معیشت اور اسٹاک مارکیٹ کا گورکھ دھندہ

پاکستانی خبرناموں میں اکثر اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان دیکھے جانے، یا مارکیٹ گر جانے کی خبریں ہوتی ہیں جس سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معیشت بہتر یا گراوٹ کا شکار ہورہی ہے۔ خود اکثر و بیشتر حکومتوں کی جانب سے بھی اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کو اپنی بہتر معاشی پالیسیوں کا ثمر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے نہ ملک کی مجموعی معاشی صورتِ حال بہتر ہوتی نظر آتی ہے اور نہ ہی عوام کی زندگیاں؟
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اور امین حسین نے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور ایک حیران کن نتیجے پر پہنچے ہیں۔
ڈاکٹر ندیم اور ان کے ساتھی نے ایک مقالہ تحریر کیا ہے:
“A Small Club: Distribution, Power and Networks in Financial Markets of Pakistan”
محققین نے اس مقالے میں سرکاری اداروں سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں اسٹاک مارکیٹ کی سال 2018ء کی ساخت کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ چند بااثر کاروباری ادارے اسے کس طرح کنٹرول کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: ”کارپوریٹ گورننس کا ضابطہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو پابند کرتا ہے کہ وہ ٹرسٹی کی حیثیت سے تمام سرمایہ کاروں کے مفادات کی حفاظت کریں خواہ وہ بڑے سرمایہ کار ہوں یا چھوٹے۔ لیکن ان ڈائریکٹرز کا تعلق چونکہ اسپانسر خاندانوں (بڑے کاروباری اداروں) سے ہوتا ہے اور وہ بیک وقت مختلف بورڈز میں خدمات انجام دیتے ہیں، اس لیے وہ اسپانسرز کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، نہ کہ چھوٹے اور اقلیتی سرمایہ کاروں کے مفاد کا۔ اس طرح کاروبار پر ملک کے بااثر خاندانوں کی اجارہ داری برقرار رہتی ہے۔“
اس تحقیق کے نتائج نصف صدی پرانے ایک انکشاف کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ملک کے پہلے فوجی حکمران ایوب خان کے دور حکومت کے 10 برس مکمل ہونے پر جب ان کے 10 سالہ عرصہ اقتدار کا جشن ”اصلاحات اور ترقی کا عظیم عشرہ“ کے نام سے ملک گیر سطح پر منایا گیا تو اس کا اختتام ایک ”دھماکہ خیز انکشاف“ پر ہوا۔
ایوب حکومت کے ترجمان اور سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر نے اپنی کتاب ”ایوب خان: فوجی راج کے پہلے 10 سال“ میں لکھا ہے کہ حکومت کے چیف اکنامسٹ ڈاکٹر محبوب الحق نے انکشاف کیا کہ قومی معیشت اس وقت 22 خاندانوں کی گرفت میں ہے۔ یہ انکشاف قومی زندگی میں ایک دھماکے کی طرح سنا گیا اور سیاسی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے، جن کا نمایاں ترین پہلو یہ تھا کہ یہ معاملہ حکومت مخالف تحریک میں بنیادی ایجنڈے کی حیثیت اختیار کرگیا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی حالیہ تحقیق اسی تسلسل کی کہانی بیان کرتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان 50 برسوں کے دوران ملک کے کاروباری منظرنامے پر 9 مزید خاندانوں کا اضافہ ہوا۔ پائیڈ کی اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ چھوٹی ہے جس میں آئی پی اوز بھی بہت کم ہیں اور مارکیٹ غیر مستحکم ہے۔
مصنفین لکھتے ہیں:”اس تحقیق سے ان تصورات کی تصدیق ہوگئی اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ اسٹاک مارکیٹ پر 31 خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 50 برس پہلے ڈاکٹر محبوب الحق نے جن 22 خاندانوں کی اجارہ داری کا انکشاف کیا تھا، وہی رجحان اب بڑھ کر 31 خاندانوں میں تبدیل ہوچکا ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں بیشتر دولت بھی انھی کے ہاتھوں میں محدود ہے۔“
