روس یوکرین جنگ اور توانائی کا بحران

مشرقی یورپ کی خونریزی تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے، اور اس کے جلد ختم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ صدر پیوٹن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ یوکرین کے ہتھیار ڈالنے تک فوجی کارروائی جاری رہے گی، جبکہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے لیے ہتھیار ڈالنے کا تصور ہی ناقابلِ قبول ہے۔ اس جنگ کا انجام کیا ہوگا اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن غیر جانب دار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یوکرین کے افغانستان بننے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ یوکرینیوں کی غیر متوقع مزاحمت پر خود کریملن کو بھی حیرت ہے۔
روسی بمباری میں شدت کے باوجود میدانِ جنگ میں وسعت کا امکان فی الحال کم ہے کہ یوکرینی صدر کی متعدد جذباتی درخواستوں کے باوجود امریکہ اور نیٹو اس جنگ میں براہِ راست ملوث ہونے کو تیار نہیں۔ ہم نے جان کر امکان صفر کے بجائے ”کم“ لکھا ہے کہ روسی صدر پیوٹن کے خیال میں یوکرین کو اسلحے کی فراہمی بھی جنگ میں براہِ راست شرکت ہے، اور 12 مارچ کو روسی وزارتِ دفاع نے صاف صاف کہا کہ وہ پولینڈ سے اسلحہ لے کر یوکرین آنے والے قافلوں کو عسکری ہدف سمجھتے ہیں۔ اسی شام روسی بمباروں نے مغربی یوکرین کے شہر لویو (Lviv)کے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جس میں یوکرینی وزارتِ دفاع کے مطابق کئی غیر ملکی تربیت کاروں (انسٹرکٹر) سمیت 35 افراد ہلاک ہوگئے۔ یاوورِو (Yavoriv)نامی سوویت دور کا یہ اڈہ پولینڈ کی سرحد پر ہے۔ روس کا دعویٰ ہے کہ یاوورو نیٹو سے آنے والے اسلحے کا ابتدائی پڑائو ہے۔
اب تک مشرقی و شمالی یوکرین روسی بمباری کا ہدف تھے لیکن یاوورِو پر حملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیٹو سے آنے والی کمک کا راستہ روکنے کے لیے روسی فضائیہ اپنی کارروائی کا دائرہ یوکرین کے مغرب میں نیٹو ممالک کی سرحد تک بڑھا رہی ہے۔ اگر نیٹو سے مدد کا یہ راستہ مسدود ہوگیا تو یوکرین کے لیے مزاحمت بہت مشکل ہوجائے گی۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ روس کی اس نئی حکمت عملی پر نیٹو کا ردعمل کیا ہوگا، اور اس خطرے کے سدباب کے لیے چچا سام اور اُن کے اتحادی کیا جوابی چال چلیں گے؟
لڑائی کا حتمی انجام کیا ہوگا اس کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا ممکن نہیں، لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد براعظم یورپ میں لڑی جانے والی اس پہلی جنگ کے منفی اثرات ساری دنیا میں محسوس کیے جارہے ہیں۔ خاص طور سے غریب ممالک کا برا حال ہے۔ لبنان، شام اور یمن کا دار و مداد یوکرینی گندم، جو، مکئی اور خوردنی تیل پر ہے۔ بنیادی غذائی اجناس کی فراہمی معطل ہوجانے سے لاکھوں لوگ نانِ شبینہ سے محروم ہوگئے ہیں۔ مصر، ترکی اور بنگلہ دیش بھی ”دانوں“ کی طرف سے اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہیں۔ ترکی میں روٹی کے نرخ دگنے ہوگئے اور دیہاتوں میں نانبائیوں کی دکانوں پر قطاریں نظر آرہی ہیں۔
