یوکرین پر حملہ اور عمران خان کا دورۂ روس

روس نے یوکرین کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا اور پوری فوجی طاقت سے اپنے مغربی ہمسایہ ملک پر چڑھائی کردی۔ صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین پر ایک ایسی جنگ تھوپ دی ہے جو دنیا کا سیاسی نقشہ بدل سکتی ہے۔ ماسکو نے سرکاری طور پر یوکرین کو ’ڈی ملٹرائزڈ اور غیر فعال‘ کرنے کے لیے ’خصوصی فوجی آپریشن‘ کا اعلان کیا ہے۔ کریملن کے اپنے الفاظ میں یہ ایک جائز دفاعی جنگ ہے جس کا مقصد خطے کو ’انسانی تباہی‘ سے بچانا ہے۔ یہ من گھڑت پروپیگنڈہ ہے جو ماسکو کو ایک بار پھر یوکرین پر حملہ کرنے کا آسان جواز فراہم کرتا ہے، حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے جس طرح ماسکو اسے دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلانا چاہتا ہے۔ روس یوکرین مذاکرات کا پہلا مرحلہ ختم ہوچکا ہے، دوسرا مرحلہ چند روز بعد ہوگا، جس میں ٹھوس تجاویز سامنے آئیں گی، تب تک جنگ کہاں پہنچ چکی ہوگی؟ روس اہم یوکرینی فوجی اہداف کا تباہ کرنا اور شہری مراکز میں فوجی اثاثوں اور سویلین انفرااسٹرکچر کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ آنے والے دنوں میں کئی محاذوں پر یوکرین پر مکمل زمینی حملے کا امکان ہے۔ یوکرین کی شمال مشرقی سرحدوں سے، مقبوضہ ڈونبیس خطے سے، مقبوضہ کریمیا میں جنوب سے، اور قانونی ’مقبوضہ‘ بیلارُس میں شمال سے زمینی پیش قدمی ہوسکتی ہے، جس کا مقصد یوکرین کے علاقے پر تیزی سے قبضہ کرنا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ایک حلقے کی رائے یہ سامنے آئی کہ وزیراعظم کو ان ایام میں ماسکو کا دورہ ملتوی یا مؤخر کردینا چاہیے تھا۔ تاہم اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پیوٹن، عمران ملاقات کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس پر تجزیہ ہونا چاہیے۔ ’’پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہتا، وہ اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے‘‘ یہاں تک تو بات درست ہے، کل اگر بھارت روس کے خلاف اور امریکہ کے حق میں کوئی بیان جاری کرتا ہے تو پاکستان کو کیا کرنا ہوگا؟ اس سوال کا جواب اگر سوال کی صورت میں ملے گا تو سمجھیں کہ خرابی ہے۔

اس جنگ کے پاکستان پر اثرات کا ایک پہلو یہ ہے کہ یوکرین میں چار ہزار سے زیادہ پاکستانی موجود ہیں، ان کو صحیح سلامت واپس لانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ روس، یوکرین جنگ کے پہلو ایسے کثیرالجہت اور چند در چند ہیں کہ ان پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، تاہم ابھی وقت نہیں ہے۔ تنازع کسی منطقی انجام تک پہنچ جائے تو تجزیہ کرنا بہتر ہوگا۔ روس یوکرین جنگ اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ اس کے اثرات کا پاکستان پر پڑنا ناگزیر ہے۔ یہ اثرات فوری بھی ہوسکتے ہیں اور دیرپا بھی۔ اس کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ دنیا میں ایک نیا نظام تشکیل پا رہا ہے، اور اس نظام میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اہمیت کی حامل ہے۔ اسلام آباد میں بھی پالیسی ساز، دفاعی امور کے ماہر اور دفتر خارجہ کے ڈیسک اس وقت متحرک ہیں، اور غور کیا جارہا ہے کہ یوکرین کا نیا فوجی جغرافیہ کیا ہوگا؟ بدترین صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ یوکرین پر مکمل قبضہ کرلیا جائے۔ اس مرحلے پر اسے مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک امکان یہ ہے کہ روس یوکرین کو مسلسل قبضے کے خطرے سے دوچار کرتے ہوئے کیف میں حکومت تبدیل کردے۔ روس نے 2014ء میں بھی یوکرین پر حملہ کیا تھا، اور تب سے اس نے کریمیا خطے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اگلے چند دن اہم ہوں گے کیوں کہ خاص طور پر تین بڑے عوامل ماسکو کی ٹائم لائن کو روک رہے ہیں۔ سب سے پہلے یوکرین کا ردعمل یعنی یوکرین کی مسلح افواج کی اپنے ملک کی حفاظت کے لیے تیزی سے جوابی کارروائی کرنے کی صلاحیت۔ دوسرا، جنگ کے حوالے سے روس میں عوامی جذبات اور خاص طور پر جب جنگی محاذ سے مرنے والے فوجیوں سے بھرے طیارے واپس روس پہنچیں گے۔ تیسرا، بین الاقوامی برادری کے ردعمل کا پیمانہ اور دائرۂ کار۔ روس یوکرین مذاکرات روس کی شرائط پر شروع ہوچکے ہیں، واقعات کا یہ نقشہ واضح کررہا ہے کہ یوکرین تنازعے کے نتیجے میں رونما ہونے والی کشیدگی کے دائرے کو پھیلنے سے جلد ازجلد روکا نہ گیا تو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا ادارہ بنیادی طور پر دنیا کو جنگوں سے محفوظ رکھنے ہی کے لیے وجود میں لایا گیا تھا، لیکن کشمیر اور فلسطین سے لے کر اب یوکرین تک اس حوالے سے اُس کی کارکردگی بڑی حد تک مایوس کن رہی ہے۔ بڑی طاقتوں کو حاصل ویٹو کے اس اختیار نے فی الحقیقت بین الاقوامی تنازعات میں اقوام متحدہ کے کردار کو بے معنی بنادیا ہے، تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابلِ تردید ہے کہ دنیا کی ضرورت جنگ نہیں امن ہے۔
روس کا حالیہ دورہ وزیراعظم عمران خان نے ایک ایسے موقع پر کیا جب روس اور یوکرین جنگ کے دہانے پر تھے، جس دن وزیراعظم روس پہنچے اُسی دن صدر پیوٹن نے یوکرین پر حملے کا اعلان کردیا، البتہ پاکستان کے اُس مؤقف کو عالمی برادری کی طرف سے سراہا گیا کہ یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ اس طرح پاکستان نے دنیا کو ایک مثبت پیغام دیا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ ایک خاص سمت میں رہی ہے لیکن اِس کا دنیا میں سب سے زیادہ نقصان بھی ہمیں ہی اٹھانا پڑا۔ دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا۔ یہ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ خارجہ تعلقات میں نئے در وا کیے جائیں، اپنے مفادات کو مقدم رکھ کر ہر ملک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔

صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا اعلان کیا، اس اعلان کو وزیراعظم اور ان کے وفد نے اپنے ہوٹل میں ٹی وی پر سنا ہوگا۔ جب دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تو روس کی برّی، بحری اور فضائی افواج یوکرین پر تین طرف سے حملہ شروع کرچکی تھیں۔ وزیرِاعظم کے دورے کی ٹائمنگ پر ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں تبصرے ہوئے اور دورے کے وقت کو نامناسب قرار دیا گیا۔ وزیرِاعظم کا دورہ دراصل کئی ماہ پہلے سے طے تھا، لیکن اس کی تاریخوں کا اعلان شاید اسلام آباد کے لیے زیادہ اچھا نہیں تھا۔ امریکہ اور نیٹو اتحاد ماسکو کو سزا دینے اور اچھوت بنانے کی دھمکیاں دے رہا ہے، ایسے وقت میں پاکستان کے امریکہ اور نیٹو کے پرانے اتحادی ہونے کی حیثیت سے وزیرِاعظم کے دورے کو دیکھنے کی کوشش ہوئی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس دورے سے پہلے ملک کی ایک اور طاقتور شخصیت نے برسلز کا دورہ کیا تھا۔ اگر دورۂ ماسکو مشاورت کے ساتھ کسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے تو بہت بڑا پالیسی شفٹ ہے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے اور نائن الیون کے بعد امریکہ کے نان نیٹو اتحادی کا درجہ رکھنے والے ملک کا روس کے ساتھ اس نازک وقت میں قربت بڑھانا اور اسے ظاہر کرنا بالکل نیا منظرنامہ ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا جن حالات میں ہوا اور پاکستان، چین، روس نے افغان طالبان کو جس طرح بین الاقوامی مذاکرات میں مدد دی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس کے ساتھ گرمجوشی اور قربت نئی نہیں۔ لیکن یہ دلیل کمزور ہوگی۔ افغانستان کے معاملے پر تینوں ملکوں کا تعاون مشترکہ مفاد کے لیے تھا اور اسے روس، پاکستان قربت یا گرمجوشی نہیں کہا جاسکتا۔ اس سارے پس منظر کا تجزیہ کرتے ہوئے پہلے اس بات کا فیصلہ کرلیا جائے کہ وزیراعظم عمران خان کا دورۂ روس اچانک نہیں بلکہ طے شدہ تھا۔ عمران خان بطور وزیراعظم یوکرین پر روس کے حملے کے بعد روسی صدر پیوٹن سے ملنے والے پہلے غیرملکی رہنما ہیں۔ دونوں کو اندازہ تھا کہ وہ کس ماحول میں ملاقات کررہے ہیں، لہٰذا اس ملاقات کا کوئی ایجنڈا ضرور تھا۔ یہ درست ہے کہ یورپ نے کچھ پابندیاں لگائی ہیں، مگر یہ سب کچھ عارضی ہے، کیونکہ جنگ زدہ علاقوں میں آنے والے ممالک کے لیے عالمی انشورنس کمپنیاں رسک نہیں لیتیں، لہٰذا یہ پابندیاں اسی ضمن میں ہیں، حالات درست ہوجائیں گے تو ان پابندیوں میں بھی نرمی آجائے گی۔یہ دورہ بھی’’لمحے کو گرفت میں لے لو‘‘ جیسی عالمی سفارتی سوچ کا نتیجہ ہے۔ اگر پاکستان کے پالیسی ساز ایڈہاک اور ڈنگ ٹپائو سوچ کے مالک نہیں ہیں تو ہمیں اس دورے کے بہتر نتائج تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چین پوری طرح روس کے ساتھ ہے، حال ہی میں بیجنگ میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں یوکرین کی صورت ِحال، روس، پاکستان اور کئی دیگر ملکوں کے زیر غور آئی، اور کوئی لائحہ عمل ضرور طے ہوا ہے، ورنہ چین کے دورے کے بعد ان حالات میںوزیراعظم روس نہ جاتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کی دوستی سے ہمیں 75سال میں کیا فائدہ ہوا ہے؟ اُس نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ردعمل میں کوئی دوسرا ناقص فیصلہ کر بیٹھیں۔پاکستان امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات برداشت کررہا ہے، امریکہ ایک ایسا ملک اور ایسی ذہنیت ہے جس کے ساتھ دوستی ہوسکتی ہے اورنہ دشمنی، اس کے شر سے اپنا دامن بچا کر ہی زندہ رہنا ہوتا ہے۔

پاکستان کی کسی بھی عالمی بلاک کا حصہ نہ بننے پر مشتمل آزاد خارجہ پالیسی کا سوال خاصا مشکل ثابت ہورہا ہے۔ امریکی رویّے کی حد یہ ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے عہدہ سنبھالا تو پاکستان نے مبارک باد کا پیغام بھجوایا، لیکن امریکی صدر نے اخلاقی اور رسمی فون کرکے شکریہ تک ادا نہیں کیا۔ امریکہ اپنی غلطی تسلیم کیے بغیر افغانستان میں اپنی ناکامی کا ذمے دار پاکستان کو سمجھتا ہے اور حالیہ سرد مہری کی بنیاد بھی یہی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی نوعیت سمجھنے والوں کے لیے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ایک قومی بینک پر منی لانڈرنگ کے الزامات کے بعد 55 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کرنے کے واقعے میں بہت کچھ ہے۔ یہ وہی بینک ہے جس کے ذریعے پاکستان بیرونی دنیا سے لین دین کرتا ہے۔ امریکہ کے فیڈرل ریزرو بورڈ اور نیویارک اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ آف فنانشنل سروسز کی جانب سے نیشنل بینک آف پاکستان پر منی لانڈرنگ کی روک تھام میں ناکامی کا الزام عائد کرکے 55 ملین امریکی ڈالر جرمانہ عائد کردیا ہے۔ یہ اقدام وزیراعظم پاکستان کے دورۂ روس کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔ امریکہ نے نہ صرف روس پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں، بلکہ روس کی حمایت کرنے پر بیلارس کے 24 ارب پتیوں اور اداروں پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔ چین کے معاشی طور پر طاقتور ہونے کی وجہ سے امریکہ نے چین پر کوئی پابندی عائد نہیں کی، مگر روس کی جو بھی حمایت کرے گا اُس پر نیٹو طاقتیں پابندیاں عائد کریں گی۔ پاکستان پر اس سلسلے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی تھی تو امریکہ نے ایک پرانا کیس نکال کر نیشنل بینک پر جرمانہ عائد کرکے ایک اشارہ دیا ہے۔ یہ کیس 2016ء کا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم امریکہ کی مرضی سے روس کا دورہ کرتے تو شاید پاکستانی بینک پر جرمانہ عائد نہ ہوتا۔ پاکستان اگر امریکہ کی مرضی کے مطابق چلے تو ہوسکتا ہے FATFکی شرائط بھی ختم ہوجائیں۔ پاکستان اس وقت 29 میں سے 28 شرائط پوری کرنے کے باوجود گرے لسٹ میں ہے۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے امریکہ کی رضا مندی چاہیے۔ کشمیر پر بھی ہمیں وہ وہی مدد دے رہا ہے جو اس نے ہمیں مشرقی پاکستان کے لیے دی تھی۔ اس کے باوجود ہمیں کہا جارہا ہے کہ امریکی بلاک کا حصہ بنیں، انکار کی صورت میں یورپ، مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک اورجاپان سمیت درجنوں ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے سیاسی و معاشی تعلقات سردمہری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ متوازن اور غیر جانب دار خارجہ پالیسی وقت کا تقاضا ہے جس میں ملک کا مفاد پنہاں ہو۔
اب دنیا کی نظریں یورپ میں یوکرین اور روس پر لگی ہوئی ہیں۔ یوکرین کا مسئلہ 2014ء سے آتش فشاں بنا ہوا ہے جب روس نے کریمیا اور دبناس کو دوبارہ اپنے گلے لگا لیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نیٹو کا قیام 1949ء میں امریکہ، کینیڈا اور متعدد مغربی ممالک کے اتحاد کے باعث سوویت یونین کے مقابلے میں عمل میں آیا تھا۔ اب جب سوویت یونین ختم ہوگیا اور ماضی جیسا روس بھی نہیںرہا تو نیٹو کا کیا جواز ہے؟ اس کا کوئی جواب نہیں مل رہا۔ اب یہ اتحاد کمزور ریاستوں کی کمر پر کوڑے کی طرح برسایا جارہا ہے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کی صورتِ حال بگڑ چکی ہے اور شکست اس کا مقدر ہے۔ روس کی فوجی طاقت کے سامنے اُس کی فوجی قوت بہت کمزور ہے۔ 4کروڑ 40لاکھ آبادی والے ملک کی فوجی نفری ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔ روس نے تین طرف سے حملہ کرکے اسے بے بس کردیا ہے۔ امریکہ یوکرین میں صرف جمہوریت اور ترقی کے نام پر دلچسپی لے رہا ہے، جمہوریت کے نام پر ہی اُس نے افغانستان، عراق اور لیبیا پر لشکر کشی کی تھی۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ امریکہ روس کے اس تنازعے میں کس کا ساتھ دینا ہے؟ کیا ہماری کمزور معیشت اس قابل ہے کہ ہم کسی بڑے بحران کا سامنا کرسکیں؟

