موسمی آفتیں:ہمارے ذرائع پیداوار کیا ہیں؟

(چوتھا اور آخری حصہ)
ایک اور چیز اسمارٹ بن (smart bin) ہے، جو کسی گھر یا دفتر میں ضایع ہونے والی خوراک رپورٹ کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ کتنی وہ خوراک پھینک دی گئی ہے جوکسی کا پیٹ بھرسکتی تھی۔ یہ ’’اسمارٹ بن‘‘ خوراک کے زیاں کے ساتھ لاگت کا نقصان بھی ظاہرکرتا ہے، اور یہ کہ ضایع شدہ یہ خوراک کتنے کاربن کے اخراج کا سبب ہے۔ یہ صارفین کے رویّے میں بہتری لاسکتا ہے۔
چند سال پہلے میں تنزانیہ دارالسلام کے ایک وئیر ہاؤس میں داخل ہوا، وہاں میں نے کچھ ایسا دیکھا کہ تھرا گیا، ہزاروں ٹن کیمیائی کھاد کے پہاڑکھڑے تھے۔ یہ گودام کھاد کی تقسیم کا مرکز تھا۔ یہ مشرقی افریقا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا گودام تھا۔ اس گودام کا چکر لگایا، اُن مزدوروں سے کچھ باتیں کیں جوتھیلوں میں نائٹروجن، فاسفورس، اور دیگر اجزا ملی کھاد بھررہے تھے، اور یہ ساری کھاد افریقا کے غریب ترین خطوں کی زمین پرفصل بونے والی تھی۔ میں جانتا ہوں یہ کہنا سادگی ہوا کہ کھاد ایک جادوئی چیز ہے، جو ہمارے باغات اور آنگن کو ہرا بھرا کردیتی ہے۔ کیمیائی کھاد زراعت میں ایک ایسا انقلاب ہے جس نے 1960s اور1970sمیں دنیا کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایک تخمینہ یہ لگایا جاتا ہے کہ اگر کیمیائی کھاد نہ بنائی جاتی تو دنیا کی آبادی چالیس سے پچاس فیصد گھٹ چکی ہوتی۔
غرض، تنزانیہ کے ’یارا‘ گودام کے دورے سے میں خاصا لطف اندوز ہوا۔ دنیا خاصی کیمیائی کھاد استعمال کرتی ہے، اور غریب دنیا کچھ زیادہ ہی استعمال کرتی ہے۔ میں جس زرعی انقلاب کی بات کررہا ہوں، اسے ’’سبز انقلاب‘‘ بھی کہتے ہیں۔
یہ کھاد اتنی جادوئی کیوں ہے؟ اس لیے کہ یہ فصل کو ضروری غذائیت سے بھرپور بناتی ہے۔ اس میں فاسفورس، پوٹاشیم، اور خاص طور سے وہ جو بدلتے موسم سے متعلق ہے: نائٹروجن شامل ہوتی ہے۔ نائٹروجن مرکب نعمت ہے۔ یہ photosynthesis (وہ عمل کہ جس میں پودے سورج کی توانائی کو کیمیائی توانائی میں ڈھال دیتے ہیں) سے قریبی تعلق میں ہے۔ مگر نائٹروجن ماحولیاتی تبدیلی پر بہت زیادہ برا اثر ڈالتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمیں یہ جاننے کے لیے سمجھنا ہوگا کہ یہ پودوں پرکس طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ کاشت کاری کے لیے ہمیں ٹنوں نائٹروجن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سے مکئی کی فصل دس گنا زائد پھلتی پھولتی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں بیج پیدا کرتی ہے۔ اکثر پودے اپنی نائٹروجن خود پیدا نہیں کرتے بلکہ زمین میں موجود امونیا سے حاصل کرتے ہیں، جہاں سے یہ کئی خورد نامیہ (microorganisms)کے ذریعے خلق ہوتے ہیں۔ ایک پودا اُس وقت تک نشو ونما پاتا رہتا ہے جب تک اُسے نائٹروجن ملتی رہتی ہے۔ جوں ہی نائٹروجن ملنا بند ہوتی ہے، پودا مرجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پیداوار میں مسلسل اضافے کا سبب ہے۔
