پنجاب میں تبدیلی؟

ملک میں تحریک عدم اعتماد کے نام سے شروع ہونے والی سیاسی چال ڈرامائی انداز میں اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں 27 فروری سے کراچی سے شروع ہونے والا لانگ مارچ بدین، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر، رحیم یار خان، بہاولپور، ملتان، خانیوال، ساہیوال اور لاہور کے بعد گوجرانوالہ، وزیرآباد، گجرات، کھاریاں سے ہوتا ہوا پیر کی رات روات میں داخل ہوگیا ہے، اور آج بروز منگل اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچے گا۔ چناں چہ بلاول بھٹو نے وزیراعظم کو 24 گھنٹے میں مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ اس سے پہلے وہ کبھی پانچ دن، کبھی چار اور کبھی تین دن کا الٹی میٹم دے رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے پر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دی جائے گی اور اُس وقت تک ان کے نمبر بھی پورے ہوجائیں گے (تازہ اطلاع یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ہے)۔ جب کہ مولانا فضل الرحمٰن، شہبازشریف، مریم نواز، احسن اقبال اور رانا ثنا اللہ کئی دن قبل سے کہتے آرہے ہیں کہ اُن کے پاس نہ صرف نمبر پورے ہیں بلکہ زائد نمبر بھی موجود ہیں۔ اور دوسری جانب حکمران تحریک انصاف بھی پوری طرح متحرک ہے اور بار بار اپنے پُراعتماد ہونے کا اعلان کررہی ہے۔ حکمران جماعت کے علی زیدی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ پورے سندھ کا چکر لگا کر کراچی پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اس مارچ کو کوئی بہت زیادہ پذیرائی نہیں مل رہی۔ چناں چہ سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے حیدرآباد میں گلہ کیا کہ حیدرآباد والو! ہم تو یہاں پہنچ گئے ہیں مگر تم نہیں آئے۔ خود وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد سے عوامی جلسے کررہے ہیں یا ہر روز کسی نہ کسی بیان سے سیاسی سرگرمی میں مصروف ہیں۔ اُن کے مشیر تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کے لتے لے رہے ہیں اور میڈیا اور عوام کو یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ حکومت کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ جبکہ وزیراعظم میلسی کے جلسے میں اپوزیشن کو یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ جب آپ کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی تو آپ کو پتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ کیا کروں گا؟ وزیراعظم نے گزشتہ چند دنوں میں جہاں عوامی بھلائی کے کئی اعلانات کیے ہیں وہیں وہ آرمی چیف کے ساتھ اپنی ملاقات کو بار بار چینلز پر چلوا رہے ہیں، جس میں وزیراعظم زبردستی مسکرا رہے ہیں، جبکہ آرمی چیف سپاٹ چہرے کے ساتھ موجود ہیں۔ وزیراعظم کے یہ اقدامات 1977ء کے اپریل سے جولائی تک کے اقدامات جیسے ہیں۔ اللہ کرے انجام وہی نہ ہو۔ سیاسی طور پر جہاں اپوزیشن آپس میں تیزی سے ملاقاتیں کررہی ہے، حکومتی اتحادیوںکے گھروں پر جارہی ہے، وہیں حکمران جماعت اپنی صفوں میں بھی شکایات کو دور کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔ اب معلوم نہیں کہ یہ کوششیں بروقت ہیں یا رائیگاں جائیں گی۔ عمران اسماعیل اور پرویز خٹک کی قیادت میں تحریک انصاف کے ناراض ارکان سے رابطے بھی شروع ہوگئے ہیں۔لیکن مہینے بھر کی اس سیاسی مشقت کا نتیجہ پنجاب میں اچانک نمودار ہوا ہے۔ ملکی حالات پر کڑی نظر رکھنے والے اور خصوصاً ہماری اسٹیبلشمنٹ کی نفسیات اور ماضی سے واقف اہلِ نظر شروع ہی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کا متحرک ہونا اور حکومت کا مدافعانہ انداز اختیار کرنا ایسے ہی نہیں ہے، اس سب کے پیچھے کہیں نہ کہیں اسٹیبلشمنٹ موجود ہے جو آخری وقت میں تمام معاملات کو اپنے کنٹرول میں کرلے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ سرگرمیوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ محض تماشائی نہیں لیکن محتاط ہے۔ ان حلقوں کا پہلے دن سے کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک ہرگز کامیاب نہیں ہوگی، ایک تو اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں، دوسرے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا لالچ انہیں آخر میں حکومتی پلڑے میں لے جاتا ہے، لیکن سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے بغیر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو پارلیمان کے اندر سے تبدیلی کا عمل شروع ہوجائے گا اور اسٹیبلشمنٹ کا سارا کھیل ختم ہوجائے گا جس کی ہماری اسٹیبلشمنٹ کبھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگر پارلیمان خود ہی وزیراعظم بنانے یا ہٹانے لگے تو یہ ایک ایسی طاقت ور اور اخلاقی طور پر مضبوط پارلیمنٹ بن جائے گی جو اسٹیبلشمنٹ کے تابع نہیں رہے گی، اور یہ اسٹیبلشمنٹ کے وارے میں نہیں ہے۔پنجاب میں جہانگیر ترین گروپ میں علیم خان گروپ کی شمولیت ایک ایسا دھماکا ہے جس کے بارے میں واقف حلقے شروع سے کہہ رہے تھے کہ یہ پنجابی زبان میں کھبی دکھا کر سجی مارنے (بائیں کنی دکھا کر دائیں کنی مارنے) کا عمل ہے۔ اپوزیشن دبائو مرکز میں عدم اعتماد کا ڈال رہی تھی اور اصل کام پنجاب میں کرنے جارہی ہے۔ معلوم نہیں یہ اپوزیشن کی حکمت عملی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی چال کہ اس طرح معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکے۔ ایسے میں پنجاب میں تبدیلی آسکتی ہے، لیکن شاید اپوزیشن کے ہاتھ تو کچھ نہ آئے، عمران خان آخرکار عثمان بزدار کی قربانی دینے پر راضی ہوجائیں گے، وہ جواب میں پرویزالٰہی کو پنجاب سونپ سکتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں پرویزالٰہی اپوزیشن خصوصاً نون لیگ سے اچھی طرح نمٹنا جانتے ہیں، لیکن اپوزیشن خصوصاً نون لیگ ان کی حمایت نہیں کرے گی، وہ حکومتی ووٹوں اور آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی درپردہ حمایت سے شاید پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سنبھال لے اور اگلے انتخابات تک کا وقت حکمرانوں کو مل جائے۔ لیکن دوسری جانب اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ عمران خان تحریک انصاف ہی کے اندر (ترین یا علیم خان گروپ میں سے) نیا وزیراعلیٰ (باقی صفحہ 41پر)پنجاب لے آئیں۔ ایسی صورت میں قاف لیگ حکومت سے دور ہوسکتی ہے۔ اگر پنجاب میں تبدیلی آئی تو شاید عمران خان مرکز میں اپنا بقیہ وقت پورا کرلیں، اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ملک زیادہ بڑے بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ مستقبل کا اصل نقشہ تو اللہ کی ذات ہی جانتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ موجودہ رساّ کشی میں اصولی مؤقف نہ تو حکومت کا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا۔ ایسے میں جماعت اسلامی نے معقول سیاسی راستہ اپنایا ہے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم کے مطابق اگر موجودہ توڑ پھوڑ کے بعد کوئی عبوری سیٹ اَپ آتا ہے تو جماعت اس کی حمایت نہیں کرے گی، البتہ اگر عمران خان کی رخصتی کی صورت میں قومی انتخابات ہوتے ہیں تو جماعت اس کی حمایت کرسکتی ہے۔ آصف زرداری کی منصورہ آمد پر جناب لیاقت بلوچ نے واضح کردیا تھا کہ تبدیلی آئینی اور قانونی ہونی چاہیے۔ جناب سراج الحق نے یہ بات جناب آصف زرداری پر بھی واضح کردی تھی کہ اگر فوری انتخابات کی طرف ملک جاتا ہے تو جماعت اس پر غور کرسکتی ہے۔