چراغِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم

کتاب
:
چراغِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم
مصنف
:
عتیق الرحمن صدیقی
صفحات
:
208 قیمت: 350 روپے
ناشر
:
ادارہ الخدمت اسلامک بکس/شہد سینٹر
54/5A کینال سٹی (ریل ٹائون) نزد ای ایم ای لاہور
فون
:
0304-8510340،0334-4191850

جناب عتیق الرحمن صدیقی اہل اللہ میں سے تھے۔ گورنمنٹ کالج ہری پور ہزارہ کے پرنسپل تھے۔ ان کے والد حضرت مولانا حیدر زماں صدیقی بھی اہل اللہ اور اہلِ علم میں سے تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ ان کی کتابیں ’’اسلام کا نظریۂ اجتماع‘‘، ’’اسلام کا نظریۂ جہاد‘‘ ’’تعمیری انقلاب اور قرآنی اصولِ حکمت‘‘ اور ’’عہدِ نبوت کے مسائل اور عہد حاضر‘‘ جماعت کے مکتبہ سے چھپتی تھیں، اب ادارہ ترجمان القرآن اردو بازار لاہور سے شائع ہورہی ہیں۔ اس گراں قدر کتاب میں صدیقی صاحب نے دینِ اسلام کے مختلف گوشوں پر بڑی عمدگی سے روشنی ڈالی ہے، گویا صراطِ مستقیم کو واضح کیا ہے، اور تعلیماتِ اسلامی کو اس خوبی سے واضح کیا ہے کہ ان پر عمل سہل ہوجائے اور مومن اللہ جل شانہٗ کے رنگ میں رنگ جائے اور اللہ کی آزمائش پر پورا اترے۔
عتیق الرحمن صدیقی تحریر فرماتے ہیں:
’’معاشرے کو فطرت پر قائم رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ دعوت، تبلیغ اور انذار و تبشیر کے عمل کا تسلسل قائم رہے۔ اقامتِ دین کے لیے کوششیں اور کاوشیں جاری رہیں۔ اس عمل کے منقطع ہوجانے، سرد پڑجانے یا اس میں اختلال آجانے سے نظامِ معاشرت بگڑنے لگتا ہے۔ طرح طرح کے مفاسد رونما ہونے لگتے ہیں۔ انتشار، خلفشار اپنی انتہائوں کو پہنچتا ہے، اور یوں معاشرے کا امن و سکون اور راحت و اطمینان غارت ہوکر رہ جاتا ہے۔ اہلِ ایمان کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر لحظہ چوکنا اور ہوشیار رہیں، شیطانی قوتوں کے رجل، فریب اور دام ہائے تزویر کے تار و پود بکھیرنے کے لیے مومنانہ فراست و ذکاوت سے کام لیں، حکیمانہ انداز اپناکر باطل کو سرنگوں کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ اس سلسلے میں تھوڑا سا تساہل، تغافل بھی بھیانک نتائج پر منتج ہوتا ہے۔ اہلِ باطل کی دسیسہ کاریوں کو بھانپ کر اُن سے رزم آرا ہونے کے لیے نہ صرف انفرادی طور پر، بلکہ اجتماعی صورت میں ایک مضبوط حصار قائم کرنے کے لیے حکمت و تدبر کے ساتھ منصوبہ بندی لازمی اور ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جسے جو صلاحیت ودیعت کی ہے اسے کلمۃ اللہ ہی العلما کی معنویت کو بروئے کار لانے میں صرف کرنا چاہیے۔
اس نہایت اہم مشن کا اقتضا یہ ہے کہ ہم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص اللہ کی کتاب کی پیروی کرے گا وہ نہ تو دنیا میں بے راہ ہوگا اور نہ آخرت میں اس کے حصے میں محرومی آئے گی‘‘۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: فمن اتبع ہدی یعنی جو شخص میرے ہدایت نامے کی پیروی کرے گا وہ نہ تو دنیا میں بھٹکے گا اور نہ آخرت میں بدبختی سے دوچار ہوگا (مشکوٰۃ)۔ کتاب اللہ کی پیروی کے ساتھ ضروری ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوبِ دعوت کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھیں اور آپؐ کے نقوشِ سیرت کا اتباع کرتے ہوئے اپنے نظامِ معیشت و معاشرت اور سیاست و تعلیم کو شریعت کے اصولوں پر استوار کریں۔
یوں امتِ مسلمہ اپنی غایتِ وجود کا صحیح معنوں میں ادراک کرسکتی ہے۔ خیرِامت ہونے کے ناتے سے اس کی بقا کا انحصار اس امر پر موقوف ہے کہ وہ دینِ حق کو قائم کرنے اور اسے قائم رکھنے کا فرض بحسن و خوبی نبھاتی رہے، حق کی شہادت دینے، معروف کا حکم کرنے اور منکر سے روکنے کے لیے سرگرم عمل رہے۔
