انٹرنیٹ پر عربی اور اسلامی مآخذ

(دوسرا اور آخری حصہ)
لائبریری جینئسس (Library Genesis): یہ مفت ای بکس، مجلات اور مضامین تلاش کرنے کا سرچ انجن ہے، جس کے ذریعہ 3 ملین ای بکس اور 60 ملین مضامین و مقالات تک رسائی ہوسکتی ہے جو تقریباً ہر ممکن موضوعات پر ہیں۔ اس کو استعمال کرنے کا عمدہ طریقہ یہ ہے کہ کتاب یا مصنف کے نام سے کتابیں اور مضامین تلاش کیے جائیں۔ اس طرح تلاش کرنے میں بہت مواد سامنے آئے گا، پھر اس میں سے جو مطلوبہ مواد ہو، وہ لے لیا جائے۔ اس لائبریری کی ویب سائٹ مندرجہ ذیل ہے:
https://libgen.is/
سنٹس لیس بکس (Centsless Books): اس ویب سائٹ کے ذریعے امیزون پر کینڈل کی صورت میں موجود تمام کتابوں تک رسائی ہوتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ مندرجہ ذیل ہے:
https://centslessbooks.com/
فیڈ بکس (Feedbooks): اس ویب سائٹ پر ایک ملین سے زیادہ ای بکس ہیں جن کو ڈائون لوڈ کیا جاسکتا ہے، جس میں فکشن، نان فکشن، پبلک ڈومین، کاپی رائٹ شدہ، مفت اور فیس ادا کرکے حاصل کی گئی کتابیں شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً آدھی کتابوں کو مفت ڈائون لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی ویب سائٹ مندرجہ ذیل ہے:
https:/www.feedbooks.com/
لائبریری آف کانگریس: یہ دنیا کی سب سے عظیم لائبریری ہے۔ اس میں اس وقت 170 ملین کتابوں کا ذخیرہ ہے جس میں 29 لاکھ مطبوعہ جلدیں شامل ہیں۔ اس پر موجود ذخائر کے بارے میں www.loc/gov/ پر سرچ کریں۔
پی ڈی ایف بکس ورلڈ (PDF Books World): دوسری ویب سائٹس پر مختلف فارمیٹ میں جیسے EUB اور MOBI فارمیٹ کی کتابیں بھی دستیاب ہیں، لیکن اس ویب سائٹ پر صرف PDF فارمیٹ میں کتابیں دستیاب ہیں جس کو کہ کچھ لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں اور جس کا پروگرام تقریباً ہر کمپیوٹر اور اسمارٹ موبائل فون میں دستیاب ہے۔ اس ویب سائٹ پر کم کتابیں ہیں اور بالعموم ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی ویب سائٹ حسب ذیل ہے:
https://www.pdfbooksworld.com/
فری ای بکس: اس ویب سائٹ پر ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں جو فکشن، نان فکشن، رومانس، سائنس اور بزنس وغیرہ پر ہیں۔ اس ویب سائٹ سے استفادہ کرنے اور کتابوں کو ڈائون لوڈ کرنے کے لیے آپ کو اس پر خود کو رجسٹر کرانا ہوگا جس کی کوئی فیس نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ کو ہر ماہ پانچ فری ای بکس ڈائون لوڈ کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس میں انگریزی کے علاوہ مختلف دوسری زبانوں میں بھی کتابیں ہیں۔ اس ویب سائٹ کے لیے Free-Ebooks.net کو وزٹ کریں۔
پرنسٹن تھیالوجیکل سیمینری (Princetion Theological Seminary) کی لائبریری میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کتابیں، مجلات، آڈیو ریکارڈنگز اور مخطوطات وغیرہ دنیا کے مختلف مذاہب کے بارے میں جمع کیے گئے ہیں اور سب آن لائن دستیاب ہیں۔ اس کلیکشن تک مندرجہ ذیل ویب سائٹ سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے:
https://archive.org/details/princeton?&sort=-week&page=2
