یوکرین پر روس کا حملہ نہ غیر متوقع تھا اور نہ ہی مغرب کے لیے کوئی عذر باقی رہا کہ وہ یوکرین کو بچانے کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ روس تقریباً ایک ماہ سے اپنی افواج یوکرین کی سرحد پر جمع کررہا تھا اور میڈیا بھی اس کو بار بار رپورٹ کررہا تھا، لیکن اس سب کے باوجود نیٹو اور امریکہ کی جانب سے یوکرین پر حملہ ہونے کے باوجود تادم تحریر کوئی بھی عسکری جواب روس کو نہ دیا جاسکا۔
یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ یوکرین کا نیٹو و یورپی یونین میں شمولیت کی جانب جھکاؤ تھا۔ یوکرین پر روس کے حملے کے تین دن بعد تک یوکرینی صدر میڈیا پر یورپ اور امریکہ سے مدد کی بھیک مانگتا رہا، لیکن یوکرینی صدر زولینسکی کے بقول یورپی یونین نے فون اٹھانا بند کردیے اور امریکہ بہادر نے صدر کو طیارہ بھیج کر فرار میں مدد دینے کی رائے دی جو کہ زولینسکی نے شکریے کے ساتھ مسترد کردی۔ جنگ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ رواں تبصرے کی صورت میں ٹی وی چینل نشر کررہے ہیں، ان میں سب سے اہم بیانیہ وہ ہے جو مغرب کے میڈیا کی جانب سے سامنے آرہا ہے۔ مغربی میڈیا ایک جانب روسی جارحیت کی تو مکمل طور پر مذمت کررہا ہے لیکن دوسری جانب نیٹو اور اپنے اپنے ممالک کی جانب سے یوکرین کی مدد نہ کرنے پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہا، کیونکہ یوکرین کا اصل معاملہ ہی یورپی یونین و نیٹو میں شمولیت کا تھا جس کے باعث وہ روسی جارحیت کا شکار ہوا۔ ایک اور دلچسپ پہلو بھی میڈیا سامنے لانے میں ناکام ہے یا اس کو وہ جگہ نہ مل سکی جو کہ دی جانے چاہیے تھی.. وہ پہلو یہ ہے کہ روس پر اقتصادی پابندیوں پر خود یورپی یونین متحد نہ ہوسکی، اور جرمنی اور اٹلی نے روس سے تجارتی روابط بحال رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک جانب جرمنی روس سے گیس حاصل کررہا ہے اور دوسری جانب اُس نے روسی جارحیت سے نمٹنے کے لیے یوکرین کو اسلحہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔
عالمی میڈیا مکمل طور پر ایک جانب انسانی حقوق کا مقدمہ لڑتا نظر آتا ہے اور دوسری جانب انسانیت کو بھی رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم کرتا نظر آرہا ہے۔ ٹی وی رپورٹنگ کے دوران یوکرین پر حملے کے سلسلے میں مہذب ترین قوم پر، نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والوں پر بھی حملے کا نسل پرستانہ بیانیہ واضح ہے۔ برطانوی میڈیا خاص طور پر جنگ کو انسانیت کی تذلیل کے طور پر پیش کررہا ہے، اور میڈیا میں اخبارات سے لے کر ٹی وی تک ایسی کوریج کی جارہی ہے کہ جس سے روس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سامنے لایا جاسکے۔ یوکرین سے ہجرت کرکے دوسرے ممالک کی جانب جانے والے مردوں کو یوکرینی افواج نے روک کر واپس جانے پر مجبور کیا تاکہ وہ دفاعِ وطن کا فریضہ انجام دے سکیں، لیکن اس اقدام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے تناظر میں قطعی طور پر نہیں دکھایا گیا، کہ اگر کوئی فرد جنگ نہیں کرنا چاہتا تو کیوں اس کو لڑنے پر مجبور کیا جائے! تاہم ماضی میں یہ پروپیگنڈہ مغرب کی جانب سے متعدد بار کیا گیا کہ افغانستان میں مردوں کو لڑنے کے لیے مجبور کیا گیا۔
ایک اور دلچسپ پہلو بھی مغرب کے دُہرے معیار کو آشکار کررہا ہے کہ کل تک یوکرین کی فوج عالمی فوج کا حصہ بن کر عراق میں محض اس ایک جھوٹ کی بنیاد پر کہ عراق کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں، عراق میں قائم حکومت کا عسکری بنیادوں پر تختہ الٹ رہی تھی، آج خود یوکرین اس کا شکار ہے کہ جہاں روس عسکری طاقت کی بنیاد پر یوکرین کی حکومت کا تختہ الٹ رہا ہے لیکن اب اس کو جنگی جنون اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے۔ ماضی میں مغربی اقوام امریکہ کی آشیر باد سے بہت سی ایسی تنظیموں پر پابندی عائد کروا چکی ہیں جو کہ تباہ حال و جنگ زدہ علاقوں میں عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے چندہ جمع کررہی تھیں، مغرب نے ان کے لیے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ سب ”جہاد“ کرنے یا اس کو بڑھوتری دینے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے باعث ان تنظیموں کو نہ صرف پابندی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کے ملک و بیرونِ ملک اکاؤنٹس کو بھی منجمد کردیا گیا۔ لیکن آج خود مغرب اور خاص طور پر مغربی میڈیا جس میں بی بی سی جیسا ریاستی نشریاتی ادارہ اور ڈیلی میل جیسا بڑا اخبار شامل ہے، نہ صرف اپنی نشریات اور اخبار میں یوکرین کے لیے فنڈز جمع کررہے ہیں بلکہ ڈیلی میل تو باضابطہ طور پر اس میں اپنا حصہ بھی ملا رہا ہے، اور یہ سب کچھ جلی حروف میں شائع کیا جارہا ہے۔ اس میں بہت سے دیگر ادارے بھی شامل ہیں مثلاً آن لائن ٹیکسی سروس بولٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی آمدن کا پانچ فیصد یوکرین کے لیے مختص کررہے ہیں۔ کھیل، جن کو دنیا بھر میں امن کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جن میں دنیا بھر کے کھلاڑی امن کا پرچار کرتے ہیں وہاں بھی بدقسمتی سے جنگ کا بیانیہ عود کر آیا ہے۔ پیرا اولمپکس میں شامل روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں کو ان کھیلوں سے باہر کردیا گیا ہے جس پر ان کھلاڑیوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے کھیل میں جنگ کو داخل کرنے کی کوشش قرار دیا، وہیں فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا اور یورپ کی فٹ بال ایسوسی ایشن نے بھی روس کی ٹیم کی عالمی مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس تمام تر صورت حال اور سنگین اقدام کی دھمکیوں کے باوجود کوئی بھی فوجی کارروائی یوکرین پر قبضے کو روکنے کے لیے نہیں کی جاسکی۔ جو کچھ بھی اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اُن کا اثر روس کی حکومت پر کم اور عوام پر زیادہ پڑنے کا امکان ہے۔ ادھر ایک جانب امریکی صدر جوبائیڈن نے بیان دیا ہے کہ وہ روسی عوام کے نہیں بلکہ روسی حکومت کے اقدامات کے خلاف ہیں، لیکن پیرا اولمپکس اور فٹ بال جیسے عالمی کھیل سے روس کو باہر کرکے پیغام یہ دیا جارہا ہے کہ وہ پوری روسی قوم کے خلاف ہیں۔ یہاں لندن میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو اُس وقت سخت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب پریس بریفنگ کے دوران یوکرینی صحافی نے جذباتی انداز میں سوال کیا کہ محض جھوٹی تسلیوں سے ہی یوکرین کے عوام کو بہلایا جائے گا یا اس جارحیت کو روکنے کے لیے برطانیہ و نیٹو حرکت میں آئیں گے؟ مغرب میں ایسے سوالات اب بکثرت اٹھائے جارہے ہیں جن میں برطانیہ کی حکومتی پالیسی کو واضح انداز میں بیان کرنے پر زور دیا جارہا ہے، اس معاملے پر حکومتِ برطانیہ ابھی تک زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کرسکی، اور حکومتی بیانیے میں یہ عندیہ دیا جارہا ہے کہ اس میں کسی بھی قسم کی براہِ راست شرکت سے عالمی امن کے تباہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔
تادمِ تحریر روس نے اب یوکرین کے دارالحکومت کیف کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے لیا ہے اور آزاد ذرائع کے مطابق روسی افواج دارالحکومت کیف سے صرف 30 میل کی دوری پر ہیں۔ اگر کیف پر روس قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر خطے میں طاقت کا توازن یکسر تبدیل ہوجائے گا، اور اس بات کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر روس براہِ راست دوبارہ سوویت یونین نہ بنا سکا، تب بھی مشرقی یورپ کے ممالک اُس کے زیرنگین ہوجائیں گے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے اور جرمنی کے روس سے اقتصادی روابط بحال رکھنے کے بعد یورپی یونین کی حیثیت ہی ختم ہوجائے گی۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ روسی ماہرین نے سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے بریگزٹ یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کو یقینی بنانے میں مدد دی۔ اس پر تحقیقات بھی اسی نتیجے پر ختم ہوئیں۔ اگر روس یوکرین پر قبضہ کرلیتا ہے تو شاید دنیا میں ایک نیا عالمی منظرنامہ نظر آئے گا۔ مغرب اس پر سوچ بچار میں مصروف ہے اور میڈیا اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے تناظر میں دکھا رہا ہے۔ واضح رہے کہ مغرب کا یہی میڈیا ہے جو کل تک افغانستان و عراق میں برسائے جانے والے تباہ کن بموں کا استعمال بھی جائز قرار دیتا تھا اور اب اسی میڈیا کو انسانی حقوق یاد آرہے ہیں۔ جنگ کے اس ماحول میں جہاں خوف کے مہیب سائے موجود ہیں، وہیں اس بات کی امید بھی ہے کہ دنیا اب شاید یک قطبی نہ رہے اور اس میں امید کی نئی کرن بہرحال موجود ہے۔