عالمی یوم خواتین:ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ کی کانفرنس

عالمی یومِ خواتین کے موقع پر ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت کراچی میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی نمایاں خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کانفرنس سے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ڈاکٹر رعنا خان، فرسٹ ویمن بینک کی پہلی صدر اکرم خاتون، عثمانی اینڈ کمپنی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کی پارٹنر چیف ایگزیکٹو اور انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی پہلی منتخب خاتون نائب صدر حنا عثمانی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانولوجی کی سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نزہت خان، معروف مینٹور موٹیویشنل اسپیکر، ریسرچ اسکالر ڈاو یونیورسٹی رومیصہ زاہدی نے خطاب کیا۔ سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کی لیکچرار قرۃالعین نے چھوٹے کاروبار کرنے والی خواتین کی نیٹ ورکنگ کے لیے ٹرسٹ کے نئے پروگرام وی ٹو گیدر کا تعارف پیش کیا۔ کانفرنس سے ٹرسٹ کی ورکنگ باڈی کی صدر طلعت فخر نے بھی خطاب کیا۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض سینئر جرنلسٹ حمیرہ قریشی (راقم الحروف) نے انجام دیئے۔ کانفرنس میں آدم جی ڈیورا بلٹ پرائیویٹ کی ڈائریکٹرز انجم آدم جی اور شہناز ہیرانی کے علاوہ ویمن پیس فائونڈیشن کی نرگس رحمان اور دیگر نے شرکت کی۔ کانفرنس میں چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والی خواتین کے تعارفی اسٹال بھی لگائے گئے۔ کانفرنس
#Break the Bias, #Together for Betterment
کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں اس پیغام کو اختیار کیا گیا ہے کہ خواتین کی فلاح وبہبود اور ترقی کے حوالے سے موجودہ عالمی منظرنامے میں پاکستان کی مخصوص نظریاتی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کے مطابق ٹھوس اقدامات کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشترکہ اہداف اور حکمت عملیوں پر عمل درآمد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی اور حصولِ انصاف کے نظام کے فعال نہ ہونے کے سبب معاشرے میں خواتین کے حقوق اور حالاتِ کار کے حوالے سے تشویش ناک مسائل ہیں، باوجود اس حقیقت کے کہ گزشتہ برسوں میں اصلاحِ احوال کے لیے بہتر قانون سازی اور موجودہ قوانین سے استفادے کی تفہیم اور آگاہی میں اضافہ ہوا ہے، تاہم اس میں بڑے کام کی ضرورت ابھی باقی ہے۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران خواتین کے مسائل کے حل، ان کے خلاف ظلم و زیادتی کے خاتمے اور ان کے بنیادی انسانی، سماجی، معاشی حقوق کو غصب کرنے کے حوالے سے آواز اٹھانے والے افراد اور تنظیموں کے درمیان مؤثر ابلاغ نہ ہونے کے سبب متحارب گروپس جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں اصلاحِ احوال کا عمل متاثر اور انتشارِ فکری کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔ یہ صورتِ حال پاکستان میں خواتین کی فلاح و ترقی کے عمل میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ مختلف حقیقی مسائل مثلاً خواتین کی عزت و ناموس اور وقار کی حفاظت، جان و مال کا تحفظ جیسا متفق علیہ مسئلہ بھی غالباً بیرونی طاقتوں کی خواہش کے نتیجے میں خلطِ مبحث کا شکار ہوگیا ہے، اور ہر کچھ عرصے بعد اندوہناک سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ اگر ذرائع ابلاغ پر خواتین کی درست نمائندگی کی بات آتی ہے تو اس کو خوامخواہ پردے اور عورت کے دائرئہ کار کی بحث میں الجھا دیا جاتا ہے، جبکہ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ذرائع ابلاغ نے اپنے تشہیری اور تفریحی مواد میں عورت کو کوئی کموڈٹی بنانے کے علاوہ معاشرتی اور اخلاقی بدعنوانی میں ملوث عنصر کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خواتین کا مثبت اور مؤثر کردار اور رول ماڈلز کی تشہیر اور پیشکش آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اسی طرح رسوم و رواج اور ناروا قبائلی اور خاندانی روایات کے نام پر برپا سنگین انسانی جرائم کے خاتمے کی مشترک جدوجہد اور منظم مدافعتی اور پریشر گروپ بننے میں یہ امر مانع ہے کہ اس طرح کے تمام معاملات پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام اور غیر اسلام کی بحث شروع کرکے خود اصلاحِ احوال کے لیے کوششیں کرنے والے آمنے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں، اور نتیجتاً اصل معاملات دب جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اس بحث سے قطع نظر کہ اس میں کون کتنا ملوث اور ذمے دار ہے، آج کی کانفرنس تجویز کرتی ہے کہ ملک میں خواتین کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کرنے والے عناصر کو مؤثر، سنجیدہ اور غیر متعصب رویہ اختیار کرتے ہوئے کھلے ذہن و دل کے ساتھ مکالمے کو فروغ دیتے ہوئے اپنے دائرے میں مشترک نکات پر متظم اور مشترک جدوجہد کے ذریعے برق رفتار اور مؤثر نتائج کے لیے کام کرنا ہوگا۔
