ریڈیوپاکستان کراچی کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر، ادیب، شاعر، ماہر ابلاغیات اور برادر بزرگ جناب اقبال اعظم فریدی نے ’’علّامہ‘‘ کے موضوع پر شائع ہونے والا کالم (مطبوعہ 25فروری 2022ء) پڑھ کر اس عاجز کوحکم دیا:
’’کچھ علامہ قطامہ کے بارے میں بھی ارشاد کیجیے۔ شاد و آباد رہیے‘‘۔
بزرگوار کے ارشاد کی تعمیل تو ہم کیے دیتے ہیں، مگر ایسی صورت میں اُس فرمائش پر ’’جی! اچھا‘‘ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے جو انھوں نے اگلے ہی فقرے میں کر ڈالی ہے کہ ’شاد و آباد رہیے‘۔ بھلا ’قاریات‘ کی خفگی مول لے کر کون شاد و آباد رہ سکے گا؟
اُردو محاورے میں ’علامہ قطّامہ‘ کی ترکیب، اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتی۔ لغت دیکھیے تو’علّامہ‘ کا ایک مطلب ’نہایت چالاک، عیار، مکار، بے باک اور شوخ چشم عورت‘ بھی ملے گا۔ قَطّامہ میں ’ق‘ پر زبر ہے اور ’ط‘ تشدید کے ساتھ بولاجاتا ہے، لیکن خواتین ’ق‘ پر پیش کے ساتھ بھی بولتی ہیں، جب کہ صحیح تلفظ ’ق‘ پر زبر ہی کے ساتھ ہے۔ ’قطّامہ‘ کا مطلب اُردو لغات کے مطابق ’بے غیرت، بے حیا، بد نہاد اور شہوت پرست عورت‘ ہے۔ یہ لفظ فاحشہ اور قحبہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’علامہ قطّامہ‘ دونوں الفاظ کو جوڑ کر بالعموم لڑاکا عورتیں ہی یہ ترکیب ’ایک دوسری‘ کے لیے استعمال کرتی ہیں، ٹھیک اُس وقت کہ آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ ’گلوچ‘۔ یعنی جب لڑائی میں گالی گلوچ کا رن پڑجائے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عربی الاصل لفظ ’قطّامہ‘ کے یہ معنی ہمیں عربی لغات میں نہیں ملتے۔
عربی میں ’قطمہ، قطماً‘ کا مطلب ہے دانت سے کاٹ کر کھانا۔ ’قطّام‘ اُس شخص کو کہتے ہیں جوگوشت بہت کھاتا ہو یا گوشت کھانے کا ہمیشہ خواہش مند رہتا ہو۔ ’القطام‘ شِکرے کو کہتے ہیں، جو باز سے چھوٹا ایک شکاری پرندہ ہوتا ہے۔’القطامہ‘ اُس چیز کو کہتے ہیں جو دانت سے کاٹ کر دی جائے یا دانت سے کاٹ کر پھینک دی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ضمناً بتاتے چلیں کہ کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو بہت باریک سی جِھلّی ہوتی ہے ’قطمیر‘ کہلاتی ہے(’ق‘ پر زیر ہے)۔ مجازاً یہ لفظ حقیر سی شے کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً ’’مجھے تو اس سے قطمیر بھی نہیں ملا‘‘۔ سورۃ الفاطر کی آیت نمبر 13میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کوخبردارکیا ہے کہ
’’اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو وہ تو قطمیر برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں‘‘۔
اصحابِ کہف کے کتے کا نام بھی مفسرین نے قطمیر اور قطمور بتایا ہے۔ یہ تو ضمنی بات تھی۔ اب پھر لوٹتے ہیں ایک قطّامہ کی طرف۔
تواریخ میں تذکرہ ملتا ہے کہ قطّامہ بنتِ شجنہ، شہرکوفہ کی حسین و جمیل اور نہایت بے باک خارجی عورت تھی۔ اس کا خارجی باپ اور خارجی بھائی دونوں جنگِ نہروان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہٗ کا مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔ اسی وجہ سے قطامہ بنتِ شجنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہٗ سے شدید بغض تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس قطامہ ہی نے اپنے عاشق ابن ملجم کو چوتھے خلیفۂ راشد سیدنا علی مرتضیٰؓ کے قتل پر اُکسایا تھا اور امیرالمومنینؓ کی شہادت کو اپنا مہر قرار دیا تھا۔ ممکن ہے کہ تلمیح کے طور پر قطامہ کا نام استعمال کرتے کرتے ہی ’قطامہ‘ کے وہ معنی معروف ہوگئے ہوں جو ہمیں اردو لغات میں ملتے ہیں۔
’’علّامہ‘‘ والا کالم پڑھ کر ایک خاتون نے بھی یہ سوالیہ فقرہ لکھ بھیجا تھا:
’’ماشاء اللہ۔ علامہ کے معنی تو بہت اچھی طرح سمجھ میں آگئے۔ لیکن اگر مرد علّامہ ہوئے تو خاتون؟‘‘
غالباً خاتون کو معلوم نہ تھا کہ خواتین کو پہلے ہی سے علّامہ کہا جارہا ہے۔ مگر کن معنوں میں؟ یہ معلوم ہوتا تو شاید یہ شوشا ہی نہ چھوٹتا۔ لفظ علّامہ میں تائے تانیث موجود ہے، اس کے باوجود اسے عموماً صفتِ مذکر ہی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ البتہ ’علامہ قطامہ‘ ساتھ ساتھ استعمال ہو تو بڑے سے بڑا ’علامہ‘ بھی مذکر نہیں رہ پاتا۔ زنانہ گالی گلوچ میں ’بد زَنی‘ کی علامت بن جاتا ہے۔ بعض لوگ ’گالی گلوچ‘ کی جگہ ’گالم گلوچ‘ کرنے لگتے ہیں۔ شاید ’گالم‘ کرنے سے گالی زیادہ بھاری یا ثقیل ہوجاتی ہو۔ ورنہ محاورہ تو گالی گلوچ اور گالی گفتار ہی ہے۔
گالی گلوچ یوں بھی کسی مسلمان عورت یا مسلمان مرد کے شایانِ شان نہیں۔ کیوں کہ مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ اورسلامت رہیں۔ موجودہ دور میں اس حدیثِ مبارکہ کا اِطلاق یقیناً ’قلم‘ اور سماجی ذرائع ابلاغ کی بوقلمونیوں پر بھی ہوگا۔ اپنا نفاق آپ جانچ لینے کے لیے منافق کی چار نشانیاں بتائی گئی ہیں۔ اُن میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جھگڑا ہوجائے تو گالی گلوچ پر اُتر آئے۔ پس کیوں نہ امید کی جائے کہ مسلمان پڑوسنیں اگر لڑ بھی پڑیں تو اپنی کسی مسلمان بہن کو برسرِ دیوار ’قطّامہ‘ نہیں کہیں گی۔
پڑوسنوں کی لڑائی کا تذکرہ برصغیر کے افسانوی ادب میں ایک معاشرتی روایت کے طور پر ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب کوئی پڑوسن اپنے کام کاج سے فارغ ہوجاتی تو دیوار پر سے جھانک کر اپنی پڑوسن کو للکارتی:
’’آؤ پڑوسن لڑیں!‘‘
وہ بھی تڑپ کر جواب دیتی کہ
’’لڑے میری جوتی!‘‘
اور لڑائی شروع…
’’تیری جوتی؟ … ارے، میری جوتی تیرے سر‘‘۔
اس کے بعد باہم وہ گُل افشانی گفتار (بلکہ گُل افشانیِ گالی گفتار) ہوتی کہ محلے کا محلہ جوان ہوجاتا۔ گھمسان کا رن پڑجانے اور دونوں رنوں میں خوب اچھی طرح گھمسان برپا ہوجانے کے بعد، یا یوں کہیے کہ فتنہ کھڑا ہوجانے اور گلا بیٹھ جانے کے بعد دیوار پر دیگچی اُلٹ کر رکھ دی جاتی۔ یہ عارضی جنگ بندی کی علامت تھی۔ اس کا مطلب ہے ’باقی کل‘۔
مفت کی لڑائی مول لینے کے معنوں میں اب بھی یہی کہاوت کہی جاتی ہے کہ ’’آؤ پڑوسن لڑیں!‘‘
اب چوں کہ خواتین کے ہاتھ موبائل لگ گیا ہے، چناں چہ اُنھوں نے اپنی اس دیرینہ روایت کو ’ڈیلیٹ‘ کرڈالاہے۔
’ڈیلیٹ‘ کے لیے اردو میں مختصر سا لفظ ’حذف‘ موجود ہے۔ مگر اب اس کا استعمال صرف پارلیمانی گالی گلوچ ’ڈیلیٹ‘ کرنے تک محدود رہ گیا ہے۔’’معزز رُکن کے الفاظ کارروائی سے حذف کیے جاتے ہیں‘‘۔ کبھی کبھی ہمارے اِن معزز ارکان کو بھی یہ ہڑک اُٹھتی ہے کہ ’آؤ پڑوسن لڑیں‘ پھر معاملہ گالی گفتار سے بڑھتے بڑھتے جوتم پیزار تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ معزز ارکان ہماری قوم کے منتخب رہنما ہیں۔ ہمارے یہ معزز رہنما شاید اس خیال سے باہم لڑتے بھڑتے رہتے ہوں گے کہ کہیں انھیں کوئی یہ طعنہ نہ دے بیٹھے کہ زندگی کا فلاں شعبہ آپ کی رہنمائی سے خالی رہ گیا ہے۔
چنگھاڑ چنگھاڑ کر اور گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریر کرنے کی رسم ہماری سیاست میں جناب ذوالفقار علی بھٹو سے چلی۔ اب اس طرزِتقریر کو بلا استثنا ہر سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے اپنا لیا ہے۔ ورنہ اس سے قبل قائداعظم سے لے کر قائدِ ملت و مادرِ ملت تک… مولانا مودودی سے لے کر پروفیسر عبدالغفور احمد تک… اور نواب زادہ نصراللہ خان سے لے کر مولانا شاہ احمد نورانی تک ہمارے تمام قومی رہنماؤں کا لہجہ بہت شائستہ، شُستہ اور باوقار ہوا کرتا تھا۔ اب ہر سیاسی لیڈر شاید اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ اُسے اُس وقت تک سیاسی لیڈر سمجھا ہی نہیں جائے گا، جب تک وہ اپنے حلق سے اُس مخلوق جیسی آواز نہ نکال سکے جس کی آواز کو سورۂ لقمان کی آیت نمبر 19میں بدترین آواز قرار دیا گیا ہے۔
برقی ذرائع ابلاغ پر بولنے والوں کا اس سے بھی بُرا حال ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ میدانِ کارزار سجاکر خود دعوت دیتے ہیں کہ ’’آؤ پڑوسنو لڑو‘‘… اور اس لڑائی کا تماشا دکھا دکھاکر خوب (ریٹنگ) کماتے ہیں۔