معاشرے میں عورت کا مقام

اسلامی نظریئے کے مطابق معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہے، مختصر طور پر دو نکات میں اسے بیان کیا جاسکتا ہے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام اس بات کو ضروری و لازم قرار دیتا ہے کہ ابتدا ہی سے عورت کے اخلاق کی درستی و پاکیزگی کی کوشش کی جائے، اور اس کی تربیت اِس طرح کی جائے کہ وہ فضائل و کمالات کی حامل بن سکے۔ اسلام والدین اور لڑکیوں کے سرپرستوں کو اس تربیت پر ابھارتا ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے اجرِ عظیم کا وعدہ کرتا ہے، اور اگر وہ اس میں کوتاہی کریں تو سزا کی دھمکی دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
(ترجمہ)’’اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت اور متشدد فرشتے متعین ہیں، جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور جن باتوں کا انہیں حکم دیا جاتا ہے، اُن کی تعمیل میں مصروف رہتے ہیں‘‘۔(تحریم6:66)
اور حدیث صحیح میں ہے:
’’تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے، اور ہر شخص سے اسے دی گئی ذمے داری کے بارے میں بازپرس ہوگی۔ امیرالمومنین ذمے دار ہے اور اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا، آدمی اپنے اہل و عیال کا ذمے دار ہے اور اُسے ان کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمے دار ہے اور اُس سے اِس سلسلے میں پوچھ گچھ ہوگی، اور نوکر اپنے آقا کے مال کا ذمے دار ہے اور اُس سے اِس سلسلے میں سوال ہوگا، غرض تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے اور اسے اپنی ذمے داری کی جواب دہی کرنی ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: 3496)
حضرت ابن عباسؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ جب تک اُس کے ساتھ رہیں یا وہ اُن کے ساتھ رہے، اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے تو وہ اسے جنت میں پہنچانے کا باعث بنیں گی‘‘۔ (ابن حبان، کتاب البروالاحسان، حدیث: 447)
اور ابو سعید خدریؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور اُن کے ساتھ اچھی طرح رہے اور اُن کے معاملے میں خداترسی کی روش اختیار کرے تو وہ جنت کا مستحق ہے‘‘۔ (ترمذی، ابواب البر والصلۃ، حدیث: 1888)
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظِ حدیث انھی کے ہیں، اور امام ابودائود نے بھی اسے روایت کیا، مگر اُن کے الفاظ یہ ہیں کہ اُس نے ان کو تربیت دی اور ان سے حسنِ سلوک کیا اور ان کی شادی کرادی تو اس کے لیے جنت ہے۔
عورت کی حُسنِ تربیت کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ اسے اُن چیزوں کی تعلیم دی جائے جو اُس کے لیے ناگزیر ہیں اور جن کی ضرورت اسے اپنی ذمے داریوں کی انجام دہی میں پڑتی ہے، جیسے: لکھنا پڑھنا، حساب کتاب، دینی تعلیم، سلف صالح مردوں اور عورتوں دونوں کی تاریخ، تدبیر منزل، حفظانِ صحت، مبادی تربیت، امورِ اطفال اور وہ تمام امور جن کی ایک ماں کو گھر کے نظم اور بچوں کی نگہداشت کے سلسلے میں ضرورت پڑتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں، انہیں دین میں بصیرت و تفقہ حاصل کرنے میں شرم مانع نہیں آتی۔‘‘ (ابودائود، کتاب الطہارۃ، حدیث: 273)
چنانچہ سلف میں بہت سی عورتیں علم و فضل اور بصیرتِ دین میں بہت اونچا مقام رکھتی تھیں۔ رہے وہ علوم جن کی عورت کو ضرورت نہیں، تو ان پر زور دینا فضول و بے فائدہ ہے، کیوں کہ عورت کو ان کی کوئی حاجت نہیں اور اُس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنا وقت کسی مفید اور نفع بخش کام میں لگائے۔ چنانچہ عورت کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ اسے مختلف زبانوں میں تبحر حاصل ہو، اور نہ اسے خصوصی فنی معلومات کی ضرورت ہے، کیوں کہ جیسا کہ عنقریب معلوم ہوگا کہ عورت اوّل و آخر گھر ہی کے لیے ہے۔ نہ عورت کو اس کی حاجت ہے کہ اسے قانون میں مہارت حاصل ہو، بس اس کو قانون کا اتنا علم کافی ہے جس کی عام طور پر لوگوں کو ضرورت پڑتی ہے۔
مشہور قدیم عربی شاعر ابوالعلا المعری عورتوں کے بارے میں کہتا تھا:
’’ان کو کاتنا اور بُننا سکھائو اور نوشت و خواند چھوڑ دو۔ کیوں کہ ’’حمد‘‘ اور ’’اخلاص‘‘ کے ساتھ لڑکی کا نماز پڑھنا کافی ہے، اور ’’یونس‘‘ اور ’’برأت‘‘ پڑھنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
لیکن ہم اس حد پر ٹھیرنے کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتے، مگر ہم وہ بھی نہیں چاہتے جو یہ غالی اور افراط پسند لوگ چاہتے ہیں کہ عورت پر ان علوم و فنون کو لاد دیں جن کی اُس کو کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت کو وہ تعلیم دو جس کی اسے اپنی اُن ذمے داریوں اور خدمات کی ادائیگی کے سلسلے میں ضرورت ہے جن کے لیے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے، یعنی تدبیر منزل اور بچے کی نگہداشت و تربیت۔
(ماہنامہ بیداری،حیدرآباد، اگست2019ء)