ملک اس وقت ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، جہاں ہمیں ان سوالات کا سامنا ہے کہ آخر ہماری معیشت دبائو کا شکار کیوں ہے؟ ایف اے ٹی ایف میں ہمیں کیوں پذیرائی نہیں مل رہی؟ چین، روس اس خطے میں کس طرح اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں؟آرمی چیف اس وقت یورپی یونین کے ممالک کے دورے پر ہیں اور اس خطے کے لیے اپنا نکتہ نگاہ اور اُن کا مؤقف سن رہے ہیں۔ غالباً وہ امریکہ بھی جائیں گے۔ وزیراعظم روس جانے والے ہیں۔ بھارت کے لیے امریکہ کے بہترین دفاعی سامان کے معاہدے اور ترسیل کے بعد اب ہم اپنی دفاعی ضروریات کے لیے دنیا کے کس ملک سے بہتر بات چیت کے ذریعے اپنے مفاد میں فیصلہ کراسکتے ہیں؟ اظہارِ رائے کی آزادی کی عالمی نظام میں کیا حدود اور اہمیت ہے؟ عالمی ساہوکار ہم سے کیا کیا مطالبات منوا رہے ہیں؟
پاناما لیکس کی گرد بیٹھی نہیں تھی کہ اب نئے انکشافات اور اپنے وقت کے معتبر اور بااختیار 14 سو پاکستانیوں کے غیر ممالک میں بینک کھاتے سامنے آئے ہیں۔ ان سب سوالوں کے جواب کے لیے ملکی پارلیمنٹ اور حکومت کو آگے آنا چاہیے، انہیں فرنٹ فٹ پر ہونا چاہیے۔ مگرملک کے سیاسی ماحول میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے، پاکستان میں اس وقت سیاسی طوفان آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک پر تو اتفاق ہوچکا ہے، تاہم یہ کس وقت اور کہاں پیش کی جائے اس پر اتفاق ہونا ابھی باقی ہے، اسی لیے تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ کا شور و غلغلہ بلند ہے لیکن کسی کو مکمل تفصیلات کا ابھی تک علم نہیں ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بارے میں اپوزیشن نہایت خفیہ اور محتاط انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ کمر توڑ مہنگائی اور خراب گورننس اپوزیشن کے پاس مؤثر ہتھیار ہیں۔ ان کے علاوہ آئی ایم ایف سے نہایت سخت شرائط پر قرضوں کا حصول بھی اب خود حکومت کو مہنگا پڑرہا ہے۔ حکومتی ترجمان یا خود حکمران جتنے مرضی بیانات دیں،حکومتی بیانیہ ناکام ہوتا نظر آرہا ہے۔ اپوزیشن اس وقت عدم اعتماد کی تحریک کے بارے میں ایک نہیں بلکہ تین آپشنز پر غور کررہی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد پنجاب میں پیش کرنا پہلی ترجیح بن سکتی ہے۔ دوسرا آپشن اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد اور تیسرا آپشن وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانا ہے۔ عین ممکن ہے ’’حالات میں تبدیلی اور فوری ضرورت‘‘ کی صورت میں یہ ترتیب کچھ تبدیل ہوجائے۔ شہبازشریف نے حمزہ شہباز کی سربراہی میں ایک آٹھ رکنی کمیٹی قائم کی ہے جو مسلم لیگ(ن) کے اراکینِ پنجاب اسمبلی کے علاوہ دیگر گروپوں کے اراکینِ پنجاب اسمبلی سے رابطے کررہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اپنی حکمت عملی خفیہ رکھنا چاہتی ہے، اصل فیصلہ حکومتی اتحادیوں کو کرنا ہے جن میں مسلم لیگ(ق) تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اپوزیشن کی طرح حکومت بھی متحرک ہے، لہٰذا تما م حکومتی ترجمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حکومتی کارکردگی کو عوام کی دہلیز تک پہنچائیں۔ اگر اس سیاسی طوفان میں کسی سیاسی ڈیرے کی رونق بڑھی ہے تو یہ ظہور پیلس ہے، سب اس کی دہلیز کو چھو رہے ہیں، گورنرپنجاب چودھری سرور بھی چودھری شجاعت حسین کی تیمار داری کے لیے آچکے ہیں۔ سیاسی چوپالوں میں کہا جارہا ہے کہ چودھریوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے چودھری سرور کو بھیجا گیا ہے تاکہ وہ گلے شکوے سنیں اور وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کریں۔ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ(ن)کے سربراہ شہبازشریف بھی طویل مدت کے بعد یہاں آئے ہیں اور تحریکِ عدم اعتماد کے لیے حمایت مانگی ہے۔ جواب میں فی الحال انہیں مسکراہٹ ہی ملی ہے اور صرف یہ کہا گیا کہ تحریکِ عدم اعتماد کا پورے طریقے سے بندوبست کرلیں پھر بات ہوگی۔ ملک میں اٹھا ہوا سیاسی طوفان اس لیے اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ شہبازشریف، حمزہ شہباز اور مریم نوازکے خلاف نیب کی طرف سے بنائے گئے مقدمات فردِ جرم عائد کرنے کے اسٹیج پر آچکے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد تو ایک بہانہ معلوم ہوتی ہے، اصل ہدف نئے انتخابات ہیں۔ اپوزیشن حکومت کو دبائو میں لاکر ملک میں نئے انتخابات کے لیے فیصلہ چاہتی ہے، تاہم اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے اپوزیشن کو ظہور پیلس کی حمایت چاہیے، اگر یہ گھر ہاں کردے تو پنجاب میں تبدیلی کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن چودھری خاندان دیکھ بھال کر فیصلہ کرے گا۔ عمران خان نے مسلم لیگ(ق) کو مرکز اور صوبوں میں وزارتیں تو دی ہیں لیکن اگر وزارتِ اعلیٰ اس خاندان کو دے دی جائے تو سارے طوفان تھم سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ وزیراعظم کو کرنا ہے جنہوں نے اپوزیشن کے مقابلے کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کردی ہے۔ اس مہم کا پس منظر یہ ہے کہ منی بجٹ بہت بھاری ثابت ہو رہا ہے۔ مہنگائی کا اعتراف تو اب وزیراعظم نے بھی کرلیا ہے، تاہم سیاسی مخالفین کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ ’’یہ لوگ جب تک لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لاتے ان کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ لیکن دوسری طرف نیب کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ ساڑھے تین سال سے جاری احتسابی عمل کسی بھی درجے میں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکا، دعویٰ کیا گیا تھا کہ 100سے زائد ایسے افراد کا پتا لگایا جاچکا ہے جو ملک کی کئی سو ارب ڈالر مالیت کی دولت لوٹ کر بیرونِ ملک لے گئے ہیں۔ پاناما لیکس کے ساڑھے چار سو اور پھر چند ماہ پہلے سامنے آنے والے پنڈورا لیکس کے ساڑھے سات سو میں سے کتنے لوگوں کا احتساب ہوا؟ نیب کے کیسز پر یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے کچھ حقائق ہیں جنہیں کسی بھی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ایوان میں172 ووٹ چاہئیں، یہ غیر معمولی عددی قوت ہارس ٹریڈنگ کے بغیر ممکن نہیں۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام… دونوں صورتوں میں جیت عمران خان ہی کی ہوگی، کسی کو اچھا لگے یا برا، حقیقت مگر یہی ہے۔ وزیراعظم بننا عمران خان کی خواہش تھی وہ تو مکمل ہوچکی، اور نوازشریف سے کوئی انتقام لینا مقصود تھا جو اَب سود سمیت شریف خاندان کو لوٹایا جاچکا۔ حکومت بھی بے نیازی سے کررہے ہیں۔ اہم ترین مواقع پر بھی، حتیٰ کہ جب قانون سازی کے نازک مراحل درپیش تھے تب بھی حزبِ اختلاف کے سامنے نہیں جھکے۔ حزبِ اختلاف خود ہی کھنچی چلی آتی اور کبھی ووٹ دے کر، کبھی غیر حاضر رہ کر حکومتی بل کامیاب کراتی رہی۔ عمران خان نے یہ نظریہ بھی غلط ثابت کردیا کہ ’جمہوری حکومت عوامی رائے کا احترام کرتی ہے‘، اسی لیے انہیں مہنگائی کی پروا کرتے نہیں دیکھا گیا، البتہ انہیں گورننس کا چیلنج درپیش ہے۔ ساڑھے تین سال گزر گئے ہیں، باقی ڈیڑھ سال رہ گیا ہے، کابینہ اور اس کی استعدادِ کار کے ساتھ سرخرو ہونا تو بالکل بھی ممکن نہیں، کہ اس کابینہ میں تین چوتھائی تو وہ ہیں جن کے نزدیک عمران کی کامیابی یا ناکامی کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ انہیں اطمینان ہے کہ کل جس کی بھی حکومت ہوگی، وہ اسی کی کابینہ میں ہوں گے، اسی لیے عمران خان نے شاید ایک کو چھوڑ کر باقی تحریک انصاف کے ہی وزرا کو تعریفی اسناد دی ہیں۔ عمران خان کے سرخرو ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اُن کی حکومت کوئی ختم کردے اور وہ سیاسی شہید بن جائیں۔ عمران خان حکمران بھلے اچھے نہ ثابت ہوئے ہوں، ایجی ٹیٹر وہ بہت اعلیٰ ہیں، پھر ان کی ذات کے ساتھ ایک رومان بھی وابستہ ہے، اسی لیے وہ بے نیازی دکھاتے ہیں، یہی طرزِعمل ان کے لیے نقصان کا باعث بھی ہے، تاہم اپنے ووٹر کو مطمئن رکھنے میں کامیاب ہیں، لہٰذا اقتدار سے الگ ہوکر بھی ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
ملک کے سیاسی منظرنامے میں جہاں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے کی باتیں کی جارہی ہیں، وہیں حکومت نے بھی اپنے ’دفاع‘ کے لیے ’تیاریاں‘ شروع کررکھی ہیں۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے وفاق اور پنجاب میں وزارتیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے، تو دوسری طرف اپنے اراکین کو پنجاب میں 350 ارب روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں جاری کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
پنجاب کے اضلاع کے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص شدہ بجٹ 350 ارب میں سے ہر ضلع کو 10 سے 15 ارب روپے جاری کیے جارہے ہیں۔ پنجاب میں وزیراعظم نے چار وزارتوں کی مزید منظوری دی ہے، یہ وزارتیں ایسے اراکین کو دی جائیں گی جنہیں پہلے کوئی ذمے داری نہیں ملی۔ دنیا کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے خود گھبرا گئے ہیں۔ پہلے فنڈز جاری کرنے کو کرپشن قرار دیتے تھے، نوکریاں بانٹنے کو بددیانتی کہتے تھے اور وزارتوں کو غیر ضروری کہا جاتا تھا، اب تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے اراکین کو نوکریوں کا کوٹہ دیا جارہا ہے۔
اب اس بات کا تجزیہ کہ عدم اعتماد کی تحریک کی آخر کیا ضرورت آن پڑی ہے اور کیوں یہ اہم سمجھی جارہی ہے؟ دراصل یہ معاملہ’’ دو بڑوں‘‘ کے مابین عدم اعتماد سے جڑا ہوا ہے۔ ماضی کی بات ہے ولی خان نے جنرل ضیاء الحق سے کہا تھا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ جملہ ہی بھٹو کو پھانسی کے تختے تک لے گیا تھا۔ اس وقت بھی یہی معاملہ ہے، دو میں سے کسی ایک کا سکہ چلے گا۔ یہ اصل میں اہم فیصلوں کا سال ہے، کچھ فیصلے آئینی نوعیت کے ہیں اور کچھ حکومت کے لیے آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں۔
