عین عنفوانِ شباب میں میری صحبت ایک ایسے صاحبِ حال صوفی سے رہی ہے جو بظاہر ایک کتب فروش تھے مگر مرچنٹ نیوی میں ملازمت کی وجہ سے جہاں گرد تھے۔ انہی کے خصوصی کرم، توجہ اور استدلال کی بدولت میں نے الحاد سے معرفت ِ الٰہی کا سفر طے کیا تھا۔ شیخ ظہور صاحب نے مجھے مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’تنقیحات‘‘ کے مضمون ’’عقلیت کا فریب‘‘ سے آشنا کیا، اور جس نے میرے اندر کھڑی الحاد کی عمارت کو ایک دَم متزلزل کردیا تھا۔ شیخ صاحب سے زیادہ عالمی سیاسی اُمور پر میں نے کسی شخص کی دسترس نہیں دیکھی۔ جب کبھی ان کے ہاں ٹھیرنے کا اتفاق ہوا، ان کا معمول یہ تھا کہ فجر کی نماز کے بعد اپنا ٹرانسسٹر ریڈیو کھولتے اور امریکہ سے لے کر جاپان تک تمام ممالک کے حالاتِ حاضرہ کے اُردو اور انگریزی پروگرام اور خبریں سنتے، اور پھر یہی عمل عشاء کے بعد بھی دہراتے۔ سمندروں پر سفر کا وسیع تجربہ تھا، اس لیے جب وہ اپنا تجزیہ بیان کرتے تو تاریخی، جغرافیائی اور معاشرتی پسِ منظر کو یوں قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھاتے کہ سب کچھ روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا۔ ہر صاحبِ نظر کی طرح انہیں علامہ اقبالؒ کی شاعری سے عشق تھا، اس لیے گفتگو سمیٹنے کے لیے وہ اقبالؒ کا ایک شعر پڑھتے اور مطلب واضح ہوجاتا۔ اقبالؒ کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ کی جو تشریح میں نے اُن سے سُنی ہے، وہ آج تک میرے ذہن پر نقش ہے اور موجودہ دَور کے تمام سیاسی حالات اور انقلابات کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ بنتی رہتی ہے۔ ان کے نزدیک نظم میں، ابلیس دراصل ’’برطانیہ‘‘ ہے اور اس کی مجلسِ شوریٰ میں وہ تمام اہم مشیر شامل ہیں جو دُنیا بھر کے ممالک میں اسی کے خفیہ مشن پر مامور ہیں۔ نظم کی فضا ایسی ہے جیسے برطانیہ کی طاقتور خفیہ ایجنسی ’’ایم آئی سکس‘‘ کا اجلاس ہورہا ہو اور آئندہ کی پالیسی اور اہداف طے ہورہے ہوں۔ برطانوی ایم آئی سکس، وہ ایجنسی ہے جس نے تیرہ سو سالہ اسلامی خلافت کا خاتمہ کیا، عرب سرزمین پر اسرائیل کا پودا لگایا، جنگِ عظیم اوّل کے عین بیچوں بیچ جب روس نے یوکرین فتح کرلیا اور روس کو قسطنطنیہ دینے کے وعدے کا وقت آیا تو کمیونسٹ تحریک کو خفیہ طور پر مسلح دستے بھیج کر نہ صرف زارِ روس کی عظیم سلطنت کا خاتمہ کروایا، بلکہ آرتھوڈکس چرچ کے آیائے صوفیہ میں واپس جانے کے خواب کو بھی کچل کر رکھ دیا۔ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ میں آج کی دُنیا میں رائج تمام نظام ہائے حکومت پر ابلیسی شکنجے، مذاہب کی ذلّت و رُسوائی، اُمتِ مسلمہ کا زوال اور دُنیا میں برسرِپیکار قوتوں کی معاشی و سیاسی کشمکش پر ایک وسیع بحث ہے۔ اقبالؒ کی یہ نظم ان کی زندگی کے آخری ایام یعنی 1935ء کے بعد کی ہے۔ اقبالؒ کی اس نظم میں جو بصیرت ہے اس کا ماخذ خالصتاً قرآن کی تعلیمات اور سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں، خصوصاً وہ احادیث جو آخرالزمان کے بارے میں ایک وسیع و عریض دجّالی نظام کے دُنیا پر چھا جانے کی خبر دیتی ہیں۔ اقبالؒ اسے ابلیسی نظام سے معنون کرتا ہے۔ پہلا مشیر اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہتا ہے ’’اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام‘‘۔ اس اہم مشاورتی اجلاس میں تمام مشیروں کی گفتگو کے بعد ابلیس یعنی ’’برطانیہ‘‘ اپنے غلبے، قوت اور دُنیا بھر میں پھیلائے ہوئے اپنے ابلیسی نظام کی مختلف جہتوں پر تفصیلی گفتگو کرتا ہے اور جمہوریت، بادشاہت، اشتراکیت، کلیسا وغیرہ کو اپنے ہی لگائے ہوئے پودے بتاتے ہوئے، اُمتِ مسلمہ کی بیداری سے ڈراتا ہے اور پھر مستقبل میں اپنی منصوبہ بندی سے بھی پردہ اُٹھاتا ہے۔ اس منصوبہ بندی میں وہ یورپ کے حوالے سے یہ انکشاف کرتا ہے:
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا شرق و غرب
میں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہو
احادیث کے خزانے میں دَورِ فتن کے بارے میں جتنی بھی احادیث ملتی ہیں ان میں دجّال کی آمد سے پہلے اور بعد جس نظام کا تذکرہ اور خاکہ ملتا ہے اس کا تمام تر ظہور جدید دَور میں نظر آرہا ہے، بلکہ یوں لگتا ہے اس آخری اسٹیج کے سجنے کی تمام تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اور اب جس بڑے معرکے کے بگل بجنے کا انتظار تھا وہ یوکرین پر روس کے حملے سے بج چکا ہے۔ اسی ملحمتہ الکبریٰ کے آخری مرحلے میں دجّال اپنی اس قید سے آزاد ہو گا جس کا ذکر تمیم داری والی مشہور حدیث میں ملتا ہے کہ وہ ایک جزیرے میں قید ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں جب بھی یورپ اور برطانیہ کے شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا تو پاکستانی کمیونٹی سے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جب احادیث کے مطابق ملحمتہ الکبریٰ اور یورپ کے طول و عرض میں اس کے پھیل جانے کا تذکرہ کرتا تو لوگ میرے گریبان کو آجاتے۔ کہتے: یورپ صلیبی جنگوں سے لے کر جنگِ عظیم اوّل اور دوم تک بہت تباہی دیکھ چکا ہے۔ اب یہاں کوئی جنگ کا نام نہیں لے سکتا۔ یہ جنگ تو صرف آپ جیسے ’’جاہل مسلمانوں‘‘ کے دماغ کا فتور ہے۔ ہم یورپ کے مہذب لوگ ہیں، انہوں نے جنگ، قتل و غارت اور اسلحہ کی خریدوفروخت اب تیسری دُنیا تک محدود کردی ہے۔ لیکن روس نے جب سے اپنی تباہ شدہ معیشت کی راکھ سے دوبارہ انگڑائی لی ہے تو اُس کی اِس اُٹھان کو دبانے کے لیے پورا ابلیسی نظام ایک دم متحرک ہوچکا ہے۔ پیوٹن کا روس ان چالوں کو خوب جانتا تھا کیونکہ وہ دو دفعہ ان کے ہاتھوں تباہ ہوچکا ہے۔ اس کو اندازہ ہے کہ یورپی یونین تو صرف ایک کٹھ پتلی ہے، جبکہ اس خطے میں تمام فتور کا ماخذ صرف اور صرف برطانیہ ہے اور امریکہ بھی اسی کے ہاتھ میں کھیلتا ہے۔ روسی خوب جانتے ہیں کہ زارِ روس کی تباہی، وہاں اشتراکی نظام کا نفاذ اور پھر 75 سال بعد اس نظام کے زوال میں صرف ایک ہی گروہ کی منصوبہ بندی اور چالبازی شامل رہی ہے اور وہ ہے صہیونیت (Zionism)… جس کا مرکز و منبع برطانیہ ہے، مگر روس کے یہودی اس کا ہراول دستہ تھے۔ سودی نظام کا آغاز 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کے چارٹر سے ہی ہوا، برطانوی ’’روتھ شیلڈ‘‘ خاندان کا شکنجہ وہاں اس قدر مضبوط تھا کہ اسرائیل کے قیام کا ’’بالفور ڈیکلیریشن‘‘ دراصل ایک خط ہے جو اسی خاندان کو لکھا گیا۔ جنگِ عظیم اوّل میں یہ برطانیہ ہی تھا جس نے اُس وقت اشتراکی تحریک کی مدد کرکے زارِ روس کی سلطنت کو تباہ کیا۔ اسی برطانیہ میں ہی سوویت یونین کے معاشی زوال اور ابتری کی داستان ترتیب دی گئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بیس سالوں میں روس کے مضبوط ترین قلعوں کو برطانیہ نے ہی مسمار کیا۔ پہلے اسے عراق سے بے دخل کیا گیا اور پھر شام میں اس کے واحد سمندری راستے پر جنگ مسلّط کردی گئی۔ جس دن 2014ء میں یوکرین میں روس نواز حکومت کو عوامی بیداری کے اپنے ’’ہتھکنڈے‘‘ سے ہٹایا گیا، روس کو اسی دن پوری سازش کے تانے بانے کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اسی لیے اس نے فوراً کریمیا پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد میں نے اہلِ نظر کی وارننگ کے حوالے سے بار بار لکھا کہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز اب اُس وقت ہوجائے گا جب روس یوکرین پر حملہ کرے گا۔ لیکن کوئی اس پر یقین نہیں کرتا تھا۔ اب یہ معرکہ برپا ہوچکا ہے اور آج حالات و معاملات جس طرف جا رہے ہیں وہ بہت ہولناک ہیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ تمام نتائج کو سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اپنے اس خوف سے نکلنے کے لیے وہ بالآخر ایک دن برطانیہ پر بھرپور حملہ کردے گا۔ اہلِ نظر اس حملے کی اطلاع کئی سالوں سے دیتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے نزدیک اس جنگ کے نتیجے میں برطانیہ شاید دُنیا کے نقشے سے ہی غائب ہوجائے۔ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے۔ یہ صرف اندازے ہیں جو سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کی روشنی میں اہلِ نظر کرتے رہتے ہیں۔ یہ غلط بھی ہوسکتے ہیں، لیکن بظاہر ایسا لگتا نہیں ہے کہ یہ غلط ہوں، کیونکہ تصویر بالکل واضح ہوتی جارہی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
(اوریا مقبول جان۔ روزنامہ 92، منگل 8 مارچ 2022ء)