خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کا دوسرا معرکہ

خیبر پختون خوا کے 17 اضلاع میں19دسمبر کو ہونے والے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ہونے والی شکست کے زخم ابھی تازہ تھے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبے کے باقی ماندہ 18اضلاع کی 65 تحصیلوں اور لگ بھگ 1830 ویلج و نیبر ہوڈ کونسلوں میں 31مارچ کو دوسرے مرحلے کے انتخابات کا اعلان کرکے پی ٹی آئی کی قیادت کو ایک اور آزمائش سے دوچار کردیا ہے۔ یہاں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ پی ٹی آئی نے پہلے مرحلے کے انتخابات کی طرح دوسرے مرحلے کے انتخابات کو بھی ملتوی کرانے کی ہر ممکن کوشش کی، حتیٰ کہ اس مقصد کے لیے انہوں نے اعلیٰ عدالتوں کا سہارا لینے کی کوششیں بھی کیں، لیکن سپریم کورٹ نے خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کروانے کے لیے دائر درخواستیں نمٹاتے ہوئے التوا کے خواہش مندوں کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کے احکامات جاری کردیے۔
سپر یم کورٹ میں خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ملتوی کرنے کی درخواستوں کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے 25مارچ کی تاریخ خوددی تھی، جس پر عدالتِ عظمیٰ نے تمام درخواست گزاروں کو الیکشن کمیشن بھجواتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن تمام درخواست گزاروں کو سن کر فیصلہ کرے۔ دورانِ سماعت خیبر پختون خوا حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل نے 31مارچ کو دوسرے مرحلے کے لیے پولنگ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ شیڈول پر ہم سے مشاورت نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ خیبر پختون خوا حکومت پہلے بلدیاتی انتخابات پر رضامندی دے کر اب انکارکررہی ہے، الیکشن شیڈول معطل کرکے غلط مثال قائم نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انتخابی شیڈول کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے تو کیا الیکشن کمیشن کو بند کردیں؟ انتخابی شیڈول کا اجراء اور انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کمیشن کے معاملات میں سپریم کورٹ کیوں مداخلت کرے؟ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کہہ رہی ہے کہ رمضان کے بعد الیکشن کروا دیں، رمضان کے بعد کہیں گے عید آگئی ہے، پھر بڑی عید کا عذر تراشا جائے گا، بڑی عید کے بعد محرم آجائے گا، اس طرح تو الیکشن ہوگا ہی نہیں، ذاتی مفادات کے لیے اداروں پر عدم اعتماد نہ کریں۔ عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل نمٹاتے ہوئے اسے دوسرے مرحلے کے انتخابات کے متعلق ازخود ہی فیصلہ کرنے کا حکم جاری کردیا، جس پر الیکشن کمیشن نے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں تین دن کی توسیع کرتے ہوئے یہ انتخابات 31مارچ کو منعقد کرنے کا نہ صرف فیصلہ کیا ہے بلکہ الیکشن شیڈول جاری کرکے شیڈول کے مطابق پہلے مرحلے میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے والے امیدواران کی ابتدائی فہرست بھی جاری کردی ہے۔ جاری کردہ فہرست کے مطابق دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے لیے 32ہزار 839 امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ تفصیلات کے تحت 65 تحصیلوںکے چیئرمینوںکے لیے 873، اور ایک ہزار 830ویلیج و نیبرہوڈ کونسلوں کی جنرل نشستوں کے لیے 15 ہزار336 امیدوار میدان میں اترے ہیں، خواتین نشستوں کے لیے 3 ہزار488، مزدور کسان کے لیے 7 ہزار 16، نو جوان نشست کے لیے 6 ہزار 6، جبکہ اقلیتی نشست کے لیے 120 امیدواران نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ تین روز تک ان کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد ان کے مسترد ہونے یا تصدیق کا فیصلہ کیا جائے گا، جبکہ 24 سے 26 فروری تک ریٹرننگ افسران کے فیصلے کے خلاف درخواست جمع کرائی جا سکے گی۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دوسرے مرحلے میں 6 اضلاع سے ایک بھی اقلیتی امیدوار میدان میں نہیں آسکا ہے، جبکہ 12 اضلاع سے صرف 120 امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 6 اضلاع تورغر، کوہستان اپر، کوہستان لوئر،کولائی پالس، دراپر اور چترال اپر سے ایک بھی اقلیتی امیدوار نے کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کرائے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ سوات اور ایبٹ آباد سے 21،21 اقلیتی امیدواروں کے کاغذات جمع ہوئے ہیں، جبکہ لوئر دیر سے 16، کرم سے 14، لوئر چترال سے 11، مانسہرہ سے 9، شمالی وزیرستان سے 7، اورکزئی سے 4، بٹگرام اور شانگلہ سے 3،3 اور جنوبی وزیرستان سے 2 اقلیتی امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ کوہستان لوئر سے صرف ایک، کولائی پالس سے 4 اور اپر کوہستان سے 6 خواتین نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ سب سے زیادہ ایبٹ آباد سے 519 خواتین نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ یاد رہے کہ 31مارچ کو صوبے کے جن اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد ہورہا ہے ان میں چار سابقہ قبائلی اضلاع شمالی وزیرستان، کرم، اورکزئی اور جنوبی وزیرستان بھی شامل ہیں جہاں تاریخ میں پہلی دفعہ بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا جارہا ہے، جب کہ تین سابقہ قبائلی اضلاع خیبر، مہمند اور باجوڑ میں پہلے مرحلے کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔
دوسرے مرحلے کے الیکشن پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مرحلے کے انتخابات جو صوبے کے 17اضلاع کی66 تحصیلوں کے چیئرمینوں کے انتخاب کے لیے منعقد ہوئے، کے نتائج کے مطابق جمعیت علمائے اسلام نے میئر اور تحصیل چیئرمین کی کُل 66 میں سے 24 نشستوں پر کامیابی سمیٹ کر صوبے میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے، حکمران جماعت تحریک انصاف کا 17نشستیں جیت کر دوسرا نمبر رہا ہے، جب کہ پہلے مرحلے میں 10 آزاد امیدواران کامیاب ہوکر تیسری پوزیشن پر آئے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے7، مسلم لیگ (ن) کے 3، جماعت اسلامی اور تحریک اصلاحات پاکستان کے2، 2 اور پیپلز پارٹی کا ایک امیدوار کامیاب ہوا ہے۔
پہلے مرحلے کے انتخابات جہاں جمعیت علمائے اسلام کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ہیں وہاں اس مرحلے کے نتائج خیبر پختون خوا میں نوسال سے برسراقتدار تحریک انصاف کے لیے بھی شدید ہزیمت اور سیاسی پسپائی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ اسی طرح یہ مرحلہ صوبے میں بڑا سیاسی قد کاٹھ رکھنے کا دعویٰ رکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ثابت ہوا ہے۔ جبکہ ان انتخابات نے اپنے آپ کو ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے اور چاروں صوبوں میں وجود رکھنے کی دعوے دار پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی خیبر پختون خوا سے وجود ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ انتخابات ملک گیر مذہبی وسیاسی پارٹی کہلائی جانے والی اورملک بھر میں اس جماعت کو سیاسی اور انتخابی شناخت دینے والی جماعت اسلامی کے لیے بھی سیاسی تازیانہ ثابت ہوئے ہیں جس کو جہاں صوبے کے وسطی اضلاع میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی، وہاں اسے باجوڑکے اپنے روایتی گڑھ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، البتہ یہ بات حیران کن بھی ہے اور دلچسپ بھی کہ اسے تاریخ میں پہلی دفعہ جمعیت علمائے اسلام کے گڑھ کہلائے جانے والے دو جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت کی دو تحصیلوں درابن اور سرائے نورنگ پر کامیابی نصیب ہوئی ہے جسے جماعت اسلامی کے حلقوں میں ایک خوشگوار اور حیران کن تبدیلی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اسی طرح بلدیاتی انتخابات کے اس پہلے مرحلے کے نتائج قوم پرست جماعت قومی وطن پارٹی کے لیے بھی شدید دھچکے اور رسوائی کا باعث بنے ہیں جسے صوبے کی کسی بھی تحصیل حتیٰ کہ اس پارٹی کے مرکزی اور صوبائی سربراہان آفتاب احمد خان شیرپائو اور سکندر حیات شیر پائو کی آبائی تحصیل شیرپائو میں بھی کامیابی نہیں مل سکی ہے، البتہ یہ انتخابات صوبے
میں حال ہی میں سابق ممبر قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گل آفریدی کی قیادت میں نئی انٹری دینے والی تحریک اصلاحات پاکستان نامی پارٹی کے لیے کسی حد تک خوش آئند ثابت ہوئے ہیں، جس کے امیدواران نے ضلع خیبر کی دوتحصیلوں پر کامیابی حاصل کرکے ایک اچھی اننگ کا آغاز کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس پارٹی جس نے حال ہی میں جنم لیا ہے، کے بانی اور مرکزی چیئرمین الحاج شاہ جی گل آفریدی نہ صرف ممبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں بلکہ ان کا شمار اُن چند نمایاں قبائلی راہنمائوں میں ہوتا ہے جو سابقہ قبائلی اضلاع کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے میں خاصے پیش پیش رہے ہیں اور اس وقت بھی اُن کے ایک بھائی سینیٹر اور ان کے بیٹے اور بھتیجے ممبر خیبر پختون خوا اسمبلی ہیں، جب کہ ان کی حمایت یافتہ ایک خاتون ممبرصوبائی اسمبلی ہیں۔ اس تمام بحث کومدنظر رکھتے ہوئے اب دیکھنا یہ ہے کہ 31 مارچ کومنعقد ہونے والے دوسرے مرحلے کے انتخابات جن میں جہاں صوبے کے سب سے بڑے ڈویژن ملاکنڈ جس میں تقریباً صوبے کی تمام نامی گرامی جماعتوں کے مضبوط ووٹ بینک کے علاوہ سوات کا ضلع بھی شامل ہے جو وزیر اعلیٰ محمود خان کا آبائی ضلع ہے، وہاں ہزارہ ڈویژن میں بھی اس مرحلے کے تحت الیکشن ہورہے ہیں جہاں پر حکمران پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان گھمسان کارن پڑنے کاامکان ہے،اسی طرح یہاں پہلے مرحلے کی طرح دوسرے مرحلے میں بھی جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے کسی بڑے سرپرائزکو خارج از امکان قرار نہیں دیاجاسکتا۔