حتمی تجزیہ یہی ہے کہ شطرنج کی بساط پر دو فریق آمنے سامنے بیٹھے ہیں اور بادشاہ کو شہہ مات کے لیے دائو پیچ سوچے جارہے ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک اور لانگ مارچ بھی اسی دائو پیچ کے کھیل کا حصہ ہیں۔ اس کھیل میں عوام کہاں کھڑے ہیں؟ انہیں کیا ملے گا؟ انہیں تو فی الحال پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ملا ہے، جس نے ملکی صنعت، تجارت اور زراعت تک کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے۔ عوام کی تشویش بجا ہے۔ وفاقی حکومت ایسے اقدامات فوری طور پر بروئے کار لائے جن کے ذریعے پسے ہوئے طبقات کو ریلیف مل سکے۔ حکومتی حلقوں کی یہ وضاحتیں کتنی ہی درست ہوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کے دام عالمی منڈی میں چڑھنے اور کورونا وبا کے پھیلائو سے افراطِ زر کی کیفیت پیدا ہوئی، عام آدمی کے نزدیک سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ نئے نرخوں کے اطلاق کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرائے اور ضروری اشیاء کے نرخ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے، وہ پہلے سے ہی حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہے مگر پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھاکر حکومت نے اس کا کام آسان بنادیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسا تازیانہ ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی نرخوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ وزیر خزانہ کا فرمانا ہے کہ چھ سے آٹھ ماہ بعد مہنگائی کا زور ٹوٹ جائے گا۔ کیا اُس وقت تک کم آمدنی والے طبقے کا زندہ رہنا ممکن رہے گا؟ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت حکومت کو پیٹرولیم لیوی 30 روپے تک لے جانی ہے، اور یہ رقم ہر ماہ چار روپے کی قسطوں میں مطلوب ہدف تک پہنچے گی۔ ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ملکی وسائل سے پورا استفادہ کرنے والی طاقتور اشرافیہ ٹیکس دینے پر تیار نہیں، جبکہ حکومتی اخراجات پیٹرول، بجلی، گیس جیسی یوٹیلٹیز پر ٹیکس لگا کر پورے کیے جاتے ہیں، جن کا بوجھ کمزور طبقات پر ہی آتا ہے۔ ہمیں ایک طرف اپنا ٹیکس اسٹرکچر درست کرنا ہوگا تاکہ طاقتور اشرافیہ سے ٹیکس وصول کیا جا سکے، دوسری جانب غریب طبقے کو فوری طور پر ایسی سہولتیں دینی ہیں جن سے اُس کی زندگی آسان ہوسکے۔
حکومت نے روزافزوں مہنگائی کے باعث بڑھتے عوامی اضطراب اور عوامی تحریک کی صف بندی کرتی ہوئی اپوزیشن کے دبائو کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بے محابا اضافہ کردیا جو پیٹرولیم نرخوں میں اضافے کے لیے اوگرا کی بھجوائی گئی سمری سے بھی زیادہ ہے۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرولیم نرخوں میں 9 روپے 93 پیسے فی لٹر سے 12 روپے تین پیسے فی لٹر تک کا اضافہ کیا گیا ہے، جو گزشتہ چند سال کے دوران ایک وقت میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔ اس طرح پیٹرول کے نرخ 159 روپے 86 پیسے فی لٹر ہوگئے۔ اس حوالے سے جاری کردہ سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے جو 2014ء کے بعد سب سے بلند سطح پر ہے۔ اس سال کے آغاز میں پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں عالمی منڈی میں ہونے والے اضافے کے باوجود 31 جنوری کو پیٹرولیم نرخوں میں اضافہ موخر کردیا گیا تھا، اس سے حکومت کو 35 ارب روپے کا ریونیو نقصان اٹھانا پڑا۔ وزیراعظم نے اب عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں ہونے والے اضافے کے پیشِ نظر پیٹرولیم نرخوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل پر عائد شدہ لیوی میں چار چار روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ جی ایس ٹی زیرو فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بطور اپوزیشن پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے پیٹرولیم نرخوں میں اضافے کو حکومت کی کرپشن سے تعبیر کیا جاتا تھا، اور اسد عمر اعداد و شمار کے ساتھ عوام کو بتایا کرتے تھے کہ پیٹرولیم مصنوعات کے فی لٹر نرخوں میں اصل قیمت سے زیادہ ٹیکس شامل ہوتے ہیں جو حکمرانوں کی جیب میں جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے 2018ء کے انتخابات میں پیٹرولیم نرخوں میں بتدریج اضافے کو فوکس کرکے انتخابی مہم چلائی اور پیٹرولیم نرخوں پر عائد ٹیکسوں سے عوام کو خلاصی دلانے کے بلند بانگ دعوے اور وعدے کیے۔ پی ٹی آئی قیادت کو قوم کو ان مسائل سے خلاصی دلانے کے نعروں کی بنیاد پر ہی اقتدار کی منزل حاصل ہوئی، مگر پی ٹی آئی حکومت قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے جواز کے تحت سخت مالیاتی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی جن کے تحت ہر پندھرواڑے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے کا تسلسل بھی برقرار رکھا گیا اور ساتھ ہی ساتھ بجلی، گیس اور ادویہ کے نرخوں میں بتدریج اضافہ بھی۔ اور پھر نئے قرضے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا بھی حکومت کی مجبوری بن گیا، جس کی قبول کی گئی شرائط کے تحت حکومت کو ضمنی میزانیے بھی لانا پڑے اور سالانہ میزانیوں میں بھی نئے ٹیکس لاگو کرنا اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانا پڑی۔ اس سے ملک میں مہنگائی کا سونامی اٹھنا فطری امر تھا جس سے عوام عملاً زندہ درگور ہونے لگے۔ اس طرح پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے عوام کو نیا پاکستان، کرپشن فری سوسائٹی اور ریاست مدینہ سے متعلق دکھائے گئے سپنے بھی ٹوٹنے لگے۔ عوام کو درپیش روٹی روزگار کے ان گمبھیر مسائل سے بے نیازی اختیار کرتے ہوئے حکومت نے اپنے اقتدار کے تقریباً چار سال مکمل کرلیے ہیں، جس کے دوران اپوزیشن کو چور ڈاکو کے القابات اور نیب کے شکنجوں کے ساتھ دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی اور ہر خرابی کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈالا جاتا رہا۔ حد تو یہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے کا جواز بھی غلط اعداد و شمار کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ حکومت نے بے محابا انداز میں پیٹرولیم نرخ بڑھاتے ہوئے یہ جواز پیش کیا کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم نرخوں میں بے حد و حساب اضافہ ہوا ہے، اس لیے پیٹرولیم مصنوعات پر نرخ بڑھانا ہماری بھی مجبوری بنا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روس کے یوکرائن پر حملے کے خدشے کے باعث عالمی مارکیٹ میں عارضی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کے جو نرخ بڑھے تھے وہ بھی اب واپس آرہے ہیں۔ عالمی منڈی میں پیٹرولیم نرخ فی بیرل سوا ڈالر کم ہوگئے، چنانچہ پیٹرولیم نرخوں میں کمی کی جانی چاہیے تھی، مگر اوگرا کی سمری سے بھی زیادہ اضافہ کرکے عوام پر پیٹرول بم چلا دیا گیا۔اس صورت حال میں بھی وزیراعظم اپنی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور عوام کے بڑھتے ہوئے اضطراب کے برعکس پورے اعتماد کے ساتھ اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ پانچ سال مکمل ہونے پر دیکھیں گے کہ مہنگائی کم ہوئی ہے یا نہیں۔