روس یوکرین جنگ دوسرے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے۔ روسی جرنیلوں نے اپنے صدر کو یقین دلایا تھا کہ ساری کارروائی 96 گھنٹے میں مکمل کرلی جائے گی۔ طے یہ ہوا تھا کہ دارالحکومت کیف پر قبضے کے بعد ماسکو کی منظورِ نظر حکومت کو اقتدار سونپ کر واپسی کا سفر شروع کردیا جائے گا۔ نصف صدی قبل مستقبل کی صورت گری میں کچھ ایسی ہی غلطی سوویت یونین کے سابق سربراہ لیونڈ برژنیف سے ہوئی تھی جب 24 دسمبر 1979ء کو لاکھوں روسی سپاہی افغانستان روانہ کیے گئے۔ روسی افواج نے تبدیلیِ اقتدار کا ہدف منصوبے کے مطابق صرف تین دن میں حاصل کرلیا اور تختِ کابل پر ببرک کارمل براجمان ہوگئے۔ ابتدائی کامیابی پر کریملن کے ساتھ پاکستان کے کمیونسٹوں اور قوم پرستوں نے خوب جشن منایا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ… لاکھوں معصوم افغانوں کے قتل اور سارے ملک کو ریت کا ڈھیر بنادینے کے بعد 15 فروری 1989ء کو شکست کا داغ سجائے روسی فوجیں اس ”شان“ سے واپس ہوئیں کہ وسط ایشیا اور یورپ کا بڑاحصہ آزاد ہوگیا اور عظیم الشان سوویت یونین سُکڑ کر صرف روس رہ گئی۔
افغان مجاہدین نے روس کا جغرافیہ تراشنے کے ساتھ کمیونسٹ طرزِ فکر کو بھی آمو دریا میں بہا دیا۔ مشرقی یورپ کی کمیونسٹ ریاستیں اشتراکیت سے توبہ کرکے آزاد تجارت اور کثیرالجماعتی سیاسی نظام کے گن گانے لگیں۔ یادش بخیر ایک زمانے تک Private Property is a theft پولینڈ، رومانیہ، ہنگری اور چیکوسلاواکیہ کا قومی نعرہ ہوا کرتا تھا۔ معاملہ صرف یہیں تک نہ رہا بلکہ مشرقی یورپ کی کمیونسٹ ریاستیں نیٹو کی سامراجی چھتری تلے آگئیں۔
جیسے افغانستان پر حملے کے آغاز پر جناب برژنیف نے کہا تھاکہ بیرونی مداخلت کاروں کے قلع قمع کے لیے افغانستان حکومت کی ”درخواست“ پر کچھ ”فوجی مشیر“ کابل بھیجے گئے ہیں، بالکل اسی انداز میں صدر پیوٹن نے فرمایا کہ نازی خیالات کی حامل وفاقی حکومت مشرقی یوکرین کے علاقے دنباس (Donbas) میں مقامی لوگوں کی نسل کُشی کررہی ہے، اور یوکرینی بھائیوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے روسی فوج کو ”محدود کارروائی“ کا حکم دیا گیا ہے۔ انھوں نے بہت صراحت سے کہا کہ روس کسی قسم کے جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور ہم یوکرین کی سلامتی و خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔
لیکن دوسرے ہی دن یوکرین کے طول و عرض میں شدید بمباری کے ساتھ ہر جانب سے پیش قدمی کا آغاز ہوا، اور جنوب میں بحر اسود کی بندرگاہ اوڈیسا پر روس کے چھاپہ مار اتر گئے۔ صدر پیوٹن نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ یوکرین کو غیر مسلح (Demilitarize)اور نازی اثرات سے پاک کرنے تک روسی فوجی آپریشن جاری رہے گا۔ انھوں نے یوکرینی سپاہیوں سےکہا کہ ”اپنی جرائم پیشہ حکومت کی بات مت مانو اور پُرامن انداز میں گھر چلے جائو، ہماری تم سے کوئی لڑائی نہیں ہے، لیکن جو روسی فوج کے مقابلے پر آیا اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے“۔