ہزار سال سے انسان فصلوں کو قدرتی ذرائع کھاد، گوبر اور پرندوں کی بیٹ سے بھرپور نائٹروجن مہیا کرتے رہے ہیں۔ پہلی بڑی تبدیلی 1908ء میں آئی جب دو کیمیا دانوں فرٹز ہیبر اورکارل بوچ نے کارخانے میں نائٹروجن سے امونیا بنانے کی راہ نکالی۔ اُن کی اس برمحل جدت کی قدردانی قدرے مشکل ہے۔ یہ اب ہیبربوچ پراسیس کہلاتا ہے، یہ مصنوعی کھاد کی پیداوار ممکن بناتی ہے۔ اس طرح اناج کی پیداوار بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہی امونیا کی تیاری کا اب تک رائج طریقہ ہے۔ واضح رہے کہ جب ہم مصنوعی کھاد مٹی میں شامل کرتے ہیں تو زمین کے قدرتی نامیاتی اجزا نائٹروجن کی بو پالیتے ہیں اور پھر اپنی پیداوارکا عمل روک دیتے ہیں۔
مصنوعی کھاد کے استعمال سے اس کے علاوہ بھی کئی نقصانات سامنے آتے ہیں۔ اس کی تیاری میں ہمیں امونیا پیدا کرنی پڑتی ہے، ایک ایسا عمل جو حرارت مانگتا ہے جو ہم قدرتی گیس جلا کر حاصل کرتے ہیں، اور یہ گرین ہاؤس گیس خارج کرتی ہیں۔ کاشت کاری کے بعد بہت ساری نائٹروجن پودے میں جذب نہیں ہوتی، اورآلودگی کا سبب بنتی ہے۔
مصنوعی کھاد کی پیداوار سال 2010ء میں1.3 بلین ٹن گیس اخراج کی وجہ بنی تھی، جو اب غالباً وسط صدی تک 1.7بلین ٹن تک چلی جائے گی۔
بدقسمتی سے اس مرحلے پر اس معاملے میں صفر کاربن کی کوئی متبادل صورت نظر نہیں آرہی۔
یہ سچ ہے کہ ہم گیس کے اس اخراج کو صاف بجلی کے استعمال سے ختم کرسکتے ہیں، مگر یہ بہت مہنگا سودا ہے۔ اس سے کھاد کی لاگت بہت بڑھ جائے گی۔ امریکہ میں یہ اضافہ 20 فیصد سے زائد ہوگا۔ نائٹرس آکسائیڈ کو فضا سے مٹانے کا بھی ابھی کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صفر کاربن کھاد کے لیے گرین پریمیم کا تعین ممکن نہیں۔ یہ تعین بہت اہم ہے کہ جو ہمیں کسی متبادل کی راہ سجھاتا ہے۔
سب کچھ جو آپ نے پڑھا ہے، اسے غالباً کاشت کاری سے 70 فیصد گیس کا اخراج کہا جاسکتا ہے۔ باقی 30 فیصد کا اخراج جنگلات کی کٹائی کے سبب ہے۔ ورلڈ بینک کے
مطابق،1990ء سے اب تک ہم پانچ لاکھ اسکوائر میل سے زائد جنگلات گنوا چکے ہیں۔ اس لیے جنگلات کی کٹائی کا فوری اور فیصلہ کن اثر ماحولیات کی تباہی میں حصے دار ہے۔ جب درخت جلائے جائیں گے، ان کی ساری کاربن فضا کا حصہ بنے گی۔ درختوں کی کٹائی سے زمین کی کاربن جو فضا کی کاربن سے نسبتاً زیادہ مقدار میں ہوتی ہے، زیادہ سے زیادہ ماحولیات میں شامل ہوجاتی ہے۔ جنگلات کی کٹائی روکنا مشکل ہے کیونکہ ہر جگہ درختوں اور لکڑی کی ضرورت مختلف ہے، اور یہ کئی جگہ ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔ درخت لگانا، سبزہ اگانا اچھا خیال ہے، مگر یہ بہت مؤثر نظر نہیں آرہا۔ ایک درخت اوسطاً چالیس سال میں چار ٹن کاربن جذب کرتا ہے۔ اگر اسی طرح درخت کاٹے جاتے رہے توکاربن گھٹانے کا امکان کتنا باقی رہے گا؟ اس پر درخت جلائے جانے سے کاربن فضا کا حصہ بنتی چلی جائے گی۔
اس ساری صورت حال میں ہمیں جلد از جلد ستّر فیصد زائد اجناس پیدا کرنی ہوں گی، اس کے ساتھ ساتھ کاربن اخراج گھٹانا ہوگا، اوردرخت بڑھانا ہوں گے۔ ہم نئے آئیڈیاز پر کام کررہے ہیں، خاص طور پرکھاد کے محفوظ استعمال کے نئے طریقے تلاش کیے جارہے ہیں۔