آئی ایم ایف کی غلامی اور بدترین مہنگائی ،جماعت اسلامی کی ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز

عالمی مالیاتی فنڈ کے دباؤ پر مہنگائی، اضافی مِنی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے خلاف امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر 6 فروری 2022ء سے ملک گیر احتجاج اور دھرنوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس سے قبل امیر جماعت اسلامی پاکستان کی صدارت میں ملک کی مجموعی سیاسی اور معاشی صورتِ حال کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا گیا، اور ہوش رُبا مہنگائی، منی بجٹ کے ذریعے عوام پر 343 ارب روپے کے ٹیکس عائد کیے جانے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط اور دباؤ پر خودمختاری دینے کے لیے کی گئی قانون سازی پر تشویش کا اظہار کیا گیا، اور فیصلہ کیا گیا کہ جماعت اسلامی ملک کا معاشی سقوط اور آئی ایم ایف کی غلامی قبول نہیں کرے گی اور اس کے خلاف بھرپور عوامی تحریک چلائے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر 101 احتجاجی دھرنے دیئے جائیں گے اور حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کی جائے، ضمنی بجٹ واپس لیا جائے، گورنر اسٹیٹ بینک کو برطرف کیا جائے، اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دینے کا ایکٹ واپس لیا جائے، اور سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر حکومت یہ مطالبات پورے نہیں کرتی تو جماعت اسلامی اسلام آباد میں بھرپور دھرنا دے گی اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرے گی۔
اجلاس میں درج ذیل حقائق کی بنیاد پر احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا:
(i) اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ:
ادارئہ شماریات پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری 2022ء کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی بدولت ملک میں مہنگائی کی شرح 12.96 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جو گزشتہ 2 سال میں بلند ترین ہے۔ کچھ اشیائے خور و نوش کی گزشتہ ایک سال کی قیمتوں کا موازنہ حسب ذیل ہے:

نمبر شمار
اشیائے خورونوش
اوسط قیمت

اضافہ

جنوری2021ء
جنوری2022ء
روپے
فیصد
1
آٹا (فی کلو)
48روپے
59روپے
11روپے
22.92
2
خوردنی تیل
(فی لیٹر)
273روپے
413روپے
140روپے
51.28
3
بناسپتی گھی
(فی لیٹر)
276روپے
406روپے
130روپے
47.10
4
مٹن(فی کلو)
993روپے
1183روپے
190روپے
19.13
5
بیف ہڈی والا
(فی کلو)
474روپے
584روپے
110روپے
23.21
6
دال مسور دھلی
(فی کلو)
154روپے
213روپے
59روپے
38.31
(ii) بجلی کی قیمتوں میں اضافہ:
13 جنوری 2021ء کو حکومت نے عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گراتے ہوئے ظالمانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 4.30 روپے فی یونٹ مہنگی کردی جس کی وصولی جنوری 2022ء کے بلوں میں کی جائے گی۔ اس سے قبل دسمبر 2021ء میں وصول کیے گئے بلوں میں اکتوبر 2021ء میں استعمال کی گئی بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 4.74 روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ بعد ازاں 17 جنوری 2022ء کو حکومت نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے یکم فروری 2022ء سے بجلی کے فی یونٹ بنیادی نرخ میں 95 پیسے تک اضافے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سے پاور سیکٹر کو دی جانے والی سبسڈی 20 ارب روپے تک کم ہوجائے گی اور کے الیکٹرک سمیت تمام تقسیم کار کمپنیوں کے لیے فی یونٹ بجلی کا بنیادی ٹیرف 18.75روپے تک بڑھ جائے گا، جبکہ فی یونٹ بجلی میں اوسطاً 53 پیسے کا اضافہ ہوگا۔ جبکہ ایک سے 100 یونٹ استعمال کرنے والے غیر محفوظ صارفین کے لیے بیس ٹیرف 8 پیسے اضافے سے فی یونٹ 9.50روپے، 101 سے 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 18 پیسے فی یونٹ اضافے سے 10.36روپے، 201 سے 300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 48 پیسے فی یونٹ اضافے سے 12.62روپے، 301 سے 400 یونٹ استعمال کرنے والی تمام کیٹگریز کے لیے ٹیرف 95 پیسے فی یونٹ اضافے کے بعد 15.75 فی یونٹ ہوجائے گا۔
