موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی سیاست نے بھی کروٹ لی ہے اور ہر جانب ایک ہلچل مچی ہوئی ہے، شور اتنا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، سیاسی منظر ہر لحظہ نئی شان دکھا رہا ہے۔ وفاقی وزراء کو ساڑھے تین برس بعد سندھ کے حقوق کی یاد ستائی ہے اور وہ اندرونِ سندھ سے کئی روز کا سفر طے کرکے کراچی پہنچے ہیں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی اور علی زیدی کا اصرار ہے کہ بلاول بھٹو زرداری، عمران خان سے ساڑھے تین سال کی کارکردگی کا حساب مانگنے سے قبل سندھ میں اپنی صوبائی حکومت کے پندرہ برسوں کا حساب عوام کے سامنے رکھیں۔ جب کہ بلاول بھٹو زرداری کا عمران خان کی حکومت سے قوم کو نجات دلانے کے عزم کے ساتھ 27 فروری کو کراچی سے شروع ہونے والا ’’لانگ مارچ‘‘ راستے میں جگہ جگہ پڑائو ڈالتا، سندھ کے بعد پنجاب سے ہوتا ہوا، 8 مارچ کو اسلام آباد پہنچ کر اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ بلاول نے وزیراعظم عمران خان کو دنوں کے بعد گھنٹوں میں استعفیٰ دے کر گھر چلے جانے کے الٹی میٹم دیئے مگر بے اثر رہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی مہنگائی و بے روزگاری کے خلاف ایک سو ایک دھرنوں کا عزم لیے شہر شہر پہنچ رہے ہیں۔ 7 مارچ کو سرگودھا میں دھرنے سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والا عمران خود بے روزگار ہونے والا ہے، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے بعد تحریک انصاف بھی ناکام ہوچکی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں فرق کیا ہے! یہ سب پہلے سے آزمائے ہوئے لوگ ہیں، اسی لیے انقلاب اب لازم ہوچکا ہے۔
دوسری جانب عدم اعتماد کا بھی غلغلہ ہے، حکومت کے اتحادیوں اور دوسرے سیاسی گروپوں سے ملاقاتوں کے بعد اب سیاست کے ’’بڑے‘‘ کھلاڑی آصف علی زرداری، میاں شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ لندن میں ’’علاج‘‘ کی غرض سے مقیم میاں نوازشریف سے مشاورت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ مہینہ عمران خان حکومت پر خاصا بھاری ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن ایک سے زائد بار اڑتالیس گھنٹوں میں عدم اعتماد پیش کردینے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ حکومتی وزراء کے بقول یہ محض گیدڑ بھبھکی ہے، وہ حزبِ اختلاف کو چوروں کا ٹولہ، ڈاکوئوں کا گروہ اور تحریک عدم اعتماد کو اُن کے لیے پھندا قرار دے کر اسے جلد پیش کرنے کے چیلنج دے رہے ہیں اور ان سطور کی تحریر کے دوران ہی یہ اطلاع بھی آگئی ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی گئی ہیں، جن کے بارے میں اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر نے آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تحریک کی کامیابی اور ناکامی سے متعلق ہر دو فریق اپنی اپنی فتح کے دعوے کررہے ہیں۔ ادھر عمران خان کا جن پہ تکیہ تھا وہ پتّے بھی ہوا دینے لگے ہیں۔ اگلے روز تحریک انصاف کے جہانگیر ترین گروپ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا، جس میں پنجاب کابینہ کے سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے بھی ساتھیوں سمیت اس گروپ میں شامل ہونے کا اعلان کیا اور اپنی پارٹی کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، حالانکہ عمران خان بزدار صاحب کو وسیم اکرم پلس اور اُن کی کارکردگی کو بار بار شاندار قرار دے چکے ہیں۔ وزیراعظم نے نئی صورتِ حال کو بھانپ کر گورنر سندھ عمران اسماعیل کو علیم خان کو منانے کی ذمہ داری سونپی، جنہوں نے علیم خان سے فوری ملاقات کے بعد حالات پر قابو پانے کے لیے علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی تجویز دی۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم تو اس پر آمادہ ہوگئے ہیں مگر اہم حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) اس تجویز پر شدید برہم ہے اور اپنے ردعمل میں علیم خان سے بہتر اور قابلِ قبول عثمان بزدار کو قرار دے رہی ہے۔ اس طرح سیاست اس وقت ایک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ ایک کھچڑی سی پک رہی ہے، صورتِ حال ہر لمحہ نیا رخ اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس ساری دوڑ بھاگ کے دوران اصول کہاں کھڑے ہیں؟ حزبِ اختلاف کے جو رہنما آج شیر و شکر نظر آرہے ہیں، کیا کل تک وہ ایک دوسرے کو گردن زدنی قرار نہیں دیتے رہے؟ آج عمران دشمنی کے سوا اُن کے اتحاد کی اساس آخر کیا ہے؟ جو انتہائی شدید نوعیت کے الزامات وہ ماضی میں ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں، کیا وہ غلط اور جھوٹ پر مبنی تھے؟ کیا یہ الزامات واپس لینے کا کوئی باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے؟ حکومت اگر تبدیل ہوتی ہے تو حزبِ اختلاف کیا عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل سے نجات دلا پائے گی؟ اگر ہاں، تو کیسے؟ فارمولہ کیا ہے؟ حکومتی تبدیلی کی صورت میں نیا نظام کیا ہوگا؟ فوری نئے انتخابات ہوں گے؟ اگر ہاں، تو یہ کون کرائے گا؟ ان کے صاف، شفاف اور منصفانہ ہونے کی ضمانت کون دے گا؟ اگر نہیں، تو عبوری مدت کے لیے ذمہ داریاں کون سنبھالے گا؟ عوام کو کیسے مطمئن کیا جائے گا؟ سوالات ہی سوالات ہیں، واضح کچھ بھی نہیں… کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس سیاسی کھینچا تانی سے قبل، جس نے عوام کے اعصاب شل کر رکھے ہیں، کچھ بنیادی باتیں… کچھ قابلِ عمل اصول نہ صرف طے کرلیے جائیں بلکہ عوام کو ان سے متعلق اعتماد میں بھی لے لیا جائے۔
(حامد ریاض ڈوگر)