مقدس بستی کی مقدس زندگی

’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ آج بچہ بچہ لگاتا ہے۔ کبھی آپ نے اس شخص کی بھی سیرت پر نظر کی ہے، جو دنیا میں ایک مستقل مستمر انقلاب پھیلا گیا؟ اور جس کا پیدا کیا ہوا انقلاب عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت، ہر شعبہ حیات میں آج بھی ساری دنیا کے مقابلے میں ایک چیلنج ہے اور قیامت تک رہے گا۔ آیئے، اس کی ایک ہلکی سی جھلک مولانا شبلی کی سیرۃ النبیؐ کی وساطت سے دیکھتے چلیں:
’’گھر کا سارا کام کاج خود کرتے۔ کپڑوں میں پیوند اپنے ہاتھ سے لگالیتے۔ گھر میں جھاڑو خود دے دیتے۔ بکریوں کا دودھ اپنے ہاتھ سے دوہ لیتے۔ بازار سے سودا خود جاکر لاتے، جوتا پھٹ جاتا تو اسے ٹانک لیتے۔ غلاموں کے ساتھ، مسکینوں کے ساتھ بیٹھتے اٹھتے۔ ان کے ساتھ کھانا کھانے میں کسی قسم کا تکلف نہ تھا۔ گدھے کی سواری سے عار نہ تھا۔ ایک بار مکان سے باہر تشریف لائے، لوگ تعظیم کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ فرمایا: یہ اہلِ عجم کی طرح بار بار تعظیم کے لیے اٹھنا کیا معنی؟
صحابہؓ جانیں فدا کرنے کو تیار رہتے تھے، ہر بڑی سے بڑی خدمت، اور اس کی راہ میں بڑی سے بڑی مشقت اپنے لیے باعثِ فخر و سعادت سمجھتے تھے۔ اس پر بھی یہ حال تھا کہ جب وہ کوئی کام کرنے لگتے تو آپؐ بھی ان کے شریک ہوجاتے، اور مزدوروں کی طرح کام انجام دینے لگتے۔ مدینہ میں جب مسجد نبوی تعمیر ہونے لگی، تو دستِ مبارک سے اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے اور جاں نثار خدام کی جماعت یہ کہتی ہی رہ جاتی کہ ہماری جانیں آپؐ پر قربان، یہ آپؐ کیا کررہے ہیں!
غزوۂ احزاب کے موقع پر جب صحابہ، شہر مدینہ کے گرد خندق کھود رہے تھے، آپؐ نے بھی ایک ادنیٰ مزدور کی طرح کام شروع کردیا، یہاں تک کہ جسم ِ مبارک پر خاک کی تہ جم گئی۔ غزوۂ بدر میں سواریاں بہت کم تھیں، تین تین آدمیوں کے درمیان ایک ایک اونٹ پڑتا تھا۔ آپؐ بھی عام آدمیوں کی طرح ایک اونٹ میں دو اور شخصوں کے ساتھ شریک رہے اور خدام وجاں نثاران اپنی باری پیش ہی کرتے رہ گئے‘‘۔ (سیرۃ النبیؐ، جلد2 ص: 227 ملخصا)
کوئی دوچار، دس پانچ واقعات ہوں تو انہیں گن کر بیان کردیا جائے، اس مقدس ہستی کی مقدس زندگی تو لبریز انھی واقعات سے ہے۔ کوئی پوری سیرتِ نبوی اس مختصر صحبت میں کیسے سنا ڈالے۔ یہ نمونہ اُس ذات نے پیش کیا، جو نبوت و رسالت کے روحانی مراتب سے قطع نظر بہرحال اپنی قوم کا بڑا دنیوی سردار بھی تو تھا۔ آج دنیا کے ڈکٹیٹروں (آمروں) کو چھوڑیئے، بادشاہوں اور تاجداروں کو بھی الگ کیجیے… رئیسوں اور امیروں کا جو برتائو اپنی رعایا کے ساتھ اور افسروں کا جو معاملہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ رہتا ہے، ان سب کو بھی جانے دیجیے، جو صاحب جلسوں میں تھوڑی دیر کے لیے صدر منتخب ہوجاتے ہیں، خود ان کا رویہ والنٹیروں (رضاکاروں) کے ساتھ کیا رہتا ہے؟ ایک نمونہ زندگی کا وہ تھا، ایک یہ ہے۔ اس نمونے کے بعد کہیں بھی بالشویزم کا، انارکزم کا، بناوٹ کا، اسٹرانک کا وجود باقی رہ سکتا ہے؟