(iii) پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ:
15 جنوری 2022ء کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 3.01روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی فی لیٹر قیمت میں 3،3 روپے اور لائٹ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں 3.33روپے اضافہ کردیا، جس کے بعد پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 147.83 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 144.62 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت 116.48 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 114.54 روپے فی لیٹر ہوگئی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل یکم جنوری 2022ء کو بھی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 4 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت میں 3.95 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 4.15روپے فی لیٹر اضافہ کیا تھا۔ روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق حکومت موجودہ ٹیکس شرح، امپورٹ پیرٹی پرائس اور شرح تبادلہ کی بنیاد پر فروری 2022ء کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 سے 15 روپے فی لِٹر تک اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔ خیال رہے کہ آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے کے مطابق حکومت ماہانہ بنیادوں پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پیٹرولیم لیوی کی شکل میں ماہانہ 4 روپے کے اضافے کی پابند ہے۔
(iv) روپے کی قدر میں مزید کمی کا خدشہ:
روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر اچانک ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے نتیجے میں روپے کی قدر میں مزید کمی اور ڈالر کی قیمت 200 روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ذرائع کے مطابق ایکسچینج کمپنیاں 16 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کا بوجھ صارفین کو منتقل کردیں گی جنہیں ایک ڈالر پر 20 روپے سے زائد کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اگر ڈالر 200 تک پہنچتا ہے تو ایکسچینج کمپنیوں کے قانونی کاروبار کی جگہ ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہوجائے گی۔
(v) مجموعی قومی قرضے اور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا فرق:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مجموعی قرضہ 50.4841کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، جبکہ پاکستان کا جی ڈی پی کا حجم 53.876 کھرب روپے ہے۔ قانونی طور پر حکومتِ پاکستان جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی، لیکن لمحۂ موجود میں کُل قومی قرضہ ملکی جی ڈی پی کے 93 فیصد سے زیادہ ہوگیا ہے۔ مجموعی قرضوں میں اندرونی قرضوں کا حجم (انویسٹمنٹ بانڈز، ٹریژری بلز اور نیشنل سیونگ اسکیمز) جی ڈی پی کا51فیصد ہے۔ جبکہ بیرونی قرضوں کا حجم (ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، پیرس کلب، کمرشل بینکوں کے قرضے اور یورو بانڈز) جی ڈی پی کا41فیصد ہے۔ موجودہ حکومت نے اگست 2018ء سے دسمبر 2021ء تک 42.7 ارب ڈالر کے قرضے وصول کیے، جبکہ اس دوران 32.7 ارب ڈالر مع سُود، قرضے ادا کیے۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ 40 مہینوں میں 10 ارب ڈالر کے اضافی قرضے حاصل کیے۔
(vi) قرضوں پر سُود کی ادائیگی:
