شیخ ایاز کی فکری تبدیلی پر تاثراتی تحریر
دنیائے ادب کی ایک نابغہ روزگار شخصیت شیخ ایاز، جو آج ہمارے درمیان موجود نہیں، اپنے پیچھے بے حد وقیع سرمایہ چھوڑ کر رخصت ہوئے۔ اپنے عہد کے اس نامور ادیب اور دانشور کی زندگی 6 دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے جس میں انہوں نے دنیا کے غالب نظریات کو پڑھا اور کمیونزم اور ترقی پسندی کی تحریک کا اثر قبول کیا۔ اپنے نظریات اور تحرک سے وہ سندھ میں ترقی پسند ادب کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوئے، جس سے ایک طرف کمیونزم اور سیکولرزم کے علَم بردار ادیبوں کا اثر رسوخ بڑھا تو دوسری طرف ادب میں ’ترقی پسندی‘ غالب آگئی۔
شیخ ایاز بیسویں صدی کی ایک توانا آواز تھے جنہوں نے زورِ قلم سے ایوب خان کی آمریت میں ون یونٹ کے خلاف اپنی شاعری کو بندوق کے طور پر استعمال کیا۔ ان کی شاعری میں تخیل کی اونچی اڑان تھی، سندھ سے محبت تھی، نہ صرف اس کے باسیوں بلکہ چپے چپے سے اُنس کا اظہار تھا۔ ان کی گھٹی میں عربی و فارسی کا علم پڑا ہوا تھا جس کا علم کم ہی لوگوں کو ہے۔ شیخ ایاز نے اپنی ابتدائی شاعری بھی اردو میں کی اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا۔
شیخ ایاز نے اپنے دورِ عروج میں سندھ کو انقلابی شاعری سے آشنا کیا اور اَن گنت گیتوں سے نوجوانوں کو جگانے کا کام کیا۔ شیخ ایاز کے لبوں پر یہ ترانہ کسی پہاڑی چشمے کی طرح پھوٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے سندھ میں گونج اٹھا کہ ’’سندھو دیس کی دھرتی تجھ پر سیس نوائیں، تیری مٹی کو جبیں پر سجائیں‘‘۔ اسی طرح کی شاعری کے ردعمل میں ان پر بغاوت کے الزامات لگے اور قید و بند بھی دیکھنے کو ملی۔
ایاز ایک انقلابی بلکہ آتش نفس انقلابی شاعر تھے۔ سندھ کی قدیم دانشوری اور لوک ریت کے رمز آشنا، شاہ لطیف کے بعد سندھی زبان کو ایک نیا جنم دینے والے۔ لیکن ان کے رنگ و آہنگ سے اردو کے عام قاری کی واقفیت کا دائرہ بہت محدود رہا ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک عرصے تک انہیں تعصب کی نظر سے دیکھا جاتا رہا۔
ان پر تنقید کے تین ادوار ہیں۔
اول: جب انہوں نے ادب کی نئی قدروں اور ترقی پسند رجحانات سے آراستہ اشعار کہے، تب روایتی فکر کے حامل شعرا اور ’خیال پرستوں‘ نے ان کی مخالفت کی۔
دوئم: جب وہ ذوالفقارعلی بھٹو کے کہنے پر سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اور ضیاء الحق کے دور اقتدار میں بھی کچھ وقت مزید اس عہدے پر برقرار رہے۔ اس طرزعمل نے کچھ دانشوروں اور قوم پرستوں کو ناراض کیا۔
سوئم: جب ایاز کی سوچ نے مذہبی رجحان اختیار کیا،اور انہوں نے اپنی پرانی فکر کو ترک کیا، اپنے ذہنی و فکری انقلاب کا اظہار حمدیہ دعائیٔں لکھ کر کیا۔