اسی کے ساتھ دنیا بھر میں توانائی کے دام بھی آسمان کو چھو رہے ہیں۔ اولادِ آدم کی بدنصیبی کہ ایک عرصے تک COVID 19المعروف کورونا نے حیات اور اسبابِ حیات کو غارت کیا، اور جب اس نامراد سے نجات کا امکان پیدا ہوا تو مشرقی یورپ میں خون کی اس ہولی نے ادھ موئی انسانیت کو توانائی اور غذائی بحران میں مبتلا کردیا۔ اس جنگ کے انجام اور ممکنہ غذائی بحران پر گفتگو اِن شااللہ پھر کسی نشست میں۔ آج ہم اس ”انسانی وحشت“ کے، تیل کی تجارت و سیاست پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیں گے۔
یہ بات بہت عرصے سے کہی جارہی تھی کہ اگر روس اور یوکرین کے درمیان لڑائی چھڑگئی تو مہنگی توانائی کی صورت میں ساری دنیا کو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ فروری کے وسط میں جب کشیدگی اپنے عروج کو پہنچی، اُس وقت یہ بات واضح تھی کہ نیٹو جارحیت کے جواب میں روس پیٹ پر حملہ کرے گا۔ صدر جوبائیڈن اور یورپ کے زعما بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہہ چکے تھے کہ حملے کی صورت میں براہِ راست میدان سجانے کے بجائے پابندیاں لگا کر روسی معیشت کا گلا گھونٹا جائے گا۔
اس محاذ پر کریملن کو شدید آزمائش کا سامنا ہے۔ روسی وزارتِ خزانہ کے مطابق پابندیوں سے ساری دنیا میں پھیلے 300 ارب ڈالر کے روسی اثاثے منجمد ہیں۔ معاشی میدان میں نیٹو کا ہدف روسی تیل اور گیس ہے۔ دنیا میں تیل اور گیس کی پیداوار کا 30 فیصد حصہ امریکہ، روس اور سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے۔ ماہ بہ ماہ معمولی کمی و بیشی کے ساتھ ان تینوں ملکوں کی پیداوار تقریباً برابر ہے اور اوسطاً ہر ملک اپنے کنووں سے ایک کروڑ بیرل تیل یومیہ نکالتا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کی پیداوار ایک کروڑ ساڑھے گیارہ لاکھ اور روس کی ایک کروڑ دس لاکھ بیرل بتائی جارہی ہے، جبکہ سعودی عرب کی پیداوار 95 لاکھ سے ایک کروڑ پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ دلچسپ بات کہ تیل کی عالمی پیداوار میں امریکہ بہادر کا حصہ دس فیصد ہے لیکن چچا سام دنیا سے حاصل ہونے والے تیل اور گیس کے مجموعی حجم کا 20 فیصد روزانہ پھونک ڈالتے ہیں۔
تیل اور گیس کی روسی برآمدات کا تخمینہ 47 لاکھ بیرل روزانہ ہے جس میں سے 25 لاکھ بیرل یورپ کو فراہم کیا جاتا ہے جو یورپی ضرورت کا چالیس فیصد ہے۔ پولینڈ، ہنگری، فن لینڈ، مالدووا اور چیکو سلاواکیہ (سلاوانیہ اور چیک ریپبلک) کی 70 سے 80 فیصد ضرورت روسی تیل اور گیس سے پوری ہوتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب تیل اور گیس کی بات ہوتی ہے تو اس کا ذکر بیرل میں کیا جاتا ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ بیرل مائع کو ناپنے کا پیمانہ ہے جبکہ گیس کی پیمائش حجم یا حرارت کے معیار (Thermal)پر ہوتی ہے، لیکن تجزیاتی آسانی کے لیے تیل اور گیس کے مجموعی حجم کو ”تیل کے مساوی“ کی شرح سے فی بیرل Oil Equivalent میں پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی آج جب ہم روسی توانائی کا ذکر کررہے ہیں تو اعدادوشمار میں تیل اور گیس کی مجموعی مقدار بیرل کی شکل میں پیش کی جائے گی۔
