تدریسِ اردو ثانوی اور ابتدائی مدارس کے زیرتربیت اساتذہ کے لیے

کتاب
:
تدریسِ اردو
ثانوی اور ابتدائی مدارس کے زیرتربیت اساتذہ کے لیے
مصنف
:
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
صفحات
:
422 قیمت: 800 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر رئوف پاریکھ، ڈائریکٹر جنرل ادارۂ فروغِ قومی زبان، ایوانِ اردو، پطرس بخاری روڈ، ایچ۔4/8،اسلام آباد
فون
:
051-9269760-62
فیکس
:
051-9269759
ای میل
:
matboaatnlpdisd@gmail.com
ا

تعلیم دینا اور بہت ہی عمدگی سے علم کو منتقل کرنا جہاں ایک خداداد صلاحیت ہے یعنی وہبی ہے، وہیں بہت سی باتیں اکتسابی بھی ہیں جس کے لیے بڑی محنت، کوشش، ریاض اور تجربہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی سلسلے میں استاذ الاساتذہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے یہ کتاب لکھی ہے تاکہ تدریس سے متعلق اساتذہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ کتاب اٹھارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’محترم پروفیسر فرمان فتح پوری صاحب (مرحوم) کی اس مقبولِ عام اور مفید کتاب کا یہ چوتھا ایڈیشن ہے جو اس ادارے سے شائع ہورہا ہے۔ اس سے قبل اس کے تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، گویا ایک لحاظ سے یہ اس کتاب کا ساتواں ایڈیشن ہے۔
ایک سنجید اورعلمی موضوع پر ایک علمی و تحقیقی کتاب کی یہ پذیرائی مسرت آمیز بھی ہے اور امید افزا بھی، کہ ہمارے ہاں اب بھی علمی کاموںکو سراہنے والے سنجیدہ قاری موجود ہیں۔
فرمان صاحب استاد تھے، بلکہ استاذ الاساتذہ، اور ابتدائی جماعتوں سے لے کر جامعہ میں پڑھایا، پی ایچ ڈی کے متعدد تحقیقی مقالات کے نگراں بھی رہے۔ گویا تدریس کے عملی تجربے اور مشاہدے کو مطالعے، تحقیق اور فکر سے آمیخت کرکے انہوں نے یہ شاندار کتاب قلم بند کی تھی۔ اس لیے یہ کتاب ہماری قومی زبان کی تدریس سے متعلق کئی اہم فکری اور عملی مسائل کا احاطہ کرتی ہے، اور اس کے مطالعے سے مستقبل کے اور آج کے بھی اردو اساتذہ یقیناً مستفید ہوں گے۔
محترمہ ڈاکٹر انجم حمید صاحبہ ہمارے ادارے کے شعبۂ درسیات/ مطبوعات کی سربراہ ہیں اور انہوں نے نئی کتابوں کی اشاعت کے ساتھ اہم اور تدریسی اہمیت کی حامل کتابوں کی بارِدگر اشاعت پر بھی بہت توجہ دی ہے، اور اس کے لیے ہم سب کو، بالخصوص اساتذہ اور طالب علموں کو، ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے، آمین‘‘۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری تحریر فرماتے ہیں:
’’اردو اپنے علمی و ادبی سرمائے کی بنا پر ایشیائی زبانوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اپنے حلقۂ اثر اور قبولِ عام کے لحاظ سے ممتاز ترین ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ علم و فن کا شاید ہی کوئی شعبہ یا موضوع ہو جس کے متعلق کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود نہ ہو، ہاں اردو کے تعلیی و تدریسی مسائل پر البتہ بہت کم توجہ دی گئی ہے، نتیجتاً مقدار و معیار دونوں کے اعتبار سے اردو کا یہ شعبہ بہت کمزور ہے۔ کتابیں ہیں لیکن اتنی کم تعداد میں کہ انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ یہی کمی تھی جسے مجلسِ جامعہ تعلیم ملیہ کے ارکان نے محسوس کیا اور اردو کے تدریسی مسائل پر ایک کتاب کی تالیف کا کام میرے سپرد ہوا، میں نے 1962ء میں کتاب مکمل کردی اور اسی سال مکتبہ جامعہ تعلیم ملّیہ نے اسے شائع کردیا۔
ہرچند کہ یہ کتاب مختصر تھی اور اس کے موضوعات کا دائرہ بھی عام طور پر ابتدائی اور وسطانی مدرسوں کے اساتذہ یعنی پی، ٹی، سی اور سی، ٹی یا سی، ایڈ کے طلبہ کی رہنمائی تک محدود تھا۔ بایں ہمہ چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر تدریسِ زبان کے اساسی مسائل ہی پر گفتگو کی گئی تھی اس لیے ثانوی مدارس کے زیر تربیت معلّمین یعنی بی، ایڈ کے طلبہ کے لیے بھی اسے مفید سمجھا گیا۔ تربیتی اداروں کی ہر منزل کے اردو نصاب میں اسے جگہ دی گئی، اردو کے سارے اساتذہ نے اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا، مبصرین نے نہایت حوصلہ افزا آرا کا اظہار کیا، اور زبان و ادب کے پارکھوں نے اسے ایک معیاری کتاب قرار دے کر میرا دل بڑھایا۔
کتاب کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے مجھے اس کی نظرثانی پر مجبور کیا۔ نظرثانی کے نتیجے میں اس کتاب میں زبان اور تدریسِ زبان کے وہ سارے مباحث و مسائل جگہ پاگئے جو پہلے ایڈیشن میں زیر بحث آنے سے رہ گئے تھے، اب یہ کتاب اپنے موضوع و مواد کے لحاظ سے پی، ٹی، سی۔ سی، ٹی اور بی ایڈ کے نصابوں پر حاوی ہے۔ اس اعتبار سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اردو میں یہ پہلی جامع تالیف ہے جو تدریسِ زبان کے جدید تر اصولوں اور تقاضوں کے مطابق لکھی گئی ہے اور جس میں ہر منزل اور ہر سطح کے تدریسی طریقہ کار سے بحث کی گئی ہے۔ کہنے کو تو تازہ ایڈیشن، پہلے ایڈیشن پر نظرثانی کا نتیجہ ہے، لیکن حقیقتاً اس میں اتنی تبدیلیاں اور اتنے اضافے کیے گئے ہیں کہ اسے یکسر تازہ تالیف کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، بہت سے موضوعات اور عنوانات ایسے ہیں جو پہلے بھی زیر بحث آئے تھے لیکن زیر نظر ایڈیشن میں ان بحثوں کو زیادہ مفصل، مدلل اور معلومات افزا بنادیا گیا ہے۔
موجودہ صورت میں یہ کتاب فی الواقع کیسی ہے، کیا ہے؟ اس کے جواب میں میری نہیں، قارئین ہی کی رائے صائب ہوگی، مجھے تو اس جگہ صرف اس قدر عرض کرنا ہے کہ یہ کتاب سی ٹی یا بی ایڈ کے نصاب کی محض تشریح نہیں ہے۔ یہ اس غرض اور اس انداز سے نہیں لکھی گئی کہ زیر تربیت اساتذہ اس کے متن کو حفظ کرکے کسی نہ کسی طرح امتحان میں کامیابی حاصل کرلیں، بلکہ اصل مقصود یہ ہے کہ اساتذہ اور طلبہ دونوں کے حق میں یہ کتاب تدریسی مسائل کے بارے میں غور و فکر کرنے اور علم و آگہی کے نئے افق دکھانے کا وسیلہ بن سکے، اس کتاب میں بتائے ہوئے اصولوں اور بحثوں کو اساتذہ و طلبہ اپنے تجربات کی روشنی میں پرکھیں۔ حسبِ ضرورت ان میں ترک و اختیار سے کام لیں، اور ترمیم و اضافے کے عمل کے ذریعے اردو کی تدریس کو زیادہ سے زیادہ مؤثر اور کارگر بنانے کی راہیں نکالیں۔ یوں بھی کوئی اچھی کتاب حقیقتاً نصاب کو سامنے رکھ کر نہیں لکھی جاتی بلکہ زبان کی تعلیم و تدریس کے مقصد و معیار کا لحاظ رکھ کر اس لیے لکھی جاتی ہے کہ وہ نصاب کی ترتیب میں معاون ثابت ہو۔ مجھے یقین ہے کہ زیرنظر کتاب ایک طرف سی ٹی اور بی ایڈ کے نصابوں کی تدوین میں مدد دے گی، دوسری طرف امتحان ہی میں نہیں بلکہ امتحان کے بعد بھی وہ ان کی معلمانہ زندگی میں زبان کے بعض مسائل و مباحث میں رہنمائی کرے گی۔
میں نے اس کتاب کی تسوید و ترتیب میں اردو اور انگریزی کی متعدد کتابوں سے استفادہ کیا ہے، لیکن اس کا مواد اور اس کی بحثیں محض کتابی استفادے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ اس میں میری طویل معلمانہ زندگی کے تجربات بھی شامل ہیں۔ ایک تربیت یافتہ استاد کی حیثیت سے میں نے کئی سال سرکاری ثانوی مدارس اور اساتذہ کے تربیتی اداروں میں کام کیا ہے، پچھلے پندرہ سال سے کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے منسلک ہوں، لیکن اس عرصے میں بھی میرا تعلق ثانوی اور ابتدائی مدارس کی تدریسی منزلوں سے کسی نہ کسی طرح قائم رہا ہے۔ جامعہ ملیہ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اور جامعہ ٹیچر ٹریننگ کالج کے طلبہ و طالبات کو میں ہفتے میں ایک دو لیکچرز اعزازی طور پر دیتا رہا ہوں، اور اب بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی طور پر باقی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسی سلسلے کی بدولت مجھے زبان کے تدریسی مسائل اور اساتذہ کی مشکلات پر مسلسل غور و فکر کا موقع ملا اور اسی غور و فکر نے آخر ارکانِ جامعہ ملّیہ کے اشارے پر موجودہ کتاب کی صورت اختیار کرلی‘‘۔
کتاب کے ابواب درج ذیل ہیں:
زبان اور اردو زبان، اردو کا لسانی خاندان اور دوسری زبانوں سے اس کا رشتہ، اردو کی ابتدا اور جائے پیدائش کا قضیہ، رسم الخط اور اردو رسم الخط، اردو رسم الخط کی اصلاح کی بعض تجویزیں اور ان کاجائزہ، اردو ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے، پاکستان میں اردو کی اہمیت، اردو اور علاقائی زبانیں، تدریسِ اردو کے عناصرِ اربعہ، اردو تدریس کا مقصد و معیار، اردو تدریس کے تین بنیادی مقاصد اور ان کے حصول کا طریق کار، انشا اور اس کی تدریس، قواعد اور اس کے تدریسی مسائل، الفاظ کے معنی کیسے بتائیں، زبان دانی اور تدریسِ اردو کے بعض دوسرے اہم پہلو، تدریسِ نثر و نظم کے اہم اقدامات اور تضادات، نثر و نظم کے متعلق اشاراتِ سبق کے نمونے، تصویری انشا سے متعلق اشاراتِ سبق کے چند نمونے
کتاب مجلّد ہے، سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