شیخ ایاز کی شخصیت اور فن پر مبنی ایک کتاب ’ذکرِ ایاز‘ (ترتیب: آصف فرخی، شاہ محمد پیرزادہ) میرے سامنے ہے جس میں ان کے رفقاء کے تاثرات درج ہیں۔ ان میں سراج الحق میمن، سوبھو گیان چندانی، رسول بخش پلیجو، امر جلیل، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان، ڈاکٹر جمیل جالبی، عطیہ داؤد، ڈاکٹر فہمیدہ حسین، فہمیدہ ریاض، زاہدہ حنا اور دیگر نے ایاز سے اپنے تعلق اور ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔
ایاز کے تحریکی ساتھی سوبھو گیان چندانی جو 1965ء میں ایاز کے ساتھ تین ماہ جیل میں بھی رہے، لکھتے ہیں:
”میں چاہوں گا کہ سندھ کے دوسرے ادیب اور شاعر بھی اَنا اور اختلافات بھلا کر ایاز کی عظمت کا اقرار کریں، یہ وقت نہیں کہ ہم اس کی کمزوریوں اور لغزشوں کی وجہ سے اسے برا بھلا کہیں۔ یہ آدھی صدی ایاز کی دھنوں سے گونجتی رہی ہے۔۔۔ ہم ایک لمبے عرصے تک کوئی دوسرا ایاز پیدا نہیں کرسکیں گے۔“
پلیجو صاحب لکھتے ہیں:
”زبانوں پر عبور رکھنے والا کوئی انصاف پسند شخص ایاز کو دنیا بھر کے شعراء کی اگلی صف میں کھڑا کرے گا۔۔۔ ایاز نے فیض کے مقابلے میں معیاری اور زیادہ لکھا ہے۔“
ان کے آخری دور کی تبدیلی کے بارے میں امر جلیل لکھتے ہیں:
”ہم تعجب کے ساتھ سوچتے ہیں کہ ایاز رومی، بابا فرید، بلھے شاہ، سچل اور شاہ لطیف میں سے کسی کے پیروکار اور مرید تو نہیں ہوگئے جن کا روحانی فیض ان پر سایہ فگن ہے…! امر واقع یہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ شیخ ایاز سے قرب و شناسائی کا دعویٰ کرتے ہیں وہی لوگ صحیح معنوں میں انہیں نہیں جانتے۔ سچل سرمست کے بعد سندھ کا منصور حلاج شیخ ایاز ہے۔ وہ بے باک، بے خوف اور جواں مرد شاعر ہے کہ جس نے اپنی زندگی کے آخری برسوں کی شاعری میں اپنے خالق سے براہِ راست اپنا مکالمہ رقم کیا، جو فی الحقیقت راہِ عشق و مستی کے ایک سالک کے لیے منزل و معراج کا درجہ رکھتی ہے۔“
مرحوم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب لکھتے ہیں:
”ایاز بطور وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی فارغ ہوئے تو اللہ نے ان کے دل میں دین کی محبت پیدا فرما دی اور وہ اسلامی شریعت کے دلدادہ بن گئے، اس تبدیلی کے ذمے دار محترم حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب ہیں جو مجھ سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور ایاز مرحوم کے قریبی دوست بھی ہیں۔“
لیکن جب شیخ ایاز نے اسلامی فکر اختیار کی تو پلیجو صاحب سمیت کئی ترقی پسند دانشوروں نے ان کے خلاف سخت مضامین لکھے۔ پلیجو صاحب نے 17 ستمبر 1993ء کے روزنامہ کاوش میں لکھا:
