تحریک عدم اعتماد ہوگا کیا؟

تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتوں پر مشتمل حزبِ اختلاف وزیراعظم عمران خان کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مسندِ اقتدار سے ہٹانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ حکومتی جماعت میں بھی وزیراعظم عمران خان کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام یا ’غیر مؤثر‘ بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو صرف آرٹیکل 95 اور اس کے تحت بننے والے قومی اسمبلی کے طریقہ کار کے قوانین (رولز آف پروسیجر) کے سیکشن 37 کے تحت ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ عدم اعتماد کا نوٹس موصول ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بھی بلایا جائے تو ایسا تصور ہوگا جیسے عدم اعتماد پر عمل ہو گیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 254کہتا ہے کہ جب آئین کے مطابق کوئی عمل یا کام کسی خاص مدت کے اندر کرنا ضروری ہو اور اسے اس مدت کے اندر نہ کیا جائے تو اس عمل یا چیز کا کرنا صرف اس وجہ سے باطل یا غیر مؤثر نہیں ہوگا کہ یہ کام اس مدت کے اندر نہیں کیا گیا تھا،آئین کے آرٹیکل 95(1)کے تحت وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کی کُل رکنیت کے کم از کم 20 فیصد کے برابر اراکین تحریری نوٹس اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کراسکتے ہیں۔ آرٹیکل 95(2) میں لکھا ہے: ’شق (1) میں جس قرارداد کا ذکر ہے، اس پر قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد سے تین دن سے پہلے یا سات دن بعد ووٹنگ نہیں ہو سکے گی۔جب کہ اسی آرٹیکل کی شق 4 کے مطابق مذکورہ قرارداد کے قومی اسمبلی کی کُل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہوجانے پر وزیراعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہیں گے۔قومی اسمبلی کے طریقہ کار کے قوانین کی شق 37 میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے کہ نوٹس کی وصولی کے بعد سیکریٹری اسمبلی جلد از جلد اسے اراکین کو ارسال کرے گا، جب کہ اگلے ورکنگ ڈے اسے آرڈر آف دی ڈے میں متعلقہ اراکین کے نام درج کیا جائے گا۔ قرارداد کے پیش ہونے کے بعد اسپیکر ایوان کے بزنس کو ذہن میں رکھتے ہوئے تحریک پر بحث کے لیے ایک دن مقرر کر سکتے ہیں۔طریقہ کار کے قوانین میں بھی تحریک عدم اعتماد کو سیکریٹریٹ میں جمع ہونے کے تین دن بعد اور سات دن کے اندر نمٹانے کا ذکر موجود ہے۔اسی طرح رولز آف پروسیجر کے سیکنڈ شیڈول میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ایوان میں اوپن بیلٹنگ کے ذریعے ووٹنگ کا طریقہ کار بھی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وہ اپنے عہدے سے فارغ تصور ہوں گے، اور قومی اسمبلی وزیراعظم کا انتخاب کرے گی۔
اب تک دو منتخب وزرائے اعظم کے خلاف تحاریکِ عدم اعتماد پیش کی جا چکی ہیں، تاہم دونوں چیف ایگزیکٹو اپنے مخالفین کو شکست دینے میں کامیاب رہے تھے۔ پہلی تحریک عدم اعتماد سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف نومبر 1989ء میں پیش کی گئی تھی جو قومی اسمبلی میں صرف 12 ووٹوں سے رد کردی گئی، 5 ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے اور بے نظیر بھٹو کو125 ووٹ ملے، تحریک عدم اعتماد کے حق میں107آئے، جب کہ کامیابی کے لیے اپوزیشن کو119 ووٹ چاہیے تھے۔ عدم اعتماد کی یہ تحریک اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف نے ناکام بنائی تھی کہ کہیں قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف غلام مصطفیٰ جتوئی وزیراعظم نہ بن جائیں(باقی صفحہ 41پر)
عدم اعتماد کی تحریک میں اس قدر پیسہ چلا کہ ولی خان یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ انہیں ایک ارب روپیہ دے دیا جائے تو وہ پوری اسمبلی خرید سکتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اگرچہ عدم اعتماد کی تحریک سے بچ گئیں تاہم اس کے بعد وہ مسلسل بحران میں رہیں۔ وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف حزبِ اختلاف نے 2006ء میں تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کے خلاف 2018ء میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، تاہم انہوں نے ووٹنگ سے پہلے ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ سینیٹ کے چیئرمین محمد صادق سنجرانی کے خلاف 2019ء میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، جس میں حیران کن بات یہ تھی کہ جنہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کیے اُن میں سے 14 سینیٹرز نے ووٹ دیتے ہوئے یو ٹرن لے لیا۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے پہلے اسپیکر سید فخر امام کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کامیاب رہی تھی جو اُس وقت جنرل ضیاء الحق کے امیدوار خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کو شکست دے کر اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ خواجہ صفدر کو اسپیکر شپ کے انتخاب میں111 اور فخر امام کو119 ووٹ ملے تھے۔ جب عدم اعتماد کی تحریک آئی تو فخر امام کے خلاف ایوان میں 152ووٹ ڈالے گئے جبکہ ان کے حق میں صرف52 ووٹ آئے۔ ان کے بعد حامد ناصر چٹھہ 172 ووٹ لے کر اسپیکر منتخب ہوئے، ان کے مدمقابل امیدوار شیخ رشید احمد اور سردار آصف کو دو دو ووٹ ملے تھے۔