ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اعلائے کلمۃ اللہ کو اپنا مقصدِ زندگی قرار دے لیں۔ یہ مقصد جماعت کا مقصد نہیں، آپ کا اپنا ذاتی مقصدِ زندگی ہو۔ بسا اوقات آدمی اسے جماعت کا مقصدِ زندگی سمجھتا ہے اور اس وجہ سے ایسا کبھی ہوسکتا ہے کہ آدمی جماعت کے لیے کام کرتے ہوئے یہ سمجھنے لگ جائے کہ وہ جماعت پر کوئی احسان کررہا ہے اور جماعت کو کچھ دے رہا ہے۔ حالانکہ اگر وہ اس کا اپنا مقصدِ زندگی ہو تو اس کے ذہن میں کبھی یہ خیال بھی نہیں آسکتا کہ میں جماعت پر کوئی احسان کررہا ہوں یا اس کو کچھ دے رہا ہوں۔ وہ یہ محسوس کرے گا کہ یہ میرا کام ہے۔ جماعت نہ ہو، تب بھی مجھے کرنا تھا اور جماعت نہ رہی تب بھی مجھے کرنا ہے۔ کیونکہ یہ میرا مقصدِ زندگی ہے۔
یہ چیز نہایت اہم ہے۔ اس کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ جس وقت تک آدمی اس مقصد کو اپنا مقصدِ زندگی نہیں قرار دیتا، وہ اُس وقت تک صحیح طور پر اس راستے میں کام نہیں کرسکتا۔ اپنا مقصدِ زندگی قرار دینے کے بعد اگر فرض کیجیے وہ جماعت کو چھوڑ بھی جائے تو اس مقصد کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ اس مقصد کے لیے اس کی تڑپ باقی رہتی ہے۔ وہ تو بالکل ایسا ہے جیسے اس کا اپنا بچہ بیمار ہوجائے تو یہ اس کا اپنا مقصد ہے کہ وہ اس کا علاج کرائے اور اس کی زندگی کو بچانے کی کوشش کرے… وہ گھر نہیں بیٹھ سکتا۔ وہ اس مقصد کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا کہ بچے کی جان بچائے۔ اسی طرح جو شخص اسے (اعلائے کلمۃ اللہ کو) اپنا مقصدِ زندگی قرار دے گا وہ اس پر مضبوطی کے ساتھ چلے گا… جماعت ہو یا نہ ہو۔
(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، 3مئی 1965ء کو تربیتی پروگرام سے خطاب)