”کئی سال سے ایاز کی شاعری ایک بڑے فکری زوال اور پستی کا شکار ہوئی ہے۔ ایاز آج اُس انقلابی سوچ کا فرد نہیں رہا جس نے ترقی پسند انقلابی شاعری کو جنم دے کر اپنے سماج اورقوم کی تقدیر بدلنے کی جدوجہد میں شاہ لطیف کی طرح ہماری روحانی رہنمائی کی تھی اور ہمیں سہارا دیا تھا۔ آج کا ایاز اپنی اس فکر پر ملامت اور مذمت کرنے والا ایاز ہے۔ آج کا ایاز اس فکر کے خلاف زہر اگلنے میں جماعت اسلامی اور سرمایہ دار ملکوں کے انقلاب دشمن مبلغوں اور پیشہ ور پروپیگنڈہ بازوں کو بھی مات دینے والا ایاز ہے۔“
پرانے نظریات ترک کرنے کے حوالے سے یہاں ضمنی طور پر جی ایم سید مرحوم کا ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں فعال کردار ادا کیا، سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، مسلم لیگ سندھ کے صدر بنے، قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کے قیام کی قرارداد اُنہوں نے ہی پیش کی اور منظور کروائی، مگر بعد میں مسلم لیگ کے مدمقابل کچھ ہندو امیدواروں کی حمایت کرنے پر قائداعظم نے انہیں تنبیہ کی اور دونوں کی ایک آخری اور ناخوشگوار ملاقات کے بعد جی ایم سید نے اپنا رستہ الگ کرلیا۔ یہاں سے انہوں نے پہلے پروگریسو مسلم لیگ بنائی، پھر سندھ یونائیٹڈ فرنٹ بنائی، اور 1972ء میں جیے سندھ تحریک کی بنیاد رکھی اور مرتے دم تک پاکستان سے سندھ کو آزاد کرنے کی بات کرتے رہے۔
کوئی اگر یہ پوچھے کہ جنابِ والا، سید صاحب خود پاکستان بنانے کی تحریک میں حصہ لے کر پھر اسے توڑنے کے درپے کیوں ہوگئے؟ تو جواب ملتا ہے کہ یہ اُن کا پرانا خیال تھا، پرانی رائے تھی کہ پاکستان بننا چاہیے، اسے بعد میں انہوں نے اپنی غلطی سمجھا۔ یہی بات شیخ ایاز کے لیے کی جائے کہ حضور سابقہ نظریات کو انہوں نے بھی غلطی سمجھ کر رد کردیا، تو اس بات پر ہمارے ادیبوں کی جانب سے ایاز کو یہ ’حق‘ نہیں دیا جاتا۔
سوشلزم اور کمیونزم کے نظریات نے شیخ ایاز کے دماغ کو فتح کرلیا تھا مگر کیا وجہ تھی کہ یہ نظریات اور تخیل پچاس سال تک ان کے اندر کی پیاس نہ بجھا سکے۔ اچھی خاصی لائبریریاں دماغ میں اتارنے کے بعد بھی ایاز کو آخر کیوں کہنا پڑا کہ میرے پچاس سال ضائع ہوگئے؟ اس کا جواب پھر خود ہی دیتے ہیں کہ ’میں خدا سے ناراض تھا‘۔ یہی وہ کیفیت اور ماہیتِ قلب تھی جس نے زندگی کے آخری چند سالوں میں انہیں ایک دوسرا راستہ تلاش کرنے میں لگادیا۔
آخری سالوں میں رابطے میں رہنے والے اُن کے کچھ احباب کا کہنا ہے کہ چونکہ دل کے مسلسل دوروں کی وجہ سے شیخ ایاز کو کسی ’درویش‘ نے ہاتھ میں تسبیح رکھنے اور دل ہی دل میں اللہ کا تصور اور ذکرکرنے کا مشورہ دیا تھا، جس سے بقول ایاز انہیں قلبی سکون محسوس ہونے لگا، اور یوں انہوں نے اس عمل کو مستقل اپنالیا اور آہستہ آہستہ قرآن مجید کے مطالعے کی طرف مائل ہوگئے۔