دو واقعے ملتے جلتے، میرے عہدِ زریں کے اور سنتے چلیے۔ غزوۂ تبوک میں سامانِ رسد کی کمی پڑگئی اور صحابہ بھوک سے نہایت درجہ پریشان ہوئے۔ خیال ہوا کہ اونٹ ذبح کیے جائیں، اس پر چرچ یہ ہوئی کہ معرکہ جنگ میں سواریاں بھی تو اہم چیزیں ہیں۔ بالآخر آپؐ نے یہ کیا کہ ہر شخص کے پاس سے اُس کا بچا ہوا سامانِ رسد طلب فرمایا۔ کوئی کم لایا کوئی زیادہ۔ ایک چادر پر اکٹھا کرکے آپؐ نے اس پر دعائے برکت فرمائی اور پھر سب سے کہاکہ اپنے اپنے برتن اس مجموعہ سے بھرلیں۔ راویوں کا بیان ہے کہ سب نے اپنے اپنے برتن بھرلیے، خوب سیر ہوکر کھایا اور سامان پھر بھی بچ رہا۔ اسی طرح ایک اور سفر میں جب آپؐ نے سامانِ رسد میں نمایاں کمی اور صحابہؓ میں بھوک کی بیتابی دیکھی تو سب کا زادِ راہ ایک چادر پر ڈھیر کرالیا۔ اس نے کُل اتنی جگہ گھیری کہ اس پر ایک بکری بیٹھ سکے اور اشخاص کی تعداد 1400۔ لیکن اس پر بھی سب لوگوں نے سیر ہوکر کھالیا اور اپنے اپنے توشہ دان بھرلیے‘‘۔ (سیرۃ النبیؐ، جلد3، ص: 448 ملخصا)
محدثین نے تو ان واقعات کو کتاب الایمان وغیرہ کے ماتحت درج کیا ہے اور انہیں معجزات ِنبوی میں شمار کیا ہے۔ معجزہ تو نبی کی ایک ایک بات تھی، لیکن میں کہتا ہوں کہ صحیح مساوات کی مثال ان واقعات سے بڑھ کر کہیں ملے گی؟ پھر اسی کے ساتھ اس تاریخی حقیقت کو بھی ملایئے کہ ریاست حجاز بلکہ سارے ملک ِعرب کے اس فرماں روا کا عام سامانِ معیشت کیا تھا؟ رہنے کے لیے صرف معمولی حجرہ، بادشاہوں کے محل اور رئیسوں اور امیروں کی کوٹھیاں الگ رہیں، ان کے ایک بڑے کمرے سے بھی چھوٹا حجرہ۔ نہ کوئی الگ بیڈروم، نہ ڈرائنگ روم، نہ ڈائننگ روم۔ اسی حجرے کے اندر سارا انتظام خانہ داری! اور اس کا فرنیچر؟ محض کھجور کی کھُری چٹائی، جس پر لیٹنے سے جسم مبارک پر بدھیاں پڑ پڑجاتی تھیں۔ کوچ اور صوفے نہ سہی، روم کے پُرتکلف اور ایران کے ریشمی قالین تو ہوتے! اور خیر یہ تو عہد سراپا خیر و برکت اور سرتا سر تقدس تھا ہی، صدیقؓ و فاروقؓ کے راستے سے ہوتے ہوئے
عمر بن عبدالعزیز ؒکے زمانے میں آیئے کہ وہ تو ان کے بادشاہ تھے اور بادشاہ بھی خاندانِ بنو امیہ کے، وہاں بھی تاریخ کی زبان آپ کو یہ واقعات سنائے گی کہ ’’خلیفہ ہونے کے بعد جب شاہی سواریاں آئیں، تو ان کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ میرا خچر میرے لیے کافی ہے۔ سوار ہوکر چلے تو کوتوال نے برچھا لے کر آگے آگے چلنا چاہا، اُس کو یہ کہہ کر ہٹادیا کہ میں بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں۔ قصرِ خلافت میں داخل ہوئے تو تمام پردوں کو چاک چاک کرادیا اور خلیفہ کے لیے جو فرش بچھایا جاتا تھا، اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی‘‘۔
’’ایک بار ایک لونڈی پنکھا جھل رہی تھی کہ اس حالت میں اُس کی آنکھ لگ گئی۔ انہوں نے خود پنکھا لے لیا اور اس کو جھلنے لگے۔ وہ جاگی تو بولے کہ تُو بھی میری طرح انسان ہے، تجھے بھی میری طرح گرمی معلوم ہوئی۔ میں نے چاہا کہ جس طرح تُو نے مجھے پنکھا جھلا ہے میں بھی تجھے پنکھا جھل دوں۔‘‘ (سیرت عمر بن عبدالعزیز)
(مولانا عبدالماجد دریا بادی، ماہنامہ بیداری، مئی2007ء، حیدرآباد)

مجلس اقبال
ہو تری خاک کے ہر ذرّے سے تعمیرِ حرم
دل کو بیگانہ اندازِ کلیسائی کر

علامہ مغرب پرست اور بھٹکے ہوئے مسلمان کو ہدایت کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو فرنگی تہذیب سے آزاد کرکے اسلام کی تہذیب اختیار کر۔ اپنی حقیقت کو پہچان، اور اپنے اصلی مقام کی طرف واپس آجا، یعنی سچا اور مخلص مسلمان بن جا۔ جب تُو مومنِ صادق بنے گا تو تجھے معلوم ہوگا کہ تیرا مقام کتنا بلند ہے۔ میری نظر سے دیکھو تو تمہاری خاک کے ذرّے بھی اتنے بلند مرتبہ ہیں کہ ان سے اللہ کا گھر یعنی حرم تعمیر ہوسکتا ہے۔ اللہ نے انسان کو عزت والی مخلوق بنایا، مگر غلامی تو انسان کو مقامِ انسانیت سے گرا دیتی ہے۔