مجلہ
:
سہ ماہی ’البیان‘ پشاور
(شمارہ نمبر3)
مدیر
:
محمد طفیل کوہاٹی
صفحات
:
112 قیمت:فی شمارہ:130 روپے
سالانہ: 500روپے
ناشر
:
ندوۃ التحقیق الاسلامی بہادر کوٹ۔ کوہاٹ خیبر پختون خوا
فون
:
0334-1947367
ای میل
:
tufilqasmi78@gmail.com
muhammadmomen67@gmail.com
پاکستان میں بے شمار گراں قدر مجلات شائع ہوتے ہیں، بوجوہ ان کی رسائی بڑے حلقے تک نہیں ہوتی جبکہ ان میں بہت قیمتی مقالات اور عمدہ معلومات طبع کی جاتی ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی ہماری دسترس میں آجائیں اُن کا تعارف اپنے معزز قارئین کرام سے کرادیں۔ سہ ماہی ’البیان‘ کے نام سے حضرت مولانا پروفیسر محمد اشرف خان سلیمانیؒ کا جاری کردہ سہ ماہی البیان کا تیسرا شمارہ ہے جس میں عمدہ علمی، دینی مقالات شامل کیے گئے ہیں۔
مدیر محمد طفیل کوہاٹی صاحب نے افغانستان سے متعلق پندرہ صفحات پر مشتمل اداریہ تحریر فرمایا ہے جس کے محتویات ایمان افروز اور روح افزا ہیں۔ اس میں صورتِ حالات کے مختلف گوشوں پر اسلامی نقطہ نظر سے قابلِ عمل سفارشات پیش کی گئی ہیں، اس کا کچھ حصہ ہم اپنے قارئین کرام کے لیے پیش کرتے ہیں، تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد طفیل کوہاٹی صاحب فنافی الاسلام اور سچے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ ایک مفکرانہ تحریر ہے، اللہ پاک قبول فرمائے اور ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
جناب مدیر ’’افغانستان: سماجی خصوصیات اور درپیش تحدیات (Challenges) کے عنوان سے اداریے میں رقم طراز ہیں:
’’عدل و انصاف، دیانت و امانت، غیرت و شجاعت، ایثار و قربانی، صبر و استقامت، سادگی و قناعت، امن و آشتی، وحدتِ کلمہ و وحدتِ فکر، اتحاد و تنظیم اور جہد ِمسلسل وہ معاشرتی اقدار ہیں جن پر کھڑا سماج ہر تحدید سے بخوبی عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے دشمن اپنے ترکش کے جتنے بھی تیر آزمالیں، مجال ہے کہ وہ ایسے سماج کی دیوار کا کیل بھی اکھاڑ سکیں۔ کیونکہ سماجی و تہذیبی مقاومت اور قوموں کی باہمی آویزش میں محض مصنوعی اسباب و ذرائع اور لشکر و سپاہ کی بنیاد پر میسر ثابت قدمی و ثابت قلبی دیرپا نہیں ہوتی، بلکہ معنوی اوصاف و خصائل اور اعلیٰ و ارفع اقدار کی بنیاد پر تشکیل پانے والی معاشرت مادی اسباب و ذرائع کی کمی اور لشکر و سپاہ کی فنی کمزوری کے باوجود میدانِ عمل میں سرخرو ٹھیرتی ہے، اس لیے کہ اس کی ثابت قدمی و ثابت قلبی کی پشت پر محض مادی شوکت و شکوہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ عالی اقدار بھی ہوتے ہیں جن سے ان کا مقابل خالی ہوتا ہے۔ حق و باطل کی آویزش کی تاریخ بتلاتی ہے کہ حق نے ہمیشہ انہی عالی اقدار کی بنیاد پر فتح پائی ہے اور وہ باطل کے مقابلے میں بالعموم مادی اسباب و ذرائع کی کمی و فروتری کا شکار رہا ہے۔ اس میں ایک خداوندی حکمت اور تکوینی راز بھی پوشیدہ ہے کہ کارزارِ حیات میں دو تہذیبوں یا حق و باطل کے درمیان مقابلہ آرائی سے ہمیشہ ایک طبقہ طاقت کے عدم توازن کا عذر تراش کر کنی کتراتا ہے، اور اہلِ حق میں سے ہونے کا دعویٰ رکھ کر اور باطل کو باطل سمجھنے کے باوجود عملاً اس کے خلاف میدانِ جہاد میں اترنے کی ہمت نہیں دکھاتا۔ خداوند قدوس حق کو مادی اسباب و وسائل میں تہی دستی و قلاشی کے باوصف فتح یاب کرواکر اس طبقے پر حجت تمام کرتے ہیں، کہ حق کی فتح ایمان و اعمال کی اس خاص اقداری سطح سے جڑی ہوئی ہے جس پر نصرتِ خداوندی متوجہ ہوتی ہے، اسباب و وسائل کا کردار اس میں کلیدی ہرگز نہیں، نہ ہی ان کی کمی راہِ خدا میں جہاد سے پہلوتہی کے لیے دلیل بن سکتی ہے۔ اگر حق و باطل مادی وسائل اور لشکر و سپاہ میں برابری کی بنیاد پر لڑتے اور حق کو غلبہ حاصل ہوتا تو یہ لوگ اسے طبعی فتح سمجھتے اور اس کا تعلق ایمان و اعمال اور نصرتِ خداوندی سے جوڑنے کے بجائے مادی طاقت کے غلبے سے جوڑتے۔ اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایمانی اقدار کی اہمیت جتلانے اور اپنی نصرت کے مظاہر دکھانے کے لیے ایسے معجزات رونما فرماتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ غالب قوموں کی تشکیل اور استیلا میں معاشرت و سماج کے لیے مادی اسباب و ذرائع سے کہیں بڑھ کر معنوی خصوصیات، اقدار اور ایمان و اعمال کی مطلوبہ سطح کا کردار ہوتا ہے، اور اس کے بغیر حق کے دیرپا قیام کی کوئی کوشش بارآور ہونے کی امید محض عبث ہوتی ہے۔
ہمارے پڑوس میں قائم امارتِ اسلامیہ ایمان و اعمال کی اسی خاص سطح، ارفع و بلند اقدار اور معنوی خصائل و خصوصیات کی بنیاد پر غالب ہوئی ہے، وہ ان اقدار پر قائم ایک مضبوط معاشرت رکھتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ سماج اور معاشرت کی بنیاد فرد سے پڑتی ہے جبکہ نظم حکومت کی کامیابی ان افراد کی سماجی و معاشرتی اقدار اور رویوں کی رہینِ منت ہوتی ہے۔ جہاں فرد بگاڑ کا شکار ہو اور اس کی صلاحیت و صالحیت مفقود ہو وہاں معاشرت مثبت خطوط پر پنپتی ہے نہ حکومت کو استحکام ملتا ہے۔ کوئی جماعت غلبہ پاسکتی ہے نہ وقتی غلبے کو قرار بخش سکتی ہے۔ جس معاشرت و ریاست کا پالا مصلحت کوش، تن آسان، سہولت پسند، صبر و استقامت اور تحمل و برداشت سے عاری، بزدل و مفاد پرست افراد سے پڑجائے وہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے، درپیش تحدیات کا سامنا کرنے، انہیں سلجھانے اور ان سے عہدہ برا ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ امارتِ اسلامیہ کی خوش بختی ہے کہ اس کے ڈھانچے میں رنگ بھرنے والوں کی اکثریت اہلِ علم و اہلِ احسان پر مشتمل ہے۔ علمائے ربانیین کی یہ جماعت صالحیت و صلاحیت بھی رکھتی ہے اور اس کے افراد کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں زہد و فقر، جرأت و بسالت اور ایثار و قربانی جیسی اعلیٰ و ارفع اقدار بھی شامل ہیں۔
طالبان کی حکومتی مشینری میں ضلعی سے مرکزی سطح تک نہ صرف اکثر سربراہان اہلِ علم ہیں بلکہ عام حکومتی اہلکار اور فوج کا ایک بڑا حصہ بھی علما، قرا اور حفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان پر بدترین امریکی جارحیت کے بعد پچاس ہزار سے زائد طالبان کے بچوں کی واحد پناہ گاہ ’’مدرسہ‘‘ تھا۔ اُس زمانے میں ہزاروں طالبان جب پہاڑوں اور غاروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے تب انہوں نے اپنے لاکھوں جگر گوشے مدارس کے سپرد کردیے تھے۔ مدرسہ نہ صرف مرکزِ علم ہے بلکہ مرکزِ تربیت بھی ہے۔ مدرسے کی تعلیم کی اساس قرآن و سنت ہیں۔ قرآن و سنت کی روح ہی حریت و انقلاب اور حق کے قیام کے لیے باطل سے مقاومت کا جذبہ بیدار کرنا، نیز باطنی و ظاہری طاغوت کے نفسانی و شیطانی بتوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔ قرآن و سنت کا علم باطن کا نور ہے اور مدرسے کا پاکیزہ ماحول اس علم کے ساتھ عمل کی مطابقت پر آمادہ کرتا ہے۔ جب علم و عمل میں مطابقت کا معرکہ سر ہو تو یہی نور انفس سے آفاق میں پھیلنے کے لیے جذبۂ بے تاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اسے کوئی طاقت روکے نہیں روک سکتی۔ انسانی عمل اور رویّے کی علم الٰہی کے ساتھ مطابقت جہاں نفسِ انسانی کو آلائشوں سے نجات دلاکر شخصیت میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط اطاعت اور ان کے نام پر مر مٹنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے، وہاں شخصیت میں زہد و فقر، صبر و استقامت، اطاعت و مروت، تحمل و برداشت جیسی صفات بھی پیدا کردیتی ہے۔ مدرسے کی تعلیم و تربیت سے یکسوئی کے ساتھ مستفید ہونے والا شخص کارزارِ حیات کے کسی بھی شعبے میں اپنے جوہر دکھانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ طالبان کے بچے اس عہدِ خون آشام کے جبر میں جب اس نظام تعلیم و تربیت سے وابستہ ہوئے تو دس بارہ سال کے عرصے میں وہ ایسے مردِ آہن بن کر میدانوں کی طرف لوٹے کہ میدانِ جنگ کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز تک اپنی قیادت کے شانہ بشانہ نظر آئے۔ اُس وقت کے پانچ سال سے پندرہ سال تک کے معصوم بچے اِس وقت پچیس سے پینتیس سال کے وہ لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جو امارتِ اسلامیہ کی جدید فوج اور نظمِ حکومت کو انتہائی کامیابی سے سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ عین حالتِ جنگ میں خداوند قدوس کا ایک جماعت کو علم و تفقہ کی خدمت کے لیے فارغ رکھنے کا حکم شاید اسی حکمت کے تحت ہوگا کہ فتح کے بعد بارِ انتظام اٹھانے اور معاشرے کو سہارا دینے کے لیے ایک تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ جماعت میسر ہو، جو دعوت و انذار کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھے۔ اس سے مدرسے کا وہ عبقری کردار بھی واضح ہوتا ہے جس کا خوف قصرِ سفید (White House) کے در و دیوار تک محسوس کیا جاسکتا ہے، اور طاغوت کے آہن پوشوں کی ناکامی میں اسے بنیادی اہمیت کا حامل بتلایا جارہا ہے‘‘۔