مولانا حبیب الرحمن اعظمی مرحوم و مغفور دنیائے علم و فضل کے ایک درخشندہ و تابندہ ستارہ تھے۔ آپ بیک وقت کئی فنون میں کامل دست گاہ و قدرت رکھتے تھے۔ معاصر علما ان فنون میں آپ سے مراجعت کرتے تھے، یعنی وہ کئی فنون میں مرجع الخلائق تھے۔ آپ جہاں ایک عظیم محدث تھے وہیں ایک جہاں دیدہ کامیاب مؤرخ، ایک قابلِ اعتماد فقیہ، ایک مستند مصنف، ایک بلند قامت انشا پرداز و علم دوست و ادب شناس، ایک مسلم صحافی، ایک دیدہ ور و ماہر استاذ، ایک معتبر امام الجرح و التعدیل، ایک بے باک نقاد و مناظر، ایک دانش مند، پالیسی ساز، ہمہ وقت علم و فن کے سمندر میں غوطہ زنی کرنے والا کتابوں کا رسیا و شیدائی… گویا اپنی ذات میں ایک انجمن و اکیڈمی تھے۔ اس لیے آپ کی رحلت ایک قومی خسارہ ہے۔ماکان قیس ہلکم ہلک واحدولکنا بنیان قوم تھدما(قیس کی وفات ایک شخص کی وفات نہیں، بلکہ (اس سے) قوم کی عمارت منہدم ہوکر رہ گئی)ولادت: آپ شیرازِ ہند خطۂ اعظم گڑھ کی مردم خیز بستی جگدیش پور میں 1941ء1)) یا 1943ء میں پیدا ہوئے۔ جگدیش پور کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی تین بڑی ہستیاں ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند میں چوٹی کے اساتذہ رہی ہیں:-1 حضرت مولانا شیخ عبدالحق اعظمی سابق شیخ ثانی دارالعلوم دیوبند ،-2 قاری ابوالحسن اعظمی مدظلہ العالی، سابق صدر القرآء دارالعلوم دیوبند، -3 حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیٰ۔تعلیم:آپ نے مدرسہ امداد العلوم جگدیش پور میں حفظِ قرآن مکمل کیا2))۔ اس کے بعد مدرسہ روضۃ العلوم پھولپور میں فارسی و عربی کی بالکل ابتدائی کتابیں پڑھیں، جہاں آپ نے شیخ المشائخ حضرت عبدالغنی پھولپوری سے بھی استفادہ کیا3))، پرائمری کی تعلیم کے بعد مولانا کے دادا بزرگوار کا یہ ارادہ تھا کہ آگے کی تعلیم حاصل نہ کرکے گھریلو کام کاج میں مشغول ہوجائے اور دکان پر بیٹھے۔ مولانا نے حضرت شیخ عبدالحق اعظمی سے اس پریشانی کا تذکرہ کیا تو حضرت شیخ نے والد صاحب کو آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے راضی کرلیا4))، مولانا حضرت شیخ کے اس احسان کے بارے میں کہتے ہیں ’’میں حضرت مولانا کے اس احسان سے کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتا(5)۔اس کے بعد مدرسہ بیت العلوم سرائے میر، مدرسہ دارالعلوم متوناتھ بھنجن 6))اور مدرسہ مطلع العلوم بنارس7)) میں متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی۔ بعدازاں دارالعلوم مؤ میں جلالین شریف اور مشکاۃ المصابیح کے لیے زانوئے تلمذ تہ کیا8)) پھر آپ نے تکمیل اور فراغت حاصل کرنے کے لیے ایشیا کی عظیم درسگاہ دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور 1962ء بمطابق 1383ھ میں فراغت حاصل کی9))۔ اُس وقت مادرِ علمی کی مسند پر اساطینِ علم و فضل جلوہ افروز تھے۔ شیخ الحدیث مولانا فخر الدین صاحب مراد آبادی بخاری شریف کا درس دیتے تھے، علامہ ابراہیم بلیاوی ترمذی شریف کا سبق پڑھاتے تھے، علامہ بشیر احمد صاحب بلند شہری مسلم شریف پڑھاتے تھے10))۔ آپ نے دارالعلوم میں صرف ایک سال تعلیم حاصل کی11))۔عظیم کارنامہ: اُس زمانے میں مؤ، مبارکپور، خیرآباد وغیرہ اعظم گڑھ کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ اعظمی طلبہ دو دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان میں مستقل چشمک رہتی تھی۔ ایک علاقہ سرائے میر، پھول پور، جگ دیش پور، شہر اعظم گڑھ وغیرہ کا تھا، اور دوسرا مؤ اور اس سے متصل قصبات کا تھا۔ دونوں حصوں کی انجمنیں بھی الگ الگ تھیں۔ مولانا اپنی مخصوص خوبیوں کی وجہ سے ہم وطن طلبہ میں نمایاں تھے۔ موصوف کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دونوں انجمنوں کو ختم کرکے ’’انجمن نادیۃ الاتحاد، ضلع اعظم گڑھ‘‘ قائم کی اور تمام طلبہ کو اس میں شیر و شکر کردیا12))۔میدانِ تدریس میں: فراغت کے معاًبعد مدرسہ روضۃ العلوم پھولپور کے شعبۂ تبلیغ میں آپ کا تقرر ہوا، اور پھر چند ماہ بعد آپ نے مدرسہ جامعہ اسلامیہ مدن پورہ بنارس سے باقاعدہ تدریس کا آغاز فرمایا 13))، پھر وہاں سے کچھ سال بعد 1971ء میں مدرسہ فرقانیہ جون پور میں بحیثیت صدر مدرس تشریف لائے، وہاں آپ تقریباً ایک سال رہے۔ اس کے بعد مدرسہ عربیہ قاسم العلوم منگرواں، اعظم گڑھ بلائے گئے۔ مولانا نے ایک ہی سال میں حسنِ تعلیم اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں کے بعد مولانا دوبارہ جامعہ اسلامیہ مدن پورہ بنارس تشریف لے گئے۔ پھر وہاں سے آپ نے دارالعلوم ہی کے لیے 1980ء میں حضرت فدائے ملت کی دعوت پر رختِ سفر باندھا14))۔حضرت فدائے ملت نے آپ کو موتمر فضلائے دیوبند کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالے ’’القاسم‘‘ کی ادارت تفویض کی، جسے آپ نے بحسن و خوبی نبھایا۔ جشنِ صد سالہ کے بعد دارالعلوم میں قضیہ نامرضیہ پیش آیا تو طلبہ کیمپوں میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ مولانا اسی وقت تدریس کے قافلے میں شامل ہوگئے، پھر ایک طویل عرصے تک دارالعلوم ہی کے ہوکر رہے15))۔ آپ مادر علمی کے نہایت باوقار و ذی رتبہ اور قابلِ فخر استاذ تھے۔ مولانا سلمان بجنوری صاحب کے الفاظ میں ’’حضرت مولانا کا شمار ان اساتذہ کرام میں ہوتا تھا جن سے کسی ادارے کا امتیاز قائم ہوتا ہے16))۔درس کی خصوصیات: مولانا کی درسی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے ان کے ایک لائق و فائق شاگرد مولانا اجمل قاسمی، استاذ تفسیر و ادب جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد لکھتے ہیں: ’’اسباق شروع ہوئے تو علم و تحقیق کا دریا بہہ پڑا، نئے نئے نام کانوں سے ٹکرا کر محظوظ کرنے لگے۔ ابن الصلاح، ابن حجر، ابن حزم، ابن عبدالبر، ابن رجب، ابن ابی حاتم، ابن دقیق العید، مزی، ذہبی، قاضی عیاض، شمنّی، تورپشتی، طیبی، بدرالدین عینی، ملا علی قاری اور اس طرح کے دسیوں بیسوں نام روزانہ سبق میں آنے لگے۔ علامہ ابن عبدالبر کا نام بڑے احترام سے لیتے تھے۔ ابن حزم کی ظاہریت، لہجے کی سختی اور سوئے لسانی کے باوجود ان کے علم و ذہانت کے قائل تھے۔ فن اصول حدیث میں ابن صلاح کے مداح تھے۔ رجال حدیث سے مولانا کو خاص شغف تھا، اس لیے جمال الدین مزی کی تہذیب الکمال کے تذکرے بکثرت آتے۔ حافظ ذہبی کے نہایت گرویدہ تھے، رجال حدیث سے ان کی غیر معمولی آگہی و بصیرت سے متاثر تھے (17)۔ مولانا ٹھیر ٹھیر کر بولتے تھے۔ قلم کی طرح زبان میں سلاست و روانی نہیں تھی، مگر پڑھاتے بہت اچھا تھے، اس لیے ان کی یہ کمزوری بھی گراں گزرنے کے بجائے بھلی لگتی تھی(18)۔مولانا کے دروس سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ وہ زیر تدریس کتاب اور اس کے ضروری متعلقات پر اکتفا کرنے کے بجائے کتاب کے اصل موضوع اور فن کو پڑھانے پر توجہ دیتے تھے(19)۔ یہ شان بالکل علامہ کشمیری کی نرالی شان سے مطابقت رکھتی ہے۔ تفصیل کے لیے علامہ کشمیری کے قابلِ فخر شاگرد سید مناظر احسن گیلانی کی روداد دارالعلوم ’’احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔تصنیفی کارنامے: مولانا مرحوم تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی نہایت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ مولانا نے جہاں تشنگانِ علومِ نبوت کی ایک کھیپ تیار کردی، وہیں بہت ساری گراں قدر علمی تصنیفات بھی بطور یادگار چھوڑی ہیں۔ ذخیرۂ آخرت کے طور پر تقریباً چالیس شاہکار تصانیف دنیا کے سامنے موجود ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں: (1) مقالاتِ حبیب (3 جلدیں)، (2) تذکرہ علمائے اعظم گڑھ، (3) اجودھیا کے اسلامی آثار، (4) شیوخ الامام ابی داودالسجستانی، (5)نورالقمر فی توضیح نرہتہ النظر، (6) خمینیت عصر حاضر کا ایک عظیم فتنہ، (7) طلاق ثلاثہ صحیح ماخذ کی روشنی میں، (8) علم حدیث میں امام ابو حنیفہؒ کا مقام، (9) تخریج مسائل التفسیر الظہری (20) غیر مطبوع، (10) انتقاء اخلاق النبیؐ و آدابہ لابی الشیخ (21)اول۔’’مقالاتِ حبیب کے بارے میں ادیبِ عصر مولانا نور عالم خلیل امینی لکھتے ہیں: ’’اسلامی موضوعات کے تنوع اور جامعیت کے تعلق سے گویا یہ دائرۃ المعارف اور قاموس العلوم ہے(21)۔ مفتی سعید احمد پالنپوری اس شاہ ہکار تصنیف کا تعارف کراتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’آپ یہ کتاب پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ان کی سحر بیانی منفرد شان کی حامل ہے۔ مولانا کا علم پختہ، ذہن استوار اور معلومات وافر ہیں، اس لیے ان کی تحریروں میں قاری کو بڑے کام کے نقطے اور نکتے مل جاتے ہیں(22)۔ ’’تذکرہ علمائے اعظم گڑھ‘‘ لکھ کر ہم سب کو اس قرض سے سبکدوش کردیا (23)۔ قاضی اطہر مبارک پوری رقم فرماتے ہیں: ’’فاضل مرتب و مؤلف جواں سال، جواں ہمت اور علمی و تحقیقی ذوق رکھنے والے ہیں، انہوں نے اس کتاب کو مرتب کرنے میں صرف چند مطبوعہ کتابوں پر اکتفا نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے لیے اسفار کرکے قلمی نوادرات سے استفادہ کیا ہے، کتبات پڑھے ہیں، اہلِ علم سے معلومات حاصل کی ہیں اور کئی ایسے نادرۂ روزگار اہلِ علم کے حالات معلوم کیے ہیں جن کے نام تک سے اب تک بے خبری تھی(24)۔اسی طرح دیگر تصانیف نے بھی اہلِ علم و فن سے خراجِ تحسین حاصل کیا اور وقت کی ضرورتوں کو پورا کیا۔ مولانا نے بیسیوں سلگتے مسائل پر لکھا، ابھرتے فتنوں کا تعاقب کیا۔ آپ کا جس موضوع پر لکھنے کا ارادہ ہوتا اس سے متعلق قدیم و جدید مراجع کا گہرائی سے مطالعہ کرتے اور حاصلِ مطالعہ یادداشت کی شکل میں جمع کرتے جاتے، اور جب اپنے طور پر مطمئن ہوجاتے تو تحریر کے لیے قلم اٹھاتے(25) اور پھر لکھتے چلے جاتے اور پُرمغز لکھتے۔ اسلوبِ نگارش نہایت اعلیٰ، ادبی اور مسحورکن تھا۔ مولانا اجمل قاسمی لکھتے ہیں: ’’مولانا قلم کے بادشاہ تھے، الفاظ شستہ، اسلوب شگفتہ، تعبیر میں ادبی چاشنی، طرزِ ادا میں سلاست و روانی، جملے چھوٹے چھوٹے، پیراگراف باہم مربوط، عبارت ٹھوس اور پختہ اور تحریر حشوو زوائد سے خالی (26)۔ مولانا امینی لکھتے ہیں: ’’اس ضخیم مجموعہ مقالات (مقالاتِ حبیب) کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لعل و گہر کے انتخاب میں خاصا وقت صرف کرتے ہیں اور تحریر کی معنویت اور اس کے مواد اورعلمی مشمولات کی باطنی قیمت کے ساتھ ساتھ اس کی ساختیات، لفظیات، تعبیرات اور طریقۂ ترسیل پر بھی زور دیتے ہیں (27)۔کوچۂ صحافت میں: یہ بات ماسبق میں گزر چکی ہے کہ دیوبند میں آپ کی آمد موتمر فضلائے دیوبند کے ترجمان ماہنامہ ’’القاسم‘‘ کی ادارت کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ 1985ء میں آپ مجلس شوریٰ کی جانب سے ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے (28)، پھر مسلسل 32 سال کے ایک طویل عرصے 2016ء تک کامیابی کے ساتھ آپ نے ادارت کے فرائض انجام دیئے۔ ماہنامے کے اس دور کو سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ اس عرصے میں مولانا کے اشہبِ قلم سے نکلنے والے مضامین کو مقالاتِ حبیب (کامل 3جلدیں) کے نام سے یکجا طور پر شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند کی جانب سے منصۂ شہود پر لایا گیا ہے۔ ابھی مابقیہ اداریوں کی تعداد اتنی ہے کہ ان سے مزید تین جلدیں تیار ہوسکتی ہیں(29)۔کامیاب مؤرخ: آپ کی تاریخ دانی دارالعلوم کی علمی فضا میں ایک مسلّم بات تھی۔ سابق شیخ الحدیث مفتی سعید احمد پالنپوریؒ اس فن میں مولانا ممدوح سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے تھے(30)۔ مفتی صاحب مولانا کو دارالعلوم کا سب سے بڑا تاریخ دان فرمایا کرتے تھے(31)، نیز مقالاتِ حبیب جلد اول و سوم، اجودھیا کے اسلامی آثار وغیرہ شاہ کار تصنیفیں آج بھی دنیا کے سامنے بطور شاہد موجود ہیں۔ذوقِ شعر و ادب: مولانا مرحوم شعر و ادب کا بھی صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ قدیم و جدید شعرا کے سیکڑوں اشعار نوکِ زبان رہے اور موقع و محل کی مناسبت سے عموماً ایسا کوئی شعر پڑھ دیتے تھے جس سے مجلس اور تحریر میں جان پڑ جاتی تھی۔ معتبر شعرا کے دواوین آپ کے زیر مطالعہ رہتے۔ بندے نے اُن کے ایک شاگرد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مولانا کو ایک لاکھ اشعار ازبر تھے۔ آگے ’’علمی استحضار‘‘ عنوان کے تحت اس سلسلے کا ایک واقعہ بھی اِن شا اللہ درج کریں گے۔قابلِ اعتماد فقیہ: آپ کی شانِ فقاہت بھی نہایت بلند تھی۔ تفصیل کے لیے مقالاتِ حبیب جلد دوم کی مراجعت کی جائے۔ نیز دیگر رسائل جو مسائل ِفقہ پر لکھے گئے ہیں، ان کو بھی دیکھا جاسکتا ہے، مثلاً مسائلِ نماز، طلاقِ ثلاثہ صحیح ماخذ کی روشنی میں، تحقیق مسئلہ رفع یدین، امام کے پیچھے مقتدی کی قرأت کا حکم، خواتینِ اسلام کی بہترین مسجد، نفقہ، مطلقہ اور اسلام۔بلندقامت مفسر: حضرت مولانا کو تفسیر اور علوم ِقرآن سے بھی بہت زیادہ شغف تھا۔ آپ اس فن میں بھی یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ چوں کہ دارالعلوم میں فنِ تفسیر کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی اس لیے یہاں اس کا اظہار نہیں ہوپایا۔ آپ نے تفسیر قرآن کی غرض سے مسلسل چار سال 1986ء سے 1989ء تک ماہ رمضان المبارک کی تعطیل میںلندن کا سفر کیا(32)-(جاری ہے)آپ آیاتِ قرآنیہ سے بکثرت استشہاد کرتے تھے، بعض اہم مواقع پر ایک ہی موضوع پر اتنی آیات جمع کردیتے کہ ہل من مزید کی گنجائش بھی نہیں چھوڑتے۔ مثلاً حجیتِ حدیث کے ثبوت میں آپ نے 12 سورتوں کی 17 آیتوں سے استشہاد کیا (33)، آپ کے ایک شاگرد مولانا سلمان اعظمی کا استفسار اور حضرت کا جواب ملاحظہ فرمائیں:سوال: میرے ذمے ’’جلالین‘‘ کے ایک حصے کی تدریس ہے، چاہتا ہوں کہ قرآن سے شغف پیدا ہوجائے، اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟حضرت کا جواب: حل: کتاب کے لیے جن متعلقات کی ضرورت ہو وہ دیکھو اور ساتھ میں تفسیر کی امہات کتب میں سے ایک کتاب بالاستیعاب دیکھو۔ جو باتیں پسند آجائیں ان کو نشان زد کرلو تاکہ مراجعت میں آسانی ہو۔ اگر چند سال اس طرح محنت کروگے تو بہت فائدہ محسوس ہوگا(34)۔تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد صاحب نے اپنی تقریر کے دوران آیت وما اعجلک عن قومک یاموسیٰ کی کچھ ایسی تفسیر کی جو راجح تفسیر کے خلاف تھی، ساتھ ہی حضرت موسیٰؑ کی تنقیص کا شائبہ بھی تھا۔ اس سے امت میں ایک انتشار پیدا ہوگیا، تو حضرت مولانا نے ’’ومااعجلک عن ومک یاموسیٰ کی راحج و معتبر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ قلمبند فرمایا جو اس سلسلے میں حرفِ آخر تھا۔ ان واقعات سے مولانا مرحوم کا تفسیر قرآن میں رسوخ صاف ظاہر ہوتا ہے۔عظیم محدث و متبحر فی اسماالرجال: آپ فقہ حدیث، اصولِ حدیث اور فن اسما الرجال کی نہایت قدآور شخصیت تھے۔ بالخصوص اسما الرجال میں تو اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ آپ مادرِ علمی کے عظیم محدث تھے، اصولِ حدیث میں آپ نے مقدمہ شیخ عبدالحق اور نزہتہ النظر کی عمدہ شرحیں تحریر کیں۔ آپ دورہ حدیث اور شعبہ تخصص فی الحدیث کے مایہ ناز استاذ و شیخ تھے۔ فن اسماالرجال کے مشکل ہونے کی وجہ سے اکثر اہلِ علم اس سے دور رہتے ہیں، بالخصوص اہلِ عجم میں تو اس فن سے دلچسپی روزبہ روز کم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن مولانا مرحوم اس فن میں یگانہ روزگار تھے۔ اس فن میں موصوف نے شیوخ الامام ابی داؤد السجستانی بطور یادگار چھوڑی ہے۔ مادر علمی میں آپ بجاطور پر ابن حجرثانی کے لقب سے مشہور تھے۔(یہاں تک اسکرین پروف ہے)صائب الرائے پالیسی ساز: مولانا مغفور یوں تو خالص درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے آدمی تھے، مگر جمعیتہ علمائے ہند سے ایک عرصے تک مربوط رہے۔ وہ اس کی مجلس عاملہ کے رکن اور نہایت فعال ممبر تھے۔ نہایت صالح الفکر اور صائب الرائے تھے۔ جمعیتہ کی اکثر تجاویز وہی لکھتے تھے۔ حضرت الاستاذ مولانا ارشد مدنی مدظلہ العالیٰ اپنے تعزیتی بیان میں لکھتے ہیں: ’’مولانا قاسمی ایک مدت سے جمعیتہ علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن رکین چلے آرہے تھے۔ میٹنگ کی کارروائی میں پوری دلچسپی لیتے اور مضبوط و ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھتے۔ مصلحت پسندی سے ان کی باتیں بہت دور ہوتی تھیں۔ میٹنگ کی اکثر و بیشتر تجاویز انہیں کی مرہون منت ہیں (35)۔بے باک نقاد: علامہ موصوف جہاں دیگر خصائص کے مالک تھے وہیں ان کی ایک خاص صفت حق کے سلسلے میں بے باکی ہے۔ ہم سب کے استاذ، مولانا کے سب سے قریبی شناسا، الامام الحجہ مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب مدحظہ العالیٰ تحریر فرماتے ہیں: ’’مولانا کی خاص صفت ان کی حق گوئی اور بے باکی تھی۔ جس بات کو حق سمجھتے تھے اس کو پوری قوت سے اور برملا کہتے۔ خواہ سامنے والا کتنا ہی بلند مرتبہ ہو، اس باب میں وہ لایخاف فی اللہ لومۃ لائمہکے پورے مصداق تھے(36)۔آپ نے رد قادیانیت، رد شیعیت، رد غیر مقلدیت، فتنہ انکار حدیث وغیرہ ہر ایک موضوع پر نہایت بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ لکھا۔ حضرۃ الاستاذ مفتی سعید صاحب پالنپوری مرحوم کے ساتھ علمی مناقشے نے تو علامہ سخاوی اور علامہ سیوطی کی یادیں تازہ کردیں۔ مفتی صاحب سے مولانا کا صرف دو مسئلے میں مناقشہ ہوا ہے۔ پہلا مسئلہ حجیت حدیث کا ہے۔ مفتی صاحب کا مؤقف یہ تھا کہ حدیث و سنت میں فرق ہے اور ان میں سے سنت تو حجت شرعیہ ہے جبکہ حدیث حجت شرعیہ نہیں ہے۔ اہل علم کے لئے یہ ایک نئی بات تھی، لیکن مفتی صاحب کا منطقی طرز استدلال اور مسحور کن اسلوب گفتگو اس نئے نظریے کو بھی ذہنوں کے قریب کردیتا ہے۔ مولانا نے مسئلے کی سنگینی کو بھانپ لیا تو پے درپے تین رسائل سپرد قلم کئے.1 کیا حدیث حجت نہیں؟ صفحات 60 سن اشاعت 2011ء، .2 حجیت حدیث اور اس پر عمل کی صورتیں صفحات 88 سال اشاعت 2011ء، .3 کتابچہ ’’حدیث و سنت‘‘ پر نقد و نظر صفحات 60 سال اشاعت 2016ء۔مولانا اظفر زبیر اعظمی جو اخیر زمانے شاگردوں میں سے ہیں لکھتے ہیں ’’جب میں دورے میں پہنچا تو مفتی صاحب نے حسب سابق اپنی بات اس سال بھی دہرائی مگر میں نے محسوس کیا کہ مفتی صاحب صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ حدیث و سنت میں فرق ہے۔ میں نے مولانا سے پوچھا کہ آپ کا مفتی صاحب سے جو اختلاف ہے، وہ کس بات میں ہے؟ فرق میں یا حجت میں؟ تو مولانا نے جواب دیا کہ حجت میں۔ میں نے کہاکہ مفتی صاحب اب صرف اتنا کہتے ہیں کہ دیکھو حدیث و سنت میں فرق ہے۔ آگے کی بات نہیں کہتے۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ہم نے تو اپنی بات دلائل کے ساتھ رکھ دی ہے بس!! (37)۔دوسرا اختلاف ’’تعزیتی اجلاس‘‘ کے سلسلے میں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دارالعلوم وقف میں مولانا سالم صاحب رحمتہ اللہ علیہ پر ایک سیمینار کا انعقاد ہوا، جس میں وقف کی انتظامیہ نے اساتذہ دارالعلوم کو بھی شرکت کے لیے دعوت دی جس پر مفتی صاحب مرحوم نے اپنا اختلاف درج کراتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کردیا۔ عین وقت پر مفتی صاحب کے انکار نے افراتفری کا ماحول پیدا کردیا۔ یہاں تک کہ حضرت مہتمم صاحب نے شرکت سے منع کردیا۔ اس موقع پر مولانا اعظمی مرحوم نے مہتمم صاحب کو فوراً ایک خط لکھا اور دلائل سے یہ ثابت کیا کہ یہ سیمینار مسلک دارالعلوم کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی یہ نوحہ خوانی کے زمرے میں آتا ہے جس کی حدیث میں ممانعت ہے۔ نیز مولانا نے سید ارشد مدنی اور بحرالعلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی وغیرہ اساتذہ دارالعلوم کو زور دے کر کہاکہ آپ لوگ اس میں ضرور شرکت کریں۔ پھر دنیا نے دارالعلوم وقف میں اکابرین کے اجتماع کا حسین منظر دیکھا۔ مولانا نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا: ’’اگر میرے پاس دعوت نامہ آتا تو میں بھی جاتا‘‘ (38)۔ مولانا شکیب ناظم وقف کو اپنی اس عدم توجہی پر بے حد افسوس ہوا، لیکن یہ بس ایک علمی اختلاف تھا۔ دونوں حضرات ایک دوسرے کا بہت زیادہ پاس و لحاظ کرتے تھے۔ مفتی اشتیاق صاحب، استاذ دارالعلوم لکھتے ہیں:’’حضرت مفتی صاحب تو کسی موافق یا مخالف کے بارے میں مجلس میں کچھ بولتے ہی نہیں تھے۔ لیکن ایک بار جب ’’تعزیتی اجلاس‘‘ کی کراہت اور عدم کراہت یا بدعت اور عدم بدعت پر بحث چل پڑی تو حضرت مفتی صاحب نے فرمایا: ’’دیکھو! مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا رسالہ چھپا ہے، ماشا اللہ زبان و بیان بہت عمدہ ہے۔ برجستہ اشعار اور محاورات کی عمدگی اور امثال و تشبیہات کی نفاست متاثر کن ہے۔ موضوع اور مواد سے متفق ہونا اور نہ ہونا الگ بات ہے، مگر موصوف کی زبان اتنی اچھی ہے کہ اگر یہ شخص گالی بھی دے تو اچھی لگے (39)۔وسعت مطالعہ اور علمی استحضار: مولانا مغفور تو اس چیز میں یکتائئے زمانہ تھے۔ آپ کا ذاتی کتب خانہ ایک قومی لائبریری معلوم ہوتا تھا۔ آپ جلسہ و جلوس، بھیڑ بھاڑ اور تعلق و شناسائی سے دور بھاگتے تھے اور ہمہ وقت یکسو ہوکر محو مطالعہ رہتے تھے۔ آپ کے رازو نیاز کا شریک اور دشت علم و فن کا ہمدم مولانا نعمت اللہ صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں:’’ مطالعہ اور کتب بینی مولانا کی زندگی کا جزولاینفک تھا۔ آپ کسی بھی وقت ان کے کمرے میں چلے جائیں، مولانا سر جھکائے محو مطالعہ ملیں گے۔ اس دور میں جبکہ کتب بینی کا ذوق دن بہ دن ناپید ہوتا جارہا ہے مولانا کی ذات ایک روشن چراغ تھی(40)۔علمی استحضار بھی نہایت غضب کا تھا۔ اس سلسلے میں چند واقعات ملاحظہ فرمائیں، (1) مولانا اشرف عباس قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں: ’’ایک دن عصر کی مجلس میں ایک صاحب نے مرنے والوں کے آخری احوال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ ایک محدث کو کلمے کی تلقین کے لئے ان کے شاگردوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ کلمہ والی حدیث کا مذاکرہ کرنے لگے۔ حضرت مولانا نے فوراً فرمایا کہ یہ واقعہ ابوزرعہ رازی کا ہے۔ ان کے دو شاگرد ابو حاتم رازی اور محمد بن مسلم ان کی وفات کے وقت موجود تھے اور اپنے استاذ کی عظمت کے پیش نظر بہ راہ راست تلقین کرنے کے بجائے پہلے محمد بن مسلم نے کلمہ والی حدیث روایت کی۔ سند صالح بن ابی غریب تک ذکر کی اور خاموش ہوگئے۔ ابو حاتم نے بھی یہی کیا، یہ سن کر ابو زرعہ سہارے سے بیٹھ گئے اور آگے کی سند ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’عن کثیر بن مرۃ الحضرمی عن معاذ بن جبل قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من کان آخر کلامہ لاالہ الا اللہاتنا کہنا تھا کہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی(41)۔(2) ایک دوسرے صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مفتی سعید صاحبؒ نے اپنے خطاب میں اس واقعے کا ذکر کیا جس میں یہ ہے کہ دشمن کی فوج نے مسلمانوں کے لشکر کو مسواک کرتے دیکھ کر پسپائی اختیار کرلی۔ اس کے بعد مفتی صاحب فرمانے لگے: ’’میں نہیں جانتا یہ واقعہ کب کا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن اس میں شاندار پیغام ہے‘‘، یہ سن کر مجلس میں موجود مولانا اعظمی برجستہ کہنے لگے: ’’یہ واقعہ بنی امیہ کے زمانے کا ہے اور فلاں فلاں کے ساتھ پیش آیا۔ علامہ ابن خلدون کی تاریخ العبر اور فلاں فلاں کتاب میں مذکور ہے (42)۔(3) مولانا اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھتے وقت جنگ شاملی کے سلسلے میں ایک جگہ پھنس گیا۔ مولانا عاشق الٰہی برنی نے تذکرۃ الرشید میں اس کو ’’اتفاقی مڈبھیڑ‘‘ لکھا، حالانکہ میں اس سے پہلے شاملی کی جنگ کو باضابطہ جنگ ہی سمجھتا تھا۔ کہیں اس کا تشفی بخش جواب نہ ملا تو مولانا کے پاس پہنچ کر اپنی مشکل کو بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رحمتہ اللہ نے ’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ میں اس پر بحث کی ہے اس کو دیکھو‘‘۔ چنانچہ حسب ارشاد اس کو دیکھا تو مجھے تفصیل وہاں مل گئی(43)۔(4) اسی طرح مولانا کے ایک اور شاگرد مفتی ارشد شروانی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم مولانا کے ساتھ ریل سے سفر کررہے تھے۔ ٹی ٹی سے ٹکٹ کے سلسلے میں کچھ بات کرنی تھی، تو اس نے ہمیں مدرسے کا طالب علم دیکھ کر پوچھا کیا پڑھتے ہو؟ میں نے بتایا کہ عربی، فارسی اور اردو وغیرہ۔ اس نے کہا میر کا ایک شعر ہےسرہانے میرؔ کے آہستہ بولوابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہےبتائو، اس کا متضاد شعر کس نے کہا اور وہ شعر کون سا ہے؟ اس دوران مولانا بھی اس دلچسپ گفتگو میں شامل ہوگئے اور بتلایا کہ اس کا متضاد شعر سوداؔ کا ہے اور وہ شعر یہ ہےسوداؔ کے جو بالیں یہ اٹھا شور قیامتخدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہےٹی ٹی بہت خوش ہوا پھر اپنا تعارف کرایا تو معلوم ہوا شیعہ برادری سے تعلق ہے اور اردو ادب پراچھا عبور ہے۔ مولانا بھی کافی کھل گئے، پھر دیر تک زبان و ادب اور شعر و شاعری پر بات ہوتی رہی اور آخر میں ٹی ٹی نے مکمل رعایت بھی کردی (44)۔