وفاقی بجٹ برائے مالی سال 21-2020ءمیں دفاع کے لیے 1370 ارب روپے، تعلیم کے لیے 28 ارب روپے، اور صحت کے لیے 22 ارب روپے مختص کیے گئے (جو مجموعی طور پر 1420 ارب روپے بنتے ہیں) جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے بیرونی قرضوں پر 3052ارب روپے سود ادا کیا۔ قرضوں پر صرف سود کی سالانہ ادائیگیاں دفاع، تعلیم اور صحت کے مجموعی اخراجات سے دوگنا زیادہ ہیں۔ رواں مالی سال 22-2021ء میں پاکستان کو 23 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں۔ اس میں سے آئندہ ششماہی میں 8.6 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہوں گی۔ اس ادائیگی میں 7.2 ارب ڈالر کا قرضہ اور 1.4 ارب ڈالر کا سُود شامل ہوگا۔
(vii) چند معاشی اشاریوں کا ایک سالہ تقابلی جائزہ:

نمبر شمار
معاشی اشاریہ
یکم جنوری
2021ء
یکم جنوری
2022ء
سالانہ
اضافہ/ کمی
1
افراطِ زر کی شرح
8فیصد
12.3فیصد
4.3فیصد
4.3 فیصد
2
روپے کی قدر
160.10 روپے
176.80
روپے
16.70
ڈالر
10.43
فیصد
3
بیرونی قرضہ
114.087
روپے
127.023
ارب ڈالر
12.936
ڈالر
11.34
فیصد
4
کُل قومی قرضہ
44,848.6
ارب روپے
50,484.1
ارب روپے
5635.5
روپے
12.56
فیصد
5
سونے کی قیمت
(24قراط-فی تولہ)
114,100
روپے
125,900
روپے
11,800
روپے
10.34
فیصد
6
درآمدات
(نئے مالی سال کے آغاز سے)
23.201
ارب ڈالر
36.412
ارب ڈالر
13.211
ارب ڈالر
56.94
فیصد
7
برآمدات
(نئے مالی سال کے آغاز سے)
11.815
ارب ڈالر
15.236
ارب ڈالر
3.421
ارب ڈالر
20.48
فیصد
8
تجارتی خسارہ (نئے مالی سال کے آغاز سے )
11.386
ارب ڈالر
21.176
ارب ڈالر
9.79
ارب ڈالر
85.98
ارب ڈالر
(viii) آئی ایم ایف کی شراط پر منی بجٹ: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرط پر 15 جنوری 2022ء کو صدر مملکت عارف علوی نے منی بجٹ (ضمنی مالیاتی بل 2022ء) کی رسمی منظوری دے دی جسے پارلیمنٹ پہلے ہی کثرتِ رائے سے منظور کرچکی تھی۔ منی بجٹ میں متعدد اشیا پر 343 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کے علاوہ کئی اہم اشیا پر زرتلافی (سبسڈیز) اور ٹیکس چھوٹ واپس لے لی گئی۔ حیرت انگیز طور پر اپوزیشن کے علاوہ حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور گرینڈ نیشنل الائنس(جی ڈی اے) کے متعدد اراکین نے مشاورت میں شامل نہ کرنے کا شکوہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ منی بجٹ میں روزمرہ اشیائے ضروریہ پر عائد ٹیکس واپس لیے جائیں، لیکن 13جنوری 2022ء کو پی ٹی آئی حکومت نے اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود اتحادی جماعتوں کے اشتراک سے منی بجٹ 2022ء منظور کروا لیا اور اپوزیشن کی پیش کردہ تمام ترامیم مسترد کردیں، جبکہ وزیر خزانہ کی تجویز کردہ 3 ترامیم کثرتِ رائے سے منظور کرلی گئیں جن کے مطابق پہلی سطح کے ریٹیلر ٹیئر ون ریٹیلرز، ریسٹورنٹ، فوڈ چینز اور مٹھائی کی دکانوں پر ان اشیا کی فروخت پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ 500 روپے سے زائد کے فارمولا دودھ پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کیا جائے گا۔ 1800 سی سی اور اس سے کم ہائبرڈ اور گھریلو کاروں پر 8.5 فیصد، 1800 سے 2500 سی سی تک کی ہائبرڈ گاڑیوں پر 12.75 فیصد اور درآمد شدہ الیکٹرک گاڑیوں پر 12.5 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 12.5 فیصد کردیا گیا ہے، تمام درآمدی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی یکساں رہے گی۔ مقامی طور پر تیار کی جانے والی 1300 سی سی گاڑیوں پر ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کرکے 2.5 فیصد، اور 1300 سے 2000 سی سی کاروں پر بھی 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد، اور 2000 سی سی سے زیادہ کی مقامی طور پر تیار ہونے والی کاروں پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔
(ix)آئی ایم ایف کے دباؤ پر بینک دولت پاکستان ترمیمی بل 2022ء کی منظوری:
