زمانۂ قدیم میں جب چھپائی کا رواج نہیں تھا، کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔ آج ایسی کتابوں کو ’’مخطوطہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح ہر کاپی کی تیاری میں بہت وقت لگتا تھا اور اسی وجہ سے ان کی قیمت بہت زیادہ ہوتی تھی۔ بعض دفعہ کوئی مخطوطہ کسی شہر میں دستیاب نہ ہوتا تھا تو علم کے عاشق دوسرے شہروں بلکہ ملکوں کا سفر کرتے تھے۔ اس مقصد سے لوگوں نے مشرقِ عربی سے مغربِ عربی بلکہ اندلس تک کا سفر کیا۔ چھاپہ خانہ اگرچہ فرانس اور جرمنی میں 1439ء میں ایجاد ہوچکا تھا، لیکن ’’فتووں‘‘ کی وجہ سے 1729ء تک سلطنتِ عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس پر نہ صرف پابندی تھی بلکہ پرنٹنگ پریس استعمال کرنے کی سزا موت تھی۔ اس میں اُن لاکھوں خطاطوں کا بھی دخل تھا جن کی روزی روٹی پرنٹنگ پریس کی وجہ سے متاثر ہورہی تھی۔ بہرحال مشرقِ وسطیٰ اور ہندوستان میں یہ بمشکل اٹھارہویں صدی کے وسط میں پہنچا اور دھیرے دھیرے اخبارات و رسائل کے ساتھ کتابیں بھی پریس میں چھپنے لگیں۔ چھپائی کی ٹیکنالوجی میں بھی بتدریج ترقی ہوتی رہی، اور اب حالت ڈیجیٹل پرنٹنگ تک آپہنچی ہے جس میں آپ کسی کتاب کا صرف ایک یا چند نسخے بھی چند گھنٹوں میں چھپوا سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل پرنٹنگ سے چھپی ہوئی کتاب عام طور سے پرنٹنگ پریس میں چھپی ہوئی کتابوں سے کسی طرح کمتر نہیں ہوتی، اور اگر صرف چند کاپیاں ہی مطلوب ہوں تو لاگت بہت کم آتی ہے۔
پرنٹنگ دنیا کے روزافزوں انقلاب کے ساتھ ساتھ 1970ء کی دہائی میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی شکل میں ایک اور انقلاب آیا جس نے معلومات کے حفظ و ترتیب و تخزین و ترسیل میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا جس کا پہلے کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جہاں کمپیوٹر نے معلومات کی ترتیب و تخزین کو انقلابی حد تک آسان کردیا، وہیں انٹرنیٹ کی وجہ سے ڈیجیٹل شکل میں مواد کی ترسیل سیکنڈوں میں دنیا کے کسی حصے سے دوسرے حصے تک ہونے لگی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے مواد ویب سائٹس پر ڈالا جانے لگا جسے چشم زدن میں دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی پڑھ سکتا ہے، اور اسی کے واسطے بذریعہ ای میل خط کتابت اور ترسیلِ معلومات کا برق رفتار اور انتہائی سستا وسیلہ بھی ایجاد ہوگیا۔ بیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی عام ہوگئی اور اب تقریباً ہر یونیورسٹی، لائبریری اور ہر ادارے بلکہ بہت سے اشخاص کی بھی ذاتی ویب سائٹ موجود ہے جس پر کروڑوں صفحات کا مواد دستیاب ہے اور جن تک گوگل اور اسی طرح کے دوسرے سرخ انجنوں کے ذریعے سیکنڈوں میں بآسانی رسائی ہوسکتی ہے۔
جہاں ساری دنیا نے اس انقلاب کا فائدہ اٹھایا وہیں عربوں اور مسلمانوں نے بھی اپنے مذہب، زبانوں، ادب، تاریخ اور فنون و ثقافت وغیرہ کے بارے میں انٹرنیٹ پر بہت بڑا ذخیرہ منتقل کردیا ہے۔ تمام امہات الکتب آج ڈیجیٹلائزڈ کرکے انٹرنیٹ پر ڈال دی گئی ہیں جن تک رسائی اب صرف چند سیکنڈوں میں ہوجاتی ہے، جبکہ اچھی سے اچھی لائبریری میں بھی کسی مطبوعہ کتاب کو پانے میں پانچ، دس منٹ تو بہرحال لگ ہی جاتے ہیں۔ اگر مطلوبہ مواد یونی کوڈ (Unicode)، جس کا پورا نام یونی کوڈ اسٹینڈرڈ ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا حصہ ہے جس کے تحت ہر ٹائپ شدہ حرف کو ایک کوڈ میں بدل دیا جاتا ہے تو اس طرح محفوظ کیے گئے کسی مواد کو جب بھی کسی دوسرے کمپیوٹر پر کھولا جائے گا تو وہاں اس کی اصل مطلوبہ شکل نظر آئے گی۔ یہ عمل اب تک دنیا کی 159 قدیم و جدید زبانوں کے لیے بنایا جاچکا ہے جس میں عربی اور اردو بھی شامل ہیں، بشرطیکہ ان کو مذکورہ اسٹینڈرڈ سے میل کھانے والے پروگرام میں ٹائپ کیا جائے جیسے MS-Word اردو اِن پیج میں ٹیکنالوجی سے میل نہیں کھاتا، اس لیے اس میں محفوظ کیا گیا مواد یونی کوڈ کے طور سے نہیں بھیجا جاسکتا، البتہ ان کو اِن پیج میں ہی یا پی ڈی ایف میں تبدیل کرکے بطور تصویر بھیجا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اسے کسی دوسرے کمپیوٹر پر صرف اِن پیج میں یا بطور تصویر ہی کھولا جاسکتا ہے جس سے ایسے مواد کی افادیت بہت کم ہوجاتی ہے۔ یا پی ڈی ایف (Pdf یعنی پورٹیبل ڈاکیومنٹ فارمیٹ کسی ٹائپ شدہ مواد کو ایسی فائل میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کو بدلانہ جاسکے لیکن اسے ای میل سے بطور اٹیچمنٹ بھیجا جاسکے اور کہیں بھی اور کسی بھی پرنٹر پر اسے ہوبہو طبع کیا جاسکے) کی شکل میں ہو (یعنی تصویری شکل میں نہ ہو) تو اس میں کسی لفظ کو تلاش کرنے کی بھی سہولت ہوتی ہے جس سے ریسرچ اسکالرز اور پڑھنے والوں کی مشکل اور بھی آسان ہوجاتی ہے۔ لاکھوں کتابیں، مخطوطات، دنیا کے تمام اہم مجلات اور کروڑوں دستاویزات آج انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ پی ایچ ڈی کے مقالے بھی اکثر یونیورسٹیاں اپنی ویب سائٹ پر پی ڈی ایف کی شکل میں ڈال دیتی ہیں جس کی وجہ سے آپ بلاوجہ کے خرچ اور وقت کے ضیاع دونوں سے بچ جاتے ہیں۔
اسی طرح کتابوں، مخطوطات کے فوٹو اور مقالات کا حصول پہلے نہ صرف بہت مہنگا تھا بلکہ اس میں خاصا وقت بھی لگتا تھا، کیوں کہ اس وقت تک انٹرنیٹ یا تو ایجاد ہی نہیں ہوا تھا، یا ایجاد ہونے کے بعد بھی عام نہیں ہوا تھا۔
آج جو کتابیں لائبریریوں میں یا ویب سائٹس پر موجود ہیں، ان تک رسائی بھی انٹرنیٹ کے ذریعے بہت تیزی سے کی جاسکتی ہے اور پورے پورے صفحات کو نہ صرف با آسانی پڑھا جاسکتا ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر ایک بٹن دبانے پر انہیں پرنٹ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پوری کتاب یا دستاویز کو اپنے کمپیوٹر میں محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے تاکہ بعد میں اس سے مزید آسانی سے استفادہ کیا جاسکے۔
جس وقت میں نے 1992۔1991ء کے دوران اپنی کتاب ’’دلیل المباحث‘‘ (اردو ترجمہ: ’’اصولِ تحقیق‘‘) لکھی تھی اُس وقت تک انٹرنیٹ عام نہیں ہوا تھا۔ لیکن اکیسویں صدی کے آتے آتے اب یہ سوچنا بھی محال ہے کہ انٹرنیٹ سے استفادہ کیے بغیر کوئی ریسرچ کی جاسکتی ہے، بلکہ بعض یونیورسٹیوں نے شرط لگادی ہے کہ ریسرچ میں انٹرنیٹ کے مآخذ کو استعمال کرنا ضروری ہے۔ ’’اصولِ تحقیق‘‘ کا دوسرا ایڈیشن 2007ء میں چھپا۔ اُس وقت تک انٹرنیٹ پر یہ انقلاب آچکا تھا اور تب تک خاصا ذخیرہ بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے لگا تھا، لیکن مشغولیت اور وقت کی کمی کی وجہ سے یہ کمی اُس وقت پوری نہیں کی جاسکی۔ اب اس کمی کو ایک حد تک پورا کیا جارہا ہے۔
