عورت قیمتی خزانہ

گھر اور خاندان کا اہم ستون عورت ہے۔ وہ گھر، گھر نہیں جہاں عورت نہیں۔ جب بھی کسی آئیڈیل گھر کا تصور ذہن میں آتا ہے تو پہلی تصویر اس پُرسکون گھر کی ابھرتی ہے جہاں ہر کام ایک جادوئی میکنزم کے تحت شیڈول کے مطابق ہوتا ہے۔ ایک ایسا گھر جہاں کے افراد آپس میں حقوق و فرائض اور خلوص و محبت، ایثار و قربانی کے اعلیٰ ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈوریوں سے بندھے ہوں، آئیڈیل گھر کہلاتا ہے۔ تحمل، برداشت، صبر، عفو و درگزر جیسی صفات سے مزین زوجین اعلیٰ اخلاق کے حامل بن جاتے ہیں جن کی شادی شدہ عملی زندگی میں اختلافات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔ میاں بیوی خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں، اور خاندان معاشرے کی اہم و بنیادی اکائی ہے۔ پہلے کی عورت بخوشی اپنی ذمے داری نبھاتی رہی، لیکن کیا وجہ ہے کہ موجودہ دور میں مساواتِ مرد و زن کے نعرے نے عورت کو ہر طرح کی ذمے داریوں، خاندانی روایات و بندھنوں سے آزادی کی سوچ عطا کردی ہے؟ حقوقِ نسواں کے نام پر وہ ذمے داریوں سے آزاد ہونا چاہ رہی ہے؟ ہر اصول، ہر قانون، ہر نظم سے آزادی، ہر حیثیت سے آزادی کا نعرہ لبوں پر ہے۔ شوہر سے آزاد، رشتوں سے آزاد، لباس و ستر کے احکام سے آزاد… خاندان کا شیرازہ ہی بکھر گیا۔ اب خاندان کا کوئی قوّام نہیں، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں… جبکہ گھریلو زندگی حقوق و فرائض کا مجموعہ ہے۔ مساواتِ مرد و زن اور حقوقِ نسواں کے نعرے کا پس منظر کیا ہے، ذرا سوچیں!
کہیں عورتوں کے حقوق تو پامال نہیں کیے جارہے؟
ہرگز نہیں… اگر عورتوں کے حقوق کی بات کی جائے تو صرف نظامِ اسلام ہی نے عورت کے شرف و وقار کو بحال کیا ہے۔ یہودیت اور عیسائیت کے نزدیک عورت گناہ کی جڑ تھی، اسی لیے وہ کسی عزت و احترام کی مستحق نہیں، بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ مرد کی دلربائی کا فریضہ انجام دے۔