ایک رائے یہ ہے کہ وہ آخرِ شب میں اٹھ کر اپنی شاعری تحریر کرتے تھے… اور رات کے اس حصے میں چونکہ انوار و تجلیات کا نزول ہوتا ہے اس لیے ان کا اثر ایاز پر بھی پڑا اور وہ اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا پیغام، اسلام کی دعوت اور سیرتِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ یہ اپنے اندر ایک ایسی کشش رکھتے ہیں جس کے مقابلے میں کوئی انسانی ذہن، خصوصاً کوئی قلبِ سلیم، مزاحمت نہیں کرسکتا۔
اس پیغام میں آج سے 14 سو سال پہلے جتنی قوت، توانائی اور اپیل تھی اتنی ہی آج بھی ہے۔ اسی پیغام نے ایاز کے دل و دماغ کو مسخر کیا۔ یہ پیغام اگر اُس وقت کے بدوؤں کو تابع فرمان کرسکتا تھا تو کسی یونیورسٹی کے پروفیسر اور دانشور کو آج اکیسویں صدی میں بھی متاثر کرسکتا ہے اور کررہا ہے۔ یہی اس کا معجزہ ہے۔
شیخ ایاز نے اپنے ایک انٹرویو (ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 1995ء) میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نے مجھے متاثر کیا ہے، اور یہ کہ دیگر نظریات کی حقیقت اُس وقت مجھ پر آشکار ہوئی جب وہ deliver کرنے میں ناکام ہوگئے، ترقی پسندی ایک فریب نظر آئی، کمیونزم اپنے ہی پیروکاروں کا خون کرتا ہوا نظر آیا، بھوک اور بدحالی ختم نہ ہوسکی، اور مغربی ممالک اور ان کے رہنما اپنے تنازعات اور تضادات کے سمندر میں غرق نظر آنے لگے۔“
ایک موقع پر شیخ ایاز نے انکشاف کیا کہ ”اسلام کی طرف میری مراجعت میں (مولانا مودودیؒ کی تفسیر)تفہیم القرآن نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔“یہ بات انہوں نے اپنے ایک تحریری پیغام میں کہی تھی جو انہوں نے تفہیم القرآن کا سندھی ترجمہ مکمل ہونے کے سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب میں ارسال کیا تھا۔ شیخ ایاز اُس وقت سندھ یونیورسٹی کے وی سی تھے اور بطور صدر اس تقریب میں مدعو تھے، لیکن خرابیِ صحت کے باعث شریک نہیں ہوسکے تھے۔ (بحوالہ ماہانہ ترجمان القرآن، اشاعتِ خاص2، بسلسلہ صد سالہ یومِ ولادت مولانا مودودیؒ، صفحہ 553 )
آخرِعمر میں انہیں قرآن مجید سے خصوصی شغف پیدا ہوگیا تھا۔ ان کے پاس قرآن مجید کے چند نادر نسخے بھی تھے جو انہوں نے مذکورہ انٹرویو کے دوران فرائیڈے اسپیشل کے مدیر یحییٰ بن زکریا کو دکھائے۔
ایاز اپنے دور میں نہ صرف کمیونزم اور ترقی پسندی کے حامی تھے بلکہ وہ مغربی ادب و سیاسی لٹریچر کے حافظ تھے۔ عالمی سیاسی صورتِ حال پر گہری نگاہ رکھتے تھے اور تحریکوں کے نشیب و فراز کو خوب سمجھتے تھے۔ فہم و ادراک میں کوئی ہم عصر اُن کا ثانی نہیں تھا، اس لیے اسلام کی حقانیت اور مادہ پرستانہ نظریات کے انہدام پر اُن کی رائے کو سب کی رائے پر مقدم جانا جائے گا، ایسے ہی جیسے ایک پروفیسر کے آگے پرائمری کے طالب علم کی رائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ صرف ایک رائے نہیں بلکہ اُن کی ذات کا تجربہ تھا۔