عالمی یوم خواتین کانفرنس کے موقع پر جاری کردہ اعلامیے میں پاکستان کی مخصوص نظریاتی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کے مطابق ٹھوس، سنجیدہ اور متوازن حکمت عملیوں اور اصلاحِ احوال کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی و بین الاقوامی منظرنامے میں پاکستان کو معاشی، معاشرتی، سیاسی اور دفاعی اعتبار سے جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اُن سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت کو اپنی ترجیحات کے مطابق بہترین تفہیم کے ساتھ انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کی بحالی سرفہرست ہے۔ شرکائے کانفرنس قومی، معاشرتی ترقی کے عمل میں خواتین کی شمولیت اور معاشی، معاشرتی حالات کو ہر طبقے کی خواتین کے لیے دوستانہ اور موافق بنانے کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر وزیراعظم پاکستان اور تمام متعلقہ وزارتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ:
٭ایسے تمام اقدامات بروئے کار لائے جائیں جو خواتین کے لیے کام کرنے کے ماحول کو دوستانہ اور سازگار بنانے میں معاون ثابت ہوں۔
٭گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں خواتین کے لیے تعلیم و ترقی کے مواقع میں پیدا ہونے والی بہتری کو میڈیا اور تمام تر سرکاری اور غیر سرکاری پلیٹ فارمز پر اجاگر کیا جائے۔
٭بین الاقوامی فورمز پر پاکستانی معاشرے میں عورتوں کے حوالے سے موجود روشن مثالوں کی تشہیر کی جائے، اور محض بیمار ذہن رکھنے والے عناصر کے تذکرے کرکے منفی تشخص کے پروپیگنڈے سے گریز کیا جائے۔
٭بڑے پیمانے پر خواتین کے لیے مؤثر فنی تعلیم اور ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ کے اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے۔
٭گھریلو، دستکاری اور کاٹیج انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ضلعی سطح پر ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو ان علاقوں کی مخصؤص ہنرمند خواتین کی مدد سے ڈومیسٹک اکانومی میں مؤثر شمولیت کا ذریعہ بن سکیں۔
٭ ادارہ جاتی ملازمتوں میں موجود خواتین کو تمام تر آئینی، قانون اور شرعی حقوق فراہم کیے جائیں۔
٭ ورکنگ مدرز کے لیے اداروں سے ملحقہ معیاری ڈے کیئر سینٹر قائم کیے جائیں۔
٭ جائے ملازمت پر سراسیمگی کی روک تھام کے قوانین پر مؤثر عمل درآمد کرایا جائے۔
٭ ملک میں بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل ایجوکیشن کی حامل سند یافتہ خواتین سے استفادے کے لیے ”لچکدار اوقاتِ کار“ کی فراہمی کے لیے فوری مؤثر قانون سازی کی جائے، تاکہ خواتین ڈاکٹرز اور ماہرین اپنی گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ پیشہ ورانہ خدمات بھی انجام دے سکیں۔ خواتین ڈاکٹرز بالخصوص ٹرینی ڈاکٹرز کے لیے نافذ غیر انسانی اوقاتِ کار کا خاتمہ ضروری ہے۔ میڈیکل گریجویٹس کو پوسٹ گریجویشن کے لیے درکار جابس میں شفٹوں کی تعداد میں اضافہ اور لچکدار اوقاتِ کار کا قانون نافذ کیا جائے۔
٭ خواتین کو محفوظ اور باسہولت ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ورکرز کو ٹرانسپورٹ فراہم کریں۔ نیز پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاح کے ذریعے خواتین کے لیے مخصوص ٹرانسپورٹ کا اضافہ کیا جائے۔
٭سرکاری ملازمتوں میں خواتین کی شمولیت کے لیے عمر کی حد بڑھائی جائے، تاکہ اپنی خانگی زندگی کے انتہائی اہم اور مصروف ابتدائی دس سال گزارنے کے بعد بھی ان ملازمتوں کے لیے اہل ہوں۔
٭ سرکاری اداروں میں خواتین کو اُن کے رہائشی مقام سے قریب تعینات کیا جائے، شوہر اور بیوی کی پوسٹنگ ایک ہی شہر میں کی جائے۔
٭ خواتین کی ملازمت کے اوقات کا تعین کرتے ہوئے ان کی خانگی ذمے داریوں کا لحاظ رکھا جائے۔ مردوں کے مقابلے میں یہ اوقاتِ کار نسبتاً کم اور لازمی سروسز میں شفٹوں کی تعداد زیادہ رکھی جائے۔
٭میٹرنٹی لیوز کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد اور ایڈہاک ملازمتوں پر بھی میٹرنٹی لیوز کی سہولت فراہم کی جائے۔
٭شعبہ تعلیم پرائیویٹ اسکول ٹیچرز کے لیے قوانین بنانے اور ان کے مؤثر نفاذ پر فوری توجہ کرے۔
٭ نجی اداروں کو بھی خواتین ورکرز کے حوالے سے قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے۔
٭ ہوم بیس ورکرز کی رجسٹریشن کے عمل کو مکمل اور اُن کے لیے بنائی گئی پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
٭دیہی علاقوں میں کھیتوں، منڈیوں اور حویلیوں میں کام کرنے والی خواتین کارکنوں کو سرکاری سطح پر فورس میں شامل کیا جائے، اور قانون سازی اور پالیسی سازی کے ذریعے ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
٭ مختلف کارخانوں میں بغیر کسی تحریری معاہدے کے خواتین سے گھروں پر کام کروایا جاتا ہے اور معاوضے کی شرح درجن اور سیکڑے کے حسا ب سے انتہائی قلیل مقرر کی جاتی ہے۔ اس استحصال کے خاتمے کے لیے تمام اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ فارمل اور ان فارمل لیبر فورس کا مکمل ڈیٹا فراہم کریں۔
٭ مارکیٹنگ اور سیلز سے وابستہ خواتین کو معاشرتی اقدار سے متصادم ڈریس کوڈ اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے، اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
٭ خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے اور خواتین کو میڈیا پر پیش کرنے کے حوالے سے میڈیا کو اخلاقی حدود و قیود کا پابند کیا جائے، اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ذرائع ابلاغ کے لائسنس منسوخ کیے جائیں۔