ہندو مت میں عورت کو پست، ذلیل و حقیر سمجھا جاتا رہا اور شوہر کی چتا کے ساتھ عورت کو بھی جلا دینے کا رواج رہا۔ ہندو معاشرت اور قانون میں عورت کے لیے معاشی و تمدنی میدان میں کوئی حصہ نہیں، معیشیت میں کوئی حصہ نہیں، عمل و فکر کی قطعاً آزادی نہیں… اس کے برعکس جدید مغربی عورت کو آزادی دی گئی، مگر اس مادر پدر آزادی نے عورت کو محض دل بستگی کا ذریعہ بنادیا۔ قبلِ اسلام بیٹیوں کو زندہ جلایا جاتا رہا، لکھنے پڑھنے سے محروم رکھا جاتا رہا، قحبہ خانوں کی زینت بنائی جاتی رہیں۔ صرف اسلام ہی نے عورت کو انسانی اور سماجی حقوق عطا کیے، اسے وراثت کا حق دار ٹھیرایا، عملاً حق مہر دلوایا، نازک آبگینے کہہ کر نرمی و درگزر کی تاکید کی، انتخابِ رفیق کا حق دیا اور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں مجموعی طور پر وہ شرف و وقار اور تحفظ عطا کیا جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اصل المیہ یہ کہ اسلام نے عورت کو قرآن و سنت کے جن اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی تھی، دورِ حاضر کی عورت نے ان کی نفی کرکے بے حجاب ہوکر اپنے آپ کو پھر سے دورِ جاہلییت کی طرح مظلوم و محروم اور مرد کے لیے کھلونا بنادیا۔ مذہب اسلام نے عورت اور مرد کو بحیثیت انسان بنیادی انسانی حقوق میں مساوات اور یک رنگی عطا فرمائی، مرد و خواتین دونوں ہی کے لیے ایک ہی نظامِ عقائد ہے، دونوں ہی کے جنت میں مقیم رہنے، دونوں کے اکٹھے لغزش کھانے، اور دونوں کے زمین پر بھیجے جانے، اور دونوں ہی کی جانب سے توبہ قبول کیے جانے کے احوال یکساں ہیں۔ اخلاقی لحاظ سے دونوں میں مساوات ہے، یعنی فضائلِ اخلاق اور رذائلِ اخلاق کی راہیں ایک جیسی ہیں، نیکی اور بدی کا بدلہ یکساں ہے، اور دونوں میں سے جو تقویٰ میں جتنا بڑھ جائے مرتبہ پاسکتا ہے۔ حلال و حرام کی قیود بھی دونوں کے لیے یکساں مقرر ہیں۔ نیز دونوں کے ساتھ عدل و انصاف کے قوانین بھی یکساں ہیں۔ لیکن اللہ کی اس کائناتی تقسیم میں مرد اپنی جگہ ذمے دار ہیں اور عورت اپنی جگہ ذمے دار۔ اسلام کی خوبی ہی دینِ فطرت کی بنا پر ہے، اور فطری اعتبار سے مرد اور عورت کے جسم و صلاحیت کے مطابق دائرۂ کار مقرر کردیے گئے۔ مرد کو کسبِ معاش کا ذمے دار بناکر بیرونِ خانہ کے تمام کام تجارت، زراعت، صنعت و حرفت، معیشت، فوجی دفاع سونپ دیے گئے، تمام سخت، بھاری اور مشقت کے کام مرد کے ذمے ڈالے گئے، اور عورت کو شمعِ حرم بناکر آئندہ نسل کی تخلیق، پرورش،کفالت، تربیت و جملہ خانہ داری کے فرائض سونپے گئے۔

