جب ہم مرتے ہیں تو اس وقت دماغ میں کیا ہوتا ہے یہ صدیوں سے ایک راز رہا ہے، لیکن ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب انسانی روح جسم سے پرواز کرتی ہے تو اس دوران گزری پوری زندگی چند سیکنڈز میں سمٹ کرآنکھوں کے سامنے روشن ہوجاتی ہے۔
نیوروسائنسدانوں نے ایک 87 سالہ مرگی کے مریض کی دماغی سرگرمی کو اس وقت ریکارڈ کیا جب اس کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، دماغی لہروں سے واضح ہوا کہ موت کے وقت یادداشت کی بازیافت کا عمل تیز ہوتا ہے۔نتائج بتاتے ہیں کہ”میموری بازیافت“ کے ذریعے زندگی ہماری آنکھوں کے سامنے روشن ہوجاتی ہے۔
نیورو سائنس دان عارضہ قلب میں مبتلا شخص کے علاج کے لیے الیکٹرو اینسفالوگرافی (ای ای جی) استعمال کر رہے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب سائنسدانوں نے مرتے ہوئے انسانی دماغ کی سرگرمی کو ریکارڈ کیا تھا۔خواب اور مراقبہ کے دوران جس طرح کی دماغی لہروں کی سرگرمی دیکھی گئی، ویسی ہی مرتے ہوئے اس شخص کی دماغی سرگرمی بھی دیکھی گئی،یہ عمل نظریہ life recall کی حمایت کرتا ہے جس میں موت سے عین قبل زندگی بھر کے اہم واقعات چند سیکنڈوں میں آنکھوں کے سامنے لہرا جاتے ہیں۔درحقیقت، موت کے عمل کے دوران اور اس کے بعد دماغ متحرک اور مربوط رہ سکتا ہے۔
عمر رفتہ کو آواز دینے کے اس نظریہ ”لائف ری کال“ میں سیکنڈوں میں اپنی پوری زندگی گزارنے کا تصور کریں۔بجلی کی چمک کی طرح، آپ اپنے جسم سے باہر ان یادگار لمحات کو دیکھ رہے ہیں جن سے آپ گزرے ہیں۔یہ عمل اسی طرح کا ہو سکتا ہے جیسا کہ موت کے قریب تجربہ کرنا ہے۔
ان تجربات کے دوران اور موت کے بعد آپ کے دماغ کے اندر کیا ہوتا ہے وہ سوالات ہیں جو صدیوں سے نیورو سائنسدانوں کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔محققین نے جس مریض کی دماغی لہروں کا مشاہدہ کیااس کانام ظاہر نہیں کیا گیا، اسے برٹش کولمبیا کے وینکوور جنرل ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں اس وقت نیورو سرجن ڈاکٹر اجمل زیمر کام کر رہے تھے۔محققین نے اس کے دماغ سے ای ای جی کی ریکارڈنگ حاصل کی۔
ای ای جی دماغ کی برقی سرگرمی کو ریکارڈ کرنے کا ایک طریقہ ہے جس میں کھوپڑی کے ساتھ الیکٹروڈز رکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر زیمر کا کہنا ہے کہ ہم نے موت کے وقت دماغ کی نو سو سیکنڈ کی سرگرمی کی پیمائش کی اور دل کی دھڑکن بند ہونے سے پہلے اور بعد میں تیس سیکنڈ میں کیا ہوا اس کی تحقیق کے لیے ایک خاص توجہ مرکوز کی۔ اس میں انہیں واضح تبدیلیاں نظر آئیں۔
دماغ ہماری موت سے عین قبل زندگی کے اہم واقعات کوآخری بار یاد کر رہا ہوتا ہے۔اگرچہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مطالعہ ہے جس میں انسانوں میں مرنے کے عمل کے دوران زندہ دماغی سرگرمی کی پیمائش کی گئی ہے، لیکن اس سے قبل کنٹرول شدہ ماحول میں رکھے گئے چوہوں میں گیما آسکیلیشن میں اسی طرح کی تبدیلیاں دیکھی جا چکی ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ ممکن ہے کہ، موت کے دوران، دماغ ایک حیاتیاتی ردعمل کو منظم کرتا ہے اور اس پر عمل درآمد کرتا ہے جسے تمام انواع میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
اس تحقیق سے ہم جو کچھ سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہمارے پیارے آنکھیں بند کر چکے ہیں اورہمیشہ کے لیے آرام کے لیے تیار ہیں، لیکن ان کا دماغ ان کی زندگی کے کچھ بہترین لمحات کو دوبارہ چلا رہا ہوتاہے۔یہ تحقیق جریدے ”فرنٹیئرز ان ایجنگ نیورو سائنس“میں شائع ہوئی ہے۔