پچھلی تین دہائیوں میں انٹرنیٹ پر ہزاروں ویب سائٹس پر لاکھوں کتابیں، مقالات، دستاویزات، آڈیو (صوتی)، ویژول (بصری) فائلیں اور تصویریں وغیرہ ڈالنے کے ساتھ دسیوں سرچ انجن بھی وجود میں آگئے جو اِن سب ویب سائٹس سے مطلوبہ مواد سیکنڈوں میں تلاش کرکے آپ کی اسکرین پر ڈال دیتے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور اور سب سے زیادہ استعمال میں آنے والا سرچ انجن Google ہے جو ہر کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون پر انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ دستیاب ہے۔ گوگل کے علاوہ صرف اکیڈمک موضوعات کی تلاش کے لیے مندرجہ ذیل سرچ انجن بھی بہت کار آمد ہیں:
Lib Guides Community
Academic Info
Deep Dyve
Archival Research Catalogue
BASE
Refseek
Citeulike
The Virtual LRC
Infomine
Sweet Search
Infotopia
Google Scholar
اگر آپ کو کسی مواد کی ویب سائٹ معلوم ہے تو سیدھے اسے کھولیے، ورنہ گوگل یا اسی طرح کے کسی دوسرے سرچ انجن میں اپنا مطلوبہ سوال ٹائپ کرکے انٹر دبا دیجیے۔ اگر آپ کو انٹرنیٹ اچھی رفتار میں دستیاب ہے تو صرف چند سیکنڈوں میں آپ کو جواب مل جائے گا۔ کتاب کا نام، مصنف کا نام یا موضوع ٹائپ کرنے سے بھی آپ کو صحیح جواب فوراً ملے گا۔ یہ سہولت ہر زبان میں دستیاب ہے۔ اس میں اردو زبان بھی شامل ہے۔ یہ سہولت ٹائپ شدہ مواد کے ڈیجیٹل یا یونی کوڈ ہونے کی وجہ سے جس میں آپ کے پوچھے ہوئے سوال یا تحریر کی تصویر نہیں بنتی ہے بلکہ اس کی الیکٹرانک ڈیجیٹل ترسیل ہوتی ہے جس میں اچھے انٹرنیٹ کنکشن ہونے کی صورت میں صرف چند سیکنڈ لگتے ہیں۔
کچھ اہم عمومی ذخائر
مندرجہ ذیل ذخائر عمومی نوعیت کے ہیں اور ان میں مختلف زبانوں کے ذخائر ہیں بشمول عربی، فارسی اور اردو۔ لیکن یہ ذخائر زیادہ تر یورپین زبانوں میں ہیں اور سب سے زیادہ انگریزی میں ہیں۔ ان کی اکثر کتابوں کو مفت ڈائون لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن نئی یا بہت مہنگی کتابیں اور مآخذ جیسے انسائیکلوپیڈیا آف اسلام (لائیڈن) کے لیے ممبر شپ فیس دینی ہوتی ہے، جن کا اشتراک بالعموم بڑی اور یونیورسٹی لائبریریاں اپنے ممبرز کے لیے لیتی ہیں:
گوگل بکس (Google Books): یہ فی الحال انٹرنیٹ پر کتابوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے اور اس کی ویب سائٹ پر 40 ملین کتابیں دستیاب ہیں، اور کچھ کتابوں کے پیسے بھی ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اس کا انٹرنیٹ پتا یہ ہے:
https//books.google.com
لائبریری آف کانگریس کی ڈیجیٹل لائبریری: امریکی حکومت کی لائبریری آف کانگریس دنیا کی سب سے بڑی اور ذخائر سے مالامال لائبریری ہے۔ اس نے قدیم کتابوں کی یہ ویب سائٹ بنائی ہے جو بے مثال ہے۔ اس میں ایک حصہ ’’افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ‘‘ کا بھی ہے جہاں بہت اہم کتابیں اور مخطوطات دستیاب ہیں۔ لائبریری آف کانگریس اس کام کو مصر کی مشہور اسکندریہ لائبریری اور عراق کی قومی لائبریری کی مدد سے کررہی ہے۔ اس کی ویب سائٹ کا پتا مندرجہ ذیل ہے:
https://www.loc.gov/collections
اوپن لائبریری: اس کے آرکائیو میں تقریباً 15 لاکھ کتابیں مختلف زبانوں میں دستیاب ہیں۔ انٹرنیٹ پر مفت کتابیں پڑھنے کا یہ سب سے مقبول ذریعہ ہے۔ اس کا پتا یہ ہے:
