہ دونوں بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اس جنگ میں اتحادی اپنا سیاسی فائدہ تلاش کررہے ہیں۔ اس کھیل کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین مسلم لیگ(ن)کے ساتھ بھی تعلقات کی بحالی کے خواہش مند ہیں، مگرمسلم لیگ(ن) نے فیصلے کا اختیار نوازشریف کو دے دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ اپنے لیے وہ تمام سیاسی نعمتیں اور رعایت مانگ رہی ہے جو اس سے چھن گئی تھیں، ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی سے ہونے والی اپنی بات چیت کی ضمانت جے یو آئی اور مسلم لیگ(ن) سے مانگی ہے، جب کہ مسلم لیگ(ق) کو پیپلزپارٹی نے ضمانت دی ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں وعدہ ایفا کریں گی۔ بلوچستان میں اِن ہائوس تبدیلی کے بارے میں سردار یار محمد رند کا الزام ہے کہ وہاں تبدیلی تین سو کروڑ میں آئی، لازم ہے کہ اس الزام کا قانونی جائزہ لیا جائے، یہ معاملہ سادہ نہیں بلکہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
اب تک کا منظرنامہ یہی ہے کہ رابطے اور ملاقاتیں ہورہی ہیں اور حتمی فیصلوں کا اعلان نہ ہونے کے باعث ابہام کی گرد اڑی ہوئی ہے، تاہم تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کا اطمینان بتارہا ہے کہ اس کی گنتی پوری ہے۔ اپوزیشن کا ٹارگٹ 172 ارکان نہیں بلکہ وہ تعداد 200 تک پہنچانا چاہتی ہے تاکہ کوئی ابہام ہی نہ رہے۔ تحریک انصاف آرٹیکل 63 کا حوالہ دے رہی ہے، اور فیصلہ کیے بیٹھی ہے کہ وہ اپنے پارٹی ایم این ایز کو کسی صورت عدم اعتماد کے حق میں ووٹ نہیں ڈالنے دے گی جس کے لیے ریاستی طاقت بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ اپوزیشن بھی اپنی حکمت عملی لمحہ بہ لمحہ تبدیل کررہی ہے۔ تحریک انصاف کے وہ تمام ارکان جو اگلے عام انتخابات میں اس کا ٹکٹ نہیں لینا چاہتے، اپنا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں۔ عدم اعتماد کی قرارداد کے حق یا مخالفت میں ووٹ دینا ان کا آئینی حق ہے، تاہم اتحادی اور ناراض ارکان کا حتمی فیصلہ ایک ہی ہونے کا امکان ہے۔ جہاں تک ایسے ناراض ارکان کو ووٹ دیے جانے پر نوٹس جاری کرنے کا معاملہ ہے تو یہ ایک طویل قانونی مرحلہ ہے جس میں کم از کم چار ماہ کا وقت درکار ہے، اور عدم اعتماد کے بعد تو ملک میں انتخابی ماحول ہوگا اور یہ قانونی مرحلہ بہت پیچھے رہ جائے گا۔
تحریک عدم اعتماد صرف عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے نہیں لائی گئی بلکہ اس کا ہدف اگلے انتخابات کی تیاری، رواں سال نومبر سے پہلے ملک میں ایک اہم عہدے پر تقرری یا توسیع، اور اگلے سیاسی سیٹ اَپ کا منظرنامہ تیار کرنا بھی ہے۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ تحریک عدم اعتماد آئی تو وفاق میں ہے لیکن اس کے آفٹر شاکس پنجاب میں پڑ رہے ہیں، یہاں حکمران جماعت میں بغاوت کا سماں ہے، کئی گروپ سر اٹھا رہے ہیں اور وقت سے پہلے ہی تبدیلی آئی ہوئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی، ناکام ہوگئی تو سیاسی بحران گہرا ہوجائے گا۔ اسی لیے کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جارہا ہے۔ حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ تحریک واپس لیے جانے کی صورت میں ہم کچھ دے سکتے ہیں۔ بہرحال حکومت کی اس پیش کش پر کوئی حتمی بات رواں ہفتے سامنے آجائے گی۔ تحریک عدم اعتماد دراصل ایک آئینی اور جمہوری عمل ہے، اسپیکر غیر جانب دار رہ کر یہ عمل خوش اسلوبی سے مکمل کرا سکتے ہیں، اگر تصادم ہوا تو اس سے صرف حکومت کو نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کو نقصان پہنچے گا۔ آئین کے اندر رہ کر جمہوری حق استعمال کیا گیا تو سیاسی نظام بچ سکتا ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد سیاسی منڈی میں حکومت کے ناراض ارکان اور اتحادیوں کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے پیش نظر یہ واضح ہے کہ اگر چار میں سے کوئی دو اتحادی حکمران اتحاد چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وزیراعظم عمران خان 342 رکنی ایوان میں اکثریت کھو دیں گے۔ ایوان کے 17 اراکین کا تعلق اتحادی جماعتوں سے ہے اور قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان 17 ارکان کا فرق ہے، یہ17 ارکان کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں گے اس کا فیصلہ اسمبلی میں ہی ہوگا۔ یہ بات طے پاچکی ہے کہ عدم اعتماد پر رائے شماری 23 مارچ کے بعد ہوگی اور ممکنہ طور پر یہ تاریخ 28 یا 29 مارچ ہوسکتی ہے، وزیراعظم کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے اور پی ٹی آئی کور کمیٹی کو بھی ہدف دے دیا گیا ہے۔ عدم اعتماد کی قرارداد پر رائے شماری کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل حکومت مسلم لیگ(ق)، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی سے حتمی ملاقات کرنا چاہتی ہے، ان ملاقاتوں کے نتائج ہی حالات کا رخ طے کریں گے۔ عدم اعتماد کی تحریک کا آئینی اور جمہوری مقابلہ کرنا ہے تو میدان قومی اسمبلی کے اندر سجے گا، سیاسی مقابلہ کرنا ہے تو میدان اسلام آباد ڈی چوک میں سجے گا اور دونوں فیصلوں کے الگ الگ نتائج ہوں گے۔ وزیراعظم کور کمیٹی کے فیصلے کے بعد وزراء کو ٹاسک سونپ چکے ہیں، تحریک انصاف پُرامید بھی ہے کہ اس کے نمبر پورے ہیں، تاہم اتحادی بکھر گئے تو حکومت کا کھیل ختم ہوجائے گا۔ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لیے حزب اختلاف کا سارا انحصار اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کے منحرف ارکان پر ہے، حکومت نے بھی حکمت عملی بنائی ہے کہ وہ اپنے ارکان پر دبائو بڑھانے کے لیے عدم اعتماد کی قرارداد پر رائے شماری کے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ایک بڑا جلسہ کرے گی، اس نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی منحرف رکن کو ووٹ ہی نہ ڈالنے دیا جائے، تاہم یہ طے شدہ اصول ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ایک آئینی اور جمہوری طریقہ ہے، لیکن اراکین کو پارلیمنٹ میں داخلے سے روکنا غیر جمہوری اور غیر دستوری رویہ سمجھا جائے گا۔ اب یہاں اسپیکر کا کردار نظر آنا چاہیے۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اُس وقت کے اسپیکر ملک معراج خالد نے آئینی کردار ادا کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کو آئین اور اسمبلی کی حدود کے اندر رکھا تھا۔ جس طرح حکومت سوچ رہی ہے اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ معاملات پر اُس کی گرفت نہیں رہی۔ حکومت کو وفاق کے علاوہ پنجاب میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے پنجاب سے متعلق فیصلہ کرلیا تو وفاق میں اسے رعایت مل سکتی ہے۔
حزب اختلاف کا کیمپ اور پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی جماعتیں بھی چاہتی ہیں کہ ملک میں قبل از وقت عام انتخابات ہوجائیں جو مسئلے کا حل ہیں، اسی لیے حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد کی حد تک نہیں بلکہ آئندہ انتخابات تک دیکھ رہی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے، پارلیمنٹ لاجز میں پیش آنے والا واقعہ ایک عکس تھا۔ تحریک انصاف اسلام آباد میں دس لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔ اصل فیصلہ سڑکوں پر نہیں بلکہ قومی اسمبلی کے اندر ہونا چاہیے۔ حکومت اس کھوج میں ہے کہ کون کس سے مل رہا ہے؟ تحریک انصاف کے اپنے ٹکٹ پر اسمبلی میں آنے والے ارکان نہ ٹوٹے تو عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتی، تاہم سرگودھا، فیصل آباد، بھکر، وہاڑی، ملتان اور جھنگ سے اس کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد اپوزیشن کا ساتھ دینے کو تیار ہے، یہ سب وہ ہیں جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے یا آزاد حیثیت سے منتخب ہونے کے بعد تحریک انصاف کے ساتھ جاملے تھے۔ حکومت ان سب پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اپوزیشن اتحاد کی حکمت عملی یہ ہے کہ رابطوں کے قدم بھی بڑھتے رہیں اور کھوجی کو کھرا بھی نہ ملے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 179 ممبر ہیں، جس طرح سڑکوں پر معاملات لانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اس سے ایک بات واضح ہوچکی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو یا ناکام… اصل مسئلہ نوجوان نسل کا بھی ہے جسے سیاسی طرزعمل سے دلیل اور کارکردگی کے بجائے رومان، نفرت اور جنون کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات کو کشیدگی کی اس حد تک نہ لے جائیں کہ انہیں سنبھالنا مشکل ہوجائے۔ سیاست میں اتنی تلخی مناسب نہیں ہوتی کہ آپس میں گفتگو ہی مشکل ہوجائے۔ لیکن عمران خان کے اسلوب ِگفتگو سے یہ تاثر پختہ تر ہوتا جا رہا ہے کہ ہیجان، نفرت اور تلخی کو انہوں نے اپنی حکمت عملی کے طور پر چن رکھا ہے۔’’ عوامی مقبولیت‘‘کی سیاست کا یہی المیہ ہوتا ہے کہ وہ شعور اور دلیل کے بجائے نفرت اور جنون کو اپنا مخاطب بناتی ہے۔جو حالات بن رہے ہیںاُن میں ہلکی سی چنگاری بھی شعلہ بن سکتی ہے۔ اپوزیشن سے زیادہ وزیراعظم عمران خان پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ورنہ کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