عارف کتاب : کتب لغت کا تحقیقی و لسانی جائزہ (جلد دوم)
تبصرہ : وارث سرہندی
حاشیہ وتعلیقات : شان الحق حقی
ناشر : مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد1986
صفحات : 515
یہ جلد اردو کی دو معروف ڈکشنریوں فیلن کی نیو ہندوستانی انگلش ڈکشنری اور خواجہ عبدالمجید کی جامع اللغات کے جائزے اور ان کے تسامحات کی تصحیح پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر فیلن کی لغت 1879ء میں آج سے ڈیڑھ سوسال قبل بنارس اور لندن سے شائع ہوئی تھی، مصنف 1837ء میں بنگال ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے انسپکٹر آف اسکولز کی حیثیت سے منسلک ہوئے تھے، آپ نے کئی کتب لغت ترتیب دیں، جن میں انگلش ہندوستانی ڈکشنری بھی ایک وقیع لغت ہے۔
اہلِ لغت کو ابتدا میں کتبِ لغت کی ضرورت پیش نہیں آتی، کیونکہ وہ اپنی مادری زبان کو سمجھ رہے ہوتے ہیں، لہٰذا کتبِ لغت اور قواعد عموماً ابتدا میں غیر زبان بولنے والوں کے لیے لکھی جاتی ہیں، اردو میں بھی لغت اور قواعد کی کتابیں ابتدا میں نووارد انگریزوں کے لیے تیار کی گئی تھیں، تاکہ وہ مقامی لوگوں کی زبان سمجھ سکیں، اور ان سے معاملات کرسکیں، لیکن ان مصنفین نے اس کی تیاری میں جو محنت صرف کی اُس نے ان کتابوں کو مرجع کی حیثیت دے دی۔ فیلن کی اس لغت کا شمار بھی اردو کے ایسے ہی مراجع میں ہوتا ہے، فرہنگ آصفیہ کے مصنف مولوی سید احمد مرحوم اس لغت کی تیاری کے وقت فیلن کے ساتھ ساتھ رہے، اور انہیں لغت نویسی سے دلچسپی فیلن کی صحبت ہی سے حاصل ہوئی، لہٰذا کہا جاتا ہے کہ اگر فیلن کی لغت نہ ہوتی تو پھر فرہنگ آصفیہ بھی وجود میں نہ آتی۔
فیلن کی لغت کا مقدمہ لغت نویسی کے اصول و مبادی جاننے کے لیے اہم مرجع شمار ہوتا ہے۔ اس لغت کی تیاری کے دنوں میں اردو یا ہندوستانی کی حدود و ابعاد متعین نہیں تھے، لکھنؤ اور دہلی کی زبان رائج تھی لیکن اُس وقت تک دکنی اور گجراتی لہجوں کے سلسلے میں محققین کا مؤقف واضح نہیں تھا، بقول علامہ اقبال اس وقت بھی اردو دورِ تشکیل میں تھی اور آج بھی دورِ تشکیل میں ہے (1903ء )، لیکن فیلن نے بڑی محنت کرکے ہندوستان کے چپے چپے کا چکر لگایا، اور یہاں پر رائج اردو یا ہندوستانی زبان کے الفاظ کو جمع کیا، انہوں نے زبان کے مفردات جمع کرنے کے لیے چند اصول متعین کیے اور اس کے لیے جان توڑ محنت کی، وہ لکھتے ہیں کہ:
موجودہ تالیف کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ اس میں ہندوستان کے ہندی بولنے والے باشندوں کی بول چال خصوصاً مضافات کے لوگوں کی مادری زبان کو خاص طور پر جگہ دی گئی ہے، عورتوں کی ستھری اور خالص بولی کو پہلی بار سامنے لایا جارہا ہے، نیز الفاظ کے استعمال کو روزمرہ بول چال، نظموں، گیتوں، کہاوتوں اور عوامی کہانیوں سے اخذ کردہ مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔
عوام کی بولی ہماری لغتوں سے تقریباً غائب ہے، اس کی جگہ بے تحاشا عربی، فارسی اور سنسکرت الفاظ بھر دیے گئے ہیں، جو تحریری یا بول چال کی ہندوستانی میں یا تو بالکل ہی نہیں پائے جاتے یا بہت ہی کم.. دوسری زبانوں کی لغتوں سے نکال نکال کر نامانوس الفاظ کو مقامی زبان پر مسلط کرنا مولویوں اور پنڈتوں کا مرغوب شیوہ ہے، اس طرح انہوں نے ایک جاندار اور بامزہ زبان کا حال پتلا کرکے رکھ دیا ہے۔
بہت سے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے محاورات، امثلہ اور گیت، جو خواہ مقامی ہوں، لیکن عام طور پر قابلِ فہم ہیں، بلکہ پورے ملک میں رائج ہیں۔۔۔ اور ان کی صداقت اور مفہوم کو ہر جگہ سمجھ لیا جاتا ہے، جہاں جہاں ہندوستانی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔۔۔ سب اس زبان کی لغت میں جگہ پانے کے لائق ہیں جو ہندوستان میں سب سے زیادہ وسیع طور پر زبان رائج ہے۔
مولوی اور پنڈت اپنی مصنوعی زبان کا پبلک میں کتنا ہی ڈنکا بجائیں، یہی جیتی جاگتی بولی جسے وہ حقارت سے گنوارو کہتے ہیں، ان کے گھروں، بازاروں اور عام سماجی روابط میں ان کے کام آتی ہے اور ان کے دل وجان کو گرماتی ہے۔۔۔ اصل قومی زبان وہ ہے جس پر عوامی چھاپ ہو، اور اس سلسلے میں عورتوں کی بولی کی جگہ سب سے پہلے ہے۔ زبان ڈکشنری کی مدد سے نہیں سیکھی جاسکتی، ڈکشنری کا کام تو بقول سقراط یہ ہے کہ مبہم حتمی اور واضح کردے، دھندلی یادداشتوں کو روشن اور تازہ کردے، ذہن کو آئینہ دکھا کر قائل کردے کہ جو بات اکثر خیال میں آئی ہے، اتنی اچھی طرح کبھی نہیں بیان ہوئی تھی۔۔۔ (اردو کے مفردات جمع کرنے کے لیے انہوں نے جو محنت کی اس بارے میں کہتے ہیں کہ) مقامی زبان کو کون سا بولنے والا ہے جو پوری طرح جانتا ہو۔۔۔ لیکن معترض کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ مندرج الفاظ و معنی کے لیے سند اور تائید مدرسے سے لے کر اصطبل تک، شہر سے لے کر دیہات تک۔۔۔ مختلف صوبوں سے۔۔۔ درزیوں، جلاہوں، کمہاروں، چرواہوں، سائسوں تک سے حاصل کی گئی ہے۔
فیلن کی اس محنت کو دیکھتے ہوئے اردو لغت کبیر کے مدیر شان الحق حقی مرحوم کا کہنا ہے کہ: یہ گمان صحیح نہیں کہ انگریز لغت نگار صرف سیاسی و انتظامی مصلحت و ضرورت کی بنا پر لغت نگاری سے دلچسپی رکھتے تھے، ان کے علمی شغف اور زبان سے سچی دلچسپی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ ان کے بعض خیالات یا ذوقی ترجیحات سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان پر دانستہ تعصب یا مسلمانوں سے بغض و بیر کا الزام لگانا قرین قیاس ہوگا۔ وارث سرہندی نے بڑی جانفشانی سے فیلن کی اس لغت کی خامیوں کو درست کرکے اس کی افادیت اور استناد میں اضافہ کیا ہے۔ دوسری لغت جس کی خامیوں کی تصحیح کی کوشش اس جلد میں کی گئی ہے وہ خواجہ عبدالمجید کی جامع اللغات ہے، جو اپنے وقت کی اردو کی جامع ترین لغت شمار ہوتی ہے۔ خواجہ عبدالمجید اہلِ علم خاندان سے تھے، مشہور محقق مشفق خواجہ آپ کے بھتیجے تھے۔ جامع اللغات میں کتابت کی خاصی غلطیاں پائی جاتی تھیں، حالانکہ کہا جاتا ہے کہ اس کی پروف ریڈنگ اختر شیرانی نے کی تھی۔
زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ سلسلہ بہت مفید ہے، موضوع کی خشکی کے باوجود ان کتابوں سے تعلق باقی رکھنا چاہیے۔ کتاب علم وکتاب ٹیلگرام چینل پر دستیاب ہے۔