زیر نظر کتاب میرے اُن چند مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً ملک کے مؤقر جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں، ان کے عنوانات یقینا مختلف ہیں مگر ان سب میں ایک ہی روح تابندہ وضوفشاں اور ایک ہی رنگ نمایاں ہے: صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ۔
ہم نے ان مضامین میں جہاں سید مودودیؒ کی معرکہ آرا تفسیر ’تفہیم القرآن‘ سے استفادہ کیا ہے، وہاں دوسری نہایت اہم تفاسیر ابن کثیر، تفسیر عثمانی، معارف القرآن، ضیا القرآن اور تدبر قرآن بھی ہمارے پیش نظر رہی ہیں۔ دوسری جن کتب سے ہم نے اخذ و استفادہ کیا اُن کا حوالہ درج کردیا گیا ہے۔
اس کتاب کی ترتیب و تدوین میں محبّ گرامی جناب ارشاد الرحمن نے جس محبت اور اخلاص سے معاونت فرمائی اس پر میں دل کی گہرائیوں سے ان کا شکر گزار ہوں‘‘۔
جناب ارشاد الرحمن سابق مدیر ہفت روزہ ’ایشیا‘ منصورہ لاہور اور اب اقبال اکیڈمی لاہور رقم طراز ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کو ماننا، مان کر اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا، اور پھر اس تسلیم و رضا کی روش کی طرف انسانیت کو بلانا انبیا کا شیوہ رہا۔ انسانِ اوّل ہی سے اطاعت و عبادت کی روایت جاری ہے اور قیامِ قیامت تک جاری رہے گی۔ جناب آدمؑ کو اس روایت کو دوسروں تک منتقل کرنے کی ذمہ داری بھی عطا ہوئی، جس کا اختتام جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت پر ہوا۔
رسالت و نبوت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کو جس اہتمام سے محفوظ کرنے کا سامان قدرت کی طرف سے ہوا، اس کا اظہار سابقہ شریعتوں کے ضمن میں نظر نہیں آتا۔ ابدی رسالت ہونے کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اس کی صورت محفوظ رہے۔ لہٰذا یہ تقاضا اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پورا کیا۔
صحرائے عرب سے نکل کر یہ رسالت جب دیگر اطرافِ ارضی میں پھیلی تو عرب ہی کی طرح بیرونی دنیا کے لیے راحت و سکون کا باعث بنی۔ پھر انسانیت نے اس پیغامِ امن کی جو بہاریں مشاہدہ کیں اس کی شہادت اس پیغام کو نہ ماننے والوں نے بھی دی۔
آج بھی دنیائے انسانیت اس بہار آفریں ساعت کو دیکھنے کی متمنی ہے۔ مساعی اور کاوشیں جاری ہیں۔ جہاں اور جب قدرت کو منظور ہوا ان کے ثمربار ہونے کو کوئی روک نہیں سکے گا۔ لیکن اس جاں فزا منظر کو دیکھنے کی آرزو دل میں پالنے کے ساتھ ساتھ ان اہلِ جہدو مساعی کو اپنی ایمانی و عملی کیفیات کو صیقل کرتے رہنا بھی نہایت ضروری ہے۔ ایک سرسری اور ابتدائی نظر میں اس کے چند پہلو وہ ہیں جن کو ایمان، عمل، دعوت اور تزکیہ کے ناموں سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ ان چار الفاظ کے تحت موضوع کو سمیٹنے کی اگر کوشش کی جائے تو اس کے لیے بھی زندگی درکار ہوگی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جسے جتنی ہمت، طاقت اور توفیق مرحمت فرماتا ہے وہ اس کے مطابق مذکورہ نکات کو اپنے عقیدہ و عمل میں جگہ دے کر اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ انسانی کاوش خواہ کتنی بلند سطح پر مکمل کیوں نہ کی جائے، اس کی کاملیت واکملیت کا دعویٰ پھر بھی محلِ نظر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاوش کرنے والا کبھی یہ دعویٰ کرتا نہیں ہے کہ اس نے جو کیا ہے اس کے سوا اور کچھ ہے نہیں جو بیان کیا جائے۔
یہ اعترافِ ناتمامی بھی اللہ تعالیٰ ہی کا انعام ہے۔ اسی لیے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ہر کوئی اپنا وظیفہ انجام دینے کی کوشش کرتا ہے اور نتیجہ اللہ قادرِ مطلق کے حوالے کردیتا ہے۔ یہ سب احساسات و کیفیات انہی چار الفاظ کے بہت معمولی اظہار ہیں جن کو اوپر ایمان، عمل، دعوت اور تزکیہ کے ناموں سے بیان کیا گیا ہے۔
ایمان… جو بنیاد ہے اُن تمام انسانی مساعی اور اعمال کی، اس کا منبع اور مصدر اللہ و رسولؐ ہیں۔ انہی اللہ و رسول نے ایمان کے اہم مطالبات، اہلِ ایمان کی خصوصیات اور ان کے اوصاف بیان کیے ہیں۔