شدید بمباری و گولہ باری کے باوجود تادم تحریر روسی فوجیں کیف میں داخل نہیں ہوسکیں۔ صرف بارہ گھنٹے میں روسی فوج نے یوکرینی دارالحکومت کے مضافات میں مرکزی فوجی ہوائی اڈے پر قبضہ کرلیا تھا۔ اینتونوو (Antonov) کا فوجی اڈہ دارالحکومت سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں تعینات لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر روس کی تحویل میں آگئے۔ اس کامیاب کارروائی کے بعد روسیوں نے دعویٰ کیا کہ یوکرین کا فضائی دفاعی نظام غیر مؤثر کردیا گیا اور پیش قدمی کرتی روسی فوج کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں۔ لیکن اب تک روسی صرف ایک بڑے شہر یعنی خیرسون (Khairson)پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یوکرین کا دوسرا بڑا شہر خارکیف (Kharkiv)بھی شدید ترین بمباری کے باوجود اب تک سرنگوں نہیں ہوا۔
اس ضمن میں کیف کی جانب پیش قدمی کرتے روس کے عظیم الشان فوجی قافلے کی سست رفتاری پر عسکری ماہرین بہت ہی متضاد نوعیت کے تجزیے پیش کررہے ہیں۔ سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل کی گئی تصویروں میں بتایا گیا ہے کہ روس کا ایک بڑا فوجی قافلہ کیف کی طرف پیش قدمی کررہا ہے۔ ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں اور دور مار توپوں پر مشتمل اس قافلے کی لمبائی 40 میل بتائی جارہی ہے۔ یکم مارچ کو یہ قافلہ کیف سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور خیال کیا جارہا تھا کہ 3 مارچ کی شام کو کیف پہنچ کر 4 مارچ کو دارالحکومت پر خوفناک حملے کا آغاز ہوگا، لیکن گزشتہ 6 دنوں میں اس قافلے نے صرف چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کیاہے۔
برطانوی اور امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ کیف اور خارکیف میں روسی فوج کو جس غیر معمولی مزاحمت کا سامنا ہے اس کی وجہ سے حملہ آور فوج کے حوصلے پست اور سپاہ میں تھکن کا غلبہ نظر آرہا ہے۔ روس کے فوجی سازوسامان، خاص طور سے ان کی گاڑیوں کی دیکھ بھال کا انتظام مؤثر نہیں، جس کی وجہ سے ان کی نقل و حرکت (Logistics)کا نظام مسائل کا شکار ہے۔ ممتاز عسکری ماہر اور برطانوی فوج کے سابق جرنیل سر رچرڈ بیرنز (Richard Barrons)کا خیال ہے کہ سست رفتاری اور ایک جگہ پر بھیڑ ہوجانے سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ خوراک اور ایندھن کی فراہمی بھی نامناسب ہے۔ گاڑیوں میں جو پہیّے نصب ہیں وہ بھاری وزن کے ساتھ لمبے سفر کے لیے موزوں نہیں۔ سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے کی بنیاد پر جنرل بیرنز کا خیال ہے کہ بعض بہت بھاری گاڑیوں کے پہیّے مٹی میں پھنس گئے ہیں۔ گاڑیوں کا درمیانی فاصلہ اتنا کم ہے کہ پیچھے آنے والی گاڑیاں لین نہیں بدل سکتیں اور ”ٹریفک جام“ کی وجہ سے قافلے کی کرین بردار گاڑیاں اور Tow Truck بھی عملاً جامد ہیں۔ (حوالہ بی بی سی)
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کسی بھی آزاد ذریعے سے جنرل بیرنز کے خدشات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ دوسرے مسائل کے ساتھ روسی فوج کا ریڈیو نیٹ ورک بھی مہمل قسم کا ہے جسے یوکرینی ماہرین بار بار جام کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے قافلے کے کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام میں خلل پڑرہا ہے۔
