چاغی میں ایٹمی دھماکے کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں۔ بڑے بڑے لوگوں کی آمدورفت اس چھوٹے سے بے آباد علاقے میں اس قدر واضح تھی کہ ہر خاص و عام کو اندازہ تھا کہ یہاں کچھ ہونے والا ہے۔ دالبندین اور اُس کے اردگرد کے لوگ تو کئی سال پہلے سے خاران ضلع کی سرحد کے ساتھ منسلک پہاڑی سلسلے میں موجود افواجِ پاکستان کی نقل و حمل اور خاردار تاروں میں لپٹے ہوئے پہاڑوں سے خوب واقف تھے۔ بیشتر کو تو یہ بھی علم تھا کہ یہاں دراصل ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور ہورہا ہے۔ کرنل بخشی کی آرمی یونٹ جو تازہ تازہ مردم شماری کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوئی تھی اسے فوراً بعد دالبندین اور اس کے گردونواح میں حفاظتی اُمور پر تعینات کردیا گیا تھا۔ بھارت دھماکے کرچکا تھا اور دُنیا بھر کی قوتیں پاکستان کو جوابی دھماکہ کرنے سے روکنے کے لیے سرگرم ہوچکی تھیں۔ انہی دنوں پاکستان میں جاپان کے سفارت خانے نے ’’ہیروشیما‘‘ اور ’’ناگاساکی‘‘ کے ایٹمی دھماکوں کے تابکاری اثرات کا شکار ہونے والے افراد کی زندگیوں پر بننے والی فلموں کی نمائش کا اہتمام کیا۔ نمائش کوئٹہ کے سیرینا ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ اس کی اختتامی تقریب میں جاپانی سفیر بھی آیا اور مجھے بھی چاغی سے مدعو کیا گیا۔ آخری دن دکھائی جانے والی فلم اس قدر المناک تھی کہ جب ہال کی بتیاں روشن ہوئیں تو ہر شخص کی آنکھیں نمناک تھیں۔ جاپانی سفیر نے حاضرینِ مجلس سے ایٹم بم کی تباہیوں پر دردمندانہ انداز میں گفتگو کی۔ تقریب کے اختتام پر کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے، میں نے جاپانی سفیر سے کہا کہ میں اسٹیج پر گفتگو کے دوران ایک بات کہہ کر آپ کی تقریب کو بدمزہ نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے وہ سوال جو میں اسٹیج پر آپ سے پوچھنا چاہتا تھا، اب آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ اگر دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو کیا امریکہ کبھی بھی جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرانے کی جرأت کرسکتا تھا؟ سفیر کے ہاتھ ایک دَم رُک گئے، اس نے نوالہ حلق میں جہاں تھا وہیں پر روک لیا اور صرف سر کی جنبش سے نفی کا اشارہ کیا، اور پھر دیر تک بار بار Never (کبھی نہیں) کہتا رہا۔
آج یہی سوال یوکرائن کے عوام خود اپنے آپ سے کررہے ہیں۔ جولائی 1991ء میں جب وہ سوویت یونین سے علیحدہ ہوئے تھے تو ان کی آنکھوں کے سامنے مغربی دُنیا کی چکا چوند کا خمار تھا۔ یہ معاملہ صرف یوکرائن کے ساتھ نہیں بلکہ پورے سوویت یونین کے عوام اور ان کی لیڈرشپ کے ساتھ بھی تھا۔ کارپوریٹ ورلڈ کی چندھیا دینے والی روشنی جو عقل و خرد کو اندھا کردیتی ہے وہ سوویت یونین کے عوام کو بھی خیرہ کیے دے رہی تھی۔ برلن شہر جسے جنگِ عظیم دوم کے بعد مضبوط دیوار سے دولخت کردیا گیا تھا اور اس کے مشرقی حصے کے لوگ آہنی دروازوں کے پار اس خوبصورت مغربی دُنیا کو دیکھتے اور دل مسوس کر رہ جاتے۔ کچھ پہرے داروں کی نظر بچا کر کودنے کی کوشش کرتے، ناکام ہوتے تو پکڑے جاتے، کامیاب ہوجاتے تو مغربی جرمنی میں پناہ گزین بن جاتے۔ دوسری جانب مغرب کی دُنیا کی رنگا رنگی مسحور کن تھی۔ ہالی ووڈ کی فلمیں، راک اسٹارز کے کنسرٹ، فاسٹ فوڈ کی دکانیں، عالمی برانڈ کے سافٹ ڈرنک، غرض سب کچھ خیرہ کن تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ تصور کہ تم جو کچھ چاہو کہو، لکھو، بیان کرو، تمہیں مکمل آزادی ہوگی۔ اگر تم آزادانہ کاروبار کرکے امیر بننا چاہو گے تو تم بھی ایک دن اوناسس بن سکو گے اور شہریت حاصل کرنے کے لیے مرحوم امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی خوبصورت بیوی جیکولین کی طرح کسی مشہور اور خوبصورت عورت سے شادی کرکے دُنیا بھر میں مقبول بھی ہو سکو گے۔