ایمان کا جب یہ قدرے انفرادی سا دائرہ مکمل ہوتا ہے تو اس کو کچھ وسیع کرنے کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے جسے دعوت و تذکیر اور ابلاغ و تبلیغ کا نام دیا جاتا ہے۔
ایمان و دعوت کے اس دائرے کے اندر ہی ایک اور دائرہ بھی تشکیل پاتا ہے جو دراصل اس کردار کی مسلسل حفاظت، نگرانی، تربیت اور بہتری کا عمل انجام دیتا ہے۔ یہ دائرہ تزکیہ، تربیت اور احسان جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے۔
مذکورہ دائرے الگ الگ ہیں نہ ان کو جدا جدا کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ ایک دوسرے میں پیوست ہیں، ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں، ایک دوسرے کی تشکیل میں معاون و مددگار ہیں۔
زیر نظر کتاب ’’چراغِ مصطفویؐ‘‘ کے اندر جناب عتیق الرحمن صدیقی نے ایمان، عمل، دعوت اور تزکیہ کے انہی دائروں کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب کے اسلوب اور مشتملات سے میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مصنف نے پوری ذمے داری اور دردمندی کے ساتھ مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے پیش نظر ہم سب کی دنیاو آخرت کی بہتری ہے۔ انہوں نے ایمان و عمل کی جو تصویر اللہ و رسولؐ کی تعلیمات میں دیکھی اُس کو اپنے معاشرے میں بھی جلوہ افروز دیکھنا چاہتے ہیں۔
مصنف نے متعدد مصادر و ماخذ سے خوشہ چینی کرکے ان دائروں میں رنگ بھرنے کی اپنی آبائی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ اپنے وقت کے مستند عالمِ دین مولانا حیدر زماں صدیقی کے فرزند ہونے کے ناتے مصنف نے اُن کی علمی میراث کے وارث ہونے کا حق زندگی بھر ادا کرنے کی کوشش کی۔ تعلیم و تدریس کی گزرگاہوں میں آبلہ پائی کرتے ہوئے پرنسپل کے عہدے سے سرفراز ہوکر ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔ والدِ گرامی کا سایۂ عاطفت تو بچپن ہی میں اٹھ گیا تھا لیکن والدہ محترمہ کے عزم و ارادے اور اللہ کی عنایت و رحمت نے ان کا دامن تھامے رکھا، اور موصوف علمی راہ پر چلتے رہے۔ رسمی تدریس سے فارغ ہوئے تو غیر رسمی تدریس سے وابستہ ہوگئے جس سے پہلے بھی کنارہ کش نہ تھے۔ عمر کے اس حصے میں بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا جذبہ و عمل بیدار کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ممکن ہوتا ہے، اور اس جذبے کو مثبت سرگرمیوں کے لیے عمل کا محرک بنانا یقیناً باعثِ اجر ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی تمام تصنیفی کاوشوں کا انہیں بہترین اجر عطا فرمائے اور پڑھنے والوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنائے‘‘۔
جن موضوعات پر مضامین کتاب میں شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
’’اللہ تعالیٰ۔ غالب اور حکیم‘‘، ’’نبیِ رحمت۔ محسنِ انسانیتؐ‘‘، ’’قرآن حکیم۔ اللہ کا دل نشین و دلآویز پیغام‘‘، ’’اللہ پر ایمان۔ تین اہم مطالبات‘‘، ’’اہلِ ایمان کی خصوصیات‘‘، ’’ایمان والوں کے اوصاف‘‘، ’’ایمان اور استقامت‘‘، ’’دعوت و تذکیر‘‘، ’’داعیِ حق اور اخلاصِ عمل‘‘، ’’داعیِ حق اور نمود و نمائش سے گریز‘‘، ’’داعیِ حق اور تحمل و برداشت‘‘، ’’عالم اور اللہ کا خوف‘‘، ’’خالص وفاداری اور خیر خواہی‘‘، ’’قلبِ سلیم۔ دغا اور کھوٹ سے پاک دل‘‘، ’’احسان۔ اخلاصِ عمل اور حسنِ عبادت‘‘، ’’تکبر۔ رزائلِ اخلاق کا سرچشمہ‘‘، ’’اللہ کی حدیں۔ شریعت کے احکامات‘‘، ’’اسلام اور جاہلیت‘‘، ’’اسلام کا تصورِ تفریح‘‘، ’’فساد کے عوامل‘‘
صدیقی صاحب کی دوسری کتب یہ ہیں:
پھول پھول خوشبو، خیالوں کی مہک، نقوشِ سیرتؐ، تعلیمی مباحث، شوقِ حرم، آدابِ خود آگاہی۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