اینجلیا راسکن یونیورسٹی (اے آر یو) کے ماہرین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکرین دیکھنے میں زائد وقت گزارنے والے بچے نظر کی کمزوری، توجہ میں کمی اور موٹاپے کا شکار ہوسکتے ہیں اور ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں اے آر یو کے ماہرین نے پوری دنیا میں ہونے والی تحقیق کا جائزہ یا میٹا ریویو کیا ہے۔ ان کے مطابق کورونا وبا میں اس کا آغاز ہوا اور اب یہ حال ہے کہ بچے روزانہ دو گھنٹے اسکرین دیکھنے کی حد پھلانگ چکے ہیں۔ پوری دنیا میں بچے کہیں تین اور کہیں چار چار گھںٹے موبائل فون دیکھتے رہتے ہیں۔
سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ دو سال تک کے بچے کے سامنے موبائل اسکرین کی شدید ممانعت ہے لیکن وہ بھی اس کیفیت سے دور نہیں۔ ایک ملک تیونس میں تحقیق کے مطابق 5 سے 12 برس تک کے بچوں میں اسکرین ٹائم کا وقت 111 فیصد بڑھ چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق فون اور ٹیبلٹ سے آنکھوں کی خشکی بڑھ رہی ہے، ان میں سرخی اور تناؤ بڑھتا ہے۔ لیکن سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ دونوں آنکھوں کے عکس ملاکر ایک منظر دکھانے کی دماغی کیفیت متاثر ہورہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بلوغت تک پہنچنے والے بچے ایک وقت میں ایک سے زائد آلات استعمال کررہے ہیں۔ وہ ٹی وی دیکھتے وقت بھی فون یا ٹیبلٹ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس سے بصارت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سرگرمی ختم ہورہی ہے اور بچے دیر تک ایک ہی جگہ بیٹھنے سے موٹاپے اور دیگر امراض کے شکار بن رہے ہیں۔
سائنس دانوں نے والدین اور اساتذہ سے کہا ہے کہ وہ کسی طرح بچوں میں اسکرین ٹائم کم کریں اور انہیں ورزش اور جسمانی سرگرمی کی جانب راغب کریں۔