بھارت کشمیر میں زمینی صورتِ حال کو بدلنے کے لیے تیز رفتاری سے کام کررہا ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے قطعی انکاری ہے اور کشمیریوں کو کوئی ریلیف دینے اور پانچ اگست کا قدم واپس لینے کو تیار نہیں۔ کشمیری ایک قید خانے میں مقید اپنے مستقبل سے مایوسی کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور سفارتی تعلقات منجمد ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب تعطل (ڈیڈلاک) کو توڑنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے نریندر مودی کو ٹی وی پر مباحثے کی پیشکش کی، مگر بھارت کشمیر سمیت کسی معاملے پر بات کرنے سے انکاری ہے۔ ایسے میں وفاقی وزیر تجارت ٹیکسٹائل پیداوار و سرمایہ کاری رزاق دائود نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے زیراہتمام لاہور میں منعقدہ انجینئرنگ اینڈ ہیلتھ کیئر نمائش کے موقع پر اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر بھارت سے فوری تجارت کی وکالت کی ہے۔ رزاق دائود کا کہنا تھا کہ تجارت دونوں ملکوں کے لیے سودمند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”وزارتِ تجارت کا مؤقف یہ ہے کہ بھارت سے تجارت کی جائے، میرا بھی یہی مؤقف ہے کہ تجارت ہونی چاہیے اور اب اسے کھولنا چاہیے۔“
وزیر تجارت کے اس مؤقف پر دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک معنی خیز ٹویٹ یوں کیا ہے: ’’یہ وزیراعظم عمران خان کے فرانسیسی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو کی نفی ہے۔ کیا وزیر موصوف تک عمران خان کا مؤقف نہیں پہنچا؟ یا انہیں اپنے باس کی سوچ سے اختلاف ہے؟ وزیر تجارت کشمیر کو تجارت کے محدب عدسے سے دیکھنا چھوڑ دیں۔ کشمیر برائے فروخت نہیں۔‘‘
عبدالباسط کی طرف سے رزاق دائود کے مؤقف کی فوری گرفت محض کوئی سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی رائے ہے جو پاک بھارت تعلقات کے انتہائی کشیدہ دنوں میں دہلی کے صفدر جنگ روڈ پر قائم پاکستانی ہائی کمیشن سے ہندو ذہنیت کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حریت قیادت کو پاکستانی ہائی کمیشن میں مدعو کیا جاتا تھا اور بھارتی انتہاپسند عبدالباسط کے خلاف مظاہرے کرتے تھے۔ عبدالباسط اپنے مسکت دلائل اور زوردار انداز سے بھارتی ٹی وی چینلز پر جھاگ اُگلتے بھارتی اینکروں کا منہ بند کرتے تھے۔ عبدالباسط کو اُس وقت بھی پاکستان کی فیصلہ سازی پر حاوی اسی قسم کی تاجرانہ سوچ کا سامنا تھا جو اُن کی زبان بند کرنا چاہتی تھی۔ اسی لیے تاجروں کو حکمران نہ بنانے کا حکم دیا گیا کہ وہ صرف اپنے نفع و نقصان کی عینک سے ریاستی اور حکومتی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں، ان کا سار زور عقل پر ہوتا ہے اور دل کے معاملے میں وہ اکثر کورے ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی میں بہت سے معاملات کا تعلق دل سے ہوتا ہے، یہاں دنیا میں مروج سود و زیاں کے باٹ اور پیمانے متروک ہوتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے جو عقل اور دل کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر وجہِ نزاع ہے۔ یہ تنازع ٹھنڈا اور غیر فعال یا فریز بھی نہیں کہ اسے فراموش کردیا جائے۔ یہ ایک زندہ، متحرک اور لاوہ اُگلتا ہوا مسئلہ ہے۔ کشمیری عوام آزادی اور حقِ خودارادیت کے لیے انسانی تاریخ کی بے مثال قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ بھارت کشمیریوں کی خواہشات کو کچلنے کے لیے ان کی نسلوں کو مٹا رہا ہے، جو مٹنے سے بچ گئے ہیں اُن کی تہذیب، ثقافت، مذہبی تشخص، آبادی اور روایات تبدیل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ قبرستان اور جیلیں بھر کر بھارت کا جی نہیں بھرا، اور وہ کشمیریوں کا وجود حرفِ غلط کی طرح مٹارہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کشمیریوں کی وکالت کی ذمے داری اُٹھائے ہوئے ہے۔ اگر کسی مقدمے کا وکیل ہی مخالف پارٹی کے ساتھ مل کر رنگ رلیاں منانے لگے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے!
عمران خان کے فرانسیسی صحافی کو دئیے گئے جس انٹرویو کا حوالہ عبدالباسط نے اپنے ٹویٹ میں دیا ہے اُس میں وہ دوٹوک انداز میں کہہ گئے ہیں کہ پانچ اگست کا قدم واپس لیے بغیر بھارت سے کوئی تعلق ممکن نہیں۔ بہتر تعلقات کے آغاز کے لیے بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔ عبدالباسط کا یہ سوال جائز ہے کہ ایک طرف عمران خان مختلف مواقع پر اس مؤقف کا بار بار اظہار کررہے ہیں تو دوسری طرف اُن کی کابینہ کے رکن سرِعام ایک الگ لائن لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب ہر دور کے حکمرانوں کے گرد گھیرا ڈالنے والے سرمایہ داروں کو تو عمران خان کا یہ دوٹوک مؤقف قبول نہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ماضی میں پہلے میاں نوازشریف کو حقیقت پسند بن کر بھارت سے حدود وقیود سے آزاد تجارت کے راستے پر ڈال چکے ہیں اور بعدازاں جنرل پرویزمشرف کو آگرہ سے نہروالی حویلی تک گھسیٹ لانے میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔ کشمیر کو نظرانداز کرکے تجارت کو فروغ دینے کی ان راہوں میں دونوں حکمرانوں کے اقتدار کا سورج وقت سے پہلے ہی غروب ہوتا رہا ہے۔
چند دن قبل پاکستان کے ایک بڑے بزنس ٹائیکون میاں منشاء نے بھی بہت کھل کر بھارت کے ساتھ تجارت کی وکالت کی تھی۔ زراق دائود کی طرح میاں منشاء کی خواہش میں کشمیر نامی دیرینہ اور انسانی زندگیوں کے لیے اہم مسئلے کا ذکر ہی غائب تھا۔ کشمیریوں کی لاشوں پر تجارتی ٹرکوں کی قطاریں سجانے کی مچلتی خواہشات کو بے رحمی اور سفاکی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