وزیراعظم عمران خان نے فروری کی آخری شام قوم سے خطاب کیا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی ستائی ہوئی قوم کے لیے اُن کا یہ خطاب ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے عوام کو بڑے ریلیف پیکیج کی خوش خبری سناتے ہوئے پیٹرول اور ڈیزل دس روپے فی لٹر، اور بجلی پانچ روپے فی یونٹ سستی کرنے سمیت متعدد اعلانات کیے۔ وزیراعظم نے غربت کے شکار مستحق 80 لاکھ خاندانوں کو دی جانے والی مالی اعانت 12 ہزار سے بڑھا کر 14 ہزار روپے کرنے، نوجوانوں اور کسانوں کو بلاسود قرضوں اور گھروں کی تعمیر کے لیے سستے قرضوں کی فراہمی کی نوید بھی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ دو برس کے دوران 407 ارب روپے کے قرض دیئے جائیں گے، بینکوں سے قرض لینے کا طریقہ آسان بنادیا گیا ہے، گھر بنانے کے لیے بینک پچاس ارب روپے کے قرضے جاری کرچکے ہیں، بینک پہلے چھوٹے طبقے کو قرض نہیں دیتے تھے، اب مکانات کی تعمیر کی خاطر 1400 ارب روپے قرض دیئے جائیں گے۔ آئی ٹی انڈسٹری کے فروغ اور اسے زرمبادلہ کے حصول کا مؤثر ذریعہ بنانے کی خاطر اس شعبے میں کیپٹل گین ٹیکس کی سو فیصد چھوٹ دے دی گئی ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو سرمایا کاری یا مشترکہ منصوبوں کے آغاز پر پانچ سال کے لیے ٹیکس میں مکمل چھوٹ ہوگی، اسی طرح صنعتوں میں سرمایا کاری کرنے والوں سے آمدن کے ذرائع سے متعلق پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم نے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے گریجویٹس کو 30 ہزار روپے ماہانہ کے انٹرن شپ پروگرام کا اعلان بھی کیا، جب کہ ذہین اور ہونہار طلبہ کو میرٹ پر 26 لاکھ وظائف ملیں گے، جن پر 38 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ صحت کارڈ اسکیم کو اپنے لیے سب سے زیادہ قابلِ فخر قرار دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس کارڈ کے ذریعے ہر خاندان 10 لاکھ روپے تک علاج کرا سکتا ہے۔ قوم کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ حالات بہت مشکل ہیں، کبھی پلوامہ، کبھی کورونا اور اب یوکرین کا مسئلہ آگیا ہے، تاہم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پاکستان کی ترقی کو مستحکم قرار دے رہا ہے۔ دنیا کی صورتِ حال تیزی سے بدل رہی ہے، اس بدلتی صورتِ حال کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں، موجودہ حالات میں سبسڈی نہ دی جائے تو پیٹرول دو سو بیس روپے فی لیٹر تک جا پہنچے گا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے وزیراعظم کے اعلان کردہ اقدامات میں تیل کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں آئندہ بجٹ تک ردو بدل نہ کیا جانا ہے۔ اپنے حالیہ دورۂ روس اور ملک کی خارجہ پالیسی کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے وزیراعظم نے بتایا کہ میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہو جو ملک و قوم کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر بنائی جائے۔ میں نے روس اور چین کا دورہ کیا ہے، ان دوروں سے ملک کو عزت ملی۔ وقت ثابت کرے گا کہ ہم پاکستان کے لیے زبردست فائدے لے کر آئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے گزشتہ دنوں جاری کیے گئے آرڈیننس ’’پیکا‘‘ کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قانون 2016ء میں بنایا گیا، ہم صرف اس میں ترامیم کررہے ہیں، ہمیں آزادیِ صحافت سے کوئی خطرہ نہیں، یہ قانون ہم حکومت پر تنقید کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے لائے ہیں کہ سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی مواد آرہا ہے جو ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہے، ’’پیکا‘‘ قانون کا مقصد اس ناقابلِ برداشت گند کو روکنا ہے۔
حزبِ اختلاف نے وزیراعظم کے خطاب اور اس کے دوران کیے گئے اعلانات کو اپنے ’’لانگ مارچ‘‘ اور ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ کے دبائو اور وزیراعظم کی گھبراہٹ کا نتیجہ قرار دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے ان اعلانات کو آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے سبب ناقابلِ عمل بھی ٹھیرایا جا رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کے ان دعووں کو درست مان لیا جائے تب بھی عوامی مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ تنقید برائے تنقید کا رویہ اپنانے اور مخالفت برائے مخالفت کی خاطر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے مثبت طرزعمل کا مظاہرہ کیا جائے، اور حکومت اگر عوام کو کوئی سہولت فراہم کرنا چاہتی ہے تو عام آدمی کی مشکلات اور مصائب کے پیش نظر اُسے اِس کا موقع دیا جائے۔ جناب وزیراعظم سے ہم گزارش کرنا چاہیں گے کہ انہوں نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے، پوری متانت اور سنجیدگی سے ان کو عملی جامہ پہنانے پر اپنی پوری توجہ مرکوز کریں، ورنہ جن مافیاز کا وہ بار بار ذکر کرتے ہیں وہ ان اقدامات کو بے اثر اور بے نتیجہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ زیادہ پرانی بات نہیں، دنیا بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں انتہائی کمتر سطح تک گر گئیں، وزیراعظم نے پیٹرول پچیس روپے لٹر سستا کرنے کا اعلان کیا مگر پیٹرولیم کمپنیوں نے اُن کی ایک نہیں چلنے دی، اور عوام کو مہنگا تیل خریدتے رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی طرح گندم، چاول، کپاس، گنے اور مختلف سبزیوں کی شاندار فصل اور بھرپور پیداوار کے باوجود عوام کو ان اشیائے ضروریہ کی مناسب قیمتوں پر بروقت اور وافر مقدار میں فراہمی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوسکی۔ اس لیے ہم جناب وزیراعظم سے توقع رکھیں گے کہ اپنے اعلانات پر عمل درآمد کو بہر صورت یقینی بنانے پر اپنی پوری توجہ مرکوز کریں گے تاکہ ماضی کی طرح قومی خزانے سے رقم خرچ کیے جانے کے باوجود عام آدمی اس کے ثمرات سے محروم نہ رہ جائے۔
(حامد ریاض ڈوگر)