رپورٹ میں اس صورت حال کو اشرافیہ کا ایک محدود ”کلب“ قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ رپورٹ کے مطابق اسٹاک مارکیٹ حقیقت میں چند بڑے سرمایہ کاروں کی گرفت میں آچکی ہے، یعنی اس میں نئے لوگوں کے لیے مواقع محدود ہوچکے ہیں۔ مصنفین گزشتہ نصف صدی کے کاروباری اتار چڑھائو اور اس میں رجسٹرڈ کاروباری اداروں کی ساخت کے جائزے کے بعد اس حیران کن نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ میں متحرک ملک کی بیشتر کاروباری کمپنیاں اپنے ڈائریکٹرز کے ذریعے باہم منسلک ہیں۔ تحقیق کے مطابق ان کمپنیوں میں خودمختار ڈائریکٹرز کی آسامیاں 220 تھیں جن میں سے صرف دو خودمختار ڈائریکٹرز ایک فرم کے حصے میں آتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں 14 فیصد ڈائریکٹرز دو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں، 6 فیصد تین بورڈ آف ڈائریکٹرز میں، جبکہ 3 فیصد ڈائریکٹرز چار سے پانچ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بیک وقت کام کرتے ہیں۔
اس رپورٹ میں چار ایسے ممتاز کاروباری اور ٹیکنوکریٹس کی نشان دہی بھی کی گئی ہے جو بیک وقت 17 کمپنیوں میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ڈائریکٹر شپ کے ذریعے قریبی نیٹ ورک میں منسلک ان اکثریتی کمپنیوں کے مقابلے میں صرف 15 ایسی کمپنیاں سامنے آئیں جو اس نیٹ ورک میں شامل نہ تھیں۔ اسی طرح بعض دیگر اعداد و شمار بھی توجہ طلب ہیں۔ تحقیق کے مطابق صرف 297 ڈائریکٹرز کارپوریٹ منظر رکھتے ہیں، 148 کی تعیناتی حکومت نے کی، 32 ڈائریکٹرز سابق بیوروکریٹ اور 22 فوج کے سابق اعلیٰ افسران ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان ڈائریکٹرز میں سے اکثریت کا تعلق کراچی سے اور دوسرے نمبر پر لاہور سے ہے، اسی طرح اس میں خواتین کی نمائندگی بھی نہ ہونے کے برابر ہے جو ”قوانین کی کھلی خلاف ورزی“ ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کے درمیان رابطوں کا یہ مضبوط جال اطلاعات کے آزادانہ تبادلے کے غیر معمولی مواقع فراہم کرتا ہے جس سے اس کاروباری کلب کی معیشت مسلسل فروغ پاتی رہتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوجاتا ہے کہ حکومت کے قوانین کی موجودگی میں چند کاروباری ادارے پورے ملک کے کاروبار کو ایک محدود کلب میں سمیٹ کر رکھ دیں؟
ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اس سوال کے جواب میں مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان میں بیشتر معاشی پالیسیاں طاقتور طبقات کے دبائو میں بنائی جاتی ہیں اور اس مقصد کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہو تو حکومت اور سرکاری ادارے تمام تر مالی بوجھ عوام
پر منتقل کرکے کسی نئی قانون سازی میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق پاکستان کے 22 کروڑ افراد کے معاشی مفادات کے خلاف چند طبقات کا ایک گٹھ جوڑ ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ کلب معیشت کے مختلف شعبوں کے بااثر افراد پر مشتمل ہے جس میں بڑے تاجر، درآمد و برآمد کنندگان، ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ، بعض مذہبی طبقات، اقتصادی ٹیکنوکریٹس اور نجکاری کے نام پر کوڑیوں کے مول قومی اثاثوں پر قبضہ جمانے والے شامل ہیں، جنھیں بعض اوقات فیصلوں کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں کی کُمک بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کے طریقہ کاروبار کے بارے میں ایک سوال پر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ اس پر چونکہ چند درجن بڑے بروکرز کی اجارہ داری ہوتی ہے، اس لیے یہ لوگ وقتاً فوقتاً قیمتیں بڑھا کر یا گھٹا کر بحران پیدا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے خسارے کا شکار ہوکر چھوٹے سرمایہ کاروں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اقتصادی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں۔