شمسی توانائی… رکاوٹیں کیا ہیں؟

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کا تحقیقاتی مطالعہ

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے ایک حالیہ تحقیقی مطالعے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سولر پینلز میں معیار کے مسائل، انضمام میں طریق کار کی خرابیاں، شمسی مصنوعات کی درآمدات میں کوتاہی اور نیٹ میٹرنگ سے متعلقہ شمسی تنصیبات کے تکنیکی معائنے کی کمی جیسے عوامل پاکستان میں قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقلی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ’’ایسسمنٹ آف نیٹ میٹرنگ بیسڈ سولر سسٹمز انسٹالڈ ایٹ آئی ایسکو اینڈ لیسکو‘‘ کے عنوان سے یہ مطالعہ آئی پی ایس نے ’جی آئی زی‘ پاکستان (جرمن ایجنسی برائے بین الاقوامی تعاون) اور متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ (اے ای ڈی بی) کے تعاون سے کیا تھا، جس میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)، اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئی ایسکو)، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو)، رینیوایبل انرجی ایسوسی ایشن آف پاکستان (آر ای اے پی)، سولر کوالٹی فاؤنڈیشن (ایس کیو ایف) اور کئی سولر وینڈرز کی فعال شرکت شامل تھی۔ یہ تحقیقی تجزیہ اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور کے مختلف مقامات پر موجود 40 سولر فوٹو وولٹک سسٹم کے جائزے پر مبنی ہے۔ یہ مطالعہ، شمسی توانائی کے نظام میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر حسن عبداللہ خالد کی تکنیکی مہارت کے ماتحت کیا گیا تھا اور انسٹی ٹیوٹ کے توانائی، پانی اور موسمیاتی تبدیلی کے پروگرام سے منسلک محمد حمزہ نعیم اور لبنیٰ ریاض کی تحقیق اور تصنیف تھی۔ اس مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے سولر پی وی سسٹمز خاصی تعداد میں نصب کیے جارہے ہیں جو معیار کی ضمانت، تکنیکی انضمام اور بین الاقوامی کوڈز کے طے شدہ ضوابط اور طریق کار کے مطابق نہیں ہیں۔ ریگولیٹڈ سولر پی وی تنصیبات کے لیے تکنیکی معیار کے پہلوؤں کو نظرانداز کرنے کے شواہد موجود ہیں، جن میں سولر پینل کی تنصیب کے معیار پر سمجھوتا، انٹر کنکشن کے طریقوں میں کوتاہی، مائونٹنگ اسٹرکچرکے مسائل اور ضوابط کو اختیار کرنے میں غلطیاں وہ پہلو ہیں جو تکنیکی انضمام کے طریقوں کی بنیاد پر خامیوں کو جنم دے سکتی ہیں، اور اس کے نتیجے میں شمسی آلات کی مجموعی مارکیٹ پر اثر پڑ سکتا ہے، یہاں تک کہ یہ سنگین حادثات کا باعث ہوسکتا ہے جو شمسی توانائی استعمال کرنے والوں کے لیے بہت مہلک اور مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی خدمات میں بھی ضروری پیرامیٹرائزیشن پر مبنی تکنیکی معائنہ اور معیار کی جانچ کے طریق کار کا فقدان ہے۔ تحقیق کے اس عمل میں پتا چلا کہ تقریباً 22 فیصد سولر سسٹمز ایسے سولر پینلز سے منسلک ہیں جو مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں، جبکہ ہاٹ اسپاٹس، سنیل ٹریل کنٹیمی نیشن اور ڈیلامینیشن سے پتا چلتا ہے کہ وہ مینوفیکچرنگ پر پورا اترنے والے لازمی معیار پر سمجھوتا کیے ہوئے ہیں۔ انہیں مصنوعات کی کوالٹی کے معیار کو جانچنے والے عمل کی موجودگی کے باوجود درآمد کیا گیا ہے۔ مزید برآں، ناکافی انٹرکنکشن صلاحیت کی حامل شمسی تنصیبات 15فیصد پائی گئی ہیں، جبکہ 10فیصد شمسی توانائی کے نظام غیر معیاری مائوٹنگ ساخت اور محل وقوع رکھتے ہیں، جس کے باعث نیٹ میٹرنگ کا تادیر کام کرتے رہنا بہت حد تک کم ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرڈ سے منسلک سولر سسٹم کی تنصیب کے الاؤنس نے پاکستان کی پاور مارکیٹ کو بجلی کے صارفین کے لیے کھول دیا ہے جو ’پروزیومرز‘ کی شکل اختیار کررہے ہیں، جہاں وہ ڈسٹری بیوشن گرڈ کو ماحول دوست اور سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ دوسری طرف نیٹ میٹرنگ کی اس سہولت نے سولر پینلز کی سپلائی اور ریٹیلرز، سسٹم کی تنصیبات، اسمارٹ ڈیوائسز، اور سولر سسٹم کے آپریشنز اور تنصیبات پر تربیت سے وابستہ بہت سے کاروباری اداروں کے لیے پیداوار اور منافع کی راہ بھی ہموار کی ہے۔ سال 2021ء میں نیٹ میٹرنگ کی سہولتوں کو اپنانے میں خاصا اضافہ دیکھا گیا، جہاں 300میگاواٹ سے زیادہ کی مجموعی اضافی صلاحیت کے ارتکاز میں پچھلے سالوں کے مقابلے میں ایک سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ گرڈ سے جڑے سولر سسٹمزکی توانائی کے یونٹس کو ڈسٹری بیوشن یوٹیلٹی میں ایکسپورٹ کیا جائے، اس وجہ سے وہ لوڈ سینٹرز کے آس پاس پاور سورس کے طور پر کام کرتے ہیں۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کئی تکنیکی کوڈز، کوالٹی کی ضمانتوں، طریق کار کی تعمیل اور آپریشنل ضوابط کی تعریف کر رکھی ہے جس کے لیے آلٹرنیٹو انرجی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اے ای ڈی بی) اور وزارتِ توانائی میں بھی گرڈ سے منسلک ہونے کے لیے تفصیلی رہنما اصولوں کی تفصیل موجود ہے۔ اس کا مقصد سولر سسٹم کی تنصیبات کے لیے سولر وینڈرز کو صرف معیاری تنصیبات کی اجازت دینا ہے۔ تاہم شمسی نظام سے وابستہ کاروبار کے زیادہ منافع بخش ہونے کے باعث بدعنوانی، اور ضوابط کو نظرانداز کرنے کے واقعات کئی گنا بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں، جس سے پاکستان میں بنیادی سطح پر قابلِ تجدید توانائی کی جانب منتقلی میں خاصے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ بجلی کے صارفین میں ایسے سولر وینڈرز کی طرف سے فراہم کردہ ’کم مہنگے‘ اور معیار پر سمجھوتا کیے ہوئے شمسی توانائی سسٹم کی طرف جانے کا غیر چیک شدہ رجحان ہے جنہوں نے تکنیکی اور طریقہ کار کے ضوابط کی تعمیل کو نظرانداز کیا ہوا ہے۔ چونکہ ڈسٹری بیوشن یوٹیلٹی کوانٹر کنکشن سے پہلے سولر سسٹمز کا معائنہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ڈسکوزکے پاس دستیاب وسائل اور افرادی قوت ناکافی ہے، اس لیے اس سلسلے میں بدعنوانی اور رشوت کے کلچر کو راستہ مل رہا ہے۔ اے ای ڈی بی بہترین طرزِعمل کو یقینی بنانے کے لیے سولر وینڈرز کی تصدیق کرتا ہے اوراس نے شمسی توانائی سے منسلک مصنوعات کی درآمد کے لیے طے شدہ طریقہ کار اور رہنما اصول دے رکھے ہیں، پھر بھی کچھ سولر وینڈرز ان کی پابندی نہیں کرتے۔ تصدیق شدہ سولر وینڈرز کی طرف سے سرٹیفکیشن اسناد کی فروخت اور سولر سسٹم کی تنصیب کی مکمل آؤٹ سورسنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ جبکہ غیر معیاری، ناقص طور پر منسلک، خطرناک طریقے سے نصب اور غیر منظم
شمسی تنصیبات بھی جگہ بنا رہی ہیں۔ دوسری جانب قانونی اور ریگولیٹری خامیوں کی وجہ سے غیر معیاری سولر پینلز بھی درآمد کیے جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے اختتام پر، تیسری پارٹی کمپنیوں سے تکنیکی معائنے کا طریقہ کار شروع کرنے، سولر کوالٹی پاسپورٹ کی بحالی، درخواست کے عمل کی ڈیجیٹلائزیشن، ڈسکوز اور سولر وینڈرز کی استعدادِ کار میں اضافہ، اور انٹرنیٹ آف تھنگز(آئی او ٹی) کی بنیاد پر اسمارٹ میٹرنگ انفرااسٹرکچر کی طرف منتقلی کی سفارشات پیش کی گئی ہیں تاکہ ملک میں سولر سسٹم کی تنصیبات کو معیاری طریقہ کار پر ڈھالنے اور پہلے سے طے شدہ رہنما اصولوں پر لانے کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