انہی خوابوں کے مسحور کن عالم میں 9 نومبر 1989ء کا دن آگیا۔ یہ دیوارِ برلن کے انہدام کا دن تھا۔ یہ واقعہ افغانستان سے آخری روسی فوجی کے 15 فروری 1989ء کو نکلنے کے نو ماہ بعد ہوا۔ اس عالمی توجہ کی مستحق تقریب میں دیوار کو پہلی ضرب لگانے والوں میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل خصوصی طور پر بلائے گئے تھے۔ یہ دن بھی عجیب تھا۔ سوویت یونین کے زیرِ اثر مشرقی جرمنی کے شہری اپنا تہذیبی لبادہ اُتار رہے تھے۔ دیوار کے سامنے ایک امریکی بار والا ان سے ’’وڈکا‘‘ کی بوتل لیتا، اسے توڑ کر پھینکتا اور بدلے میں اعلیٰ یورپی شراب کی بوتل دیتا۔ شکست خوردہ سوویت یونین کا نیا فلسفی سربراہ میخائل گوربا چوف سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کے دامن میں گلاس نوسٹ (Glasnost)اور پیراسٹرائیکا (Perestroika)جیسی تھیوریاں پیش کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔
اب سوویت یونین کے بکھرنے کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ دو سال بعد 26 دسمبر 1991ء کو پندرہ ریاستیں سوویت یونین سے علیحدہ ہوکر آزاد مملکتیں کہلائیں۔ ان میں دس ریاستیں یورپ میں واقع تھیں جن میں ایک یوکرائن بھی ہے۔ مغربی دُنیا جیت کے خمار میں بڑے بڑے دعوے اور اعلانات کررہی تھی۔ عالمی طاقت کے پائیدان سے نیچے گرنے والے سوویت یونین کا یورپ سے بوریا بستر گول ہوچکا تھا۔ نیٹو کے مقابلے میں بنایا جانے والا ’’وارسا پیکٹ‘‘ تحلیل ہونے کو تھا، جبکہ باقی ماندہ روس کو طفل تسلیاں دی جارہی تھیں۔ امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر نے سوویت یونین کے سربراہ میخائل گوربا چوف کو 9 فروری 1991ء کی میٹنگ میں تسلی دی کہ اب چونکہ ہماری کوئی دشمنی نہیں رہی ہے، اس لیے نیٹو اپنی موجودہ حدود سے کبھی آگے نہیں بڑھے گا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے 17 مئی کو برسلز میں تقریر کرتے ہوئے اس وعدے کو دہرایا۔ انہی فریب زدہ نعروں کے زیرِ اثر جولائی 1991ء میں روس نے سرکاری طور پر وارسا پیکٹ ختم کرکے خود کو اپنی سرحدوں تک محدود کرلیا۔ لیکن وہی ہوا جو مغرب کی وعدہ خلاف سرشت میں تھا، وہ امریکی اتحاد ’’نیٹو‘‘ جو 1990ء میں صرف 17 ممالک پر مشتمل تھا آج 2022ء میں 30 ممالک کا گروہ بن چکا ہے۔ 13 نئے ممالک آج تک یہی خیال کرتے تھے کہ اگر ان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت ہوئی تو امریکہ اور اس کے اتحادی ان کا تحفظ کریں گے، لیکن اب تاریخ نے کروٹ بدلی ہے، یوکرائن عبرت کا نشان بن چکا ہے۔ یوکرائن نیٹو میں تو شامل نہ ہوا لیکن وہ 5 دسمبر 1994ء کو ایک معاہدے کے تحت ان مغربی طاقتوں کے فریب میں آگیا۔ اس فریب زدہ معاہدے کو بڈاپسٹ (Budapest) معاہدہ کہتے ہیں، جس میں امریکہ، برطانیہ، روس، یوکرائن، قازقستان اور بیلا روس شامل ہوئے تھے۔ یہ اب تک ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنے کا سب سے بڑا عالمی معاہدہ ہے۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بیلا روس، قازقستان اور یوکرائن کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیار ورثے میں آئے تھے اور یوکرائن ایٹمی ہتھیار رکھنے والا دُنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا تھا۔ یوکرائن سمیت تینوں ممالک نے اپنے ایٹمی ہتھیار روس کو واپس کردیئے تاکہ وہاں انہیں تلف کردیا جائے۔ ان ملکوں کو تین عالمی طاقتوں امریکہ، برطانیہ اور روس نے اس معاہدے کے تحت یقین دلایا تھا کہ اب ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ آج کے بعد تم ایک سیکورٹی ریاست نہیں بلکہ ویلفیئر ریاست بن کر زندہ رہو اور عوام کی فلاح و بہبود پر اپنا سرمایہ خرچ کرو۔ آج پوری دُنیا سے یوکرائن کا صدر سوال کرتا پھر رہا ہے کہ ’’کہاں ہیں تمہارے وعدے‘‘۔ تم تو اس جنگ میں بھی روس پر معاشی پابندیاں لگا کر خود کمانا چاہتے ہو۔ تم ہمارے خون پر کاروبار کررہے ہو“۔ یوکرائن کے عوام اور لیڈرشپ آج اسی خوبصورت جال کے بدترین انجام کی علامت ہیں کہ ”دُنیا میں امن و آشتی اور خوشحالی سے زندہ رہنا ہے تو سیکورٹی اسٹیٹ بننے پر اپنا سرمایہ خرچ کرنے کے بجائے صرف اور صرف ویلفیئر اسٹیٹ بنو‘‘۔
یوکرائن کے عوام کو اس تجربے نے بتا دیا ہے کہ بھیڑیوں کی اس دُنیا میں پُرامن بکریوں کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔
(اوریا مقبول جان،روزنامہ 92،منگل یکم مارچ 2022ء)