جنگ سے پہلے یہ تاثر عام تھا کہ جیسے ہی یوکرین پر حملہ ہوا، روس سے جرمنی آنے والی گیس پائپ لائن بند کردی جائے گی۔ اس ضمن میں قطر، ناروے، آذربائیجان اور الجزائر سمیت کئی گیس فراہم کنندگان سے بات بھی کی گئی۔ روس پر پابندی کی صورت میں فراہمی کی ضمانت دینے قطر کے امیر بنفسِ نفیس واشنگٹن تشریف لائے۔ لیکن حملے کے بعد بھی یورپ کو روسی گیس کی فراہمی جاری ہے، تاہم گیس کی اضافی پائپ لائن Nord Stream 2 پر کام روک دیا گیا ہے۔ روس سے جرمنی آنے والی 48 انچ قطر کی 1222 کلومیٹر طویل اس پائپ لائن سے 55 ارب مکعب میٹر گیس سالانہ فراہم کی جاسکتی ہے۔ دھمکیوں کے باوجود یورپی یونین نے یورپ کو روسی گیس کے بہائو پر کوئی پابندی نہیں لگائی، بس اضافی پائپ لائن پر کام رکوا دیا جس سے گیس کی آمد شروع ہی نہیں ہوئی۔ کریملن کے لیے اصل دردِ سر فروخت شدہ گیس کی قیمت کی وصولی ہے۔ روسی بینکوں پر پابندی کی وجہ سے خریدار ادائیگی نہیں کرسکتے۔
جنگ شروع ہوتے ہی تیل کی قیمتوں میں بھاری اضافہ دیکھا گیا، لیکن جب اصل صورت حال سامنے آئی تو قیمتیں نیچے آنا شروع ہوگئیں۔ گزشتہ ہفتے امریکی صدر بائیڈن نے امریکہ آنے والے روسی تیل پر پابندی لگادی اور اس اعلان پر تیل کی قیمتیں ایک دم 14 ڈالر فی بیرل بڑھ گئیں۔ مالِ تجارت (Commodities) کی قیمتوں میں ”خبروں“ کی بنیاد پر اس غیر معمولی اتار چڑھائو کو Headlines Effect کہا جاتا ہے۔ عام طور سے صورت حال واضح ہوتے ہی قیمتوں میں استحکام آجاتا ہے۔ چنانچہ اِس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ جب دوسرے دن یہ بات سامنے آئی کہ روس سے امریکہ آنے والے روسی تیل کی مقدار صرف 6 لاکھ بیرل روزانہ ہے جو کُل امریکی ضرورت کے تین فیصد سے بھی کم ہے تو قیمتوں میں گراوٹ شروع ہوگئی۔
اسی کے ساتھ کچھ مزید خبروں نے تیل کی قیمتوں پر دبائو کو مزید بڑھادیا۔ پہلی غیر مصدقہ مثبت خبر یہ تھی کہ صدر بائیڈن وینزویلا کے تیل پر سے پابندیاں ختم کررہے ہیں۔ وینزویلا کے صدارتی انتخاب میں امریکی منظورِ نظر امیدوار کی شکست پر صدر ٹرمپ نے دھاندلی کا الزام لگایا اور گزشتہ سال جولائی میں وینزویلا سے تیل کی برآمدات پر پابندی لگادی گئی۔ اس بندش کے خاتمے کو اس بات سے تقویت ملی کہ وینزویلا نے اُن دو امریکیوں کو رہا کردیا جو کئی سال سے جاسوسی اور فراڈ کے الزام میں نظربند تھے۔
دوسری خبر ایران جوہری معاہدے برجام یا JCPOA میں امریکہ کی واپسی کے بارے میں تھی۔ اس معاہدے پر 2016ء سے عمل درآمد شروع ہوا تھا جس کے مطابق ایران نے جوہری ہتھیار نہ بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے اس کی تصدیق کے لیے عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کو اپنی تنصیبات کے معائنے کی غیر مشروط اجازت دی تھی۔ اس معاہدے پر سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان کے ساتھ جرمنی نے دستخط کیے تھے، اسی لیے برجام کو 5 plus oneبھی کہتے ہیں۔ معاہدے کے بعد ایران پر سے تمام پابندیاں ختم کردی گئی تھیں، لیکن دو سال قبل صدر ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے نکال کر ایران پر دوبارہ پابندیاں لگادیں۔ خبروں کے مطابق طویل مذاکرات کے بعد امریکہ JCPOAکا حصہ بننے اور ایران پر سے پابندیاں ختم کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔
ایک اور خبر کچھ اس طرح تھی کہ لیبیا میں تیل کے ایک بڑے میدان الفیل کو دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑا کر اس میدان سے تیل کی برآمدات بحال کردی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور کویت نے کہا ہے کہ وہ اوپیک کے مقررہ کوٹے سے زیادہ تیل بازار میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف عالمی توانائی ایجنسی (IEA) نے اعلان کیا کہ تیل کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے امریکہ تیل کے تزویراتی (Strategic)ذخیرے سے 3 کروڑ بیرل بازار میں لارہا ہے۔ اسی کے ساتھ یورپی ممالک نے بھی اس مہم میں حصہ لیتے ہوئے اپنے ذخائر سے مجموعی طور پر تین کروڑ بیرل جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان خبروں سے قیمتوں میں استحکام پیدا ہوا اور ایک ہفتہ قبل 130 ڈالر فی بیرل فروخت ہونے والے تیل کی قیمت اب 107 ڈالر کے نشان سے نیچے آچکی ہے۔
یہ قیمت بھی تیل درآمد کرنے والے ممالک کے لیے بہت زیادہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں صرف ایک ڈالر فی بیرل اضافے سے ہندوستان کے درآمدی اخراجات 12 کروڑ ڈالر ماہانہ بڑھ جاتے ہیں، جبکہ پاکستان کو تیل کی درآمد کے لیے ماہانہ ایک کروڑ پینتیس لاکھ ڈالر اضافی خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ قیمتی زرمبادلہ پر اس دبائو سے ملکی کرنسی کی قدر بھی متاثر ہوتی ہے۔
یورپ اور امریکہ کی جانب سے تیل کی خریداری رک جانے سے 16 لاکھ بیرل روسی تیل بازار میں آگیا ہے اور ساری دنیا کے آڑھتی اس کے لیے گاہک تلاش کررہے ہیں۔ وینزویلا اپنے آٹھ سے دس لاکھ بیرل تیل کے لیے گاہک ڈھونڈ رہا ہے، اور ایران پر سے پابندیاں ختم ہوگئیں تو پندرہ لاکھ بیرل ایرانی تیل بھی بازار میں ہوگا۔ اس تجزیے سے ہمارے قارئین کو یقیناً کچھ راحت محسوس ہورہی ہوگی جن کے گھریلو بجٹ کا بڑا حصہ بجلی اور گیس کے بلوں اور پیٹرول پمپوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ تاہم اچھی و مثبت صورت گری کے ساتھ ایک خدشے کا ذکر بھی سن لیجیے۔
روسی نائب وزیراعظم دیمتری گریگورینکو(Dmitry Grigorenko) نے امریکہ اور یورپ کی جانب سے روسی تیل کے بائیکاٹ پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر تیل بطور ہتھیار ہمارے خلاف استعمال ہوتا رہا تو گیس بند کرکے ہم بھی یورپ کو تاریکی میں دھکیل سکتے ہیں۔ ماہرین نے فاضل نائب وزیراعظم کے اس ارشادِ عالیہ کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی کہ اس وقت جبکہ 16 لاکھ بیرل تیل پہلے ہی فالتو پڑاہوا ہے، یورپی گیس پائپ لائن بند کرکے 25 لاکھ بیرل مزید تیل (Oil Equivalent) کو کہاں ٹھکانے لگایا جائے گا، یعنی یورپ کو روسی گیس کی بندش کی کوئی تُک نہیں۔ لیکن دنیا پر قبضے کا خناس جب سر میں سماجائے تو منطق، عقل اور دلیل و برہان کا کیا ذکر…؟
………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاورٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