https://openlibrary.org/
پروجیکٹ گوٹنبرگ: اس الیکٹرانک لائبریری میں 28 اکتوبر 2021ء کو 586,046 کتابیں تھیں جن میں 88,758 کتابیں مفت دستیاب تھیں۔ مفت کتابوں کے لیے Free books کے آئیکون پر کلک کریں۔ اس میں ادبی، شعری، کلاسیک، رومانس کتابیں اور ذاتی سوانح عمریاں ہیں۔ اس کا پتا یہ ہے:
https://www.smashwords.com
انٹرنیٹ آرکائیو (Internet Archive): یہ ایک بغیر منافع (نان پرافٹ) تنظیم کی ویب سائٹ ہے جس میں ڈیجیٹل شکل میں 28 ملین کتابیں، فائلیں اور دستاویزات وغیرہ موجود ہیں۔ اس پر اپنے من پسند موضوعات کی کتابوں کو تلاش کرنے کی سہولت موجود ہے۔ آپ اپنا پسندیدہ مواد اس ویب سائٹ پر اَپ لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔ اس کا پتا یہ ہے:
https://archive.org
24 سیمبلز:اس ویب سائٹ پر پانچ لاکھ ای بکس ہیں۔ اگرچہ یہ ویب سائٹ استعمال کرنے والوں سے زرِتعاون لیتی ہے مگر اس پر کتابوں کو مفت پڑھنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ مصنف، زبان، موضوع وغیرہ کے لحاظ سے مطلوبہ کتاب کو تلاش کرنے کی سہولت بھی اس میں موجود ہے۔ اس کا پتا یہ ہے:
https://www.24symbols.com
بک بب: یہ ویب سائٹ مفت ہے اور اس میں اکائونٹ کھول کر نئی کتابوں کو پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ ویب سائٹ کتابیں بہت سستے دام میں خریدنے کی بھی رہنمائی کرتی ہے۔ اس کا پتا یہ ہے:
https://www.bookbub.com/welcom
مینی بکسMany Books: اس ویب سائٹ پر 30 ہزار سے زیادہ کتابیں ڈائون لوڈ کرنے کے لیے موجود ہیں، جس میں پرانی اور نئی ہر طرح کی کتابیں بالخصوص ادبی نگارشات اور ناول شامل ہیں۔ اس میں ڈیجیٹل کتابوں کو سستے دام میں خریدنے کی بھی سہولت ہے۔ اس ویب سائٹ کا پتا حسب ذیل ہے:
https://manybooks.net/
اُوَر ڈرائیو(Overdrive): اس ویب سائٹ کے ذریعے سیکڑوں موضوعات پر لاکھوں کتابوں کی ای بکس (E-Books یعنی الیکٹرانک بک یا الیکٹرانک کتاب جو ڈیجیٹل شکل میں ہو یعنی چھپی ہوئی کتاب کی شکل میں نہ ہو بلکہ الیکٹرانک فارم میں ہو جس کو لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور موبائل فون یا کینڈل (Kindle) جیسے آلے کی اسکرین پر پڑھا جاسکے۔ ای بک کبھی کبھی ایک چھپی ہوئی کتاب کا الیکٹرانک ایڈیشن ہوتی ہے اور کبھی قائم بالذات ہوتی ہے یعنی اس کا کوئی مطبوعہ ایڈیشن نہیں ہوتا۔ بہت سے اخبارات نے بھی اسی طرح اپنا ای پیپر Epaper) یعنی الیکٹرانک ایڈیشن بھی نکالنا شروع کردیا ہے جو ہوبہو مطبوعہ ایڈیشن کی شکل کا ہوتا ہے۔ یہ قانونی طور سے مفت حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس میں صرف وہ کتابیں ہی شامل نہیں ہیں جو پبلک ڈومین (Public Domain یعنی انٹرنیٹ پر موجود وہ کتابیں یا مواد جن کا کوئی کاپی رائٹ نہیں ہے یا ان کو استعمال کرنے پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے) میں ہیں، بلکہ ایسی کتابیں بھی شامل ہیں جو ابھی حال میں شائع ہوئی ہیں یعنی جن پر کاپی رائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کے لیے طالب علم ہونا یا کسی پبلک لائبریری کا ممبر ہونا شرط ہے۔ اس میں صوتی کتابوں (audio books) یعنی آواز میں ریکارڈ کی ہوئی کتابوں کو سننے کی بھی سہولت ہے۔ اس ویب سائٹ کا پتا حسب ذیل ہے:
https://www.overdrive.com/
(جاری ہے)