پب جی کی خطرناک،موت کی دنیا

پب جی(Player Unknown Battle s Ground) اس وقت دنیا کا مقبول گیم ہے۔ موبائل ڈاؤن لوڈ کرنے والے صارفین کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرگئی ہے۔
ایک ایسا گیم ہے جو موت کا گیم ہے ،ذہنی بیمار کرنے والا ہے۔.
یہ لڑائی، مار دھاڑ، تشدد اور مارنے اور مرنے والا گیم ہے۔ اس میں دو سے لے کر سو سے زائد لوگ تک جنگ کے میدان میں آسمان کی بلندی سے اترتے ہیں، اور ان کا مقابلہ ایک دوسرے سے شروع ہوجاتا ہے، اور انٹرنیٹ کے ذریعے آپ اس میں لڑتے رہتے ہیں اور کھیل کے آخر میں جو شخص زندہ بچ جاتا ہے وہ فاتح قرار پاتا ہے۔ اس میں کھیلنے والے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت بھی کرسکتے ہیں۔ گیم میں بعض دفعہ پاور حاصل کرنے کے لیے گیم کھیلنے والے کو بتوں کے سامنے پوجا بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس کھیل کے مشہور ہونے کی ایک وجہ اس کی آعلیٰ کوالٹی کی گرافک، ساؤنڈ اور گیمنگ اسٹوری ہے۔ گیم میں ہر قسم کا جدید اسلحہ استعمال کیا گیا ہے اور اس کے فیچر میؐں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
یہ آن لائن گیم اس وقت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر کھیلا جارہا ہے،والدین بچوں سے پریشان ہیں لیکن یہ بڑوں میں بھی مقبول ہے۔ جس کو اس کی لت لگ جاتی ہے وہ دن اور رات اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے،یہ ایک ایسا نشہ ہے جو آہستہ آہستہ ایک بڑی تعداد کو منشیات اور ہیروئن جیسے نشے میں تبدیل کردیتا ہے اور پھر اس میں مبتلا شخص ویسے ہی ہوجاتا ہے جیسا ایک نشئی ہوجاتا ہے۔ یہ گیم، کارٹون اور ویب سیریز اشتعال انگیزی، غصے اور مار دھاڑ کو فروغ دیتے ہیں اور مصوم بچوں کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
اس جدید دنیا میں انٹرنیٹ اور موبائل نے جہاں آسانی پیدا کی ہے، وہاں ان کے مضر اور خطرناک اثرات کی خبریں بھی تواتر کے ساتھ تباہ کن انداز میں آرہی ہیں ۔ پنجاب پولیس کے مطابق صرف لاہور شہر میں مبینہ طور پر پب جی کی وجہ سے 12 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔کراچی میں بھی ماضی میں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور پوری دنیا میں ہورہے ہیں ۔
ابھی حال ہی کی خبر ہے کہ بھارت میں جاپانی ویب سیریز پلاٹینیم اینڈ سے متاثر 12 سال کے لڑکے نے عمارت کی 11 ویں منزل سے کود کر جان دے دی۔ بھارتی میڈیا میں آنے والی تفصیلات کے مطابق کلکتہ میں رہنے والا 12 سالہ لڑکا بیراج پچیسیا جاپانی ویب سیریز پلاٹینیم اینڈ شوق سے دیکھتا تھا۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ اس نے ویب سیریز سے متاثر ہوکر عمارت کی 11 ویں منزل سے چھلانگ لگائی۔ لڑکے کو امید تھی کہ ویب سیریز پلاٹینیم اینڈ کی طرح سپر ہیرو آکر اُسے بچا لے گا اور جادوئی طاقت بھی دے گا۔ واضح رہے کہ جاپانی ویب سیریز میں ایک نوجوان نے اسی طرح عمارت سے چھلانگ لگائی تھی جسے سپر ہیرو نے بچا لیا تھا اور جادوئی طاقت بھی دی تھی۔ اس طرح بچے نے وہی کیا جو اُس نے دیکھا تھا۔ یہ ایک واقعہ ہے، لیکن اب پوری دنیا میں آن لائن گیمز کے اور بھی واقعات سامنے آرہے ہیں۔
اس پر کئی ریسرچ موجود ہیں اور بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ نفسیاتی، جسمانی و سماجی مسائل کے ساتھ بچے بے ہنگم عادت کا شکار ہوکر خودکشیاں کررہے ہیں۔
انڈیپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دن میں دو گھنٹے سے زیادہ اس گیم کا کھیلنا خطرے کی نشانی بن سکتا ہے۔ نوجوان اکثر اس وقت کو ذہن میں نہیں رکھتے۔
اس کھیل میں آپ کے لیے منفی اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟
1۔ آپ کی فطرت کو جارحانہ بناتا ہے۔
2۔ سماجی بے چینی بڑھ جاتی ہے۔
3۔ ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔
4۔ سونے میں دشواری ہوتی ہے۔
اس کے مقابلے میں اس کے مثبت اثرات یہ بتائے جاتے ہیں:
1۔ نظر کو بہتر کرتا ہے۔
2۔ ٹریک کرنے کی صلاحیت
3۔ ملٹی ٹاسکنگ کی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں ان گیمز کی وجہ سے کئی بچوں اور نوجوانوں نے اپنی زندگی تک کا خاتمہ کیا ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ بچے حقیقت اور خیالی دنیا میں فرق کرنا بھول جاتے ہیں۔ ان کا ذہن ایک فرضی دنیا کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ ان خونیں گیمز میں دوسروں کو قتل کرکے اُن کی املاک تباہ کرنے کا ہدف ہوتا ہے، اور بچے اس کے لطف و مزے میں ہوش کھو دیتے ہیں۔ اور یہ بات پھر صرف گیم تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس طرح بچے نت نئے جرائم کی دنیا اور تجربات میں حقیقی طور پر داخل ہوجاتے ہیں اور وہ سیکھتے ہیں جو اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے پنجاب کے علاقے کاہنہ میں 4افراد کے قتل کا معما حل ہوا تو پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ 18 سالہ بیٹے نے گھر میں موجود پستول سے اپنی والدہ، چھوٹے بھائی اور دو بہنوں کو قتل کیا اور ’ٹاسک مکمل کرنے کے بعد‘ گھر کی زیریں منزل پر آکر سوگیا۔ دورانِ تفتیش ملزم نے بتایا کہ ’’پب جی‘‘ گیم میں بار بار شکست کی وجہ سے وہ ذہنی دبائو میں تھا اور اس نے یہ سوچ کر اپنے بھائی، بہنوں اور والدہ پر گولیاں چلائیں کہ گیم کی طرح یہ سب لوگ دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ اس سے قبل بھی اس طرح کی خبر یں سامنے آتی رہی ہیں، اچھرہ لاہور میں فرسٹ ایئر کے طالب علم نے پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کی۔ پنجاب سوسائٹی میں 28 سالہ نوجوان شہریار بھی پب جی کے باعث موت کا شکار ہوا۔ اس نے پب جی گیم میں شکست کے بعد زندگی کا خاتمہ کیا۔ تھانہ شمالی چھائونی کے علاقے میں پب جی گیم پر شرط ہارنے پر 16سالہ غلام عباس نے خودکشی کی۔ اس سے قبل بھارت سے ایک خبر تھی کہ ریاست کرناٹک کے بیل گاوی ضلع میں اکیس سالہ لڑکے نے اپنے باپ کی گردن کاٹ کر اسے قتل کردیا، وجہ یہ تھی کہ لڑکے کے باپ نے اسے موبائل پر ’’پب جی‘‘ کھیلنے سے روکا تھا۔ اس سے قبل بلیو وہیل گیم اور مومو گیم سامنے آئے تھے، جو لوگوں کو خودکشی کرنے پر اکساتے تھے۔ چیلنج میں شریک افراد کو مخصوص احکام پر عمل کرنے، اجنبی فون نمبروں پر لوگوں سے رابطہ کرنے اور اسی طرح کے دیگر کام کرنے کو کہا جاتا تھا۔ پھراگر کوئی ان احکامات پر عمل نہ کرتا تو اسے زیادہ پُرتشدد تصاویر و چیزیں دکھاکر خوف زدہ کیا جاتا، اور وہ بات ماننے پر مجبور ہوجاتا تھا، ان گیمز پر اب پوری دنیا میںپابندی لگادی گئی ہے۔ ہمارے یہاں پب جی پر کچھ دنوں کے لیے پابندی لگائی گئی تھی مگر پھر ختم ہوگئی۔ اب ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ میں، شہری تنویر احمد نے ندیم سرور ایڈووکیٹ کی وساطت سے درخواست دائر کی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں پب جی گیم کے منفی اثرات سے کئی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ پب جی کے استعمال سے نوجوان نسل کی ذہنی صحت اور زندگی کو شدید خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ درخواست گزار کے مطابق پاکستان میں آن لائن گیمز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے جبکہ ہندوستان میں ان کو ریگولیٹ کرنے کے لیے باقاعدہ قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ درخواست گزار نے یہ بھی استدعا کی کہ ہائی کورٹ آن لائن گیم پب جی پر فوری پابندی عائد کرنے کا حکم دے۔ پنجاب پولیس نے بھی وفاقی حکومت کو باقاعدہ خط ارسال کیا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ اس گیم پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ذریعے فوری پابندی عائد کی جائے۔
اس وقت ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ بچہ نہ گھرکے باہر محفوظ ہے اور نہ ہی گھر کے اندر۔ باہر جرائم پیشہ عناصر اور نشے کے عادی لوگ تاک میں بیٹھے ہیں، تو گھر میں انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے ویب سیریز اور گیمز بچوں کو جرائم اور نشے کی دنیا میں داخل کررہے ہیں۔ خطرناک ویب سیریز اور گیم نئے نئے عنوانات کے ساتھ مستقبل میں بھی سامنے آتے رہیں گے۔ اس ضمن میں جہاں ریاست کا کردار بنتا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر ایسے مواد کو روکے، پابندیاں لگائے، بچّوں کو محفوظ آن لائن مواد فراہم کرنے کے لیے انتظامات کرے، وہاں والدین کو بھی گھر کے اندر اپنے بچوں کے ساتھ اپنا کردار بڑھانے اور خصوصی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ پر آج کے دور میں مکمل پابندی تو ممکن نہیں، اور نہ ہی عملی طور پر یہ ممکن ہے، لیکن اس کو مثبت سمت میں ڈالا جاسکتا ہے، بچّوں کے اسکرین ٹائم کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس سلسلے میں اقدامات بھی کیے گئے ہیں اور شعور بھی اجاگر کیا جارہا ہے، اور اس کام میں میڈیا بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے، روزانہ کی بنیاد پر تحقیقات ہورہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں دیگر مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اس طرف توجہ ہی نہیں ہے، حالانکہ یہ سب سے زیادہ توجہ کی متقاضی چیز ہے کہ ہم نے اپنے مستقبل کو اسکرین اور جرائم کی دنیا میں لے جانے والے گیمز اور ویب سیریز کے حوالے کردیا ہے۔ پبجی کی وبا اور نشابڑھتا جارہا ہے اور اب یہ گھر گھر کی کہانی بن گیا ہے اچھے بھلے گھر کے والدین پریشان ہے ایسے میں ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جس طرح ہم حکومت اور ریاست سے قوانین اور پابندیوں کی امیداور توقع رکھتے ہیں اسی طرح ہم بھی گھرکے اندر کچھ قوانین بنائیں اور بچوں کے ساتھ مل کربنائیں کہ کب اور کتنا اسکرین کودیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا ہے، اور لوگوں کے درمیان ہی اسکرین کا استعمال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے الگ مصروفیت اور مشغولیت تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پارک، کھیل کود اور دوستی… یہ ساری بنیادی ضرورت ہیں۔ جب بچہ ان صحت مند مصروفیات میں مشغول ہوگا تو خودبخود اسکرین ٹائم کم ہوگا اور موبائل سے بے رغبتی بڑھے گی۔اگر آج ہم نے بچےکو موبائل فون اور اس کےخطرناک اثرات سے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے عملی قدم نہیں اُٹھایا تو آنے والے دنو ں میں یہ بظاہر کھیل گھر گھر میں ماتم کا سبب بن جائےگا ۔