ہاتھی ٹرسٹ (Hathi Trust): یہ ٹرسٹ بہت سی اکیڈمک اور ریسرچ لائبریریوں کے تعاون سے 2008ء میں وجود میں آیا۔ اس کے توسط سے آپ کو 17 ملین سے زیادہ ڈیجیٹائزڈ مواد مل سکتے ہیں جو اس طرح کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ اس میں عربی اور اسلامی کتابوں کا بھی بڑا ذخیرہ ہے۔ اس تک مندرجہ ذیل ویب سائٹ سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے:
https://www.hathitrust.org/digital_library
اسکریبڈ:اس ویب سائٹ پر سیکڑوں موضوعات پر لاکھوں کتابیں، مقالے، صوتی کتابیں، مجلات، آڈیوز وغیرہ موجود ہیں۔ اس کو استعمال کرنے کے لیے اشتراک ضروری ہے جو فی الحال ہندوستان میں 299 روپے ماہانہ ہے۔ ویب سائٹ کا پتا یہ ہے:
https://www.scribd.com
مشرق وسطیٰ کی ڈیجیٹل لائبریری(Digital Library of the Middle East): مختلف لائبریریوں نے مل کر یہ پلیٹ فارم بنایا ہے جہاں مشرق وسطیٰ کی تاریخ، مذاہب، فنون، ممالک وغیرہ کے بارے میں مختلف زبانوں میں سوا لاکھ سے زیادہ ریکارڈ مہیا کرائے گئے ہیں۔ اس کی ویب سائٹ کا پتا یہ ہے:
http://amirmideast.blogspot.com/2020/07/digital-library-of-middle-east.gtml
شدھ گنگا: یو جی سی کے ایک فیصلے کے مطابق 2016ء سے ہندوستان میں پیش کیے جانے والے ڈاکٹریٹ کے تمام مقالے شدھ گنگا ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کیے جائیں گے۔ اس سے نہ صرف اسکالرز کو مدد ملے گی بلکہ ڈاکٹریٹ کے لیے کوئی موضوع رجسٹر کرانے سے پہلے اسکالر حضرات چیک کرسکیں گے کہ اسی موضوع پر کہیں اور تو ریسرچ نہیں ہوچکی ہے۔ اکثر بڑی یونیورسٹیاں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر کم از کم ان کی لسٹ اپنی ویب سائٹ پر ڈالتی ہیں۔ بعض ممالک میں اس طرح کی ایک قومی ویب سائٹ بھی ہوتی ہے۔ شدھ گنگا ویب سائٹ کا پتا یہ ہے:
/https://shodhganga.inflibnet.ac.in
انٹرنیٹ پر عربی مآخذ
انٹرنیٹ پر یورپین، بالخصوص انگریزی زبان کے بعد سب سے زیادہ ذخائر عربی زبان میں عربی زبان و ادب اور اسلامیات کے بارے میں ہیں۔ عرب یونیورسٹیوں اور پبلک لائبریریوں جیسے ریاض کی شاہ فہد اور شاہ فیصل لائبریریاں، دبئی کے مرکز جمعہ الماجد اور اسکندریہ لائبریری نے غیر معمولی کام کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود کچھ عربی ذخائر حسب ذیل ہیں:
المجموعات العربیۃ علی الانترنت: Arabic Collections Online کی ویب سائٹ پر ایک ڈیجیٹل لائبریری موجود ہے۔ نیویارک یونیورسٹی ابوظبی کی مدد سے بنائی گئی اس رقمی لائبریری میں 17,262 جلدوں پر مشتمل عربی کتابوں کی تفصیلات دی گئی ہیں جن تک آپ انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی پاسکتے ہیں۔ جلد ہی یہ پروجیکٹ آپ کی رسائی 23,000 جلدوں تک انہیں ڈیجیٹائزڈ کراکر دلائے گا۔ یہ کتابیں تمام علوم سے متعلق ہیں۔ ان میں ایسی نادر مطبوعہ کتابیں بھی شامل ہیں جو اب نایاب ہیں، اور اگر ان کو ڈیجیٹائز نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ناپید ہوجائیں گی، کیونکہ ان کے کاغذات وقت گزرنے کے ساتھ بوسیدہ سے بوسیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود کلیکشن تک اس انٹرنیٹ پتے URL یعنی Uniform Resource Locator سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے:
https://github.com/NYULibraries/aco-karms
آسان لفظوں میں یہ ویب سائٹ کا مختصر لاثانی پتا ہے۔ یہ پتا ویب سائٹ رجسٹر کرانے والی کمپنیاں دیتی ہیں اور کوئی بھی URL دنیا بھر میں صرف ایک شخص یا ایک ادارے کو ملتا ہے۔ اس کو انٹرنیٹ کے ذریعے استعمال کرکے آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں مطلوبہ ویب سائٹ سیکنڈوں میں کھول سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی ویب سائٹ بھی آپ کے مخصوص URL کو استعمال کرکے کوئی بھی دنیا کے کسی حصے میں کھول سکتا ہے۔ سے رسائی ہوگی۔
کتب جی: یہ ڈیٹا بیس بیسیوں ویب سائٹس سے کئی لاکھ عربی کتابوں کو تلاش کرنے میں مددگار ہے۔ اس کا پتا یہ ہے:/https://www.kotobgy.com/
رَشف:یہ ڈیٹا بیس 41 ہزار عربی کتابوں کو تلاش کرنے میں مددگار ہے، جن کو مفت میں ڈائون لوڈ کیا جاسکتا ہے اور اسکرین پر پڑھا بھی جاسکتا ہے۔ اس کا پتا یہ ہے:
/https://rashf.com
المجموعات العربیۃ علی الانترنت:اس کی ویب سائٹ پر فی الحال 6303 کتابوں تک رسائی ہے اور کام جاری ہے۔ اس کی ویب سائٹ کا پتا حسب ذیل ہے:
http://dlib.nyu.edu/aco/browse/?page=1
اوپن کلچر (Open Culture):اس ویب سائٹ پر دس ہزار سے زیادہ مفت عربی کتابیں دستیاب ہیں۔ ان میں بہت سی ڈیجیٹائزڈ کی ہوئی ہیں۔ اس کی تیاری میں بہت سی امریکی اور عرب یونیورسٹیوں کی لائبریریوں نے حصہ لیا ہے۔ اس ویب سائٹ کے لیے Openculture.com کو وزٹ کریں۔
اوپن اسلامیکیٹ ٹیکسٹس انیشیئٹو (Open Islamicate Texts Initiative): یہ یورپین یونین اور قطر نیشنل لائبریری کی مشترکہ کوشش ہے جس کے تحت قدیم اسلامی میراث کو جمع کیا جارہا ہے۔ عربی کے دینی اور ادبی دونوں طرح کے قدیم ورثے کو ایک جگہ لایا جارہا ہے۔ اس کی ویب سائٹ کا پتا مندرجہ ذیل ہے:
https://aub.edu.lb.libguides.com/c.php?g=276487&p=1842971
کنگ فہد نیشنل لائبریری: یہ سعودی عرب کی قومی لائبریری ہے جو مطبوعہ کتابوں، پرانے مجلات اور مخطوطات کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل، آڈیو (صوتی) اور ویژول (بصری) ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہ سعودی عرب کے باہر کے قارئین اور ریسرچ اسکالرز کی بھی مدد کرتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ کا پتا یہ ہے:
https://kfnl.gov.sa/ar/Pages/default.aspx
مرکز جمعہ الماجد دبئیکتابوں اور مخطوطات کا بڑا ذخیرہ ہے۔ اس کی ویب سائٹ کا پتا یہ ہے:
/http://www.almajidcenter.org
الحکواتی: یہ عرب کلچرل ٹرسٹ کی ویب سائٹ ہے جو پورے عالم عرب کی میراث پر مواد کو ایک جگہ جمع کررہی ہے۔ اس کا زیادہ زور عربی زبان و ادب، عرب تاریخ، عرب ممالک اور شخصیات اور اسلامیات وغیرہ پر ہے۔ اس میں مذاہب پر بھی ایک سیکشن ہے۔ اس کا پتا یہ ہے:
http://al-hakawati.net.net/
الاسلام.او آر جی(Al-Islam.org):یہ عربی زبان میں شیعہ ویب سائٹ ہے جس میں تشیع کے نقطہ نظر سے مواد جمع کیا گیا ہے۔ ویب سائٹ کا پتا یہ ہے:
https://www.al-islam.org
الورق: اس ویب سائٹ پر عربی زبان میں عربی ادب، اسلامیات، تاریخ وغیرہ پر بڑا ذخیرہ ہے۔ عربی میں دوسری زبانوں سے ترجمہ کی گئی کتابوں کا بھی ایک سیکشن ہے۔ اس کا ماہانہ اشتراک دس اماراتی درہم اور سالانہ 90 درہم ہے۔ پتا یہ ہے:
http://www.alwaraq.net/Core.index.jsp?option=1
التفسیر.کام (Altafsir.com): یہ قرآن پاک کے بارے میں مختلف مصادر، تراجم اور تفاسیر وغیرہ کی ویب سائٹ ہے جس کو اردن کے رائل اہل البیت انسٹی ٹیوٹ فار اسلامک تھاٹ نے بنایا ہے۔ اس کی ویب سائٹ کا پتا ہے:
https://www.altafsir.com
دار: یہ مصر کی مکتبۃ الاسکندریہ کی بنائی ویب سائٹ ہے جس پر 380,000 ڈیجیٹائزڈ کتابیں موجود ہیں۔ تلاش کرنے اور اسکرین پر پڑھنے کی سہولت موجود ہے۔ ویب سائٹ کا پتا ہے:
https://www.bibalex.org/en/default
ٹفس:عثمانی مجلات کی ویب سائٹ جسے استنبول کی بایزید اسٹیٹ یونیورسٹی نے ٹوکیو کی ٹفس (Tufs) یونیورسٹی کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ اس کا پتا ہے:
http://www.tufs.ac.jp/common/fs/asw/tur/htu/list1.html
المشکاۃ ڈاٹ نٹ (Almeshkat.net): اس پر اسلامیات کے مختلف موضوعات پر عربی کتابوں کا بڑا ذخیرہ دستیاب ہے۔ ویب سائٹ کا پتا ہے:
http://www.almeshkat.net/library/
المکتبۃ الوقفیۃ:اس پر عربی ادب اور اسلامیات کی بہت سی کتابیں ہیں جن کو ڈائون لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی ویب سائٹ کا پتا ہے:
https://waqfeya.net/
اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر سیکڑوں مزید ویب سائٹس موجود ہیں جہاں ڈیجیٹائزڈ عربی کتابوں کی بہتات ہے۔ آج تقریباً تمام بڑی یونیورسٹی لائبریریوں نے انٹرنیٹ پر اپنے ذخائر اپ لوڈ کرنا شروع کردیے ہیں۔ یہ کام مغرب اور بلادِ عرب میں بہت تیزی سے اور منظم طور پر ہورہا ہے۔ گوگل میں مطلوبہ کتاب یا مصنف کا نام لکھ کر تلاش کرنے سے بہت سے آپشن آئیں گے۔ کچھ آسان ہوں گے اور کچھ مشکل۔ بعض ویب سائٹ آپ کو پہلے اس پر رجسٹر کرانے کو کہیں گی۔ آپ کو جو مناسب لگے اور جو ایڈیشن ٹھیک لگے اسے ڈائون لوڈ کرکے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کرلیں تاکہ بار بار ایک ہی کتاب کے لیے انٹرنیٹ پر جاکر سرچ کرنے یا کھولنے کی ضرورت نہ پڑے۔
اردو میں انٹرنیٹ پر مآخذ:
عربی، انگریزی، نیز بعض دوسری یورپین زبانوں مثلاً جرمن اور فرنچ وغیرہ میں عربی و اسلامیات پر مواد بکثرت دستیاب ہے۔ البتہ اردو اس معاملے میں ابھی بہت پیچھے ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایسے کام کے لیے بہت سا فنڈ اور بشری عملہ درکار ہے جو صرف سرکاری دلچسپی سے دستیاب ہوسکتا ہے، اور یہ اردو کو ابھی میسر نہیں ہے۔ کچھ ویب سائٹس جہاں اردو کی متنوع کتابیں ملتی ہیں، یہ ہیں:
ریختہ: یہ ایک شخص (سنجیو صراف) کی اردو دوستی کا ثمرہ ہے۔ انہوں نے 2012ء میں اردو کی ترقی اور ترویج کے لیے ریختہ فائونڈیشن بنائی۔ اس کا رجحان زیادہ تر اردو شاعری، ادب، تاریخ اور مذاہب پر ہے۔ دوسرے اور بہت سے کاموں کے ساتھ اس نے اپنی ویب سائٹ پر 89000 کتابیں ڈالی ہیں جن میں کافی اردو میں ہیں، اور ان میں بعض نادر مطبوعات بھی شامل ہیں جن کا آسانی سے ملنا اب مشکل ہے۔ اس کی ویب سائٹ کا پتا ہے:
https://www.rekhta.org/ebooks
کتابستان:کراچی کے راشد اشرف نے اردو کی بہت سی قدیم مطبوعہ کتابوں کو اسکین کرکے انٹرنیٹ پر ڈالا ہے جو زیادہ تر ادبی و تاریخی نوعیت کی ہیں اور بالعموم برصغیر سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ ذخیرہ مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر دستیاب ہے:
www.kitaabistan.com
حکومتِ ہند کا ادارہ قومی کائونسل برائے فروغِ اردو زبان (National Council for Promotion of Urdu Language): اس نے بہت سی ادبی اور تاریخی کتابوں کو اپنی ویب سائٹ پر ڈالا ہے، جن تک رسائی مندرجہ ذیل پتے سے ہوسکتی ہے:
http://www.urducouncil.nic.in/pdf-book
انٹرنیٹ پر جن ذخائر کا ذکر انگریزی کے ضمن میں کیا گیا ہے، وہاں بھی عربی، فارسی اور اردو کتابیں بکثرت دستیاب ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انگریزی، عربی اور بعض دوسری یورپین زبانوں کے مقابلے میں اردو کے مصادر و مآخذ انٹرنیٹ پر بہت کم ہیں، کیونکہ بڑی تجارتی کمپنیاں اور بڑی لائبریریاں اس طرف خصوصی طور سے مائل نہیں ہیں۔ البتہ اردو زبان سکھانے کے لیے بہت سی ویب سائٹ بنائی گئی ہیں۔ ہندو پاک کے اردو اخبارات اور بی بی سی، وائس آف امریکہ اور ڈوئچ ویلے نے بھی عمدہ اردو ویب سائٹس اپنی خبروں اور مضامین کے لیے بنا رکھی ہیں، لیکن وہ حالاتِ حاضرہ پر ہیں۔ اگر کوئی حکومت اس طرف متوجہ ہوتی تو اس کی تلافی ہوسکتی تھی جیسا کہ عرب حکومتوں نے عربی زبان کو عام کرنے اور تمام اہم پروگراموں کو عربی میں بھی مہیا کرنے کے لیے خاصے پیسے خرچ کیے ہیں۔
انٹرنیٹ پر معلومات کا جو انبار ہے، اس کے بارے میں بھی وہی احتیاط برتنی چاہیے جو مطبوعہ اور مخطوطہ مآخذ کے بارے میں ہونی چاہیے۔ یعنی ان کی بھی ٹھیک سے جانچ پرکھ کرلینی چاہیے کہ وہ درست، صحیح اور قابلِ اعتماد بھی ہیں یا نہیں۔ معروف کتابوں کے معتبر ایڈیشن اور معروف مؤلفین کی نگارشات کے بارے میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا واقعی یہ اصلی ایڈیشن ہے، یا کسی نے اس کو مذکورہ مصنف کی طرف منسوب کرکے چھاپ دیا ہے، یا اس کی کسی مطبوعہ کتاب میں تحریف کرکے چھاپا گیا ہے۔ جس طرح مخطوطہ اور مطبوعہ مواد میں تحریف ہوسکتی ہے، ویسے ہی انٹرنیٹ پر بھی کچھ لوگ مخصوص آرا یا کسی فرد یا نظریے کی دشمنی میں مقالات اور کتابیں شائع کرتے ہیں جو سرچ کرنے پر نظر آتی ہیں۔ ایسی کتابوں اور مقالات کے بارے میں تحقیق کرلینی چاہیے۔ معروف انسائیکلوپیڈیا مثلاً انسائیکلوپیڈیا آف اسلام یا بریٹانیکا کے بارے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن ایسے بہت سے مآخذ جیسے Wikipedia وجود میں آگئے ہیں جن میں عربی اور اسلامیات کے بارے میں بھی بہت کچھ ہوتا ہے لیکن ان مقالات کے لکھنے والوں اور ایڈیٹر حضرات کا کسی کو پتا نہیں، اور کوئی بھی ان ویب سائٹس پر جاکر ان موضوعات میں ردوبدل اور اضافے بھی کرسکتا ہے۔ اس لیے وکی پیڈیا اور اس جیسی ویب سائٹس سے معلومات اخذ کرتے ہوئے ان کی تصدیق دوسرے مآخذ سے کرلینی چاہیے، یا جن مآخذ کا وہاں ذکر ہورہا ہے ان کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کسی مآخذ کا حوالہ دیا جاتا ہے، لیکن اس اصلی مآخذ کو دیکھنے پر وہ بات ثابت نہیں ہوتی یا صرف جزوی طور پر ثابت ہوتی ہے۔