یکم جنوری 1948ء کو قائداعظم محمد علی جناح ؒنے بینک دولت پاکستان (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے افتتاح کے موقع پر فرمایا تھا کہ اسٹیٹ بینک ہماری ’’مالی خودمختاری‘‘ کی نشانی ہوگا، لیکن 74 سال بعد 28 جنوری 2022ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2022ء کے اجراء سے پاکستان کی خودمختاری اور مالی خودمختاری حکومتِ پاکستان کے کنٹرول سے نکل کر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے کنٹرول میں چلی گئی۔ کثرتِ رائے سے قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد سینیٹ میں حکومت صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے ترمیمی بل منظور کروانے میں کامیاب ہوگئی، جبکہ متحدہ اپوزیشن واضح اکثریت کے باوجود بل کی منظوری روکنے میں ناکام رہی۔ سینیٹ میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 57 جبکہ حکومتی ارکان کی تعداد 42 تھی۔ بل کے حق اور مخالفت میں 42,42ووٹ آئے لیکن چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے غیر جانب داری ختم کرتے ہوئے اپنا فیصلہ کُن ووٹ ترمیمی بل کی منظوری کے حق میں دے دیا۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل میں دلائل کے ساتھ سات ترامیم سینیٹ میں جمع کروائیں، مگر چیئرمین سینیٹ نے ان تجاویز کو سینیٹ میں بحث کے لیے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اجلاس کے بعد سینیٹر مشتاق احمد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بطور سینیٹر یہ اُن کا حق تھا کہ اُنہیں اپنی پیش کردہ ترامیم پر دلائل دینے کا موقع دیا جاتا اور اُن کی پیش کردہ ترامیم پر ایوان میں رائے شماری کرائی جاتی، لیکن چیئرمین سینیٹ نے بہت مایوس کیا جس سے اُن کی حق تلفی ہوئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے محض ایک ارب ڈالر کے قرضے کے لیے ملک کا اہم ترین ادارہ ’’بینک دولت پاکستان‘‘ آئی ایم ایف کے حوالے کردیا جو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور معاشی خودمختاری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اُنہوں نے انکشاف کیا کہ ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2022ء کا ڈرافٹ پاکستان میں تیار نہیں ہوا بلکہ آئی ایم ایف نے امریکہ میں بیٹھ کر تیار کرکے پی ٹی آئی حکومت کے حوالے کیا‘‘۔ حکومتِ پاکستان کا نہ صرف اس پر اختیار تقریباً ختم ہوگیا ہے بلکہ پاکستان کی معاشی خودمختاری بھی ختم ہوگئی ہے۔ آج اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا سقوط ہوا ہے جس پر آئی ایم ایف خوش ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ قوم حکمرانوں کو میر جعفر اور میر صادق کے نام سے یاد رکھے گی۔
اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سکندر مندھرو، مسلم لیگ (ن) کی نزہت صادق اور مشاہد حسین سید، بی این پی کے قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان شاہ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے طلحہ محمود اور پشتون خوا میپ کے سردار شفیق ترین اجلاس سے غیر حاضر رہے، جبکہ اے این پی کے عمر فاروق کاسی عین رائے شماری کے وقت ایوان سے چلے گئے۔ اپوزیشن کے دلاور خان گروپ نے بھی حکومتی بل کی حمایت کی۔ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد حکومت نے پیپلز پارٹی اور یوسف رضا گیلانی کا شکریہ ادا کیا اور دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے ارکان کو غیر حاضر رکھ کر حکومت کی مدد کی۔
اپوزیشن کا غیر سنجیدہ اور مشکوک کردار:
28 جنوری 2022ء کو سینیٹ آف پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں اکثریت میں ہونے کے باوجود اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2022ء کو منظور ہونے سے نہ روک سکیں۔ ایوان بالا میں قائد ِحزب ِاختلاف سید یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے8 اراکین غیر حاضر تھے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ حزبِ اختلاف کے ارکان نے اہم قانون سازی کے موقع پر غیر حاضری، واک آؤٹ یا ایوان سے غائب ہوکر حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر قانون سازی، نیب ترمیمی بل، سالانہ و ضمنی مالیاتی بل، اور عالمی عدالتِ انصاف بل سمیت دیگر اہم معاملات پر قانون سازی کے وقت اپوزیشن کے بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نےچارو ناچار حکومت کو سہولت و حمایت فراہم کی۔