عورت کی اصل بنیادی ذمے داری گھر کی فضاکو سنوارنا ہے، گھر بنانا ہے… گھر توڑنا یا بگاڑنا نہیں ہے۔ اسلام میں مرد و زن کوئی حریف یا مخالف جنس نہیں، نہ ان میں کوئی معرکۂ کارزار گرم ہے، نہ ہی مردوں کی بے جا حمایت ہے اور نہ ہی عورتوں کا استحصال ہے، بلکہ رب کائنات کے نزدیک تمام عورتیں اور مرد من حیث الانسان برابر ہیں اور مقصد اسلامی و آئیڈیل معاشرے کی تخلیق ہے۔ وہ اللہ جو تمام مخلوقات کا خالق ہے، ستّر مائوں سے بڑھ کر چاہنے والی ذات…کیا وہ ہی نہیں جانے گا کہ اس کی مخلوق کے لیے کیا بہتر ہے! عورت اصلاً گھر کی مالکہ ہے۔ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ شوہر کا خیال رکھنا، اس کو کسبِ معاش کے لیے گھر سے سکون و راحت فراہم کرنا، بچوں کو اچھا، باشعور بناکر قوم کے مستقبل کو سنوارنا ہی ماں کا اصل ہدف ہے۔ بڑے بڑے بزرگ، ولی اللہ، نبی، ولی، شہہد سب ماں ہی کی تربیت کا نمونہ بن کر ابھرے۔ اسلام ماں کے قدموں تلے جنت کہہ کر عورت کو خیر کی بنیاد قرار دیتا ہے، نکاح کے ذریعے عورت کو محصنات قرار دے کر باعزت مقام عطا کرتا ہے۔ جبکہ مغربی معاشرے سے مستعار لیے گئے مساواتِ مرد و زن کے پُرکشش نعروں اور سرمایہ داروں کی چال نے آج کی عورت کو امن و سلامتی کے حصار سے نکال کر اپنے ہی ملک، اپنے ہی شہر، اور اپنے ہی محلے میں غنڈہ ازم کا شکار بنادیا ہے۔ گجرات کا سانحہ، گوجرانوالہ، چشتیاں، زینب سمیت نہ جانے کتنی ہی معصوم بچیوں کے اغوا و تشدد… ہماری اخلاقیات، ہمارے قانون، ہمارے حکمرانوں… سب کے دامن پر یہ ایسے گندے دھبے ہیں جن کو کسی پانی سے نہیں دھویا جا سکتا۔ بہ نسبت دورِ اسلامی کا سعادت والا زمانہ، جہاں عورت اپنی عصمت کے ساتھ محفوظ تھی۔ دورِ جدید کا المیہ کہ شہر شہر، قصبے قصبے رقص، گانے بجانے، ماڈلنگ اور عورت کی عریاں تصاویر نے ماحول کو آلودگی سے پُرکردیا ہے۔ عورت کے نسوانی وقار کو تار تار کرکے اس کو صرف مال بیچنے کی جنس بنادیا، اور لباس کی حدود و قیود سے آزاد عورت اپنے اوپر ہونے والے استحصال پر نوحہ کناں ہے کہ اسے آزادی چاہیے۔ یہ انقلاب دورِ جاہلیت کی طرف لوٹائے جانے کا انقلاب ہے، جبکہ اسلامی انقلاب دین کے صحیح ایمان و شعور سے پیدا ہوتا ہے۔

اسلام کے معاشرتی قوانین کا فیض ہے کہ زوجین میں بے حد محبت ہوتی ہے، اور وہ ایک دوسرے پر جان دیتے ہیں۔ بطور بیوی کے حضرت خدیجہؓ کا کردار سب خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے، جنہوں نے نہ صرف قبولِ اسلام میں سبقت کی بلکہ بارِ نبوت کو اٹھاتے
وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کانپتے دل کو تسلی دی،ان کی ڈھارس بندھائی،پھر اپنا مال، اپنا دل و دماغ، اپنے غور و فکر کی پوری قوت، اپنی ہمدردیاں، جانثاریاں سب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپؐ کی ذاتِ مبارک پر نچھاور کردیں۔ تمام امہات المومنین، تمام صحابیات راہِ حق میں اپنے مردوں کی ڈھارس بندھانے والی، گھریلو پریشانیوں سے ان کو نجات دلاکر فریضۂ اقامتِ دین کے لیے ان کو زیادہ سے زیادہ وقت و سکون اور اطمینان مہیا کرنے والی، ان کو حرام سے بچاکر حلال کمائی پر قناعت کرنے والی، ہر تنگی ترشی میں انہیں اپنی غم گساری، ہمدردی اور تعاون کا یقین دلانے والی، اور پورے خلوص و جانثاری سے ان کی اطاعت اور خدمت بجا لانے والی تھیں۔ سب اپنے شوہروں کی خوشنودی پر جان دیتی تھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بغیر محبت و اطاعت کے رشتۂ نکاح ایک جسدِ بے روح ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ روئے زمین پر جتنے بھی مسلمانوں نے کارنامے انجام دیے، ان میں بیویوں کی ترغیب و تحریص کو بہت دخل ہوتا تھا۔

گھر عورت کی واحد پناہ گاہ ہے، اور دورِ جدید کے مساواتِ مرد و زن اور ترقیِ نسواں کے نعرے شیطان کے حربے ہیں جن سے بچ کر ہی عورت نہ صرف اپنے حقوق حاصل کرسکتی ہے بلکہ تحفظ و عزت بھی پاسکتی ہے۔