کسی بھی شخص کے فکر و خیالات کا سب سے بڑا ثبوت اُس کی تحریر ہے۔ ایاز کی تبدیلیِ فکر کا ثبوت ہے ان کی دعاؤں کا مجموعہ ”اتھی اور اللہ ساں“ (اٹھو! اپنے رب سے حالِ دل کہو)۔ یہ دعائیں سندھی روزنامہ برسات میں شائع ہوتی تھیں جس کے وہ مدیر تھے۔ ان میں ایاز نے اپنی پرانی فکر سے بیزاری کا اعلان کیا، سابقہ سوچ کے علی الرغم توحید و رسالت کے قائل ہونے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات جانا۔
اپنی ایک دعا میں کہتے ہیں: (ترجمہ) ’’یارب! یہ دہریے غافل ہیں، انہیں نیند سے جگا۔ اے رب! مجھے یقینِ کامل دے کہ تیرا وجود ہے، یہ زندگی تو تمہاری ہی طرف لوٹ کر جانی ہے، یہ زندگی تو تمہارے ہی ذکرو فکر سے بامقصد بنتی ہے اور اسی سے پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے۔‘‘ (دعا نمبر11)
ان دعاؤں میں ایاز اللہ ہی کو رزاق سمجھتے ہیں اور ایسے معاشی نظام کے قائل ہیں جو خدا کا دیا ہوا ہو۔ وہ انسانی ساختہ تمام معاشی نظاموں کو ناکام سمجھتے ہیں۔ ’’یارب! انسان نے اپنی معیشت کا ذمہ لیا مگر اس میں ناکام رہا کیونکہ اس میں تیری رضا شامل نہیں۔ یارب! تُو انسان کی حرص و ہوس مٹا.. اسے ہدایت دے کہ وہ جو اپنے لیے چاہے وہی دوسرے کے لیے بھی پسند کرے۔‘‘ (دعا نمبر 22)
اللہ کے وجود کے اقرار میں لکھتے ہیں: ’’یارب! جرمن فلسفی نٹشے، جس نے تمہارے وجود سے انکار کیا اور گلی گلی میں یہ منادی کی کہ تم مرچکے ہو، وہ پاگل ہوگیا اور اپنے انجام تک پاگل ہی رہا۔ یارب! نٹشے یہ نہ سمجھ سکا کہ انسان اپنی اذیت فقط کوشش سے مٹا نہیں سکتا جب تک اس جستجو میں تمہاری رضا شامل نہیں ہوتی۔ نٹشے یہ نہیں سمجھ سکا کہ انسان کی پوری زندگی تمہارے سہارے کے لیے ایک پکار ہے، وہ تمہاری امداد کے حصول کے لیے سرگرداں ہے، اسے یہ احساس کھائے جارہا ہے کہ زندگی مختصر ہے، اس کی ہر خوشی عارضی ہے، اور فقط تمہاری ذات ہی ازلی و ابدی ہے۔‘‘ (دعا 28)
ایاز جگہ جگہ اپنی فکر سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں اور خدا سے معافی طلب کرتے ہیں: ’’یارب! میں ہر دہریے سے کہتا ہوں کہ گھبراؤ مت! توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اور آخری ہچکی تلک تمہارے لیے یہ کھلا رہے گا، آؤ! اسی میں سے گردن جھکا کر داخل ہوجاؤ، اور اس شمع پر نظر ڈالو جو تمہارے وجود میں روشن ہے۔‘‘ (دعا30)
ایاز اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں: ’’یارب! میں اتنا غریق گناہ رہا ہوں کی اپنی سوانح تمہارے سوا کسی کو سنا نہیں سکتا، یہ اور بات ہے کہ تم یہ پہلے سے ہی جانتے ہو۔ یارب! تمہارے پاس توبہ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا، جب تک زبان کو گویائی ہے یہ انسان کی توبہ تم تک پہنچا سکتی ہے۔ یارب! میری توبہ قبول فرما! مجھے شعور عطا کر کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انسانی اخلاق کے باریک نکات تہِ دل سے سمجھوں اور ان پر عمل کرسکوں اور اتنا بے فکر بن جاؤں جتنے وہ ابابیل آسمان میں ہیں۔‘‘