معروف صحافی زاہد حسین کہتے ہیں کہ اہم مواقع پر ایوانِ بالا و زیریں میں اپوزیشن لیڈرز کا غیر حاضر رہنا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر حکومتی بلز کو روکنا اپوزیشن کے لیے اتنا ہی ضروری ہوتا تو قائدِ حزبِ اختلاف سمیت تمام اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کے تمام اجلاسوں میں اپنی موجودگی کو یقینی بناتے۔
کالم نویس فہد حسین فرماتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کا کوئی مشترکہ بیانیہ نہیں ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اخراج کے بعد یہ اتحاد اپنی وقعت کھو چکا ہے۔
معاشی سقوط پر جماعت اسلامی کا مؤقف:
جماعت اسلامی پاکستان کا اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے حوالے سے انتہائی واضح مؤقف رہا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں عوام کو دھوکے میں رکھ کر نااہل حکومت کی سہولت کار بنی ہوئی ہیں۔تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں نورا کشتی کی وجہ سے جماعت اسلامی اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے کے بجائے اپنے فورم سے ملکی مسائل کے حل کی خاطر عوامی جدوجہد کررہی ہے۔ کم تعداد میں ہونے کے باوجود جماعت اسلامی کے منتخب عوامی نمائندے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے میں سب سے زیادہ متحرک ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بارہا کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساڑھے 3 برس ناکامیوں اور کرپشن کی داستان پر محیط ہیں۔ 73 برس سے بانیانِ پاکستان کا خواب پورا نہیں ہوسکا۔ اسلامی پاکستان کو مختلف عصبیتوں پر تقسیم کیا گیا اور ملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا اور قوم کے ارمانوں کا خون کیا گیا۔ ملک دوراہے پر کھڑا ہے۔ اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ گھسے پٹے نظام کے ساتھ چلنا ہے یا ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔ وزیراعظم کو پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ سے جتنی سپورٹ ملی ماضی میں اس کی مثال کم
ہے، لیکن اس کے باوجود ان سے حکومت چل نہیں رہی۔ پی ٹی آئی حکومت کی مہنگائی، منی بجٹ اور غلط معاشی پالیسیوں کے خلاف جماعت اسلامی ملک گیر تحریک چلائے گی۔ ساڑھے تین سال میں اس حکومت میں کوئی ایسی قانون سازی نہیں ہوئی جس سے ملک و قوم کو فائدہ ہوا ہو۔ اگر کوئی قانون سازی ہوئی بھی ہے تو وہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ہوئی جس سے ملکی سلامتی سمیت عوام کو بھی نقصان پہنچا۔ حکمران کہتے تھے کہ ہمارے پاس دو سو معاشی ماہرین ہیں۔ وہ کہاں ہیں؟ اسد عمر کو معیشت کا سقراط کہتے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ جس کمپنی میں لگے، اسی کا بیڑہ غرق کیا۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت نے انہیں وزیر خزانہ بنایا۔ وہاں سے ناکامی ہوئی تو حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنایا، اور آج شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنایا ہے۔ یہ پرانے پرزے ہیں جن کو نئی مشین میں لگانے کی ناکام کوششیں ہورہی ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری کے بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اپنے ردِعمل میں کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اب اسٹیٹ بینک آف آئی ایم ایف بن گیا ہے۔ سقوطِ سلطنتِ عثمانیہ اور سقوطِ ڈھاکا کے بعد پاکستان کا معاشی سقوط بہت بڑا سانحہ ہے۔ سقوطِ معیشت کے نتیجے میں پاکستان کے مرکزی بینک کا کنٹرول آئی ایم ایف کے پاس چلا گیا ہے۔