ادب اور صحافت میں کیا فرق ہے؟

پچھلے دنوں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ایک سوال آیا: ’’ادب اور صحافت میں کیا فرق ہے؟‘‘
جی میں تو آئی کہ بس اس مختصر جواب کو فرق، افتراق اور تفرقہ سب کا فُرقان بنادیا جائے کہ
’’وہی فرق ہے جو جناب مشتاق احمد یوسفی کی تحریر اور جناب کامران خان کی تقریر میں ہے‘‘۔
مشتاق احمد یوسفی کا نام عصرِ حاضر میں ادب کا بہت بڑا نام ہے اور جناب کامران خان کا شمار ملک کے نام وَر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ دونوں کی گفتگو برقی ذرائع ابلاغ پر موجود ہے۔ باری باری سن لیجیے۔ ادب اور صحافت میں اب جو فرق پیدا ہوگیا ہے، معلوم ہوجائے گا۔
’ادب‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی لغت میں اس کے متنوع مفاہیم ہیں۔ ابتدا میں یہ لفظ صرف ’ضیافت اور مہمان نوازی‘ کے لیے استعمال ہوا۔ دعوت کا کھانا تیار کرنا، دعوت پر بُلانا اور دسترخوان سجانا، سب ہی کچھ ’ادب‘ کے زمرے میں آتا تھا۔ ضیافت کرنے اور ضیافت اُڑانے والوں کے باہمی رکھ رکھاؤ سے بعد میں ایک مفہوم کا اضافہ ہوا جسے مجموعی طور پر ’شائستگی‘ کہہ سکتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت سے عربوں کے ہاں مہمان نوازی شرافت کا لازمہ تھی۔ ظاہر ہے، جو شخص مہمان نواز ہوگا اُس کے طور طریقے بھی شائستہ ہوں گے، حسنِ سلوک بھی ہوگا اور خوش سلیقگی بھی۔ یوں ادب کے مفہوم میں شائستگی، حسنِ سلوک اور خوش سلیقگی وغیرہ کا اضافہ ہوا۔ رفتہ رفتہ خوش بیانی، نرم گوئی اورگفتگو کے طور طریقوں کا خیال رکھنا بھی ’ادب‘ کہلانے لگا۔ سب کا مجموعہ ’آداب‘ ہوگیا۔ جس ہستی کا احترام مقصود ہو، یا جس سے دلی محبت ہو، اُس سے اچھے طور طریقے سے پیش آنا ’ادب کرنا‘ کہا گیا۔ اقبالؔ اپنے دل کو ادب سکھاتے ہوئے اُسے بھری محفل میں یوں ڈانٹتے ہیں:
خموش اے دل! بھری محفل میں چلّانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
’ادب سکھانا‘ ایک باقاعدہ عمل بن گیا۔ اس عمل کو ’تادیب‘ کہتے ہیں۔ تادیب کا ایک مفہوم سزا دینا بھی لیا جاتا ہے۔ مثلاً ’تادیبی کارروائی‘۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ والدین یا اساتذہ اپنے بچوں یا شاگردوں کو جو سزا دیتے ہیں وہ بھی اچھے طور طریقے یا نظم و ضبط سکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہم نے جامعہ کراچی سے تعلیم پائی ہے۔ پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی تک (یعنی سنہ1980ء تک) وہاں ذریعۂ تعلیم بیش تر اُردو تھا۔ جامعہ کے انتظامی اُمور بھی اُردو ہی میں سر انجام دیے جاتے تھے۔ ہمارا ‘Proctorial Department’ ’’شعبۂ تادیب‘‘ کہلاتا تھا۔ جو اُستادِ محترم ‘Chief Proctor’ ہوتے تھے اُنھیں ’’صدر مؤدِّب‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’د‘ پر شد اور زیر کے ساتھ ’مؤدِّب‘کا مطلب ہے ادب سکھانے والا۔ ’د‘ پر زبر ہو تو مؤدَّب کا مطلب ہوگا باادب، ادب سیکھاہوا، ادب کرنے والا یا ادب سے بیٹھنے والا۔
القصہ مختصر… سلیقے، قرینے، شرافت، شائستگی اور اچھے طور طریقے سے پیش آنا ’ادب‘ ہوا تو خوش گوئی، خوش بیانی، خوش کلامی اور خوش نگاری کا شمار بھی ادب میں کیا گیا۔ اظہارِ خیال اور طرزِ نگارش کی رعنائیاں ادب کہلائیں۔ اس فن نے ترقی کی تو صَرف، نحو اور ادب کی مختلف اصناف کے قواعد مرتب کیے گئے۔ ادب کا شمار فنونِ لطیفہ میں ہونے لگا۔ فن لطیف وہ فن ہوتا ہے جس سے آپ لطف اُٹھا سکیں۔
جدید دور میں تخیل و جذبات پر مشتمل تخلیقات ہی نہیں، ہر تحریری کارنامہ ادب کا حصہ قرار دیاگیا۔ ادب کی اصطلاحی تعریفوں میں بڑی وسعت آئی۔ مثلاً ’خیالات و احساسات کا الفاظ میں اظہار ادب ہے‘۔ ’احساسات و خیالات کا وہ تمام سرمایہ جو تحریر میں آچکا ہے، ادب کہا جائے گا‘۔ ’وہ تحریر جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہو کہ پڑھنے والے کو آگہی اور مسرت حاصل ہوسکے، ادب کہلاتی ہے‘۔ ایک اور تعریف کے مطابق ’وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے، سب کا سب ادب ہے‘۔ اگر انسان کے طور طریقے اچھے اور برے ہوسکتے ہیں تو ادب بھی اچھا اور برا ہوسکتا ہے۔ اگر اظہارِ خیال کو تعمیری اور تخریبی قرار دیا جا سکتا ہے تو ادب بھی تعمیری یا تخریبی ہوسکتا ہے۔