یوکرین کے عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ غیر متوقع یوکرینی مزاحمت کی بنا پر قافلے کے شرکا آگے بڑھنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی وجہ یہ ڈر ہے کہ کہیں یوکرینی اس قافلے کو فضا سے نشانہ نہ بنائیں۔ کریملن اپنے اس دعوے پر قائم ہے کہ یوکرین کے فضائی دفاعی نظام کے ساتھ ان کی فضائیہ کو بھی غیر مؤثر کردیا گیا ہے، لیکن یوکرینی فضائیہ کے پاس ترک ڈرون کی صورت میں محدود فضائی قوت اب بھی موجود ہے۔ اسی کے ساتھ برطانیہ کے فراہم کردہ NLAWٹینک شکن میزائلوں سے بھی روسی خوف زدہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے روسی وزارتِ دفاع کے ترجمان ایگور کوناشینکوف (Igor Konashenkov)نے انکشاف کیا کہ 27 فروری تک روس کے 254 ٹینک، 31 طیارے، 164 فوجی گاڑیاں اور دوسرا جنگی ساز و سامان تباہ ہوگیا۔ اٖفغانستان کی دس سالہ جنگ میں روس کے 147 ٹینک، 1314بکتربند گاڑیاں اور 451 طیارے تباہ ہوئے تھے۔
جنگ کے متوقع نتائج پر فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن کئی عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اہلِ کیف اگلے دوہفتوں تک ڈٹے رہے تو یوکرین روس کا دوسرا افغانستان بن سکتا ہے۔ ہفتے کے روز خیرسون میں ہزاروں شہریوں نے زبردست مظاہرہ کیا اور روسی فوج کی فائرنگ کے باوجود آزادی کے حق میں نعرے لگائے، کچھ منچلے یوکرین کے پرچم لیے روسی بکتربند گاڑیوں پر چڑھ گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں مزاحمتی تحریک شروع ہوچکی ہے۔
روسی فوج کو حائل مشکلات کے بارے میں اگر امریکی و برطانوی جرنیلوں کے تجزیے درست ہوں تب بھی اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہے کہ ماسکو اپنے طے شدہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اور یوکرین میں بھی وہی ذلت روس کا مقدر بنے گی جس کا سامنے اُسے افغانستان میں کرنا پڑا تھا۔ یہ درست ہے کہ روسی افواج اس تیزی سے پیش قدمی نہیں کرپا رہیں جس کی روسیوں کو توقع اور نیٹو کو خدشہ تھا، لیکن اب بھی کریملن کے ترکش میں بہت سے مہلک تیر موجود ہیں۔
برّی فوج کی کارکردگی پر سوالات کیے جاسکتے ہیں، لیکن اس کی فضائیہ پوری قوت کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنارہی ہے۔ مستقبل میں یہ کارروائیاں مزید مہلک ہوسکتی ہیں۔ کچھ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ کیف کی جانب آنے والے قافلے کی سست رفتاری روسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ کریملن تابڑتوڑ فضائی حملوں کے ذریعے یوکرینی مزاحمت کو کچلنا چاہتا ہے۔ روس سڑکوں، پلوں، سرکاری عمارات، بجلی گھروں اور دوسری اہم تنصیبات کو تباہ کرکے شہری انتظامیہ کو مفلوج کردینے کے بعد اپنی زمینی فوج کو آگے بڑھائے گا۔ اسی کے ساتھ بینکوں اور دوسرے اہم قومی اداروں پر سائبر حملوں کے ذریعے بینکنگ، بجلی، گیس، پانی اور مواصلاتی نظام کو منقطع کردینا بھی خارج ازامکان نہیں۔ آزادی و استقلال کے لیے یوکرینیوں کے عزم پر کوئی شک نہیں، لیکن اس نوعیت کی تباہی سے مزاحمت دم توڑ سکتی ہے۔ اس صورت میں روسی فوج کے لیے کیف پر قبضہ کرکے پیوٹن کی منظورِ نظر حکومت کا قیام ممکن ہوجائے گا، جس کے بعد یوکرین سے باعزت واپسی کا اعلان ہوسکتا ہے۔
