ایک علّامہ نے اظہارِلیاقت کردیا

پاکستان کے مردُم خیز خطے خوشاب میں واقع جوہر آباد سے محترم حاجی عبدالغفور زاہدؔ صاحب کا مکتوب موصول ہوا ہے۔ حاجی صاحب کا خط خاصی تاخیر سے ملا۔ آپ نے30دسمبر2021ء کو یہ خط ’برقی ڈاک‘ سے ارسال فرمایا تھا، شاید پتا غلط تھا، خط برق رفتاری سے گم ہوگیا، ہمیں نہیں ملا۔ پھر آپ نے6فروری 2022ء کو اصل خط کی نقل اور شکایتی خط ’ورقی ڈاک‘ سے بھیجا۔ پتا غلط تھا، مگر مل گیا۔ خیر، سبب کچھ بھی ہو، حاجی صاحب کو انتظارکی جو زحمت اُٹھانی پڑی اُس پر ہم معذرت خواہ ہیں۔
عبدالغفور زاہدؔ صاحب نے کالم ’’پوش، پوش‘‘ (مطبوعہ 24 دسمبر 2021ء) کے حوالے سے اپنے 30 دسمبر کے خط میں لکھا ہے:
’’شمارہ52 آج موصول ہوا۔’پوش‘ پر آپ کا کالم پڑھا۔ تحریر کا محرک علامہ رضا حسین رشید ترابی کا ذکرِ خیر بنا۔ مجھے لفظ ’’علّامہ‘‘ کے بارے میں کچھ لکھنا تھا، لیکن یہ بات بھول گیا حالاں کہ نومبر میں لکھنا تھا، علامہ اقبال کے یومِ پیدائش کے حوالے سے۔ اب یہ کالم پڑھ کر یاد آیا تو فوری طور پر لکھنے بیٹھ گیا۔ اقبالؔ کے یومِ پیدائش پر اکثر اخبارات میں مختلف حضرات نے ’ڈاکٹر علامہ محمد اقبال‘ لکھا۔ ایک تصویر میں دیکھا کہ ان کی قیام گاہ پر لگے ہوئے بورڈ پر بھی ’ڈاکٹر علامہ اقبال‘ لکھا ہوا ہے۔ جب کہ میرے خیال میں فلسفے کی ڈگری (یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری) لینے والے شخص کو اُردو میں ’’علامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ اس کی وضاحت فرما دیں۔ آپ کا شکر گزار ہوں گا‘‘۔
حاجی صاحب! آج کل تو جسے دیکھیے علامہ بنا بیٹھا ہے۔ خود ہم بھی۔ بین الاقوامی جامعہ رفاہ کے شیخ الجامعہ محترم پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد صاحب ہمیں ’علّامہ‘ کہہ کر پکارا کرتے ہیں۔ اب آپ کا خط پڑھ کر شبہ ہورہا ہے کہ شاید ڈاکٹر صاحب ہمیں سنجیدگی سے علامہ نہیں سمجھتے۔ سمجھتے ہوتے تو پہلے اپنی جامعہ کے خزانے میں سے پی ایچ ڈی کی ایک ڈگری اُٹھا کر عطا فرماتے، پھر علّامہ کہتے۔ دیکھیے، خود تو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکر علامہ ہوئے اور ہمیں بے ڈگری ہی کے علامہ کہے جارہے ہیں۔
عصر حاضرکے علامہ جس قدر علامہ ہیں اُس کا احوال دلاور فگارؔ سے سنیے۔ کہتے ہیں:
ملّتِ بیضا کے معنی لکھ دیے ’انڈے کی قوم‘
ایک علّامہ نے اظہارِ لیاقت کر دیا
’بیضا‘ کا مطلب ہے اُجلی، سفید اور روشن۔ امت ِمسلمہ کی یہی صفات ہیں۔ گو، اب دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہی ہونی چاہئیں۔ اسی وجہ سے اس امت کو ’ملّتِ بیضا‘ کہا گیا۔ ’ابیض‘ سفید رنگ کو کہتے ہیں۔ ’قرطاسِ ابیض‘ کا مطلب ہے سفید کاغذ یا ‘White Paper’ جو ایک اصطلاح بھی ہے۔ اس سے مراد وہ تحریری رُوداد لی جاتی ہے جس میں کسی کے کالے کرتوت روشن کیے گئے ہوں۔ جب کہ انڈے کو ’بیضہ‘ لکھتے ہیں۔ حکیم صاحبان کبھی کبھی کسی دوا کے نسخے میں لکھ دیتے ہیں کہ ’’ہمراہ بیضۂ مرغ تناول فرمائیں‘‘۔ ایران میں مرغ کا مطلب پرندہ ہے۔ ہوگا، پاکستان میں تو ’مرغ مسلّم‘ سے مراد سالم مرغا لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں انڈا مرغ نہیں دیتا، مرغی دیتی ہے۔ حوالے کے لیے صوفی تبسم کا مکالماتی شعر ملاحظہ فرمائیے۔مرغی اور مرغے کے مابین ہونے والا یہ مکالمہ صوفی صاحب مرحوم نے خود سنا تھا:
مرغے! میں نے انڈا دیا
مرغی! تو نے خوب کیا