تصوف و سلوک: مولانا حبیب الرحمن اعظمی، شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کے عقیدت کیش اور فیض یافتہ تھے، چنانچہ مولانا نے پہلے پہل انہیں سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور قافلہ عشق و مستی میں شامل ہوکر راہ سلوک کے مسافر بن گئے۔ حضرت شیخ الحدیث کی وفات کے بعد جب ندائے ملت سید اسعد مدنیؒ کو آپ کے معمولات اور تسبیحات کے بارے میں معلوم ہوا تو کہنے لگے آپ تو خلافت کے مستحق ہیں، چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے خلیفہ مولانا محمود صاحب سہارنپوری نے آپ کو خلافت عطا فرمائی (45)۔معمولات زندگی: پورا دن تصنیفی و تدریسی مشغلے میں گزر جاتا۔ عشا کے بعد فوراً بستر پر تشریف لے جاتے اور اخیر شب میں اپنے رب کے حضور راز و نیاز کے لئے اٹھ جاتے۔ سفر و حضر میں آپ تہجد کی پابندی فرماتے تھے (46)۔ فجر بعد مکمل نشاط کے ساتھ چہل قدمی کرتے۔ جمعے کے دن اذان سے پہلے مسجد پہنچ جاتے اور نماز و تلاوت کا اپنا معمول پورا کرتے۔ نماز فجر کے بعد اذکار میں مشغول رہتے، یہاں تک کہ طلوع آفتاب کے بعد ہی کسی اور کام میں لگتے۔ مولانا نہایت خوش خوراک و خوش پوشاک تھے۔ علامہ کشمیری کی طرح پان کا بھی نہایت نفیس ذوق و شوق رکھتے تھے۔یہ ہے مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی علمی و عملی اور جہد مسلسل سے لبریز ایک نہایت طویل اور ہمہ گیر زندگانی کی ایک مختصر سی جھلک ہے۔ مولانا کی مفصل حالات و خدمات کے لئے تو دفتر کے دفتر چاہیے۔ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہےبڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا(اقبال)وفات: 30 رمضان المبارک 1442ھ مطابق 13مئی 2012ء کو مولانا اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ ؟؟؟مکرم مولانا عفان صاحب قاسمی کی امانت میں آبائی وطن جگدیش پور میں جنازے کی نماز ادا کی گئی اور وہیں سپرد خاک ہوئے (47)۔آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرےسبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے……٭٭٭……حوالہ جات:نوٹ: مقالے کے بنیادی مآخذ، (1)ماہنامہ الماس، ممبئی شمارہ محرم الحرام 1443ھ اور2)) ماہنامہ دارالعلوم دیوبند شمارہ اگست 2021ء کے خصوصی نمبر مولانا حبیب الرحمن اعظمی، اول الذکر کے لئے ہم صرف الماس لکھیں گے جبکہ ثانی الذکر کے لئے ’’ماہنامہ‘‘ دیگر مصادر کامکمل نام درج ہوگا۔(1) الماس ص:38 و ماہنامہ ص:13، (2)الماس ص: 38، (3) ایضاً ص39، (4) ماہنامہ ص:190، (5) ماہنامہ ص:14، (6) الماس ص:39، (7) ایضاً ص:48، (8) ایضاً ص:163، (9) ایضاً ص: 164، (10) ماہنامہ ص:14، (11) الماس ص: 39، (12) ماہنامہ ص:6، (13) الماس ص:40، (14) ایضاً ص:40 و 164، (15) ایضاً ص: 41، (16) ماہنامہ اداریہ ص: 3، (17) ایضاً ص: 48، (18) ایضاً ص :49، (19) ایضاً ص: 43، (20) الماس ص: 106، (21) ماہنامہ ص: 3، (21) ثانی مقالات مہیب17/1، (22) ایضاً ص:10، (23) تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص: 20، (24) ایضاً ص:30، (25) ماہنامہ ص:7، (26) ایضاً ص :45، (27) مقالات حبیب ص: 18، (28) الماس ص:165و ماہنامہ ص:16، (29) الماس ص:105، (30) ماہنامہ ص:31، (31) ایضاً ص19، (32) الماس ص:218،(33) تفصیل کے لئے دیکھئے سرسید احمد خان اردو نظریہ حجیت حدیث ص:17 تا 27، (34) الماس ص : 447، (35) ماہنامہ ص:54،(36) الماس ص: 19، (37) ایضاً ص : 122، (38) ایضاً ص:120، (39) ماہنامہ ص: 31، (40) الماس ص:19، (41) ماہنامہ ص :18، (42) ماہنامہ ص:19، (43) ایضاً ص:30، (44) الماس ص:9و ص 60، (45) ایضاً ص :429 و 430، (46) ماہنامہ ص: 50، (47) الماس ص:166 و 167۔