اس صورت میں روسی صدر فوری فتح کا فخر تو حاصل کرلیں گے، لیکن قبضہ برقرار رکھنے کے لیے انھیں فوج کی بھاری نفری لمبی مدت تک یوکرین میں تعینات رکھنی پڑے گی، جس کے لیے قومی وسائل کا بڑا حصہ مختص کرنا ہوگا۔ جس انداز میں یوکرینی مزاحمت منظم ہورہی ہے اس سے لگتا ہے کہ جلد ہی روسی فوج کو بھرپور شورش یا Insurgency کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیٹو اور یورپ یوکرین کی حفاظت کے لیے فوج اتارنے کو تو تیار نہیں لیکن وہ اندرونی شورش کی حوصلہ افزائی کرکے صدر پیوٹن کے لیے سخت مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ پولینڈ، سلاواکیہ، ہنگری اور رومانیہ کی طویل سرحدیں یوکرین سے ملتی ہیں جہاں سے عسکری مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔ نیٹو نے اسی طرح افغانستان کو روس کے لیے دلدل بنایا تھا۔ بلاشبہ یوکرینی مزاحمت کا افغان مجاہدین کے جذبہ جہاد سے کوئی مقابلہ نہیں، لیکن یہاں سارے کا سارا نیٹو یوکرین کی دہلیز پر موجود ہے۔
روسیوں کی سب سے بڑی آزمائش معاشی پابندیاں، اقتصادی دبائو اور سفارتی تنہائی ہے۔ شمالی کوریا اور وینزویلا کے سوا کوئی بھی ملک کھل کر یوکرینی آپریشن کی حمایت نہیں کررہا۔ چین، پاکستان اور ہندوستان سمیت نیٹو سے شاکی ممالک بھی عملاً غیر جانب دار ہیں۔ سلامتی کونسل میں بحث کے دوران روس کا ساتھ دینے کے بجائے چین، متحدہ عرب امارات اور ہندوستان غیر جانب دار رہے۔ اس تنازعے میں برصغیر کے دو ازلی دشمن یعنی پاکستان اور ہندوستان کا سرکاری مؤقف بالکل ایک جیسا ہے۔ جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد پر رائے شماری کے دوران اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں غیر جانب دار رہے۔ مالیاتی اعتبار سے چین کی احتیاط اور حفظِ ماتقدم کا یہ عالم کہ اُس کے دو بڑے بینکوں انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک (ICBC) اور بینک آف چائنا نے روسی کمپنیوں کو خام مال کی خریداری کے لیے رقومات کی فراہمی محدود کردی ہے۔ (حوالہ بلوم برگ)
امریکہ اور اُس کے اتحادی روس کے خلاف سونے کی گولیاں بہت مہارت سے استعمال کررہے ہیں۔ ماسکو کی ڈالر، یورو، پائونڈ اور جاپانی ین میں کاروبار کی صلاحیت بہت محدود کردی گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک پر پابندیوں کی وجہ سے روسی بینکوں کے لیے بین الاقوامی لین دین ناممکن حد تک مشکل ہوگیا ہے۔ واشنگٹن، روسی حکومت میں شامل رئوسا کے یورپ میں موجود اثاثوں کو تاک تاک کر نشانہ بنارہا ہے۔ صدر پیوٹن کے قریبی دوستوں کی پُرتعیش کشتیوں (Yacht)، محلات، لگژری گاڑیوں کے بیڑے اور دوسرے قیمتی اثاثے ضبط کیے جارہے ہیں۔
صدر پیوٹن کے لیے یوکرین پر حملہ جنگ سے زیادہ ایک جوئے کی حیثیت رکھتا ہے جسے وہ ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں کہ یہ ان کی سیاسی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اگر یوکرین کی جنگ کا نتیجہ روس کی فتح کی شکل میں نہ نکلا تو روس کا اقتدار بھی اُن کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اگر جنگ طول پکڑ گئی اور گلی کوچوں میں گوریلا لڑائی پھوٹ پڑی تو پابندیوں کی بنا پر دبائو میں آئی روسی معیشت کے لیے اس جنگ کے اخراجات اٹھانا بہت مشکل ہوگا۔ اس کے مقابلے میں امریکہ اور نیٹو کی جیب خاصی گہری ہے۔
اس بات کا ڈر بھی ہے کہ صدر پیوٹن اس تنازعے کو اپنی انا کا مسئلہ بناکر سب کچھ دائو پر لگادینے کو تیار ہوجائیں جن میں جوہری ہتھیار اور میدانِ جنگ میں توسیع شامل ہے۔ گزشتہ ہفتے روسی صدر نے اعلیٰ عسکری حکام سے کہا تھا کہ وہ جوہری قوت سمیت تمام دفاعی اثاثوں کو استعمال کے لیے تیار رکھیں۔ بعض امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نوشتہ دیوار دیکھ کر صدر پیوٹن کی جانب سے جوہری ہتھیار کے بٹن کو دبادینا خارج ازامکان نہیں۔
جہاں تک جنگ کے پھیلائو کا تعلق ہے تو روسی صدر نے گزشتہ ہفتے کہا ہے کہ نیٹو کی جانب سے اقتصادی پابندیاں اور یوکرین کو اسلحے کی فراہمی کو وہ روس کے خلاف جارحیت سمجھتے ہی۔ ماضی میں روس مالدووا (Moldova)پر اپنا دعویٰ جتا چکا ہے۔ مالدووا کے آئین میں صاف صاف درج ہے کہ ریاست ہمیشہ غیر جانب دار رہے گی، لہٰذا یہ ملک نیٹو کا رکن نہیں۔ اس کی طویل سرحدیں یوکرین سے ملتی ہیں اور بحری آمدورفت کے لیے مالدووا یوکرین کی بندرگاہ اوڈیسا سے مستفید ہورہا ہے۔ اوڈیسا کے قریب روسی فوج کی بھاری نفری موجود ہے۔ جنگ کا دائرئہ کار بڑھانے کے لیے صدر پیوٹن مالدووا کی جانب مہم جوئی کرسکتے ہیں۔ فن لینڈ اور سوئیڈن میں عوامی سطح پر روسی خطرے سے حفاظت کے لیے نیٹو میں شمولیت کی عوامی تحریک چل رہی ہے۔ اسے بنیاد بناتے ہوئے فن لینڈ کی طرف پیش قدمی بھی ممکن ہے۔
تنازعے کے ممکنہ خوفناک انجام کے ساتھ اس کے پُرامن حل کی امید ختم نہیں ہوئی۔ توپوں کی گھن گرج کے دوران روس اور یوکرین کے مابین امن بات چیت کے دو دور ہوچکے ہیں۔ یہ دونوں نشستیں بے نتیجہ ختم ہوگئیں لیکن بات چیت جاری رکھنے پر ماسکو اور کیف دونوں متفق ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گولیوں سے مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت میں صدر پیوٹن باعزت پسپائی کے لیے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔
امن بات چیت کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں لیکن یوکرینی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق روس فائر بندی کے لیے کریمیا اور دونباس کو روس کا حصہ تسلیم کرنے کی شرط عائد کررہا ہے۔ اسی کے ساتھ ماسکو یوکرین سے یہ وعدہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی نیٹو رکنیت روسی توثیق سے مشروط ہوگی۔ صدر پیوٹن چاہتے ہیں کہ معاہدے کی اس شق پر نیٹو ضامن کی حیثیت سے دستخط کرے۔ اب تک صدر پیوٹن اپنی عسکری فتح کے بارے میں حددرجہ پُراعتماد ہیں اس لیے روس اپنی ان شرائط پر سودے بازی کو تیار نہیں، لیکن اگر زمینی صورتِ حال مزید خراب ہوئی تو روسی صدر کے لیے اپنے مؤقف میں نرمی کے سوا کوئی راستہ نہ ہوگا۔
اس میدان کا ایک اہم اور کلیدی کھلاڑی چین بھی ہے۔ بیجنگ کا خیال ہے کہ واشنگٹن چین سمیت دنیا بھر میں مداخلتِ بے جا کا مرتکب ہورہا ہے۔ روس یوکرین جنگ کے حوالے سے چین، امریکہ کے رویّے کو پسند نہیں کرتا جس کا بیجنگ نے کئی بار کھل کر اظہار بھی کیا ہے، لیکن سرکاری طور پر چین غیر جانب دار ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے چین کی ترجیحِ اوّل اس کی معیشت ہے، لہٰذا وہ امریکہ سے اپنے اختلافات کو بیان بازی تک محدود رکھے ہوئے ہے۔ یورپ، چینی مصنوعات کی بہت بڑی منڈی ہے اور یورپ روس کشیدگی سے چینی معیشت متاثر ہورہی ہے، چنانچہ بیجنگ اس تنازعے پر بے حد فکرمند ہے۔ اگر روس اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے نبٹانے پر آمادہ (یا مجبور) ہوا تو چین باعزت راستہ تلاش کرنے میں ماسکو کی مدد کرسکتا ہے۔ معاشی پابندیوں کے اگلے مرحلے میں روسی تیل صدر بائیڈن کا ہدف ہے۔ روسی معیشت کا دارومدار تیل کی برآمد پر ہے اور چین روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