ایک دعا میں لکھتے ہیں: ’’میں دنیا کا طلب گار نہیں، میں تم سے وہ عطا چاہتا ہوں جو تم نے کسی کسی شاعر کو دی ہے، تم میرے کفر و الحاد کو مٹا دو، میرا تو لفظ لفظ تمہاری پرستش ہے۔‘‘
’’یارب! مجھے معاف فرما، میں نے خود اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا ہے، اگر میں اس سے قبل تمہارے آگے سربسجود ہوتا تو اب تک سیکڑوں کتابیں لکھ چکا ہوتا۔ تمہاری سخاوت ہریالی سے بڑھ کر ہے اور تم بار بار قوس قزح کو میری جھولی میں ڈال رہے ہو، میں کون جو تمہارا احسان اتاروں! مگر مجھے مہلت عطا کر، مجھے مہلت عطا کر…‘‘
’’تم مجھے قوم، رنگ و نسل کی تنگ گلیوں سے آزاد کردو اور اپنے شاہی رستے سے لے چلو، میری آغوش اتنی وسیع کردو کہ میں اس میں پوری انسانیت سمو دوں۔‘‘
’’یارب! تم نے کئی عظیم انسان پیدا کیے ہیں جنہوں نے تعقل پسندی سے انکار کیا ہے۔ کیرکی گارڈ، دوستو وسکی، نٹشے، کس کس کا نام لوں! کیا یہ نادان دانا جانتے ہیں کہ ستاروں کو روشنی اور چیونٹی کو دانہ کس نے پہنچایا؟ کیا یہ لوگ گلاب کا پھول بنا سکتے ہیں جس پر شہد کی مکھی اڑ کر آبیٹھے اور اس میں سے اپنا رزق حاصل کرے! کیا وہ کلی پر بھنورے کی اڑان اور خارپشت کا چاندنی میں رقص سمجھا سکتے ہیں! اس کائنات میں ایسی کروڑوں باتیں ہیں جو ان کی عقل سے بعید ہیں۔‘‘
ایاز کا آخر عمر میں سراپا دعا بن جانا اُن کا ایک اور رنگ تھا جسے ان کے ہم عصروں نے وجہِ تنازع بھی بنایا، بہت سوں نے ان سے تعلق ختم کردیا اور انہیں اسلام اور روحانیت کے اس نئے رجحان پر طعنے بھی سننے کو ملتے۔ بقول ایاز آخری عرصے میں وہ گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگے تھے۔ اگر کوئی آخر عمر کے ایاز یعنی حقیقی ایاز سے ملاقات کا متمنی ہو تو اسے چاہیے کہ اُن کی اس آخری کتاب کو پڑھے جس میں انہوں نے رب سے لو لگائی ہے اور راز و نیاز کے ساتھ مکالمہ کیا ہے۔ ان کی یہ دعائیں احساسات کے اظہار و بیاں کا ایک شاہکار ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایاز اپنی ذات میں ایک قدآور شخصیت تھے، ان کا کسی نظریے سے متاثر ہونا، اسے نصف صدی تک سینے سے لگائے رکھنا اور زندگی کے آخری ایام میں اس سے برأت و بیزاری کا اعلان کرنا ایک غیر معمولی بات ہے جس نے ان کے ہم نشینوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کمیونسٹ، سیکولر اور قوم پرست حضرات اُس وقت تو خاموش رہے مگر ایاز کے انتقال کے بعد زبانیں دراز کرکے اُن کی پرانی مسترد کردہ سوچ کے پاسبان بن بیٹھے۔
