کراچی میں لٹیروں کا راج:اسٹریٹ کرائمز میں تشویشناک اضافہ

شہریوں کا سوال ریاست کہاں ہے؟
ملک کے سب سے بڑے اقتصادی شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اسٹریٹ کرائم اور گھروں میں گھس کر ڈکیتی کی وارداتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیاہے۔ کراچی اس وقت ڈاکوئوں اور لٹیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ عام شہری سڑکوں پر لٹ رہا ہے اور ڈاکو جب دل چاہتا ہے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ متاثرین پکار پکار کر کہہ رہے ہیں:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عملاً کراچی میں ڈاکو راج ہے، اور بھاری بجٹ رکھنے والی پولیس و رینجرز بے بس نظر آتے ہیں، جب کہ لٹیرے ایک وقت میں شہر کے لوگوں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں اور اُسی مقام پر ناچ بھی رہے ہوتے ہیں جس کی مثال کورنگی کازوے کی حالیہ واردات ہے جس میں مسلح افراد نے ناکہ لگا کر 100سے زائد افراد کو لوٹا۔ یہ کورنگی، لانڈھی انڈسٹریل ایریا پاکستان کی ایکسپورٹ میں 30فیصد کا حصے دار ہے۔
اس سے قبل ایک اہم اور بڑا واقعہ سما ٹی وی کے پروڈیوسر کے دن دہاڑے قتل کا ہے جنہوں نے جنوری میں اسٹریٹ کرائمز کے خلاف آواز اٹھائی اور فروری میں خود شہید کردیے گئے۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ نارتھ ناظم آباد کے ڈی اے چورنگی کے قریب پیش آیا جہاں مسلح ملزمان ایک شہری سے لوٹ مار کررہے تھے کہ اطہر متین نے ملزمان کی موٹر سائیکل کو اپنی گاڑی سے ٹکر ماری جس سے ملزمان گر پڑے، بعد میں ایک ملزم نے ان پر گولی چلادی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ اطہر متین نے 2005ء سے صحافت سے منسلک تھے۔ انھوں نے ”سما“ سے قبل ”آج“ ٹی وی اور ”اے آر وائی“ نیوز کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ اس وقت وہ سما میں سینئر پروڈیوسر اور کراچی پریس کلب کے ممبر تھے۔
سرجانی ٹائون میں ڈکیتی کے دوران لڑکی سے زیادتی کا واقعہ بھی چند دن پہلے کی ہی بات ہے۔ اسی طرح ایک نوجوان کا واقعہ بھی ابھی تازہ ہے جس میں اسے ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل کردیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اُس کے ولیمے سے ایک دن پہلے کا تھا جس کے بعد اُسے اگلے دن ہنی مون پر جانا تھا، مگر اس کی نوبت ہی نہ آئی اور وہ کراچی کے درجنوں اُن نوجوانوں کی طرح چلا گیا جن کا جرم شہر کراچی میں رہنا ہے۔ کراچی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں، شاپنگ سینٹرز اور گلی محلوں میں خواتین سے پرس و زیورات اور شہریوں سے موبائل فون اور موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں روزانہ ہورہی ہیں، اے ٹی ایم بوتھ سے نکلنے والے افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس دوران مزاحمت پر جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں۔
سی پی ایل سی کی جنوری 2022ء کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں صرف جنوری کے دوران 7 ہزار وارداتیں رپورٹ کی گئی ہیں، ایک ماہ میں شہر میں 4 ہزار 327 موٹر سائیکلیں چوری اور چھینی گئیں، ان میں سے صرف 319 موٹر سائیکلیں برآمد کی جاسکیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 200 گاڑیاں چوری اور چھینی گئیں جن میں سے صرف 87 برآمد کی جا سکیں۔ ایک ماہ میں شہریوں سے ڈھائی ہزار موبائل فون چھینے گئے۔ رپورٹ میں رواں سال کے دوران ڈکیتی کے دوران قتل کیے گئے شہریوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ یکم جنوری کو سپر ہائی وے پر پولیس اہلکار برکت دورانِ ڈکیتی قتل ہوا، 10 جنوری کو گلشن معمار میں دکاندار امان اللہ جاں بحق ہوا۔ 12جنوری کو کشمیر روڈ پر شاہ رخ کو گھر کی دہلیز پر نشانہ بنایا گیا، 12 جنوری کو ہی کلفٹن میں پراپرٹی ڈیلر ویربھان قتل ہوا، اسی روز سچل کے علاقے میں مزدور عبدالقدیر کا قتل ہوا۔
14 جنوری کو سچل میں پیٹرول پمپ پر سیکورٹی گارڈ سلطان، 16 جنوری کو اورنگی ٹائون میں سیف الرحمٰن اور 19 جنوری کو کورنگی میں بلال نامی شہری کو قتل کیا گیا۔25 جنوری کو نارتھ کراچی میں چوکیدار محمد علی، 6 فروری کو نارتھ کراچی میں اسامہ اور 18 فروری کو نارتھ ناظم آباد میں صحافی اطہر متین کو قتل کیا گیا۔سی پی ایل سی کی 13 ماہ کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں گن پوائنٹ پر کل 4,453 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں،اسی طرح گزشتہ سال شہر کے مختلف علاقوں سے 46,388 موٹر سائیکلیں چوری بھی ہوئیں جبکہ گزشتہ ماہ میں 3,908 موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں۔سی پی ایل سی کے اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جنوری 2021ء سے دسمبر 2021ء تک شہر میں 25,188 موبائل فون چھینے گئے۔ جہاں یہ لوٹ مار آج تادم تحریر جاری ہے وہیں  گھروں میں ڈکیتی، چوریاں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتی کی وارداتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
اور یہ ہم سب جانتے ہیں اور پولیس بھی کہتی ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی 90 فیصد وارداتیں تھانے میں رپورٹ نہیں ہوتیں۔ صرف وہ وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں جن میں قانونی تقاضے لازمی ہوں، یا کوئی شخص مارا جائے یا زخمی ہوجائے تو ضروری ہوجاتا ہے۔ شہر کے ہر گلی کوچے اور اب تو بائونڈری وال سوسائٹیز میں سے گاڑیوں سے ساؤنڈ سسٹم، بیک ویو مرر، بیٹری کی چوری کی درجنوں وارداتیں روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہیں۔ اس وقت کراچی کا کوئی حصہ، گلی، محلہ، سڑک یا چوراہا لٹیروں سے محفوظ نہیں ہے۔ آپ کسی سنسان سڑک پر دومنٹ سے زیادہ چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن رش والی جگہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ آدھا شہر لٹیرا ہے اور آدھا شکار ہورہا ہے۔ اس ضمن میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ لوٹ مار گلی، محلوں کی سطح پر پھیل گئی ہے، اور دیکھنے میں آرہا ہے کہ بے روزگار نوجوان اس طرح کی لوٹ مار میں شریک ہیں اور وہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے رہزنی کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ اس بات کا اظہار نئے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے بھی کیا ہے، اُن کا پچھلے دنوں ہی تبادلہ کیا گیا ہے اور یہاں برسبیل تذکرہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کراچی میں بدامنی اور جرائم کی بڑی وجہ پولیس کی سیاسی بنیادوں پر بھرتی اور رشوت کے عوض تھانوں میں تعیناتی بھی ہے۔ نئے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے اپنی اولین ترجیحات میں اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام گنوائی ہے۔ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ بے روزگاری بڑھنا بھی اسٹریٹ کرائمز کی بڑی وجہ ہے۔ پولیس کو اپنی بہترین کوشش کرنی چاہیے، اچھے کیس بنانے چاہئیں، اسٹریٹ کرمنلز کا پرانا ریکارڈ چیک کرنا چاہیے اور ان کی شناخت کرنی چاہیے۔ غلام نبی میمن کا یہ بھی کہنا اور بتانا تھا کہ ایسی بستیاں جہاں یہ اسٹریٹ کرمنلز رہتے ہیں وہاں انٹیلی جنس بنیادوں پر کارروائی کرنی چاہیے۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی نے کہا کہ منشیات استعمال کرنے والے اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ہوتے ہیں کیونکہ ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہوتا تو وہ کہتے ہیں اس طرح کرائم کرکے اپنی منشیات کا بندوبست کریں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پورے ملک کی طرح کراچی میں مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثر افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کورونا اور لاک ڈائون نے معاشی صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔ اس صورت حال میں سوال یہ بنتا ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے کیا کررہے ہیں؟ پولیس کیا کررہی ہے؟ اطہر متین کے واقعے میں ملزمان بیس منٹ تک دندناتے رہے اور آسانی سے بھاگ گئے لیکن پولیس اور رینجرز میں سے کوئی انہیں پکڑ نہ پایا، جب کہ واردات کے وقت چند گز کے فاصلے پر پولیس موجود تھی، اور مزید کچھ دوری پر رینجرز کا سینٹر بھی موجود ہے، لیکن واقعے کے ایک گھنٹے بعد پولیس آئی۔ عینی شاہدین کہتے ہیں کہ واقعے سے دس منٹ پہلے ہی وہاں سے پولیس کی موبائل گزری، جبکہ تفتیشی حکام کہتے ہیں فائرنگ سے آٹھ منٹ پہلے علاقے کی بجلی بند ہوگئی جس کی وجہ سے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ نہ ہوسکی، حالانکہ نارتھ ناظم آباد ایسوسی ایشن کے لگائے گئے دو کیمرے جائے وقوع کی رینج میں ہیں۔ ایک اور المیہ یہ کہ قریبی موجود سیکورٹی گارڈز میں سے کسی نے قاتلوں پر گولیاں نہیں چلائیں بلکہ وہاں جمع سیکڑوں لوگ ان پر پتھر مارتے رہے۔
یہ بات اطہر متین کے بھائی اور صحافی اینکر طارق متین نے بھی کی ہے کہ سنٹرل کے علاقے میں مسلسل وارداتیں ہورہی تھیں۔ پولیس کی ذمہ داری تھی، لیکن آس پاس رینجرز کے بھی سینٹر ہیں، وہ بھی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ”کراچی میں حالات ناگفتہ بہ ہیں، لگتا ہے وہاں کوئی قانون نہیں رہا، اس کے نتیجے برے نکل سکتے ہیں، وزیرِاعلیٰ سندھ کہیں تو کراچی کے تھانوں میں بھی رینجرز لگانے کو تیار ہیں، یہاں رینجرز کی فورسز بڑھانے کو تیار ہیں“۔ لیکن سوال یہاں پھر وہی موجود ہے کہ جو پہلے سے موجود ہیں وہ کیا کررہے ہیں؟ بلکہ اب سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کی خبریں بھی تسلسل کے ساتھ آرہی ہیں کہ یہ لوگ کراچی میں دیگر جرائم کے ساتھ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔
اس لیے اصل بات یہی ہے کہ اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ حکومت، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی واضح نااہلی اور ناکامی ہے۔ کراچی میں پولیس کی جانب سے اسٹریٹ کرائمز کے خلاف خصوصی مہم کا اعلان تو ہوتا رہتا ہے، رینجرز پر بھی شہر کے بڑے وسائل ایک عرصے سے خرچ ہورہے ہیں، تاہم صورت حال میں کوئی واضح بہتری نظر نہیں آرہی ہے۔ ہر اہم واقعے کے بعد رسمی سرگرمیوں کا ڈراما سندھ حکومت اور پولیس نے ایک عرصے سے رچا رکھا ہے، اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ایس ایس پی ساؤتھ رائے اعجاز احمد کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی سینچری مکمل کرنے والا انتہائی مطلوب ملزم گرفتار کرنے کی خبر سامنے لائے ہیں جس کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ ملزم اسٹریٹ کرائمز کا انتہائی مطلوب ملزم ہے، جس کے قبضے سے ٹی ٹی پستول، چھینے گئے اے ٹی ایم کارڈز، موبائل فونز اور مسروقہ موٹر سائیکل برآمد ہوئی ہے۔ ان کے مطابق ملزم فرخ جاوید عرف سلمان جاوید کراچی کے پوش علاقوں میں ڈکیتی کی وارداتیں کرتا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہر بڑے واقعے کے بعد ہی پولیس کی یہ کارکردگی کیوں سامنے آتی ہے؟ اور یہ قاتل سینچریاں بناتے رہتے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس میں اس بیانیے کو مقبولیت حاصل ہے کہ کراچی میں جو لاقانونیت ہے وہ مجرمان اور قانون کی ملی بھگت سے ہے۔
اسی طرح اب جب اطہر متین کی شہادت کے بعد ایک بار پھر شور اٹھا ہے تو وزیراعلیٰ سندھ کے ایک بار پھر دعوے اور اقدامات سامنے آرہے ہیں، اور خبر یہ ملی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت اسٹریٹ کرائم پر خصوصی اجلاس ہوا جس میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں، مجھے پولیس اور رینجرز سڑکوں پر نظر نہیں آتے، اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں اب بالکل برداشت نہیں کروں گا۔ مرادعلی شاہ نے کہا کہ میں شہر کے خود سرپرائز وزٹ کروں گا، پولیس،رینجرز جو بھی حکمت عملی ہے وہ بنائیں، مجھے نتیجہ چاہیے، شہریوں کی جان اور مال کی حفاظت کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعلیٰ نے ایس ایچ اوز کو15دن کی کارکردگی رپورٹ دینے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ جو ایس ایچ او کنٹرول نہیں کر پارہا اس کو فارغ کریں، پولیس جو بھی اقدامات کرے مجھےفوری بہتری چاہیے۔ جیل سے کچھ گینگ آپریٹ ہوتے ہیں، جیل میں بھی آپریشن کیا جائے۔ پولیس ہر ضلع میں رینجرز کی مدد سے ٹارگٹڈ آپریشن کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ حکومت سندھ جرائم پیشہ افراد کے سامنے بے بس ہے، مسائل ہیں لیکن سندھ حکومت اور دیگر محکمے اپنا کام کررہے ہیں، اسٹریٹ کرائمز میں ملوث کئی ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور صحافی اطہر متین کے قتل میں ملوث مجرموں کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائےگا۔ وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”کراچی ایک کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ آبادی والا شہر ہے، دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے شہروں میں اس شہر کا شمار ہوتا ہے، کئی ممالک کے لوگ اس شہر میں آباد ہیں“، اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ”گزشتہ دنوں کراچی کا شمار دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں ہوتا تھا، ہم نے یہاں امن بحال کیا اور اب بھی امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سخت اور سنجیدہ اقدامات کریں گے۔“
کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مخصوص افراد بار بار پکڑے جاتے ہیں اور کسی نہ کسی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں، اور پھر وہ بلا خوف لوگوں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں، تو اس پس منظر میں فرائیڈےاسپیشل نے سابق رپورٹر روزنامہ جنگ کراچی اور ٹوئنٹی فور نیوز ٹی وی سے وابستہ یوٹیوبر، تجزیہ نگار بلال احمد جو عدالتی امور پر گہری اور عمیق نظر رکھتے ہیں اور ان کے تجزیے یوٹیوب پر کرنٹ افیئرز کے دیکھے جاسکتے ہیں، سے جب پوچھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ عدالت مجرموں کو کیوں چھوڑ دیتی ہے اور بار بار چھوڑ دیتی ہے؟ تو اس پر ان کا کہنا تھا:
”پاکستان کا شمار چند ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر قسم کے قوانین کی بھرمار ہے بلکہ بعض قانون دان تو کہتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ قوانین موجود ہیں، کیونکہ دنیا میں ایسے بھی ممالک ہیں جہاں ائین ہی مختصر ہوتا ہے اور پارلیمان بوقتِ ضرورت ترامیم کرتی ہیں، مگر ایسے میں ہماری بدقسمتی کہہ لیجیے کہ قانون پر عمل داری سے جڑا عدلیہ سمیت ہر ادارہ اپنی افادیت کھوچکا، ڈکیتی ہو یا کوئی بھی جرم.. چند روز میں ضمانتیں مل جانا اور سزائوں کی شرح انتہائی کم ہونا، ایک کے بعد دوسری واردات کرنے والے عادی ملزمان کی بہتات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایسے میں آپ کسی ایک ادارے پر ذمہ داری نہیں ڈال سکتے، پولیس افسران سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ کیس بناتے ہیں مگر عدالتیں ملزمان کو ضمانتیں دے دیتی ہیں یا بری کردیتی ہیں، ججوں کے فیصلے دیکھیں تو بری ہونے والے ہر فیصلے میں یہی شکایت تحریر ہوتی ہے کہ تفتیشی افسر نے ناقص کارکردگی دکھائی، شواہد اکٹھے نہیں کیے اور ملزمان کو فائدہ پہنچایا، اکثر ٹرائل کورٹ سے کسی کو سزا ہو بھی جائے تو اعلیٰ عدلیہ کا سزائوں سے متعلق میرٹ اتنا سخت ہے کہ بمشکل کوئی کیس اس میرٹ تک پہنچ پاتا ہے، نتیجتاً ٹرائل کورٹ سے سزا پانے والا ملزم ہائی کورٹ یا پھر سپریم کورٹ سے بری ہوجاتا ہے، اگر بات عدالت کی کی جائے تو ایک جج کیس کا فیصلہ اپنی معلومات پر نہیں بلکہ دستیاب شواہد کی روشنی میں دیتا ہے، حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک جج نے ایک ملاقات میں بتایا کہ میرے سامنے ایک کیس ایسا بھی آیا، جس میں میرے علم کے مطابق وہ جرم ملزم نے ہی کیا تھا، مگر پولیس نے کیس کو اتنا خراب کردیا تھا کہ میرے پاس اُسے چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہی ملزم میرے سامنے لایا گیا، اس بار وہ بے قصور تھا مگر کیس اتنا مضبوط اور ملزم کے خلاف تمام شواہد ایسے تھے کہ مجھے ملزم کو سزا دینا پڑی۔ مجھے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے وہ الفاظ یاد ہیں جب انہوں نے اسما نواب کو اپنے باپ، ماں اور بھائی کو قتل کرنے کے الزام سے بیس سال بعد بری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم انصاف نہیں فیصلے کرتے ہیں۔ یہاں میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا، پاکستانی عدالتی نظام میں اگر کوئی قصور وار قرار دیا جائے تو لازم نہیں وہ جرم اُس سے سرزد ہوا ہو، اور اسی طرح اگر کوئی برسوں بعد ہی بے قصور یا باعزت بری ہو تو لازم نہیں وہ جرم اُس نے نہ کیا ہو۔ اسی طرح میری ذرائع ابلاغ کے ساتھیوں سے بھی یہی گزارش ہوتی ہے کہ جب آپ یہ چلاتے ہیں کہ اسما نواب کو بیس سال بعد انصاف مل گیا اور وہ باعزت بری ہوگئی تو تکنیکی طور پر یہ غلط ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں جب جج خود کہتے ہیں کہ ہم انصاف نہیں فیصلے کرتے ہیں تو ایسے میں ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی اپنے انجام کو پہنچا یا کسی کو برسوں بعد انصاف مل گیا؟ میرے خیال میں عدالتی نظام کی خرابی میں سب سے بڑا کردار پولیس، آپریشن، انویسٹی گیشن، پراسیکیوشن کا ہے، پھر عدالتوں میں غیر ضروری کیسوں کا بوجھ، مقدمات میں طوالت اور عدالتی نظام میں کرپشن کے منظم سسٹم کا بھی ہاتھ ہے، میں نے سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے والے ججوں کو خود کہتے سنا کہ :اس سسٹم میں انصاف مہیا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد کہنے کو کیا رہ جاتا ہے! عدالتی نظام کی خرابی کی درستی چند فیصلوں سے ممکن نہیں، اس کے لیے کسی جوڈیشل ایمرجنسی یا بولڈ فیصلوں کی ضرورت ہے۔“
اس وقت شہر کراچی کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ کراچی کی صحافتی تنظیموں نے بھی اطہر متین احمد کے قاتلوں کی گرفتاری اور جوڈیشل انکوائری کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ چوری اور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں صحافی بھی بڑی تعداد میں نشانہ بن رہے ہیں اور آئے روز صحافی اپنے موبائل اور کیمرے سمیت دیگر پروفیشنل آلات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت شہر کراچی میں جرائم پیشہ عناصر اور گروہ بڑے پیمانے پر چھینا جھپٹی اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں بلاخوف و خطر ملوث ہیں اور شہریوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ کاروباری طبقہ بھی پریشان ہے۔ اس صورت حال کے باعث عوام میں شدید بے چینی و اضطراب اور خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے فرائیڈے اسپیشل سے گفتگو میں کہا ہے کہ محکمہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی کے عوام کا تحفظ یقینی بنائیں۔ مسلح ڈکیتیوں، لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا خاتمہ اور شہریوں کے تحفظ کے مسائل زبانی دعوؤں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے حل ہوں گے۔ رواں سال اب تک مسلح ڈکیتی کی وارداتوں میں 14قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع سندھ حکومت، محکمہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ اور ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی نے اہم نکتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جرائم اور پولیس کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ اگر کوئی بھی شہری اپنے گھر کے سامنے کنواں تک کھدوانا شروع کرے تو کئی پولیس موبائل آجاتی ہیں اور وہ لوگوں سے جو کچھ کہتے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اس لیے اگر شہر میں جرائم پیشہ عناصر سرگرم ہیں اور منشیات کے اڈے چل رہے ہیں، چوری چھپے گٹکا مل رہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پولیس کے علم میں نہ ہو؟ منشیات کے اڈے، زمینوں پر قبضے، مسلح ڈکیتی، لوٹ مار پولیس کی مرضی کے بغیر کیسے ہوجاتی ہے! کراچی کے شہری رینجرز سے بھی سوال کرتے ہیں کہ جب کوئی کرمنل کسی شہری کو لوٹ رہا ہو یا فائرنگ کررہا ہو تو رینجرز کیا کرے گی؟ اس وقت ان کا کیا کام اور کیا ذمے داری بنتی ہے؟
شہر میں امن وامان قائم کرنے کے لیے حکمرانوں اور ان کی فیملی سے پروٹوکول واپس لے کر عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ کراچی میں 37 ہزار پولیس اہلکار اور 73 ہزار پرائیوٹ رجسٹرڈ گارڈ موجود ہیں، ان میں سے اکثر سرکاری عہدیداران اور ان کی فیملی کی حفاظت پر مامور ہیں۔ رواں سال صرف ڈیڑھ ماہ میں لوٹ مار کی 11ہزار وارداتیں ہوئیں اور مزاحمت پر 13شہریوں کو قتل کردیا گیا۔ ہم وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جائے اور کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جائے، اطہر متین کے قاتلوں کو فوری گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے، ڈی جی رینجرز حقائق کو قوم کے سامنے لائیں اور بتائیں کہ کتنے اختیارات ان کے پاس ہیں۔
ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا؟نیشنل ایکشن پلان میں کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کو صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ کی سہولیات دینے سمیت امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا بھی شامل تھا، اب تک اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ عوام کے ٹیکسوں کے پیسے عوام پر کیوں خرچ نہیں کیے جاتے؟ اگر حکومت کراچی کے عوام کو تحفظ فراہم نہیں کرے گی تو کراچی کے عوام خود اپنے دفاع کے لیے نکلیں گے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ ماضی کے پُرسکون اور تجارتی، علمی، ادبی و تہذیبی شہر کو عالمی منصوبے کے تحت برباد کیا گیا اور اس کے خوں آشام تیس سال ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ کچھ وقفے کے لیے روشی نظر آئی تھی لیکن پھر وہی اندھیرا چھاتا نظر آرہا ہے، اور لگتا ہے کہ کراچی آج ایک بار پھر کسی گہرے کھیل کے گرداب میں ہے، کیا کراچی میں بڑھتے اسٹریٹ کرائمز کی کڑیاں برطانیہ کے الطاف حسین سے متعلق فیصلے سے جاکر ملتی ہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