”سر بہت مشکل میں ہوں، روز رات میں بستر گیلا ہوجاتا ہے، اب تو میں تھک گئی ہوں۔ گیارہ سال کا ہوگیا، مار لیا، سمجھا دیا، سب کرکے دیکھ لیا، مگر کوئی فرق نہیں پڑا، کہیں جا نہیں سکتا، کزنز کے ساتھ کہیں کسی کے گھر رات میں رہ نہیں سکتا… پاکی، ناپاکی… رمضان قریب ہے سر! اب مجھ میں ہمت نہیں کہ روز بستر کی چادریں دھوؤں۔ کوئی دوا، کوئی علاج تو ہوگا اس کا!“
گیارہ سال کا بچہ سامنے بیٹھا اپنی ماں کی بے بسی دیکھ رہا تھا۔ اس کے بس میں نہیں تھا کہ کیسے اپنی ماں کی مدد کرے۔ شاید ہوتا تو ضرور کرتا۔
بچے عام طور پر پانچ سال کے بعد رات میں بستر میں پیشاب نہیں کرتے۔ ٹوائلٹ ٹریننگ کے بعد عام طور پر 90 فیصد بچے پانچ سال تک دن کے اوقات میں، اور 80 فیصد تک بچے رات میں بھی کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں، اور جب پیشاب محسوس ہوتا ہے، تو بتاتے ہیں۔
کچھ بچے پہلے ایک مرتبہ یہ کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں اور چند ماہ سب کچھ ٹھیک رہتا ہے، اور کچھ لمبی عمر تک کنٹرول حاصل نہیں کرپاتے۔ جن کا پیشاب پر کنٹرول نہیں ہوتا اُن میں سے 75 فیصد صرف رات میں، اور 25 فیصد دن اور رات دونوں اوقات میں پیشاب پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے۔
رات میں بستر گیلا کرنے والوں میں اکثریت لڑکوں کی ہوتی ہے، 60 فیصد لڑکے اور باقی لڑکیاں۔
عام طور پر خاندان میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کے ساتھ بچپن سے لڑکپن تک اس طرح کے معاملات ہوتے رہے ہیں۔
سائنس دانوں نے کروموسوم پر ان جینز کو اب دریافت کرلیا ہے جو ان مسائل کے ذمے دار ہیں۔
والدین میں سے کوئی ایک اگر رات میں بستر گیلا کرتا رہا ہے تو تقریباً 40 فیصد، اور اگر ماں باپ دونوں ایسا کرتے رہے ہوں تو 70 فیصد سے زائد بچے رات میں بستر گیلا کردیتے ہیں۔
پانچ سال کی عمر کے بعد ہر سال اس طرح کے 15 فیصد بچے اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اور بڑی عمر تک صرف ایک فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بستر گیلا کردیتے ہیں۔
جو لوگ عرصہ دراز سے خشک رہتے رہے ہوں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی تناؤ یا بیماری کے دوران کبھی کبھی وہ بھی اپنے ماضی کی طرح بستر گیلا کردیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر یہ دماغ کے کورٹیکس کا وہ حصہ ہے جو پیشاب کے احساس کو کنٹرول کرتا ہے اور بعض اوقات یہ دیر سے میچور ہوتا ہے۔
نیند سے بیدار ہونے کے مسائل اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن بھی بعض اوقات ذمے دار ہوتے ہیں۔
قدرتی طور پر اس ہارمون (Antidiuretic hormone) کی رات میں کمی جو پیشاب کے اخراج کو قابو میں رکھنے کا ذمے دار ہے، قبض کی شکایت، مثانے میں گنجائش کی کمی، مثانے کا فوری طور پر ایکٹو ہوجانا اور کہیں کہیں نفسیاتی مسائل، رات میں پیشاب ڈائبٹیز اور ڈائبٹیز انسیپیڈس Diabetes) اور (Diabetes insipidis بھی بعض اوقات اس کا سبب ہوتے ہیں۔
عام طور پر رات میں بستر گیلا کرنے کو گہری نیند کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ نیند کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر نیند کا وہ حصہ (Non REM Sleep) جس میں آنکھیں کھول کر دیکھی جائیں تو گھومتی ہوئی محسوس نہیں ہوتیں۔ بچے ویسے بھی گہری نیند سوتے ہیں اور نیند کے اول حصے میں ان کو اٹھانا یا ان کا پیشاب کرنے کے لیے اٹھنا ناممکن ہوتا ہے۔
ہر بیماری کی طرح اِس میں بھی تفصیل سے بچے کی ہسٹری لینی چاہیے، مکمل معائنہ ہونا چاہیے۔ معائنے کے بعد کم از کم ایک مرتبہ رات کے اوقات میں کم پانی کے استعمال کے بعد پیشاب کا ٹیسٹ ہونا چاہیے جو یہ بتا سکتا ہے کہ پیشاب کی کوئی بیماری نہیں ہے، شوگر نہیں ہے، اور گردوں کی پیشاب کو گاڑھا کرنے کی صلاحیت مکمل کام کررہی ہے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف کہ کرنا کیا ہے؟
سب سے پہلے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس میں بچہ بھی بے بس ہے، اس کو خود پتا نہیں چلتا کہ وہ پیشاب کررہا ہے۔ اس لیے اس کے بیدار ہونے کا، جاگ کر باتھ روم جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور اس میں بچے کو مارپیٹ کرنے، اس پر غصہ کرنے، یا برا بھلا کہنے سے کام نہیں چلے گا۔
کچھ تراکیب، کچھ ”ترغیب“، کچھ حوصلہ افزائی اور کہیں کہیں نفسیاتی طور پر مضبوط کرنے سے، اور اگر کچھ نہ ہو تو ادویہ کے استعمال سے اس کی یہ عادت چھڑانی چاہیے۔
شام کے بعد بچے کے مائع (Liquid) کے استعمال کو محدود کردیں۔ شام کے بعد کولڈ ڈرنک، جوسز، اور گلاس بھر بھر کے پانی کے استعمال پر پابندی لگادیں۔
رات سونے سے پہلے اور درمیان میں بھی ایک مرتبہ اٹھاکر باتھ روم لے جانا اپنے اوپر لازم کرلیں۔ اس کے علاوہ الارم سسٹم بستر میں لگایا جاسکتا ہے جو کہ یہ محسوس کرے کہ بستر میں نمی آگئی ہے۔ اگرچہ یہ شاید پاکستان میں موجود نہیں، مگر یورپ میں کسی حد تک کامیاب ہے۔
حوصلہ افزائی کہ جتنی زیادہ خشک راتیں ہوں گی اتنا بڑا انعام ہوگا۔
اگر یہ تمام تراکیب ناکام ہوجائیں تو پھر ماہر ڈاکٹر کے مشورے سے ادویہ کا استعمال کریں جن میں ہارمونل تھراپی، Desmopressin اور دوسری دوا Imipramine شامل ہیں۔ ان کا استعمال صرف ماہر معالج کے مشورے سے کریں کہ جہاں فوائد ہیں وہیں کچھ نقصانات بھی ہوسکتے ہیں۔