شیخ ایاز کی تبدیلیِ افکار ایک ایسا موضوع یا ایک ایسا سوال ہے جس میں آج کے ادیبوں، ترقی پسندی کے علَم برداروں، کمیونزم کے سرخیل دانشوروں، چڑھتے سورج کے پجاریوں، عصبیت کے کاروباری نسل پرستوں، قوم پرستوں، زبان، دیش، وطن اور دھرتی ماتا کے نام کے خوشنما نعروں سے دلوں کی خلیج وسیع کرنے والوں، اور انسانی عقل کو کافی سمجھنے والوں کے لیے ایک کھلا پیغام اور سبق ہے جس کا اظہار ایاز نے کرب بھرے ان الفاظ میں کیا کہ ’’کمیونزم نے میری زندگی کے پچاس سال ضائع کردیے‘‘… ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں کیا حاصل کیا؟ تو کہتے ہیں ”میں نے یہ سیکھا ہے کہ میں نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔“
ایاز کے اس سابقہ رستے کے مسافر جو آنکھیں بند کیے بے سمت دوڑے چلے جارہے ہیں، نہ صرف خود منزل سے دور ہیں بلکہ اپنے ساتھ چلنے والوں کے بھی بھٹکنے کا سامان کیے ہوئے ہیں۔ ان تک ایاز کے اس تاسف کا عشر عشیر بھی نہیں پہنچا کہ ان کے دماغوں کے بند طبق وا کرسکے۔ وہ تو اب تک اس ’پرانے‘ ایاز کے پیروکار ہیں، ان کے لیے اسلام سے متاثرہ ایاز کوئی معانی نہیں رکھتا۔ اس تبدیلی کو وہ ایاز کا ایک وقتی رجحان اور رنگ سمجھتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایاز کا اسلام سے متاثر ہونا، کسی نظریے کو ماننا اور پرانے خیالات کو غلطی قرار دینا ایک غیر معمولی واقعہ اور ان کے پورے فلسفے کا انہدام ہے، اس کے باوجود کوئی آنکھیں بند کرلے تو اسے اجازت ہے۔
نصف صدی سے زائد کا طویل نظریاتی سفر کرنے والے اس بزرگ کی باتوں میں جہاں اپنی عمر بے مقصد ضائع ہونے کا دکھ ہے، وہاں اس رستے پر چلنے والے دوسرے مسافروں کے لیے بھی پیغام ہے۔ عمر کے پچاس سال صرف ایاز کے ہی ضائع نہیں ہوئے بلکہ عملی طور پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قوم پرستوں اور سوشلزم اور کمیونزم کے پیروکاروں کی کئی دہائیاں ضائع ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں، ان نظریات کی تقلید کرنے والوں، کمیونزم کو ذریعہ نجات سمجھنے والوں، اور قوم پرستی میں اپنی فلاح ڈھونڈنے والوں کے اجتماعی اوقات بھی ضائع ہورہے ہیں۔
شیخ ایاز کے کچھ پرانے ساتھی اب بھی زندہ ہیں۔ اگر وہ کھلے دل سے اس حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ اسلام ہی فلاح کا رستہ ہے، یہی وہ الہامی تعلیم ہے جو کبھی ’زائدالمیعاد‘ ہونے والی نہیں، تو ہمیں یقین ہے کہ اب بھی اُن کے اور اُن کے ساتھ چلنے والوں کے آئندہ پچاس سال ضائع ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ الحاد، سیکولرزم، قوم پرستی اور دیگر باطل نظریات ہر محاذ پر شکست خوردہ ہوچکے ہیں۔ اسلام یورپ سے انڈونیشیا تک اپنی حقانیت ثابت کرچکا ہے اور کررہا ہے۔ مستقبل ہم جیسے شرمندہ مسلمانوں کا نہ سہی اسلام کا ضرور ہے، کیونکہ یہ آبِ حیات ایاز کی طرح ہدایت کے لیے سرگرداں ہزاروں بے چین روحوں کی پیاس کل بھی بجھارہا تھا اور آج بھی بجھا رہا ہے۔