ری بلڈ کراچی :شعبہ کھیل کو درپیش مسائل اور ان کا حل

گزشتہ دہائیوں میں پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کہلانے والا کراچی صرف دہشت گردی کا شکار نہیں رہا، بلکہ گن گن کر اور چن چن کر اس شہر کی جن شناختوں کو ایک ایک کرکے ختم کیا گیا ہے، اُن میں کراچی کے کھیل کے میدان اور کھیل بھی شامل ہیں۔ کھیلوں کے حوالے سے اس شہر کا بڑا مقام رہا ہے اور اس نے کھیلوں کے مختلف شعبوں میں پاکستان کو بہترین کھلاڑی دیئے ہیں-
کرکٹ میں حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد، صادق محمد، ہاکی میں حنیف خان، حسن سردار، کامران اشرف، قمر ابراہیم، احمد عالم ہوں، اسکواش میں  جہانگیر خان ہوں یا اسنوکر کے محمد یوسف… ان سب نامور اور بہترین کھلاڑیوں کی شناخت اور پہچان کراچی ہے- کراچی کا فٹ بال میں کردار تھا، یہاں کے باکسر شہرت رکھتے تھے۔ لیاری فٹ بال اور باکسنگ کا گڑھ ہوتا تھا۔ اب اس شہر سے باقی شعبوں کی طرح کھیل بھی ختم ہوگیا ہے، کھیل کے میدان غائب ہوگئے ہیں- آج لاکھوں کی آبادی والے علاقوں میں ایک بھی کھیل کا میدان نہیں ہے- دیکھتے دیکھتے کھیل کے میدان ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مختلف قبضہ مافیاز نے فروخت کردیئے ہیں جہاں لوگوں نے اپنے گھر اور دکانیں بنا لی ہیں- کرکٹ کے بے شمار ایسے میدان تھے جو کراچی کی کرکٹ کے لیے نرسری کا کردار ادا کرتے تھے، ان کو یکسر ختم کردیا گیا۔ بدقسمتی سے کسی سیاسی جماعت نے… چاہے وہ اپوزیشن میں یا اقتدار میں.. اس حوالے کبھی نہیں سوچا، اور یہی وجہ ہے کہ آج میدان ویران ہیں اور کراچی کا نوجوان بے مقصدیت کے ساتھ جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ رہا ہے، ایسے شہر میں جو مسائل کی آماجگاہ ہو اور ایسی مایوس کن صورت حال میں جب امید کا کوئی چراغ بھی جلتا نظر نہیں آرہا جماعت اسلامی کراچی کے تحت ”کراچی میں شعبہ کھیل کو درپیش مسائل اور ان کے حل“ کے حوالے سے معروف قومی کھلاڑیوں کے ہمراہ پینل ڈسکشن ہوا کا تازہ جھونکا ہے، یہ اس تحریک کا تسلسل بھی ہے جس میں جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک ”ری بلڈ کراچی“ کے سلسلے میں شہریوں کو درپیش سنگین و گمبھیر مسائل کو اُجاگر کررہی ہے اور ان کے حل کے لیے ماہرین کے ساتھ مل کر تجاویز بھی دے رہی ہے، اور اس پس منظر میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کے سیشن مرحلہ وار پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
گزشتہ دنوں  مقامی ہوٹل میں ”شعبہ کھیل کو درپیش مسائل اور ان کے حل“ کے حوالے سے معروف قومی کھلاڑیوں کے ہمراہ منعقدہ پینل ڈسکشن میں سابق ہاکی اولمپین اصلاح الدین، سابق قومی کرکٹر صادق محمد، قومی کرکٹ کے سابق کپتان یونس خان، اسپورٹس سے وابستہ سینئر صحافی یحییٰ حسینی، کراچی ٹینس ایسوسی ایشنز کے صدر خالد رحمانی، معروف باکسر علی اکبر شاہ قادری اور مبشر مختار نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پروگرام کے انعقاد میں ماہرِ امراضِ خون ڈاکٹر ثاقب انصاری کا اہم کردار تھا،نظامت کا فریضہ بھی انہوں نے انجام دیا۔
پروگرام میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ کھیل اور صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے، کھیلوں کے میدان ویران ہوجائیں اور جسمانی سرگرمیاں محدود ہوجائیں تو اسپتال آباد ہوتے جائیں گے۔ صحت مند اور مثبت سرگرمیوں کے مواقع نہیں ہوں گے تو نوجوانوں میں تخریبی رجحانات پیدا ہوں گے۔ بدقسمتی سے کسی بھی سیاسی پارٹی کے ایجنڈے میں اسپورٹس شامل ہی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ حکمران اور تمام پارٹیاں تعلیم، صحت اور اسپورٹس کو اپنے ایجنڈے میں شامل کریں، بینکوں سمیت دیگر اداروں کو چاہیے کہ سی ایس آر (کارپوریٹ سوشل رسپونسیبلٹی) کے تحت کھیلوں کی سرپرستی کریں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بتایا کہ جماعت اسلامی ادارئہ نورحق میں اسپورٹس سے متعلق بھی ایک ڈیسک قائم کررہی ہے۔ جماعت اسلامی تعمیری سیاست کرنا چاہتی ہے جس سے کراچی آگے بڑھے۔ ہم جو کام خود کرسکتے ہیں وہ کریں گے، اور جو حکومت سے کام کروانے ہیں وہ کروائیں گے۔ جماعت اسلامی حکومت میں نہیں ہے لیکن ہمیں جب بھی موقع ملا ہے ہم نے دیگر شعبوں کی طرح اسپورٹس کے شعبے میں بھی بھرپور کام کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ عوام کو تعلیم وصحت کی فراہمی ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہے۔ صوبے میں 49 ہزار اسکول ہیں لیکن کوئی بھی اسکول ایسا نہیں ہے جہاں سے معیاری تعلیم حاصل کی جاسکے، صوبہ سندھ میں 173ارب روپے صحت کا بجٹ اور277ارب روپے تعلیم کا بجٹ ہے جو عوام پر خرچ ہی نہیں کیا جاتا۔ پاکستان نے ماضی میں کم وسائل کے باوجود اسپورٹس کے شعبے میں اپنا نام پیدا کیا، لیکن جو سہولتیں دستیاب تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئیں۔ کراچی میں عملاً 87 گراؤنڈ موجود ہیں جن میں سے صرف 25 گراؤنڈ ایسے ہیں جہاں نوجوان کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ چائنا گراؤنڈ کی بات تو کی جاتی ہے لیکن چائنا کٹنگ کیے گئے گراؤنڈز کو کون آزاد کروائے گا؟ جماعت اسلامی نے چائنا کٹنگ اور کھیل کے میدانوں پر قبضے کے خلاف پہلے دن سے آواز اٹھائی ہے۔ شہر میں کھیل کے میدانوں اور پارکوں پر قبضے کے خلاف سب کو مل کر آواز اٹھانا ہوگی۔
سابق اولمپین اور پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اصلاح الدین نے کہا کہ کسی بھی ادارے میں میرٹ کا قتل ہوگا تو اس کا زوال ہوگا۔ اسپورٹس کے تمام اداروں میں میرٹ کا قتل کیا جارہا ہے۔ بہتری کے لیے نیک اور مخلص لوگوں کو آگے لانا ہوگا، اسپورٹس کے اداروں میں نیک اور باصلاحیت لوگوں کی ضرورت ہے، نہ صرف کھیلوں کا انفرااسٹرکچر ٹھیک کرنا ہوگا بلکہ میدانوں کو بھی آباد کرنا ہوگا۔ کراچی سمیت پورے پاکستان میں تمام کھیلوں میں ٹیلنٹ موجود ہے۔ کراچی کے نوجوان ذریعہ معاش نہ ہونے کی وجہ سے کھیلوں سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں، ناقص پالیسی کی وجہ سے ٹیلنٹ ضائع کیا جارہا ہے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر صادق محمد کا کہنا تھا کہ کھیلوں کے میدانوں کو آباد کرنے کے لیے گورننگ باڈی میں پڑھے لکھے لوگوں کو بھیجا جائے۔ یہ اچھی بات ہے کہ جماعت اسلامی تمام شعبہ جات میں کام کررہی ہے اور کھیل کے شعبے میں بھی بہترین کام کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے اسکولوں میں کھیلوں کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کروائے۔ اسکولوں کے ساتھ میدان آباد کرنے سے کھیلوں کو فروغ حاصل ہوگا۔ کرکٹ، ہاکی، اسکواش، ٹیبل ٹینس، باکسنگ کے حوالے سے بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے۔
پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ سنچریاں اور رنز بنانے والے بیٹسمین سابق کپتان یونس خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کا شکر گزار ہوں کہ اس نے آج کھیل کے حوالے سے لیجنڈز کو اکٹھا کیا۔ بدقسمتی سے گراؤنڈ ختم ہوتے جارہے ہیں اور جو ہیں انہیں کمرشل کردیا گیا ہے۔ عوام پہلے ہی پریشان حال ہیں ایسے میں گراؤنڈ میں کھیلنے کے لیے بھاری فیسیں کیسے ادا کرسکتے ہیں؟حکومت اور پی سی بی کو چاہیے کہ کھیلوں کے میدانوں کو آباد کرے۔
اسپورٹس سے وابستہ سینئر صحافی یحییٰ حسینی نے کہا کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے لیکن روشنیاں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ میدانوں کی جگہ بڑی بڑی عمارتیں بنادی گئی ہیں۔ جماعت اسلامی سے گزارش ہے کہ کچرے کے ڈھیروں کو صاف کرواکے میدان آباد کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ایسے بچوں کو آگے لائیں جو کھیلنا چاہتے ہیں لیکن ذریعہ معاش نہ ہونے کی وجہ سے کھیل نہیں پاتے۔ کراچی ٹینس ایسوسی ایشنز کے صدر خالد رحمانی نے کہاکہ فزیکل ہیلتھ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، سماجی مسائل کو کھیلوں کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے، صحت کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ معروف باکسر علی اکبر شاہ قادری نے کہاکہ اسپورٹس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کراچی میں اسپورٹس کی بنیاد یونیورسٹی سے ڈَلی، انور علی مرحوم اس کے بانی تھے،آج بدقسمتی سے کھیلوں کو تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا ہے،اٹھارہویں ترمیم سے کھیلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا، تمام صوبوں میں اسپورٹس کے وزیر ہیں مگر انہیں اسپورٹس سے کوئی دلچسپی نہیں۔
سیکریٹری پاکستان باکسنگ ایسوسی ایشن محمد اکرم خان، مارکیٹنگ کنسلٹنگ ٹینس کمیٹی و کرکٹ تجزیہ کار صہیب علوی،ڈاکٹر واسع شاکر، ڈپٹی سیکریٹری راشد قریشی، الخدمت کے چیف ایگزیکٹونوید علی بیگ،سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری و دیگر بھی اس موقع پر موجود تھے۔