قومی سلامتی کی پالیسی میں ہم خود یہ بات تسلیم کرچکے ہیں کہ غیر ملکی قرضے ہماری سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ عمران حکومت کے 42 ماہ کے عرصے پر مشتمل اقتدار میں اس کی قرضے لینے کی رفتار سابقہ حکومتوں سے زیادہ رہی ہے۔ ملک پر قرضے اور واجبات ریکارڈ 51ہزار 724ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں، اور حالیہ دورِ حکومت میں 21ہزار 844ارب 81کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ حکومت اس باب میں یہ استدلال پیش کرتی ہے کہ یہ قرضے گزشتہ حکومتوں کی جانب سے لیے گئے جن کی سود سمیت ادائیگی کے لیے مجبوراً یہ قرضے حاصل کرنا پڑے۔ معاشی ماہرین کے مطابق قرضوں کی واپسی کے علاوہ حکومت نے مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے بھی قرضوں کا استعمال کیا، اسی لیے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھ گئی ہے۔ حکومتی اقتصادی ٹیم کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کہ پاکستان نے حال ہی میں جہاں آئی ایم ایف کی مزید مہنگائی کرنے کی سخت ترین شرائط پر ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط حاصل کی ہے اس سے قطع نظر ایک اور صورت حال سامنے آئی ہے جس کے مطابق دوسرے ذرائع سے رواں مالی سال کے ابتدائی چھے ماہ میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں حاصل شدہ قرضوں کا حجم دوگنا ہو گیا ہے۔ گزشتہ برس جولائی تا دسمبر حاصل کیے گئے کمرشل قرضوں کا حجم 6.66ارب ڈالر تھا جو رواں سال کے انہی مہینوں میں بڑھ کر 12.2ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ جنوری 2022ء میں لیے گئے 2.59ارب ڈالر کے قرضے اور گرانٹس اس کے علاوہ ہیں۔ دسمبر 2021ء میں سعودی عرب سے جو تین ارب ڈالر جمع ہوئے ان مجموعی قرضوں اور گرانٹس کی کل رقم 14ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے، اور اگر اس میں آئی ایم ایف کے قرضے شامل کر دیے جائیں تو یہ حجم 17ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔ دوسری جانب ماسکو پر پابندیوں کے اعلان کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ 100ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ وزیراعظم پاکستان کو اپنا دورۂ روس مؤخر کردینا چاہیے تھا۔ جبکہ دوسرا نکتہ نگاہ یہ ہے کہ عمران خان کی چیلنجوں سے نبردآزما ہونے والی فطرت کے واقفین طے شدہ شیڈول پر اُن کے دورۂ روس کو درست ہی نہیں،بلکہ خطے اور عالمی امن کے مفاد میں قدرت کا عطا کردہ موقع قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان کا دورہ عالمی طاقتوں کے ساتھ باہمی مفادات پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی خارجہ حکمت عملی کا عکاس ہے۔ وزیراعظم عمران خان ماسکوکا دورہ کرنے والے دسویں پاکستانی حکمران ہیں۔ روسی صدر پیوٹن سے یقینی طور پر عالمی حالات پر گفتگو ہوئی ہوگی۔ روس جاتے ہوئے وہ بھارتی وزیراعظم مودی کو مناظرے کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن سے ان کی ملاقات میں 3ارب ڈالر کے مجوزہ PSGPکے منصوبے کے طریق کار، دو طرفہ تجارتی حجم بڑھانے کی تدابیر، اور سی پیک میں روس کی شمولیت کے ذریعے اس ٹرائیکا کے تمام امکانات میں گیم چینجر ہونے کے امکانات کو خارج از امکان نہیں کہا جاسکتا۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ تنازعات پُرامن بات چیت سے حل ہوں، اور اس باب میں وہ روس یوکرین مسئلے کے حوالے سے بھی یقیناً کردار ادا کرنا چاہیں گے۔ اپنے اقتدار سنبھالنے کے پہلے روز سے وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر پُرامن طور پر حل کرنے کی بھی دعوت دیتے رہے ہیں۔ دنیا کا مفاد اسی میں مضمر ہے کہ وہ اس باب میں تندہی سے ان کا ساتھ دے۔ افغان مسئلے سے علاقائی امن کو لاحق خطرات کے سلسلے میں اسلام آباد ماسکو، بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا ہے۔ اس باب میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