مرغی اور انڈے کی بحث میں اپنے آپ کو علامہ ثابت کردینے کے بعد اب ہم آتے ہیں لفظ ’علامہ‘ کی طرف۔ ’علم‘ جاننے کو کہتے ہیں۔ ’عالِم‘ جاننے والے کو۔ ’علّام‘کا مطلب ہے سب کچھ جاننے والا۔ یہ مبالغے کا صیغہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حُسنہ میں سے ایک صفاتی نام ’علّام الغیوب‘ ہے، جس کا مطلب ہے ہر غیب کی سب باتیں جاننے والا۔ غیب کی باتیں ہمارے ہی لیے غیب کی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات یا کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں۔ مصدرِ علم ہی سے اسمِ تفضیل ’علّامہ‘ بنا ہے (عَل- لامہ) جس کا لفظی مطلب ہے بہت بڑا عالِم، بہت زیادہ جاننے والا، بہت قابل، بہت فاضل، بہت دانا۔ ایک ترکیب ’علامۂ دَہر‘ بھی ہے۔ ’دہر‘ زمانے کو کہتے ہیں۔ علامۂ دہر کا مطلب ہے زمانے بھر کی باتیں جاننے والا۔ اکثراوقات یہ ترکیب طنزاً استعمال کی جاتی ہے۔ شیخ ابراہیم ذوقؔ کا شعر ہے:
زال دُنیا ہے عجب طرح کی علامۂ دہر
مردِ دیں دار کو بھی دہریہ کر دیتی ہے
’زال‘ بوڑھے، سفید بالوں والے کو کہتے ہیں۔ بیش تر یہ لفظ بوڑھی عورت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس دنیا کو جس کی درست عمر کسی کو معلوم نہیں، اکثر شاعروں اور ادیبوں نے ’زال دنیا‘ ہی کہا ہے۔’’زال دنیا دے رہی ہے نوجوانوں کو فریب‘‘۔ ’دہریہ‘ زمانہ پرست کو کہتے ہیں، جو سمجھتا ہے کہ بس زمانہ ہی قدیم ہے۔ اصطلاحاً ملحد اور لامذہب شخص کو دہریہ کہا جاتا ہے۔
ہمارے علم کی حد تک ’علامہ‘ ایک اعزازی خطاب ہے۔ مشرقِ وسطیٰ، برصغیر جنوبی ایشیا اور ایران وغیرہ میں اسے اصطلاحی طور پر بہت بڑے فقیہ، بہت بڑے مسلمان عالم یا اسلامی فلسفے کے بہت بڑے ماہر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں علامہ شبلی نعمانی، علامہ سید سلیمان ندوی، علامہ راشد الخیری اور علامہ اقبال وغیرہ اس لقب سے معروف ہیں۔ اس بات کی ہمیں کوئی سند نہیں ملی کہ ’ڈاکٹر‘ (یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے شخص) کے لیے اُردو میں ’علامہ‘ کا لفظ مخصوص کردیا گیا ہو۔
’ڈاکٹر‘ کے لیے اردو میں اگر کوئی متبادل لفظ ہوسکتا ہے تو وہ ’حکیم‘ ہے۔ طبیب کے لیے بھی اور فلسفی کے لیے بھی۔ حکیم لقمان دانشور اور فلسفی تھے۔ حکیم بوعلی سینا طبیب بھی تھے اور فلسفی بھی۔ حکیم سنائی (ابوالمجدمجدالدین ابن آدم سنائی) نہ صرف طبیب تھے بلکہ تفسیر، حدیث، فقہ، علم ہندسہ اور ادبی علوم کے ماہر تھے، شاعر بھی تھے۔ حکیم مومن خان مومن طبیب ہونے کے علاوہ عربی، فارسی، علمِ نجوم، علمِ رمل اور علمِ موسیقی کے ماہر تھے۔ شہرت شاعر کی حیثیت سے ملی۔ اپنی ستارہ شناسی کا ذکر انھوں نے اپنے ایک شعر میں بھی کیا ہے:
ان نصیبوں پر کیا اختر شناس
آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا
حکیم اجمل خان دہلوی، حکیم نابینا دہلی والے اور حکیم محمد سعید دہلوی برصغیر کے مشہور اطبا میں شمار کیے گئے۔ حکیم الامت کا لقب مولانا اشرف علی تھانوی کے لیے بھی استعمال ہوا اور علامہ اقبال کے لیے بھی۔
عبدالغفور زاہدؔ صاحب نے اقبالؔ کے نام کے ساتھ محض ڈاکٹر اور علامہ ساتھ لکھنے کا ذکر کیا ہے۔ اقبالؔ کے القاب اتنے ہیں کہ راہ نمائی کرنے والے کسی بورڈ پر سما نہیں سکتے۔ ’ڈاکٹر‘ وہ اپنی پی ایچ ڈی کی وجہ سے ہیں، ’علامہ‘ کا لقب فلسفۂ اسلام پر گہری نظر رکھنے سے ملا، ’سر‘ کا خطاب انھیں سرکارِ انگلیشیہ نے دیا، ’حکیم الامت‘ یوں کہلائے کہ اس اُمت کے مرضِ کہن کی تشخیص بھی کی اور دوا بھی تجویز کی۔ مغرب کے تمام افکار ونظریات کا زبردست محاکمہ کرکے اُن کی خلقی کمزوریوں کو آشکارکیا تو ’شاعرِ مشرق‘ کہے گئے۔ قرآن کے بنیادی تصورات کو اپنی شاعری میں سمو دینے کی وجہ سے ڈاکٹر اسرار احمد نے انھیں ’شارحِ قرآن‘ قراردیا۔کلمۂ حق بے خوف کہہ دینے سے ’مردِ قلندر ‘ کا خطاب ملا، اسلامی تعلیمات کو عملی صورت میں نافذ کرنے کے لیے برصغیر میں الگ ریاست کے قیام کا تصور دیا تو ’مصورِ پاکستان‘ بنے۔ اقبالؔ کی شخصیت اور شاعری کی جہات پر نظر کیجیے تو اتنے القاب اور خطابات کے باوجود کہنا یہی پڑے گاکہ
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا