ای او بی آئی پنشن

اضافے کا طریقہ کار، درپیش مسائل اور چیلنج ایک فکر انگیز تجزیہ

ای او بی آئی کے پنشن یافتگان کی جانب سے اکثر و بیشتر بڑی شدت کے ساتھ پنشن میں اضافے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، جو ملک میں روزافزوں بڑھتی ہوئی گرانی اور عوام الناس کی قوتِ خرید میں زبردست کمی کے باعث یقیناً ایک جائز اور اصولی مطالبہ ہے جسے فوری طور پر تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اس مضمون کے ذریعے ای او بی آئی کی پنشن، پنشن میں اضافے کے طریقہ کار اور پنشن فنڈ اور ای او بی آئی کو درپیش سنگین مسائل اور چیلنجوں پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے، تاکہ ای او بی آئی کے لاکھوں پنشن یافتگان کی بعض غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے، ان کے سامنے صحیح صورتِ حال واضح ہوسکے، اور وہ اس صورتِ حال کی روشنی میں اپنی پنشن میں اضافے کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل طے کرسکیں۔
لفظ پنشن (Pension) لاطینی زبان کے لفظ Pensio یعنی ”ادائیگی“سے ماخوذ ہے۔ پنشن کو ملازمت کا انعام بھی کہا جاتا ہے۔ کارکنوں کی ریٹائرمنٹ اور معذوری کی صورت میں مقررہ شرائط وضوابط کے مطابق تاحیات پنشن ان کا بنیادی حق ہے، اور خدانخواستہ کارکن یا پنشن یافتگان کی وفات کی صورت میں بھی تاحیات پنشن ان کے پسماندگان کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے، جس کی آئین پاکستان کے آرٹیکل 38(C) میں ضمانت بھی دی گئی ہے۔ اس وقت ملک میں پنشن یافتگان کے تین بڑے طبقات پائے جاتے ہیں، جن میں سرکاری، عسکری اور ای او بی آئی کے پنشن یافتگان شامل ہیں۔ سرکاری، عسکری اور ای او بی آئی کے پنشن یافتگان کے لیے پنشن کے نظام کے ڈھانچے، قواعد و ضوابط، عمر کی حد، مدت ملازمت، کنٹری بیوشن کی ادائیگی، خاندان کی تعریف اور پنشن کی رقم کے علیحدہ طریقہ کار مقرر ہیں۔ سرکاری اور عسکری ملازمین اور ان کے پسماندگان کو تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے زیر ملازمت سرکاری اداروں کی جانب سے طے شدہ شرائط وضوابطِ ملازمت کے مطابق سرکاری خزانے سے تاحیات ماہانہ پنشن ادا کی جاتی ہے، جبکہ اس کے برعکس نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے ای او بی آئی کے بیمہ دار افراد کو ای او بی آئی کے قانون مجریہ 1976ء کے تحت ضعیف العمر ملازمین فوائد فنڈ(EOB fund) سے پنشن ادا کی جاتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ملک میں سرکاری اور عسکری اداروں کے ملازمین کے لیے تو پنشن کا باقاعدہ نظام رائج تھا، لیکن ملک کے نجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لیے ان کی ریٹائرمنٹ، معذوری اور خدانخواستہ ان کی وفات کی صورت میں ان کے پسماندگان کے لیے پنشن کے نظام کا وجود نہیں تھا۔ یہ کارکن اپنی ملازمت کے اختتام پر صرف اپنا پراویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی کی رقم لے کر رخصت ہوجایا کرتے تھے اور اپنی باقی زندگی انتہائی تنگ دستی میں گزار دیا کرتے تھے۔ 1972ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت کے دور میں پہلی مرتبہ کارکنوں کی فلاح وبہبود کے لیے دیگر فلاحی منصوبوں کے آغاز کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بھی قانون سازی عمل میں آئی تھی۔ اس مقصد کے تحت 1976ء میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور ضعیف العمر ملازمین فوائد ایکٹ 1976ء (EOB Act 1976)منظور کیا تھا جس کے نتیجے میں پنشن کی فراہمی کے لیے وفاقی سطح پر ایک محکمہ ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جو ضعیف العمر ملازمین فوائد ایکٹ مجریہ 1976ء کے تحت نجی شعبے کے صنعتی، تجارتی، کاروباری، طبی، تعلیمی، رفاہی اور اس قسم کے دیگر اداروں اور ان میں خدمات انجام دینے والے ہر نوعیت کے ملازمین خواہ مستقل، عارضی، یومیہ اجرت، ٹھیکہ داری، بدلی، موسمی یا تربیتی بنیاد پر ملازم ہوں اور ان اداروں یا مالکان سے باقاعدہ اجرت پاتے ہوں، کی ای او بی آئی میں رجسٹریشن کرکے ان کے آجران اور ان رجسٹر شدہ ملازمین سے موجودہ کم ازکم اجرت کے 6 فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن وصول کرتا ہے۔ چونکہ ضعیف العمر ملازمین فوائد منصوبہ کارکنوں کے لیے سماجی بیمہ (Social Insurance) ہے، لہٰذا ای او بی آئی میں رجسٹر شدہ ان ملازمین کو بیمہ دار فرد (Insured Person) کہا جاتا ہے۔ ان بیمہ دار افراد کو مقررہ طریقہ کار کے مطابق 15 برس کی بیمہ شدہ ملازمت اور ادا شدہ کنٹری بیوشن کی بنیاد پر مرد ملازمین کو 60 برس کی عمر میں اور خواتین ملازمین اور کان کنوں کو 55 برس کی عمر میں تاحیات ضعیف العمری پنشن ادا کی جاتی ہے۔ جبکہ بیمہ دار افراد کی معذوری کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق ای او بی آئی کے مقرر کردہ میڈیکل افسر کی مستند طبی رپورٹ کی بنیاد پر تاحیات معذوری پنشن بھی ادا کی جاتی ہے۔ ای او بی آئی کا پنشن منصوبہ اس قدر جامع ہے کہ پنشن کے لیے مقررہ بیمہ شدہ ملازمت کی مدت میں کمی کی صورت میں ایسے بیمہ دار افراد کو خالی ہاتھ گھر بھیجنے کے بجائے انہیں ماہانہ پنشن کی جگہ یکمشت ضعیف العمری امداد ادا کی جاتی ہے۔ اسی طرح کسی بیمہ دار ملازم یا پنشن یافتہ کی وفات کی صورت میں محض 36 ماہ کی بیمہ شدہ ملازمت کی بنیاد پر اس کے شریکِ حیات کو بھی تاحیات پسماندگان پنشن ادا کی جاتی ہے جو ایک منفرد سہولت ہے۔ اس وقت ای او بی آئی کی جانب سے ادا کی جانے والی پنشن کی شرح کم از کم8500روپے ماہانہ مقرر ہے، جس کا اطلاق جنوری 2020ء میں کیا گیا تھا۔ جبکہ زیادہ سے زیادہ پنشن بیمہ دار فرد کی مدت ملازمت اور کنٹری بیوشن کی ادائیگی کی بنیاد پر ای او بی آئی پنشن فارمولے کے مطابق ادا کی جاتی ہے، لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ملک کی معیشت میں افراطِ زر کی بڑھتی شرح، روپے کی قدر میں دن بدن کمی اور ستم بالائے ستم اس کے نتیجے میں روزافزوں بدترین مہنگائی کے باعث بزرگ پنشن یافتگان کے لیے پنشن کی اس معمولی رقم8500روپے میں پورا مہینہ گزارہ کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ اس تشویش ناک صورت حال میں ملک کے لاکھوں بزرگ پنشن یافتگان کو اپنی روح اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے اور باعزت طور پر اپنی گزر بسر کے لیے کم ازکم30,000 روپے ماہانہ پنشن کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ پنشن یافتگان کا ایک طبقہ لاعلمی کے باعث ای او بی آئی پنشن کو کم از کم اجرت کے مساوی کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ لیکن ان کی خدمت میں عرض ہے کہ کم از کم اجرت مقرر کرنے کا پیمانہ پنشن مقرر کرنے کے پیمانے سے بالکل الگ ہے۔ قانون میں اجرت اور پنشن کی علیحدہ علیحدہ تعریف بیان کی گئی ہے، لیکن اگر ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کڑے وقت میں پنشن کے قومی ادارے ای او بی آئی کو بھی گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں وفاقی حکومت کی جانب سے مالی عدم سرپرستی، بڑی تعداد میں نجی اداروں اور ان کے کارکنوں کی عدم رجسٹریشن، رجسٹر شدہ آجران کی جانب سے ماہانہ کنٹری بیوشن کی وصولی میں شدید کمی، فیلڈ آپریشنز میں تعینات انتہائی بدعنوان اور بااثر افسران کی جانب سے کارکنوں کی رجسٹریشن اور کنٹری بیوشن کی وصولی کے نام پر آجران سے کنٹری بیوشن کی رقم میں جوڑ توڑ، سودے بازی، ڈرا دھمکا کر بھاری کرپشن اور بھتہ خوری، آجران کی جانب سے 18 ویں آئینی ترمیم کی آڑ میں کنٹری بیوشن کی قلیل ادائیگی اور اس سے چھوٹ کی کوششیں، آجران کی جانب سے ای او بی آئی کے خلاف مختلف عدالتوں میں مقدمہ بازیاں، ای او بی آئی کے ملازمین کی بڑی تعداد میں ریٹائرمنٹ اور طویل عرصے سے نئی بھرتیوں پر عائد پابندیوں کے باعث افرادی قوت کی شدید قلت شامل ہیں۔ اس وقت ادارہ نصف افرادی قوت کے ساتھ کام کررہا ہے، 2013ء میں اُس وقت کے انتہائی بدعنوان اور غاصب چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور اس کے حواری افسران کی جانب سے پنشن فنڈ سے نام نہاد سرمایہ کاری کے نام پر ملک کے مختلف شہروں میں بھاری کمیشن کے عوض 18 کم قیمت اراضیات اور املاک کی غیر قانونی طور پر بلند قیمتوں پر خریداری اور 34 ارب روپے مالیت کے اس میگا لینڈ اسکینڈل پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس قابل ذکر ہیں، جو 2013ء سے تاحال سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہیں، اور ظفر اقبال گوندل سمیت تمام بااثر بدعنوان افسران ضمانت پر رہائی کے بعد بڑے دھڑلے سے آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ ای او بی آئی کو درپیش ان سنگین بحرانوں اور مسائل سے نمٹنے کے لیے گزشتہ برس ماہ ستمبر میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایک انتہائی تجربہ کار، باصلاحیت اور اصول پرست اعلیٰ افسر شکیل احمد منگنیجو کو ای او بی آئی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا، جو ای او بی آئی کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے شب و روز اپنی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں، جن میں ادارے میں کرپشن کی روک تھام، بدانتظامیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے خاتمے، نئے آجران کی رجسٹریشن اور کنٹری بیوشن کی وصولیابی میں اضافہ، ادارے میں ہر سطح پر بڑے پیمانے پر اصلاحات اور اسے ہر قسم کی کالی بھیڑوں اور بدعنوانیوں سے پاک نظام کے نفاذ کی کوششیں شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان پے درپے سنگین چیلنجوں کے باعث ای او بی آئی جیسے قومی فلاحی ادارے کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔ چونکہ ضعیف العمر ملازمین فوائد اسکیم ایک شراکت داری (Contributory) پنشن منصوبہ ہے، جو قانون کے مطابق وفاقی حکومت اور رجسٹر شدہ آجران اور بیمہ دار افراد کی جانب سے ادا کیے جانے والے ماہانہ کنٹری بیوشن کی رقم سے پروان چڑھتا ہے، اس کے سوا ای او بی آئی کا اور کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ ای او بی آئی ایک سہ فریقی بنیاد پر قائم ادارہ ہے جس کے شراکت داروں میں وفاقی حکومت، چاروں صوبائی حکومتیں، آجران اور کارکنان شامل ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بہت کم پنشن یافتگان واقف ہوں گے کہ ضعیف العمر ملازمین فوائد ایکٹ 1976ء کے نفاذ کے وقت وفاقی حکومت کو ای او بی آئی کی جانب سے آجران سے وصول کردہ سالانہ کنٹری بیوشن کی رقم کے برابر مساوی امداد پنشن فنڈ کے لیے ادا کرنے کی ذمے داری تفویض کی گئی تھی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے مساوی امداد کی ادائیگی کا یہ سلسلہ 1995ء تک بلا تعطل جاری رہا، جس کی بدولت ای او بی آئی پنشن فنڈ مستحکم اور پائیدار بنیادوں پر استوار ہوگیا تھا، لیکن بعد ازاں گزرتے وقت کے ساتھ برسراقتدار آنے والی مختلف حکومتوں نے ملک کے لاکھوں کارکنوں کی فلاح وبہبود کے لیے کیا گیا اپنا یہ آئینی وعدہ فراموش کرنا شروع کردیا ہے، اور پھر بدقسمتی سے وفاقی حکومت نے اپنی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمے داری سے پہلوتہی کرتے ہوئے اور اس قانونی ادائیگی سے مستقل جان چھڑاتے ہوئے 1995ء سے ای او بی آئی کو ادا کی جانے والی مساوی امداد کی فراہمی روک دی تھی، اور اب صورت حال یہ ہے کہ وفاقی حکومت مجرمانہ غفلت اور انتہائی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے لاکھوں کارکنوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کررہی ہے اور ای او بی آئی کو طے شدہ مقررہ مساوی امداد کی فراہمی کے بجائے پنشن فنڈ کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق صرف ایک لاکھ روپے مالیت کی سالانہ مساوی امداد ادا کررہی ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے ملک کے لاکھوں محنت کشوں کے ساتھ انتہائی غیر ذمے دارانہ رویّے اور عدم دلچسپی کی جس قدر مذمت کی جائے، کم ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ماضی میں برسراقتدار آنے والی مختلف حکومتیں مجاز نہ ہونے کے باوجود وقتاً فوقتاً محض پنشن یافتگان کی ہمدردیاں سمیٹنے اور عوام الناس میں اپنی ساکھ بنانے کے لیے غیر قانونی طور پر ای او بی آئی پنشن میں اضافے کا اعلان بھی کردیتی تھیں۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت سالانہ بجٹ میں صرف اور صرف سرکاری خزانے سے پنشن پانے والے سرکاری اور عسکری ملازمین کے لیے تو پنشن میں اضافے کا اختیار رکھتی ہے لیکن اسے کسی بھی طور پر سالانہ بجٹ میں ای او بی آئی پنشن میں اضافے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، کیونکہ ضعیف العمر ملازمین فوائد ایکٹ 1976ء کی دفعہ 21 کے مطابق ای او بی آئی کی پنشن میں اضافے کے لیے ای او بی آئی انتظامیہ ہر تین برس بعد پنشن فنڈ کی تخمینہ کاری (Actuarial Valuation) کرانے کے بعد اس کی رپورٹ کی روشنی میں پنشن میں کسی قسم کے اضافے کی پابند ہے۔ اس مقررہ طریقہ کار کو اختیار کیے بغیر ای او بی آئی پنشن میں اضافہ سراسر غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔ ای او بی آئی پنشن فنڈ کی پچھلی تخمینہ کاری سال 2020ء میں نہایت مشکوک انداز میں اُس وقت کرائی گئی تھی جب اُس وقت کے انتہائی بدعنوان اور خوشامدی چیئرمین اظہر حمید نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لالچ میں وزیراعظم کے اُس وقت کے معاونِ خصوصی زلفی بخاری کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تخمینہ کاری کرائے بغیر وفاقی حکومت سے پنشن میں اضافے کا اعلان کرا دیا تھا، لیکن حقیقت سامنے آنے پر وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کابینہ اجلاس میں بلاتخمینہ کاری کرائے پنشن میں اضافے کی منظوری رکوا دی تھی، جس پر چیئرمین اظہر حمید نے وفاقی حکومت اور زلفی بخاری کو سبکی سے بچانے کے لیے بطور عجلت کراچی کی ایک غیر معروف تخمینہ کار کمپنی میسرز سرکنسلٹنٹس پرائیویٹ لمیٹڈ کو من پسند اور فرضی اعداد و شمار پیش کرکے ایک من مانی تخمینہ کاری رپورٹ تیار کرائی تھی۔ اُس وقت پنشن میں اضافہ تو ہوگیا تھا لیکن بعد ازاں اظہر حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس اسکینڈل کی تحقیقات جاری ہے۔
ای او بی آئی ایک خودمختار ادارے کی حیثیت سے 16 رکنی سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز کی نگرانی میں خدمات انجام دیتا ہے۔ اس بورڈ میں وفاقی حکومت کے علاوہ چاروں صوبائی حکومتوں، چاروں صوبوں کے آجران اور ملازمین کے نمائندوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے۔ اعلیٰ سطحی بورڈ آف ٹرسٹیز ایک پالیسی ساز ادارہ ہے جو ای او بی آئی کے تمام انتظامی اور مالیاتی منصوبوں سمیت سالانہ بجٹ اور تخمینہ کاری کی رپورٹ کے جائزے کے بعد پنشن میں اضافے کی منظوری دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس اعلیٰ سطحی سہ فریقی مجاز بورڈ آف ٹرسٹیز کے سوا وفاقی حکومت اور وزیراعظم پاکستان سمیت کسی وفاقی وزیر اور چیئرمین ای او بی آئی کو پنشن میں اضافے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ مختلف ادوار میں وفاقی حکومتوں کی جانب سے بلا سوچے سمجھے اور پنشن فنڈ کی لازمی تخمینہ کاری کرائے بغیر، اور ادارے کی مالی حالت کو یکسر نظرانداز کرکے محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ای او بی آئی پنشن میں اضافے کا اعلان کرکے ای او بی آئی کے پنشن فنڈ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔
دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ ضعیف العمر ملازمین فوائد ایکٹ 1976ء کے تحت وفاقی حکومت اور آجران کو اس پنشن منصوبے کا مالی سرپرست مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ اس پنشن منصوبے کی سرپرستِ اعلیٰ مقرر کی جانے والی وفاقی حکومت اور سرپرست مقرر کی جانے والی آجر برادری بہت عرصے سے اپنی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمے داریاں پوری کرنے سے گریزاں ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ملک کی آجر برادری رفتہ رفتہ اپنے ملازمین کی فلاح وبہبود کے لیے اپنی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمے داریوں سے ہاتھ کھینچ رہی ہے اور اب آجر طبقے کا یہ عالم ہے کہ وہ خون پسینہ ایک کرکے خدمات انجام دینے والے اپنے جفاکش ملازمین کا بدترین معاشی استحصال کرنے میں مصروف ہیں اور آئے دن مختلف حیلے بہانوں اور چند قانونی موشگافیوں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے ملازمین اور اُن کے اہلِ خانہ کی مستقبل کی پنشن کے لیے ای او بی آئی کو ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی سے ہر ممکن گریز کرتے نظر آتے ہیں۔ آج بھی ای او بی آئی میں رجسٹر شدہ آجران کی بڑی اکثریت نے اپنے ملازمین کی اصل تعداد کے بجائے گنتی کے ملازمین ای او بی آئی میں رجسٹر کرائے ہوئے ہیں اور محض خانہ پُری کے لیے کئی کئی برس پرانی کم از کم اجرت کے حساب سے ای او بی آئی کو ماہانہ کنٹری بیوشن ادا کررہی ہے۔ آجران کے اس ملازمین دشمن رویّے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اداروں کا ای او بی آئی میں رجسٹریشن کرانے اور کنٹری بیوشن کی ادائیگی سے ہر ممکن طور پر بچاؤ کے لیے ای او بی آئی کے خلاف عدالتوں میں مقدمہ بازیوں کے لیے تو نامی گرامی اور مہنگے ترین وکلا کو لاکھوں کروڑوں روپے کی بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں لیکن اپنے مستحق ملازمین کی پنشن کے لیے ای او بی آئی کو کنٹری بیوشن ادا نہیں کرتے، جس کے باعث اپنے غریب ملازمین اور اُن کے پسماندگان کا بدترین استحصال کرتے ہوئے ان کارکنوں کو ان کی پنشن کے حق سے محروم کر رہے ہیں، جو ملک کے لاکھوں غریب کارکنوں کی حق تلفی اور ان کے ساتھ سراسر ظلم وزیادتی کے مترادف ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت اور آجر طبقے کی جانب سے کارکنوں کی فلاح وبہبود کے لیے مسلسل عدم دلچسپی اور غیر ذمے دارانہ رویّے کے باعث کنٹری بیوشن کی عدم ادائیگی یا محض دکھاوے کے طور پر کی جانے والی ادائیگیوں کے باعث گزشتہ دو عشروں سے ای او بی آئی پنشن فنڈ نہایت تیزی سے زوال پذیر ہے۔ لہٰذا اگر وفاقی حکومت اور آجران اپنی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمے داریاں ادا کرتے ہوئے ای او بی آئی کو اپنے واجب الادا کنٹری بیوشن کی ادائیگی نہیں کریں گے تو خاکم بدہن وہ دن دور نہیں جب ای او بی آئی پنشن فنڈ مستقل طور پر دیوالیہ کا شکار ہوجائے گا، جس کا خمیازہ صرف اور صرف ملک کے لاکھوں بزرگ اور معذور کارکنوں اور ان کے پسماندگان کو بھگتنا پڑے گا۔ جبکہ دوسری جانب اس نازک صورت حال کے باوجود ای او بی آئی ملک بھر میں اپنے 4 لاکھ سے زائد ریٹائرڈ، معذور ملازمین اور متوفی ملازمین کی بیواؤں کو وفاقی حکومت اور آجران کی جانب سے ماہانہ کنٹری بیوشن کی عدم ادائیگی کے باوجود اپنے قیمتی مالی اثاثوں کی قربانی دے کر ہر ماہ باقاعدگی سے بھاری پنشن کی ادائیگی کررہا ہے۔ کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور پنشن کی تقسیم میں شدید عدم توازن کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ای او بی آئی نے ماہ جنوری 2022ء میں ملک بھر میں اپنے چار لاکھ سے زائد پنشن یافتگان میں 3 ارب 74 کروڑ روپے کی خطیر رقم بطور پنشن تقسیم کی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں اسی ماہ کے دوران ای او بی آئی کو کنٹری بیوشن کی مد میں صرف 2 ارب 46 کروڑ روپے وصول ہوئے ہیں۔ اس طرح کنٹری بیوشن کی وصولی کی مد میں ہونے والا ایک ارب روپے سے زائد کا ماہانہ خسارہ ملک کے لاکھوں پنشن یافتگان کے سب سے بڑے پنشن فنڈ کے استحکام کے لیے نہایت مایوس کن صورت حال کی عکاسی کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ای او بی آئی ان مشکل ترین مالی حالات میں بھی اپنے 4 لاکھ سے زائد بزرگ، معذور اور بیوگان پنشن یافتگان کی باقاعدہ ماہانہ مالی کفالت کرکے اپنا قومی فریضہ انجام دے رہا ہے۔ لیکن اس تشویشناک صورت حال میں یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے-
ای او بی آئی پنشن فنڈ کی اس مخدوش صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے اگر وفاقی حکومت اور ملک کی آجر برادری اپنی اپنی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے ملک کے لاکھوں کارکنوں اور اُن کے پسماندگان کی فلاح وبہبود کے لیے اپنے اپنے حصے کا کنٹری بیوشن باقاعدگی سے ای او بی آئی کو ادا کرتے رہیں تو اس صورت میں ملک کے لاکھوں بزرگ پنشن یافتگان کی ماہانہ پنشن میں کسی معقول اضافے کی امید کی جاسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر ای او بی آئی کے لاکھوں پنشن یافتگان کو ای او بی آئی پنشن فنڈ میں اضافے اور اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے مساوی امداد (Matching Grant) اور آجر برادری کی جانب سے ان کے تمام کارکنوں کی ای او بی آئی میں رجسٹریشن اور موجودہ کم از کم اجرت کے مطابق کنٹری بیوشن کی ادائیگی کے لیے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی، کیونکہ ای او بی آئی سے ملک کے لاکھوں بزرگ، معذور اور بیوہ پنشن یافتگان اور ایک کروڑ کے لگ بھگ بیمہ دار افراد کا مستقبل وابستہ ہے، اور ای او بی آئی جیسے قومی فلاحی ادارے کی بقا و سلامتی میں ہی ان لاکھوں پنشن یافتگان کا عظیم تر مفاد بھی پیوستہ ہے۔
اندازِ بیاں گرچہ شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات