برطانیہ میں ایندھن کمپنیوں کا ریکارڈ منافع

برطانیہ میں گزشتہ دنوں ایندھن کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث کم آمدنی والے افراد براہِ راست متاثر ہورہے ہیں۔ اس اضافے کا اثر اشیائے ضروریہ پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ برطانوی حکومت کے مطابق اس وقت افراطِ زر کی شرح 5.2 فی صد ہے اور حکومت اس کو قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات بھی کررہی ہے جس میں سے ایک بجلی اور گیس کی قیمتوں کو اپریل 2022ء تک منجمد کرنے کا اعلان ہے جو تقریباً 6ماہ قبل ہی کیا جاچکا ہے۔ تاہم پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ جاری ہے اور اس میں ایک واضح اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ایندھن فراہم کرنے والی کمپنیاں اس اضافے کو طلب و رسد اور عالمی منڈی میں قیمتوں سے جوڑتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹرک و ٹینکرز ڈرائیوروں کی قلّت کی وجہ سے بھی ایندھن کا بحران پیدا ہوا تھا، جس کا اثر قیمتوں پر بھی محسوس کیا گیا۔ برطانیہ کی بڑی پیٹرولیم کمپنی برٹش پیٹرولیم نے سال 2021ء کے منافع کا اعلان کیا ہے جو کہ حیرت انگیز ہے۔ سالِ گزشتہ کمپنی نے 12.8 ارب ڈالر کا خالص منافع حاصل کیا، جبکہ سال کے آخری تین ماہ میں یہ خالص منافع 4 ارب ڈالر تھا۔ اس طرح برٹش پیٹرولیم نے خالص منافع کمانے کا اپنا ہی کئی سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ دوسری جانب سب سے بڑی پیٹرولیم کمپنی شیل نے بھی سالِ گزشتہ 2021ء میں 19 ارب ڈالر کے خالص منافع کا اعلان کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق صرف پیٹرولیم سیکٹر کا سالِ گزشتہ میں صرف برطانیہ میں منافع 40 ارب ڈالر یا اس سے زائد ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ کمپنیاں یہ منافع اُس وقت کما رہی ہیں جب گھریلو، کمرشل گیس و بجلی کی قیمتیں منجمد ہیں اور دوسری جانب معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے، فی کس شرح آمدن کم ترین ہوگئی ہے، اور خدشہ ہے کہ مزید افراد کو حکومتی سپورٹ سسٹم پر جانا پڑے گا تاکہ وہ اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرسکیں۔ ماہ اپریل 2022ء سے گھریلو و کمرشل ایندھن کی قیمتوں میں 54 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے بعد ماہرینِ معیشت کے مطابق برطانیہ میں افراطِ زر کی شرح 7.2 سے 7.7 فی صد تک ہوسکتی ہے، جس کا لامحالہ اثر اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر بھی پڑے گا، جبکہ حکومت کی جانب سے اس سال کی کم سے کم فی گھنٹہ اجرت 8.91 برطانوی پائونڈ ہے، جس کو بڑھا کر اپریل میں 9.5 پائونڈ فی گھنٹہ کردیا جائے گا۔ ایک جانب صرف ایندھن کی قیمتوں میں 54 فیصد اضافہ اور دوسری جانب آمدن میں دس فیصد سے بھی کم اضافہ عام آدمی کی زندگی میں مزید مشکلات کا باعث بننے والا ہے۔
صرف اس کو ہی عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو صورت حال یہ سامنے آتی ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام غریب عوام کی جیبوں سے پیسہ نکال کر سرمائے کو صرف چند افراد تک محدود کررہا ہے۔ عالمی کساد بازاری کا تو حاصل یہ ہونا چاہیے تھا کہ عام فرد سے لے کر سرمایہ دار تک سب اس کے اثرات کو محسوس کریں، لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ ایک جانب عالمی منڈی میں قیمتوں کو چند افراد کنٹرول کررہے ہیں اور دوسری جانب ان کے چھوٹے ایجنٹ عوام کو سہولیات کی فراہمی کے نام پر کنگال کررہے ہیں۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی بحران پیدا کرکے اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور عوام پر مزید بوجھ لادا جاتا ہے۔ برطانیہ میں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی مکمل صورت میں موجود نہیں اور فلاحی ریاست کے اصول پر حکمرانی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لہٰذا برطانیہ کی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے ایندھن کی کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے منافع کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے ان کمپنیوں پر مزید ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے شدید تنقید کرتے ہوئے ایندھن کمپنیوں کو پیسہ بنانے کی مشین قرار دیا اور ان پر کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن تاحال حکومت اس پر کوئی بھی کارروائی کرنے کو تیار نہیں، اور اپریل سے گھریلو صارفین پر مہنگائی کا نیا بم گرنے والا ہے کہ جب ایندھن کی قیمتوں میں 54 فیصد تک اضافہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب سعودی عرب کے بعد دنیا کو سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والا ملک روس اس وقت یوکرائن کے ساتھ سرحدی تنازعات کا شکار ہے، اور امریکہ و اتحادی بشمول برطانیہ اس میں فریق بن چکے ہیں۔ خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ تادم تحریر روس نے یوکرائن کے ایک سرحدی خطے کو آزاد مملکت کا درجہ دے کر امن کے قیام کے لیے اپنی فوجوں کو داخل کردیا ہے۔ اگر اس خطے میں کوئی چھوٹی موٹی جھڑپ بھی ہوئی تب بھی برطانیہ کو ایندھن کی فراہمی پر اثر پڑنے کا امکان ہے، کیونکہ برطانیہ کو ایندھن سپلائی کی پائپ لائن یوکرائن سے ہوکر گزرتی ہے، جس کا لامحالہ اثر ایک مرتبہ پھر ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں صارفین کو بھگتنا ہوگا۔
عالمی طور پر تنازعات کے بارے میں ایک مضبوط رائے یہ بھی ہے کہ یہ سارا کھیل عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کرنے، عوام کی جیبوں سے پیسہ سرمایہ داروں کے پاس منتقل کرنے، اور عوام کو کنگال کرنے کے لیے کھیلا جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال دنیا کے تیل پیدا کرنے والے ممالک خاص طور پر خلیجی ممالک پر براہِ راست جنگ مسلط کرنا اور عراق یا اس خطے کو عدم استحکام کا شکار کرکے اس کے وسائل پر قبضہ جمانا ہے۔ جنگِ خلیج اوّل کے بعد سے بتدریج عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے براہِ راست وسائل پر قبضے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک سے ہوتا ہوا اب خود ترقی یافتہ ممالک تک پہنچ چکا ہے، اور یہاں پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات کا مشاہدہ براہِ راست عوام کو ہورہا ہے کہ جہاں ایک جانب سرمایہ داروں کے سرمائے میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، وہیں عام فرد کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہورہی ہے۔ مشرق میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اپنا کھیل دکھانے کے بعد اب مغرب میں اپنا کھیل دکھا رہی ہے کہ جہاں فلاحی ریاست کا تصور رکھنے والا برطانیہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کا روپ دھار رہا ہے۔ تعلیم و صحت کے کسی حد تک نجی شعبے میں جانے کے بعد عام آدمی کے پاس یکساں تعلیم و صحت کے مواقع جہاں کم کیے جارہے ہیں وہیں اب شاید آئندہ آنے والے دنوں میں غریب آدمی کو زندگی گزارنے کے کم سے کم معیار کی آمدن بھی میسر نہ ہو۔