مردم شماری کا معاملہ اور غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا منصوبہ

معروف کالم نگار رشید میمن نے بروز اتوار 16 جنوری 2022ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں جس حوالے سے خامہ فرسائی کی ہے وہ اربابِ اختیار کے لیے درحقیقت اس لیے توجہ اور غور و فکر کا متقاضی ہے کہ اہلِ سندھ اور سندھ کے اہلِ دانش و بینش اس بارے میں بے حد حساس ہیں اور ایک عرصے سے تحفظات اور خدشات رکھتے ہیں۔ کالم کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……………
’’غیر قانونی غیر ملکیوں کی آبادی اور مردم شماری ملک، خاص طور پر صوبہ سندھ کے دو اہم مسائل رہے ہیں۔ سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ غیر ملکی اور غیر مقامی افراد موجود ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف صوبے کے وسائل پر بہت زیادہ بوجھ ہے بلکہ سندھ کی جغرافیائی صورتِ حال بھی تبدیل ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ امن وامان خراب کرنے کا بھی بڑا سبب غیر قانونی غیر ملکی قرار دیے جاتے ہیں۔ اہلِ سندھ طویل عرصے سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ سندھ سے غیر ملکیوں کو نکالا جائے اور سندھ کی مردم شماری کی جائے، کیوں کہ سندھ کے عوام سمجھتے ہیں کہ 2017ء کی مردم شماری سمیت ماضی میں جتنے بھی مردم شماری کے عمل ہوئے ہیں اُن میں سندھیوں کی درست طریقے سے گنتی نہیں کی گئی ہے اور آبادی کو کم دکھایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف قومی اسمبلی کی سیٹوں کی تعداد گھٹتی ہے بلکہ مالیات، پانی اور بجلی سمیت دیگر وسائل میں بھی سندھ کے ساتھ بڑی ناانصافی روا رکھی جاتی ہے۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے دو اہم معاملات یعنی مردم شماری اور غیر ملکی آبادی کے بارے میں اہم فیصلے کیے ہیں کہ 10 برس کے وقفے کے بجائے 5 سال کے وقفے سے سال 2023ء میں نئی مردم شماری کرائی جائے گی اور افغانستان سمیت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی عارضی شہریت دی جائے گی، جس کی وجہ سے سندھ میں ایک مرتبہ پھر سے تشویش کی سی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ پہلی بار ہوگا کہ غیر ملکی افراد کو پاکستان کی عارضی شہریت دی جائے گی۔ اس کے لیے وفاقی حکومت نے ایک پالیسی تیار کی ہے جو صوبوں کو بھیج کر اُن سے اُن کی رائے طلب کی گئی ہے۔ یہاں پر کچھ تفصیلات دی جارہی ہیں کہ آخر یہ پالیسی ہے کیا؟ وفاقی حکومت کی جانب سے تیار کردہ پالیسی کے مطابق سارے ملک کے اندر سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی سرمایہ کاروں خاص طور پر افغانستان کے امیر افراد کو پاکستان میں پناہ دینے کے لیے ’’سرمایہ کاری‘‘ کو بنیاد بناکر انہیں 10 سال کے لیے پرمیننٹ ریذیڈنسی سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا جس کے تحت 10 برس تک وہ بغیر کسی ویزا کے پاکستان میں بطور سرمایہ کار رہ سکیں گے، اور پاکستان کے کسی علاقے میں بھی جائداد خریدنے سمیت کوئی بھی کاروبار خرید سکیں گے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اس پالیسی کے بارے میں چند روز قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت افغان انڈسٹریل کوآرڈی نیشن سیل کے اجلاس میں غوروخوض کیا گیا اور دیگر صوبوں سمیت حکومتِ سندھ کو بھی اس پالیسی کا مسودہ ارسال کرکے رائے طلب کی گئی ہے۔ حکومتِ سندھ نے اس پالیسی کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اس کی حتمی منظوری سندھ کابینہ سے لی جائے گی۔ حکومتِ سندھ کا مؤقف ہے کہ سندھ میں پہلے ہی سے غیر ملکیوں کا مسئلہ درپیش ہے، اس لیے اس پالیسی پر سخت اعتراض ہے اور اہلِ سندھ اس پالیسی کو قبول نہیں کریں گے۔ اس لیے جلد بازی میں اس پالیسی کو لاگو نہ کیا جائے۔ وفاقی حکومت کے حلقوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کا عارضی طور پر مستقل باشندہ قرار دینے کی پالیسی افغان باشندوں کو نوازنے کے لیے لارہی ہے، اور ان افغانی سرمایہ کاروں کا ہدف کراچی ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے افغانستان سے فرار کے انتظار میں مقیم امیر افراد اور اس وقت پاکستان میں موجود افغان شہریوں کو تحفظ دیا جائے گا۔ 10 برس کے لیے مستقل باشندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ ملنے کی صورت میں یہ افراد برس ہا برس تک پاکستان میں موجود رہیں گے اور 10 برس کی مدت پوری ہونے کے بعد اپنی رہائش کی میعاد میں مزید اضافہ کراتے رہیں گے، اور اس طرح سے خدشہ ہے کہ بڑی تعداد میں افغان شہری پاکستان کا مستقل طور پر حصہ بن جائیں گے اور خصوصاً کراچی ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محور ہوگا۔ وفاقی حکومت کو مختلف اداروں اور حکومتی افراد نے یہ تجویز دی ہے کہ براہِ راست افغان شہریوں کے لیے یہ پالیسی نہ لائی جائے اور انہیں محض سرمایہ کار لکھا جائے، دوسری صورت میں پالیسی پر سخت اعتراضات کھڑے ہوں گے۔ اسی لیے وفاقی حکومت اگرچہ یہ پالیسی افغانستان کے تاجروں اور امیر افراد کو نوازنے کے لیے لارہی ہے، لیکن اس پالیسی کو نام غیر ملکی سرمایہ کاری کا دیا گیا ہے تاکہ اس پر اعتراض نہ کیا جاسکے۔ بہرحال اس پالیسی کو وفاقی حکومت اُس وقت تک لاگو نہیں کرسکتی جب تک صوبے اس سے اتفاق نہیں کرتے، اور حکومتِ سندھ 18 جنوری کو منعقدہ سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد اس معاملے پر اپنی رائے دے گی۔ اس پالیسی کا بے حد خراب اثر سندھ پر پڑنے کا امکان ہے، کیوں کہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی حیثیت ایک کاروباری شہر کی ہے۔ اس لیے سرمایہ کاروں کا ہدف بھی کراچی ہی ہوگا۔ لہٰذا اس پالیسی کے لاگو ہونے سے افغانستان سے آنے والے افراد کراچی پہنچ جائیں گے اور پہلے ہی یہاں پر غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں سمیت دیگر غیر ملکیوں کو ’’سرمایہ کار‘‘ قرار دے کر انہیں مستقل رہائشی بنانے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ سندھ میں پہلے ہی سے 30 لاکھ سے زیادہ غیر ملکی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جس کی وجہ سے سندھ کے لیے یہ پالیسی بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے حکومتِ سندھ کو چاہیے کہ اس کی مخالفت کرے، اور اگر پھر بھی وفاقی حکومت زبردستی یہ پالیسی لانا چاہے تو اس کے لیے ایسی شرائط عائد کی جائیں کہ یہ غیر ملکی سرمایہ کار سندھ سے باہر جاکر سرمایہ کاری کریں اور انہیں مستقل باشندے کا درجہ سندھ کے بجائے دیگر صوبوں میں بے شک دے دیا جائے۔
سندھ میں ایک اور بڑا مسئلہ مردم شماری کا ہے، اور وفاقی حکومت ایم کیو ایم کے مطالبے کے تحت 2017ء کی مردم شماری کے بعد 5 سال کے اندر ایک مرتبہ پھر نئی مردم شماری سال 2023ء میں کرا رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آخر ایم کیو ایم کے مطالبے کے تحت جلدی مردم شماری کیوں کروائی جارہی ہے؟ جب کہ حقیقت میں صرف کراچی نہیں بلکہ سندھ کے دیگر اضلاع کی بھی آبادی 2017ء کی مردم شماری میں کم ظاہر کرنے کی شکایات سامنے آرہی ہیں، لیکن تمام سیاسی جماعتیں کراچی کی آبادی کم ظاہر کرنے کی شکایت کرتی ہیں اور وفاقی حکومت پر دبائو ڈال رہی ہیں کہ دوبارہ مردم شماری کروائی جائے۔ پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے کبھی بھی شکایت نہیں کی ہے، کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر اضلاع کی آبادی بھی درست طور سے نہیں گنی گئی ہے اور آبادی کا صحیح شمار نہیں ہوا ہے۔ کم آبادی ظاہر کرنے کی شکایتیں تواتر کے ساتھ آرہی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں خصوصاً پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا فوکس کراچی کی آبادی پر ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت نے دوبارہ مردم شماری کرانے کی منظوری دی ہے اور اس کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ نئی مردم شماری میں بعض ایسے اعداد و شمار سامنے آجائیں جس کے سارے صوبہ سندھ پر خراب اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ نئی مردم شماری بالکل ہونی چاہیے اور آئین میں واضح کہا گیا ہے کہ کم از کم 10 برس کے اندر ایک بار مردم شماری ہونی ہے۔ لیکن ماضی سے عیاں ہے کہ 1998ء کی مردم شماری کے 19 سال بعد 2017ء میں مردم شماری ہوئی اور اب دوبارہ محض 5 برس کے اندر نئی مردم شماری کرائی جارہی ہے۔ یہ مردم شماری واضح طور پر پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے مطالبے پر ہورہی ہے` جس کی وجہ سے بعض خدشات ضرور جنم لے رہے ہیں۔ سندھ کے حوالے سے یہ مردم شماری اس لیے اہم ہے کہ سندھ کی جغرافیائی صورتِ حال دیگر تمام صوبوں سے بے حد مختلف ہے۔ سندھ واحد صوبہ ہے جس کے اصلی باشندوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے کا خوف لاحق ہے، کیوں کہ سندھ میں 30 لاکھ سے زائد غیر قانونی غیر ملکیوں سمیت ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ غیر مقامی افراد بھی رہتے ہیں۔ سندھی اور اردو بولنے والوں میں بھی اکثریت رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس لیے سندھ کے حقیقی باشندے ہمیشہ اس خدشے میں مبتلا رہے ہیں کہ کہیں ایسی منصوبہ بندی تشکیل نہ پاجائے جس سے اہلِ سندھ کے وجود کو خطرہ پیدا ہوجائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آئندہ مردم شماری کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے سندھ کے باشندے متحرک ہوجائیں۔ سندھ کی سیاسی پارٹیاں اپنا کردار ادا کریں اور درست گنتی (مردم شماری) کو یقینی بنائیں۔ سال 2017ء میں جو مردم شماری ہوئی تھی اُس کے نتائج کے مطابق ملک کی کُل آبادی 20 کروڑ 78 لاکھ ہے، اور اس میں نصف سے زائد آبادی یعنی 52.8 فیصد پنجاب کی ظاہر کی گئی ہے۔ اسی طرح سے سندھ کی آبادی 23 فیصد، کے پی کے کی آبادی 17 فیصد اور بلوچستان کی آبادی 6.11 فیصد دکھائی گئی ہے۔ اگرچہ اس آبادی کے شمار میں سندھ کی کُل آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ ظاہر کی گئی ہے، لیکن حکومتِ سندھ اور سندھ کے لوگوں کو یقین ہے کہ سندھ کی آبادی پونے 5 کروڑ کے بجائے ساڑھے 6 کروڑ تک ہے۔ اس طرح سندھ کی آبادی سے ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد کو گھٹایا گیا ہے۔ اگرچہ سندھ حکومت اور سندھ کے عوام یہ خدشات ظاہر کرتے رہے لیکن وفاقی حکومت مردم شماری کی گنتی کو درست کرنے کی خاطر کوئی بھی قدم نہیں اٹھا سکی اور اس نے سی سی آئی کے اس فیصلے پر بھی عمل نہیں کیا جس میں واضح کہا گیا تھا کہ آبادی کی تعداد کو درست جانچنے کے لیے 5 فیصد سیمپل مردم شماری کروائی جائے گی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وفاقی ذمے داران اور اربابِ اختیار مردم شماری کے معاملے پر سندھ کے خدشات کو ختم نہیں کراسکے، اور ان کی جانب سے ازسرِنو مردم شماری کروائی جارہی ہے، لیکن اِس دفعہ بھی ایسا کوئی واضح اور یقینی اطمینان نہیں دلایا جارہا ہے کہ سندھ کی مردم شماری درست کی جائے گی، یا اس حوالے سے اہلِ سندھ کے سابقہ خدشات قائم اور برقرار رہیں گے۔
حکومتِ سندھ سمیت سندھ کی سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ آدم شماری (مردم شماری) کے بارے میں لوگوں میں بیداری پیدا کریں، انہیں متحرک کریں اور وفاقی حکومت پر دبائو برقرار رکھیں تا کہ سندھ کے عوام کی مردم شماری درست طریقے سے ہوسکے۔ اس کے ساتھ ہی غیر قانونی غیر ملکیوں کی کسی بھی صورت میں آمد کی سخت مخالفت کی جانی چاہیے۔ سندھ میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے بھی ایک متحرک جدوجہد چلائی جانی چاہیے تا کہ صوبہ سندھ کو مستقبل میں ’’عالمی یتیم خانہ‘‘ بنانے سے بچایا جاسکے اور اہلِ سندھ کے وجود کو لاحق خطرات کو ختم کیا جاسکے۔‘‘