صحیفہ لکھی ہوئی چیز کو کہتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو لکھی ہوئی تختیاں عطا کی گئی تھیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر بھی صحیفے نازل ہوئے۔ سورۃ الاعلیٰ کی آخری آیت میں ’’صُحُفِ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْ سیٰ‘‘ کا ذکر ہے، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’صحیفہ‘ بہت پرانی چیز ہے۔ جس طرح آسمانی صحافت انسان کو خبردار کرنے کے لیے تھی اُسی طرح انسانی صحافت بھی لوگوں کو باخبر رکھنے کے لیے وجود میں آئی۔ ابتدا میں صحافت صرف حکمرانوں اور کار پردازانِ حکومت تک خبریں پہنچانے کے لیے استعمال ہوئی۔ سکندراعظم نے بھی اس کا باقاعدہ نظام قائم کیا اور سیدنا عمر فاروق ؓنے بھی۔ یہ فن مسلسل ترقی کرتا رہا۔ آخر مقررہ وقت پر شائع ہونے والے اخبارات و جرائد ’صحیفہ‘ کہلانے لگے۔ اطلاعات کے جدید آلات میسر آئے تو ’صحافت‘ کا مضمون پہلے ’ابلاغِ عامہ‘، پھر بڑھتے بڑھتے’ علوم ابلاغیات‘ ہوگیا۔
برصغیر میں اُردو صحافت کا آغاز ہی اہلِ ادب نے کیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک اردو صحافت پر ادب اور شائستگی کی گہری چھاپ تھی۔ مولانا محمد حسین آزاد کے والد اور برصغیر میں جرمِ حق گوئی پر شہید کیے جانے والے پہلے صحافی مولوی محمد باقر شہید کے ’اردو اخبار‘، مولانا محمد علی جوہرؔ کے ’ہمدرد‘، سرسید احمد خان کے ’تہذیب الاخلاق‘، مولانا ابوالکلام آزادؔ کے ’الہلال‘ و ’البلاغ‘، مولانا حسرتؔ موہانی کے ’اُردوئے معلی‘، مولانا ظفر علی خان کے ’زمیندار‘، خواجہ حسن نظامی کے ’منادی‘، مولانا عبدالماجد دریا بادی کے ’صدق‘ اور مولانا عبدالمجید سالک و مولانا غلام رسول مہرؔ کے ’انقلاب‘ وغیرہ وغیرہ، اور بعد میں پاکستان سے جاری ہونے والے متعدد اخبارات و رسائل نے اُردو صحافت کو ادبی وقار عطا کیا۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن نے بھی اپنی صحافت کو شائستہ اور شستہ رکھنے کے لیے ادیبوں کی سرپرستی حاصل کی۔تب تک ہماری اردو صحافت ہماری ہی تہذیبی اقدار کی نمائندہ تھی اوراس کا ذریعۂ اظہار ہماری ہی زبان تھی اور ہمارا ہی ادب تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے غلبے نے افرادِ قوم میں ’سرمایہ پرستی‘ کو فروغ دیا۔ پیسا کمانے کی دوڑ میں تعلیمی ادارے بھی تجارتی ادارے بن گئے۔ تمام تعلیم و تربیت پیسا کمانے والے گُرسکھانے کا ذریعہ بن گئی۔ لہٰذاابلاغی ادارے بھی اب سوائے پیسا کمانے کے، کچھ نہیں کماتے۔ شرافت، شائستگی، حتیٰ کہ خود اپنے ہی عملے سے انسانی ہمدردی بھی پیسے کی ہوس کے بھاڑ میں جھونک دی گئی ہے۔ بقولِ اقبالؔ:
تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے خام
جب تک یہ سارا [سودی سرمایہ داری] نظام زیر وزبر اورتہ و بالا نہ کرڈالا جائے تب تک دین و دانش اور تہذیب وغیرہ سب بے کار باتیں رہیں گی۔
ادب اور صحافت میں جو فرق تھا یا جو فرق ہونا چاہیے اُسے ہم یوں بیان کرسکتے ہیں کہ ادب تخیل، تفکر، جذبات، احساسات، عقل و دانش، علم، تحقیق اور تجزیے کے ذریعے سے معاشرے کی ذہنی سطح کو بلند کرتا ہے، اور صحافت قومی و معاشرتی اقدارو روایات کی روشنی میں عامۃ الناس کو حالات سے باخبر رکھنے کا کام کرتی ہے۔ صحافت کی زبان سہل اور عام فہم ہوتی ہے۔ رائے عامّہ کی رہنمائی کرتی ہے۔ ابلاغی ادارے قومی تقاضوں کے مطابق عوام کو خبر، تعلیم اور تفریح مہیا کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ابلاغی ادارے دولت کی ہوس میں جو کچھ مہیا کررہے ہیں، سب اس کے برعکس ہے۔ جھوٹ، بد زبانی، بدتہذیبی، الزام تراشی، دشنام طرازی۔ غلط اطلاعات۔ جہالت و جاہلیت کی تبلیغ۔ بے حیائی، فحاشی۔ غیر ملکی ثقافتوں اور بدیسی زبانوں کا فروغ۔ قوم کی مایوسی، پژمردگی اور فشارِ خون میں اضافہ کرنے والے جھگڑالو ’ٹاک شوز‘ وغیرہ، وغیرہ۔ شعبۂ ابلاغیات میں ہمہ گیر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مگر اِس حبس کا خاتمہ کرنے کے لیے ’کون اُٹھے اورکھڑکی کھولے‘۔